مولانا محمد خان شیرانی سے انٹرویو (2)۔


(پہلا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں)۔

عدنان کاکڑ : بلاسفیمی لا کا غلط استعمال اب بہت زیادہ ہونے لگا ہے۔ مشال کا واقعہ ہوا ہے۔ چند دن پہلے کشمیر اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے ایک حکومتی قرارداد ایک پھاڑی ہے تو حکومتی ارکان نے کہا ہے کہ یہ تو بلاسفیمی آپ نے کر دی ان کاغذات پر بسم اللہ وغیرہ لکھی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے عمران خان صاحب کا مشہور بیان ہے جو آپ کی نظر سے گذرا ہو گا پھٹیچر والا جو تھا، پھٹیچر، ریلوے کٹا والا، اس کی رپورٹنگ جس صحافی نے کی تھی ان کو بدنام کرنے کے لیے مہم چلائی گئی کہ گستاخ پیجز ’بھینسا‘ نام کا ہے جو رسوائے زمانہ، یہ اس کی ایڈمن ہیں بغیر کسی ثبوت کے۔

مولانا شیرانی: یہ سکیورٹی سٹیٹ ہے یا ویلفیئر۔ جب سٹیٹ سکیورٹی ہو گا تو اس میں اسلام کو بدنام کرنا ہو گا۔

عدنان کاکڑ : اس کو روکنے کے لیے کیا بلاسفیمی لا میں کوئی ایسی کلاز ڈالنے کی ضرورت ہے کہ غلط الزام لگانے والے کو بھی سزا ملے۔

مولانا شیرانی: کون کرے گا یہ، سنائے گا کون۔ وہ ہماری پشتو کی ایک مثال ہے تھڑے کی نماز میں کھڑا تم کر و گے مگر پڑھے گا کون۔

عدنان کاکڑ : یعنی اس میں اگر ہم نے سختی بھی ڈال دی۔ یعنی غلط الزام لگانے والے کو سزا بھی دی جائے تو اس پہ عمل نہیں ہو گا۔

مولانا شیرانی: آپ یہ بتائیں کہ جب پوری دنیا کے مالک اور حاکم پانچ ہیں تو وہ آپ کو لڑائیں یا بنائیں گے۔ کیا کریں گے۔ جو ادارے، جو اسٹیبلشمنٹ اپنے گھریلو اخراجات اس کی جاگیر سے پوری کرتی ہے تو وہ آپ کی خدمت کریں گے یا ان کی خدمت کریں گے۔

عدنان کاکڑ : یعنی بلاسفیمی لا میں اگر تبدیلی نہیں آئے گی تو پھر اس کی وجہ بھی اسٹیبلشمنٹ ہے بین الاقوامی اور قومی۔

مولانا شیرانی: تو اور کون ہے۔ یہ تو پارلیمنٹ والے بھی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ تو مزارعین کی پارلیمنٹ ہے۔ صدر اور وزیراعظم تو ایسے ہوتے ہیں جیسے جاگیردار کا منشی ہوتا ہے۔

عدنان کاکڑ : جے یو آئی یا علما ایسا بل کیوں پیش نہیں کرتے، بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اور اس قانون کے غلط استعمال کے خلاف۔ کم از کم ہماری قانون کی کتاب میں تو یہ آجائے اس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، یہ تو بعد کی بات ہے ناں۔

مولانا شیرانی: ہندوؤں نے اور عیسائیوں نے ایک آئینی ترمیم پیش کی۔ آرٹیکل 27 ہے آئین کی اس کی ایک ذیلی شق ہے کہ نشہ آور مشروبات کہاں کہاں جائز ہے۔ ان مواقعوں میں سے ایک موقع یہ بھی ہے جو غیر مذہبی اقلیتوں کے مذہبی تہوار ہیں۔ اب انہوں نے کہا کہ اس کو آئین سے حذف کریں۔ چونکہ ہمارے مذہب میں شراب حرام ہے۔ اب اس کے بعد جب ہندو بھی کہتا ہے اور عیسائی بھی کہتا ہے اور آئینی ترمیم لاتا ہے تو پھر اس آئین کی ذیلی شق کے باقی رہنے کا کوئی جواز ہے۔

عدنان کاکڑ : سلمان تاثیر صاحب کا قتل ہوا ہے۔ اس کے پانچ برس بعد مفتی تقی عثمانی صاحب نے یہ بیان دیا ہے کہ اگر تاثیر صاحب کا موقف یہی تھا تو انہوں نے بلاسفیمی نہیں کی انہوں نے درست کہا تھا۔ شاید آپ نے مفتی تقی عثمانی صاحب کی ویڈیو بھی دیکھی ہو گی۔

مولانا شیرانی: مجھے اس کی تفصیل کا پتا نہیں ہے لیکن کسی بھی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے۔

عدنان کاکڑ : پانچ برس کے بعد یہ تبصرہ آیا ہے۔ حالیہ تبصرہ چل رہا ہے مولانا چترالی کا۔ آپ وضاحت کر چکے ہیں کہ مرفوع قلم یا دیوانہ شخص۔ ایک مرفوع قلم شخص نے کوئی دعویٰ کیا ہے۔ سب اس کو مارنے کے لیے دوڑے ہیں۔ مولانا چترالی صاحب نے بہت بہادری سے کھڑے ہو کے کہا ہے کہ اسلام کی رو سے اس پہ حد نہیں ہے مرفوع القلم ہے یہ۔ اور اس کی جان بچائی ہے۔ اب چترالی صاحب کے پیچھے وہ سارے لوگ لگے ہوئے ہیں۔ تو علما اور جو بڑے مذہبی لیڈر ہیں ان کو بچانے کے لیے کیوں نہیں سامنے آرہے۔

مولانا شیرانی: یہ سوالات مجھے سمجھ نہیں آتے۔ جب آپ کا اسٹیبلشمنٹ ایسٹ انڈیا کا ہے تو پھر وہ یہ کام کیوں نہ کرے۔

عدنان کاکڑ : میرا سوال ہے کہ علما کیوں نہیں سامنے آرہے۔

مولانا شیرانی: آپ مجھے یہ بتائیں کہ علما بے چاروں کو جب یہ حرکت دیں گے تو وہ کیا کریں گے۔

عدنان کاکڑ : یعنی علما کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

وسی بابا : افغانستان کے بارے میں طالبان کے حوالے سے یا اوور آل آپ کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔

مولانا شیرانی: روز پیٹر کا ایک مضمون چھپا ہے پنٹاگان کے عسکری رسالے میں جو ن 2006 ء میں۔ آپ اس کا مطالعہ کریں۔ مستقبل خود سامنے آجائے گا کہ کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں غیر فطری ممالک ہیں۔ اور وہ کہتا ہے کہ تیسری دنیا کے نقشے ازسرنو مرتب ہونے چاہئیں۔ یہ جنگیں تو اسی کے لیے ہیں کیونکہ امریکا سمجھتا ہے کہ جو موجود نقشے ہیں یہ ان قوموں کے مفادات میں ہیں جو قومیں 1945۔ 47 ء کے برسوں میں یہاں حاکم تھیں۔ اب چونکہ پوری دنیا کی حاکمیت چونکہ مجھے سجتی ہے اس لیے اس کے نئے نقشے ایسے ہونے چاہئیں کو میری خواہش اور میرے مفادات کے مطابق ہوں بلکہ میرے خیال میں 12جولائی 2015 ء کا نوائے وقت ہے جس میں پنٹاگان کے خفیہ دستاویزات کا خلاصہ نقل ہے اور امریکا کہتا ہے کہ پوری دنیا پر جنگ مسلط رکھنا یہ میرے وجود و بقا کی ضرورت ہے اور اگر امریکا پوری دنیا کو فتح نہ کرے تو پھر امریکن چلتی پھرتی لاشیں ہوں گی۔ دنیا میں کوئی بھی ملک اگر اپنے فیصلے اپنی آزاد رائے سے کرے تو وہ امریکا کا دشمن ہے۔ جب آپ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ لوگوں کو کرپٹ اور مجرم بنا کر، آپس میں لڑوا کر اپنی ذمہ داری کو تب پورا کر سکیں گے کہ مغرب کے مفادات کی حفاظت ہم اسے کہیں گے۔ آپ یہ اسٹیبلشمنٹ کی باتیں سنتے نہیں ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی پچاس لاکھ آدمی مارے گئے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے لیکن پاکستان بچ جائے۔ یعنی ہم تو ہیں، ہم سے تو مغرب کے مفادات وابستہ نہیں ہیں، مغرب تو ہمیں دشمن سمجھتا ہے۔ اس لیے ہم مغرب کے دشمن اگر پچاس لاکھ بھی مر جائیں، لیکن مغرب کے مفادات تو اپنی سرزمین سے ہیں۔ یہ بچ جائے۔ مغرب کی حاکمیت اور ملکیت اس پر بچ جائے۔

وسی بابا : مولانا کیا آپ کو لگتا ہے کہ اتنا کچھ جانتے ہوئے اور اتنا کچھ سمجھتے ہوئے آپ کا یا آپ کی پارٹی کا رول جو ہے ان کے عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے۔ یا آپ سے ہم کسی تبدیلی کی امید رکھیں یا آپ کی وجہ سے کوئی امن کی امید رکھیں۔

مولانا شیرانی: سامنے آپ کو کچھ فرق نظر آتا ہے یا نہیں۔ بلوچستان میں آپ کو کچھ فرق نظر آتا ہے یا نہیں۔ جو خیبر پختونخوا کی حالت ہے جو سوات کی حالت ہے، یہ فاٹا وغیرہ کی جو حالت ہے۔

وسی بابا : آپ نے ہندوستان کی بات کی تو اس سے جو ایک بات ذہن میں آگئی۔ ہندوستان میں جب اس طرف آیا، آپ کا موقف تو ہمیں بہت عرصے سے پتہ ہے کہ کیا ہے افغانستان کے حوالے سے یا پہلی جنگ کے حوالے سے یا دوسری جنگ کے حوالے سے۔ آپ کی اپنی جماعت میں جو ایک سیکشن الگ ہوا ہے نظریاتی کے نام سے۔ اس کے دوبارہ آنے میں یا ان کے نظریات نرم کرنے میں کوئی ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے۔ کوئی بہتری کی صورت نظر آرہی ہے۔

مولانا شیرانی: وہ تو آگئے ہیں۔

عدنان کاکڑ: اسلامی نظریاتی کونسل میں آپ کے دور سربراہی میں دو آپ کے ایشوز بہت زیادہ نمایاں رہے ہیں یعنی اچھالے گئے ہیں۔ ایک تو ڈی این والا آپ کا موقف تھا کہ یہ حدود کیس میں نہیں ہو گا تعزیر میں ہو گا، تعزیر والا حصہ دبایا گیا ہے۔ کیا اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے بیان دیتے ہوئے اگر یہ وضاحت کی جاتی کہ حدود میں ڈی این اے قابل قبول نہیں ہے لیکن فوجداری قوانین کے اندر اس کو شہادت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ افہام و تفہیم کے ساتھ چل پاتے۔

مولانا شیرانی: تعزیر کا معنی یہ ہے کہ ایک چیز اس حد تک تو نہیں پہنچی کہ جس میں مقررہ سزا دی جائے۔ لیکن جو قاضی ہے وہ سمجھتا ہے کہ کچھ ہے تو جو قاضی کی صوابدید کی سزا ہوتی ہے جرائم کو روکنے کے لیے اس کو تعزیر کہتے ہیں۔

عدنان کاکڑ : تو فوجداری قوانین کہاں جاتے ہیں۔ فوجداری قوانین جو ہمارے 1935 ء سے چلے آرہے ہیں کیا وہ تعزیر ہی نہیں کہلائیں گے۔ اسلامی قوانین تو نہیں ہیں ناں۔ اسلامی ٹرم میں جو آپ کا ہے اس کی تعزیر کی ذیل میں نہیں آتے ہیں وہ کہ قاضی کی مرضی کے دیے جا رہے ہیں فیصلے۔

مولانا شیرانی: اسلام تقریباً کو قبول تو نہیں کرتا ہے۔

عدنان کاکڑ : حقوق نسواں بل پر آپ کا موقف جو کافی مشہور ہوا ہے ہلکے پھلکے تشدد کا۔ خاکسار نے بھی اپنی کم علمی کے باوجود اس پہ کچھ لکھا ہے۔ اس پہ اختلاف کافی رہا ہے۔ اس طرح کے تنازعات سے کمزوری نہیں پیدا ہو رہی اسلامی نظریاتی کونسل کے اندر۔ یعنی متنازع نہیں ہو رہی کچھ یہ۔

مولانا شیرانی: متنازع تو پہلے ہی ہے، یہ متذبذب لوگوں کو اسلام قبول نہیں ہے۔ اب متذبذب جو ہے اس کی خط مستقیم پر زندگی ہوتی تو میں اس سے بات کر لیتا۔ وہ اگر کبھی یورپ کا اور کبھی اسلام آباد کا، اور کبھی ادھر کبھی ادھر تو اس سے بات کرنا ہی فضول ہے۔ میں اس سے بات کیوں کروں۔ وہ یا تو ہوا پرست بنے تو بے شک میں اس سے بات کروں۔ یا خدا پرست بنے تو بھی ٹھیک ہے۔ اس کے فیصلے ہوتے ہیں خوف پر، موت اور فقر کا، لالچ پر، عزت اور دولت کا، لالچ اور خوف کا میرے پاس کیا ہے۔ میں اس سے کیوں بات کروں۔

وسی بابا: مولانا ہلکے پھلکے تشدد پر آپ کے بیان پر بہت تنقید ہوئی تھی۔ کیا آپ اس کی وضاحت کرنا پسند کریں گے؟

مولانا شیرانی: دیکھیں، بیوی کی محل توالد اس کے شوہر کی ملکیت ہوتی ہے، اب اگر شوہر یہ محسوس کرتاہے کہ میری بیوی میری ملکیت کو یا تو میرے لیے کاشت کی قابل نہیں چھوڑ رہی یا میری کی ہوئی کاشت کو کسی اجنبی تخم سے فاسد کررہی ہے تو یہ خطرہ لاحق ہونے کے بعد چونکہ گھر بھی ایک چھوٹی سی ریاست ہے، ریاست کی ابتدا ہی گھر سے ہوتاہے، اور ہر اجتماعی زندگی کے لیے ایک نظم ضروری ہوتاہے اور اس میں جزاوسزا کا عمل ناگزیر ہوتاہے تواپنی ملکیت میں خیانت محسوس کرنے کے بعد شریعت مرد کو یہ اجازت کیونکر نہیں دے گی۔

عدنان کاکڑ : حضرت عمر کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں کہ انہوں نے کچھ قرآنی سزائیں ساقط کر دی تھیں مخصوص حالات میں۔ ہاتھ کاٹنے کی یا دوسری۔ حکمران کے ہمارے کتنے اختیارات ہیں اسلام میں۔ کیا موجودہ حکومت، موجودہ سربراہوں کے پاس بھی وہ اختیارات ہیں۔

مولانا شیرانی: حضرت عمر ؓ نے اگر کچھ سزائیں معطل کی ہیں تو وہ اس صورت میں جب انسان کی موت و حیات کی بات آجاتی ہے۔ مثلا ً اب بھوک سے اگر کوئی انسان مر رہا ہے تو پھر خنزیر کا گوشت کھا سکتا ہے۔ لیکن صرف اس حد تک کہ وہ حیات کو باقی رکھ سکے یا کوئی مردار چیز پڑی ہوئی ہو۔

عدنان کاکڑ : یعنی جو قحط کے زمانے میں تھا قطعیت نہیں ہو گی۔ جان بچانے کے لیے۔

مولانا شیرانی: وہ بھوک سے مر رہا ہے اور اس نے کسی کا کھانا اٹھایا ہے تو آپ کہیں کہ تو نے چوری کی۔ تو یہ تو اللہ نے اس کو، زندگی بچانے کے لیے اجازت ہے۔ کفر کے کلمے کی بھی اجازت ہے۔

وسی بابا : آپ کی باتوں سے لگا کہ یہ دور فساد سے ہم گذر رہے ہیں تو اس کے لیے خصوصی قوانین ہوں گے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس دور میں بہت سارے اسلامی قوانین جو ہیں ان کی بجائے دوسرے قسم کے اسلامی قوانین کی ضرورت ہو گی اور موجودہ قوانین کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا شیرانی: اسلام تو سرے سے ہے نہیں قانون کہاں ہو گا۔ پہلے تو کوئی اسلام ہو تو پھر قانون ہو گا۔ یہاں تو یا تو انکار ہے یا تذبذب ہے۔ ایمان تو نہیں ہے۔ آپ اپنے ماحول کو کیا سمجھتے ہیں۔ مذبذب ہیں یا مومن ہیں۔

وسی بابا: مذبذب ہی ہیں۔

مولانا شیرانی: مذبذب ہیں۔ تو پھر تو اسلام نہیں ہوا۔ اصل میں وہ جو زمانہ ہے فتنے کا اس میں جنگ کی اجازت نہیں ہے کہ جنگ نہ کرو۔ دعوت کرو، سمجھاؤ، دلیل سے سمجھاؤ۔

وسی بابا : انسانوں کو آپ نے تین طبقات میں بانٹا، پھر آپ نے ہمیں یہ بتایا کہ اس پر دنیا کے حالات کیا ہے اور سکیورٹی سٹیٹس کی کیا پوزیشن ہے۔ ویلفیئر سٹیٹس کی کیا پوزیشن ہے۔ اس سارے پراسپیکٹو کو مدنظررکھتے ہوئے اب اگر ہم آپ سے یہ پوچھیں کہ آپ کی جماعت یا کوئی بھی جماعت، تو پھر وہ بہتری کا امکان کہاں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی آپ کوئی بہتری لا سکتے ہیں۔ آپ اگر پارلیمانی سیاست کرتے ہیں تو یہ کوئی بہتری کی خاطر کرتے ہیں۔ یعنی امکان کیا ہے۔

مولانا شیرانی: دو باتیں ہوتی ہیں۔ فریضہ اور نتیجہ۔ یہ دو الگ چیزیں ہیں۔ اب مجھ پر تو اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ تو یہ میر ی ذمہ داری ہے۔ آپ سے منوانا میری ذمہ داری نہیں ہے۔ نتیجہ میرے ذمے نہیں ہے۔ میں فرض ادا کروں گا۔ اب اگر عدنان صاحب اور بھائی صاحب مانیں تو ٹھیک ہے، نہ مانیں تو تمہاری مرضی ہے۔ اب یہ نہیں ہے کہ چونکہ میں نے فرض ادا کیا اور اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، تو اب میں فرض ہی چھوڑ دوں۔

وسی بابا: آپ نے کہا کہ امریکی پنٹاگان کی رپورٹ کے مطابق وہ نقشے تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بتائیں کہ اپنی ذات کے حوالے سے آپ اس تبدیلی کی مزاحمت کریں گے، اس کو روکنے کی کوشش کریں گے یا اس میں آپ کا کیا لائحہ عمل ہو گا۔

مولانا شیرانی: وہ اگر حاکم اور مالک ہے اور وہ اپنی ملکیت میں تبدیلی کرنا چاہے تو میں مزاحمت کیسے کروں۔ میں تو اس کی ملکیت سمجھتا ہوں۔ اور میں صرف اتنی گزارش کروں گا کہ اگر تم نے نئے نقشے بنوانے ہیں تو ہمارا خون نہ بہائیں نقشے بنائیں۔ چھت بھی یہ ہو گا، فرش بھی یہ ہو گا، بیٹھے یہی لوگ ہوں گے۔

وسی بابا: قوم کے حوالے سے آپ نے جو ڈکشنری کی بات کی اس کی تعریف رنگ، نسل اور اس کے حوالے سے مختلف رہی ہے۔ ماضی میں بھی اس پر بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ حسین احمد مدنی صاحب کے حوالے سے اور پھر علامہ اقبال کے وہ شعر کہ بوالعجبی ہے اور فلاں ہے فلاں ہے اس طرح کی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں۔ آپ کا کیا پراسپیکٹو ہے کہ موجودہ وقت میں قوم کی تعریف ہم رنگ کی بنیاد پر کریں گے یا نسل کی بنیاد پر کریں گے۔ وطن کی بنیاد پہ کریں گے۔ کیسے کریں گے اور اس کے ساتھ ہی میں یہ سوال جوڑ رہا ہوں کہ آپ کی جو چار تقاریر میں نے کوئٹہ میں سنی تھیں، اس زمانے میں میں بہت چھوٹا تھا، تو آپ نے امت کا ایک الگ سے تصور دیا ہے۔ یہ جو تصور ہمارے ہاں پایا جاتا ہے کہ یہ امت مسلمہ ہے آ پ کا کچھ الگ سے پراسپیکٹو تھا۔ مجھے صحیح یاد نہیں ہے لیکن وہ کچھ مختلف تھا۔

مولانا شیرانی: جو کچھ میں نے قرآن و سنت سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ امت ایک ہے۔

عدنان کاکڑ : تینوں درجے جو آپ نے بتائے ہیں، وہ ایک ہی امت ہیں۔

مولانا شیرانی: پوری انسانیت ایک امت ہے۔ خدا پرستی ایک ملت ہے۔ اس لیے کہ خدا پرستی کی تعلیمات میں کہیں بھی آپ کو یہ نہیں ملے گا کہ آپ جھوٹ بولیں، آپ دھوکہ کریں، آپ منافقت کریں، آپ زنا کریں۔ آپ چوری کریں، آپ خون کریں، آپ شراب پئیں۔ آپ سود کھائیں۔ کسی بھی شریعت میں یہ نہیں ہے، نہ ہندو کی، نہ سکھ کی نہ یہودی کی نہ عیسائی کی۔ نہ کنفیوشس نہ زرتشت۔

عدنان کاکڑ: دین اور مذہب میں فرق ہوتا ہے۔ یہ کیا فرق ہے۔ یہ ہم لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔

مولانا شیرانی: اصل میں دین کہتے ہیں خیر خواہی کو۔ اب ہر انسان، تمام انسان جتنے بھی ہیں، مقصد حیات ان کا ایک ہے، اور وہ ہے اپنی ذات کی خیر خواہی۔ اب یہ خیر خواہی آپ خدا پرستی میں سمجھتے ہیں، وہ تمہارا فیصلہ ہے۔ ہوا پرستی میں سمجھتے ہیں وہ تمہارا فیصلہ ہے۔ لا اکراہ فی الدین۔ یعنی کوئی بھی انسان اپنی خیر خواہی کے لیے کوئی بھی نظم پسند کرنا چاہے تو اس میں کوئی جبر نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ کی معرفت شریعت سے نہیں ہوتی ہے وہ انسانی عقل سے ہوتی ہے۔ جب آپ خدا کے قائل ہو جائیں اس کے بعد پھر نبوت اور شریعت کی بات آتی ہے۔ اس سے پہلے شریعت نہیں آتی۔

عدنان کاکڑ: یعنی سب سے پہلے عقل کا درجہ ہے اس کے بعد پھر دوسرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مولانا شیرانی: سب سے پہلے آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ میں مخلوق ہوں یا خود پیدا ہوا ہوں۔ جب آپ اپنے فکر اور عقل سے یہ فیصلہ کریں مثلاً آپ کہیں کہ میں ہوں، تو آپ کے ذہن میں دو باتیں واضح ہو جائیں گی کہ ایک زمانہ تو ایسا تھا کہ میں نہیں تھا۔ ایک اور زمانہ آئے گا کہ میں نہیں ہوں گا۔ تو دو عدم کے درمیان اگر یہ وجود ہے تو پھر یہ وجود تو پھر میرے اختیار میں نہیں ہے۔ تو میری ذات سے باہر کوئی ہو گا جس نے دیا ہے۔ دیا اپنے وقت پر اور لے گا اپنے وقت پر۔ تو پھر آپ کو یقین ہو جائے گا کہ میں مخلوق ہوں۔

عدنان کاکڑ : جو خدا پرستی والے دوسرے مذاہب ہیں، ہندو مت ہو گیا اور دیگر مذاہب ہیں اس ٹائپ کے جو دین ابراہیمی نہیں ہیں۔ کیا ان کو بھی اصطلاح میں دین کہا جا سکتا ہے جیسے کہ ایک ہے بھی حکم تمہارا دین تمہارے ساتھ، ہمارا دین ہمارے ساتھ۔

مولانا شیرانی: دین جو ہے وہ خیر خواہی کو کہتے ہیں۔ ایک نے خیر خواہی خدا پرستی میں سمجھی ہے، دوسرے نے خیر خواہی ہوا پرستی میں سمجھی ہے۔ تو یہ دین ہے۔ شریعت جو ہے، عربی زبان میں شریعت دو مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک پانی لینے کا جو گھاٹ ہوتا ہے مثلاً ایک نہر جا رہی ہے جسے آبادی ایک خاص جگہ سے یا مال مویشی کو پانی پلائے یا خود گھر کے لیے پانی لے جائے اس کو گھاٹ کہتے ہیں۔ اگر آپ وحی کو تشبیہ دیں گے پانی سے جیسا کہ پانی کے ذریعے سے زمین میں حیات آتی ہے اسی طرح وحی کے ذریعے سے بھی انسان میں حیات آجاتی ہے یعنی وہ شیطان کے تمام حملوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔

اگر وحی کو آپ تشبیہ دیں پانی سے تو شریعت کا معنی ہو گا گھاٹ۔ اللہ کی جانب سے وحی کا جو نہر آرہا ہے۔ انسان کی زندگی کو شاداب کرنے کے لیے۔ تو ایک نبی نے ایک گھاٹ سے لیا ہے، دوسرے نبی نے دوسرے گھاٹ سے۔ نہر ایک ہے گھاٹ الگ الگ ہیں۔ اور اگر آپ شریعت کا معنی شارع لیں، کھلا راستہ مثلاً، سات رویہ ہو یا چھ رویہ ہو یا چار رویہ ہو۔ اب اتنا جب شارع ہو گا تو پھر مذہب اس لکیر کو کہتے ہیں جو اس پورے شارع میں سے جس لکیر پر آپ جا رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ قرعہ تو آپ نہیں لے سکتے ہیں ناں، نہ کوئی گاڑی لے سکتا ہے، نہ کوئی فرد لے سکتا ہے۔ وہ تو ایک لکیر پہ جائے گا۔ اب جس لکیر پر جا رہے ہیں یہ لکیر اس شریعت کا مذہب ہو گا یعنی چلنے کا جو راستہ ہے۔ جس پر آپ چل رہے ہیں۔ ہے تو پوری شریعت۔ آپ کے ذمہ یہ ہو گا کہ آپ ثابت کریں کہ میں شریعت سے اتر نہیں گیا ہوں۔ آپ یہ حق نہیں رکھتے کہ جس لکیر پہ میں جاتا ہوں، میرے پیچھے اگر کوئی جائے گا تو وہ شریعت پر ہو گا ورنہ اتر گیا ہے۔ یہ بات غلط ہے۔ آپ البتہ یہ کوشش کریں کہ آپ خود یہ ثابت کریں اگر آپ سے کوئی پوچھے تو آپ ثابت کریں کہ میں شریعت پہ ہوں۔

وسی بابا : ایک عصمت اللہ معاویہ ہوا کرتا تھا۔ سنا ہے توبہ تائب ہو گیا ہے آج کل، کالم لکھ رہاہے مختلف اخبارات میں۔ پنجابی طالبان کا ایک لیڈر تھا۔

مولانا شیرانی: ان کا ایجنٹ ہوگا، کرائے پر ہو گا۔ پے رول پر آگیا ہو گا۔ ان چیزوں کو چھوڑ دو۔ یہ جو کرائے کے قاتل ہیں۔ ان کی بات نہ کریں۔

وسی بابا : سی پیک پہ آپ کا موقف کیا رہا۔ ابھی آپ کیا دیکھ رہے ہیں، کیسا چل رہا ہے بلوچستان میں۔ جن لوگوں کا کہا جا رہا ہے کہ وہ اس میں پیچھے رہ گئے ہیں ان کو اب کیسے آگے لانا ہے۔

مولانا شیرانی: ایک تو مشرف کے زمانے کی بات ہے۔ مشرف کے زمانے میں تو یہ ہوا تھا کوئٹہ سے گذر کے ایک کھلا روڈ اس طرح یہ جو ٹانک وغیرہ ہے اس طرف۔ لیکن 2012 ء میں، میں نے بلوچستان کے جو ایم این ایز اور جو سینٹر تھے ان کے لیے کھانا کیا اور ان کو میں نے کہا کہ اب راستہ ہم سے بدل گیا ہے۔ لیکن ابھی تک صرف منصوبے کی حد تک ہے اگر آپ حضرات کوشش کریں تو شاید لیکن اگر اس پہ کوئی عمل ہوا۔ تو یہ تو بڑا مشکل ہو جائے گا۔ بعض قوم پرست اس میں شریک نہیں ہوئے اور جو شریک ہوئے ہیں انہوں نے اہمیت نہیں دی۔ بعد میں تو پھر سب کو پتہ چل گیا ہے کہ وہ روٹ وہاں سے بدل گیا ہے بلکہ جب ڈاکٹر مالک صاحب کی حکومت تھی اور محمد خان صاحب گورنر تھے جو اب ہیں ان کے زمانے میں بلوچستان ڈویلپمنٹ فورم کے نام سے ایک تقریب ہوئی میریٹ ہوٹل میں۔ اس میں گورنر اور چیف منسٹر دونوں تھے۔ اور اس میں حاصل بزنجو صاحب اور محمود خان اچکزئی صاحب بھی تھے۔ میں بھی تھا ہمارے جو اپوزیشن لیڈر ہیں مولوی واصف صاحب وہ بھی تھے۔ اس پروگرام میں نواز شریف صاحب نے کھل کے بات کی کہ اب یہ راستہ یہاں سے جس کو یہ مشرقی روٹ کہتے ہیں۔ اب یہ راستہ یہاں سے جائے گا۔ بعد میں گورنر صاحب نے مولوی واصف صاحب کو کہا کہ راستہ تو آپ سے چلا گیا، آپ سے چھین لیا گیا، آپ حضرات کچھ کریں۔ تو انہوں نے کہا کہ حکومت تمہاری ہے تم خود دستخط کرو اور ہم اس کو واپس کریں تو کس طرح کر سکتے ہیں۔ پھر ہمارے جو سیاسی حضرات ہیں انہوں نے ایک افتتاح تو روز سے کیا۔ لیکن شاید وہ جو بورڈ لگا ہوا ہے کہ یہ توسیعی منصوبہ ہے، وہ شاید ان کو نظر نہیں آیا یا کوئی پردہ وردہ اس پہ ڈال دیا گیا ہے۔ یا ان کو جو دعوت نامے ملے تھے ان کو شاید غور سے نہیں پڑھا تھا۔ اب توسیعی منصوبوں کو کوئی سی پیک کا نام دیتا ہے اور قوم کو بیوقوف بناتا ہے تو یہ بڑا ظلم ہے۔ اور پھر میاں صاحب نے مکران ڈویژن میں اس کا سی پیک کے نام سے افتتاح کیا تو بہرحال سیاست مانا اور اعلانا، سمجھانا نہیں۔

وسی بابا : اس پراجیکٹ کا آپ کیا مستقبل دیکھتے ہیں۔ ایسا تو نہیں کہ ہم چین اور امریکا کی نئی لڑائی میں پھنس جائیں گے۔

مولانا شیرانی: اب یہ ہو گا اور ہم اس میں سپاہی کا کردار ادا کریں گے۔ کیونکہ ہمیں تو کرائے کی ضرورت ہے۔ یہاں سے بھی کرایہ ملے، وہاں سے بھی کرایہ ملے۔ ہمارے تمہارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments