کلبھوشن کے سہولت کار


یہ 10 اپریل 2017 کی بات ہے جب پاکستانی میڈیا پر کلبھوشن جادھو کی پھانسی کی خبر چھائی ہوئی تھی، میری کچھ ہی گھنٹوں بعد یوگنڈا کی فلائٹ تھی لیکن میں نے جو پہلی بات ویریفائی کی کہ کیا ملٹری کورٹ کے ٹرائل کے دوران ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کے تحت اسے کونسل ایکسس دیا گیا۔ جواب ملا ”یہ آرٹیکل قیدیوں کے لئے ہے، جاسوسوں کے لئے نہیں“۔ اس جواب کے بعد میرا پہلا ردعمل یہ تھا کہ پاکستان نے اس ٹرائل کو ایک عام کورٹ میں نہ چلا کے بہت بری غلطی کی ہے اور انڈیا اس بات کو دنیا میں اچھالے گا کہ کلبھوشن کو ”رائٹ ٹو فیئر ٹرائل“ نہیں ملا۔ تھوڑی ہی دیر بعد انڈیا کی طرف سے ہمارے سفارت خانے سے احتجاج کیا گیا کہ کلبھوشن کو ایران سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کرتے ہوئے انڈیا کو نہ مطلع کیا گیا، نہ ہی اسے کونسل ایکسیس دیا گیا اور نہ ہی اس کا فیئر ٹرائل ہوا، لہٰذا یہ سزا ایک سوچا سمجھا قتل ہوگا۔ میں نے اس بات کو سوشل میڈیا پر اچھالنے کی کوشش کی لیکن ”محب وطنوں“ نے مجھے انڈین ایجنٹ اور گلیاں دے کے چپ کرا دیا، میں نے پنڈی والوں سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی اس وقت ”ہائی“ تھے اور میری بات ہی نہ سنی، بلکہ الٹا کہا کہ ہم نے جو کیا ہے وہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ نیوز چنیلز کو انڈیا کی لابنگ سے زیادہ ڈان لیکس اور پانامہ لیکس کے چٹخارے لگے ہوئے تھے تو میں بھی اس سارے معاملے پر لعنت بھیجتے ہوئے یوگنڈا چلی گئی جہاں خوبصورت کمپالا کے نظارے جنت کا سماں دیتے تھے۔

ہم لوگ ڈان لیکس اور پانامہ لیکس میں مگن رہے، مردان میں مشال خان کو بربریت سے قتل کیا گیا، افغانستان پر ”مدر آف بمبس“ کا حملہ ہوگیا، انڈیا اس پورے عرصے میں سفارتی طور پر حد سے زیادہ متحرک رہا لیکن ہم لوگ بس ڈان لیکس اور پانامہ لیکس میں مگن رہے، جب کہ پنڈی والے اس وقت احسان اللہ احسان کی لانچنگ میں مصروف رہے۔ 21 اپریل کو کمپالا کے کامن ویلتھ ریسورٹ میں ایک ڈپلومیٹک ڈنر کے دوران مجھے اڑتی اڑتی خبر ملی کہ انڈیا اجمل قصاب کے پبلک کورٹ ٹرائل کو ایکسپلائٹ کرتے ہوئے سفارت کاری کر رہا ہے کہ ہم نے تو اتنے برے دہشت گرد کو بھی فیئر ٹرائل دیا لیکن دیکھیں پاکستان ہمارے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ میں نے ضیاء شاہد صاحب کو وہیں سے ٹیکسٹ مسیج کیا کہ ”سر، مجھے کل کے پروگرام میں لیں۔ میں نے کلبھوشن پر بات کرنی ہے“۔ 22 اپریل کو ضیاء صاحب نے خصوصی طور پر میرا کمپالا سے بیپر لیا جس میں میں نے کھل کر کہا کہ پاکستان کو بہت بڑا سفارتی نقصان ہونے جارہا ہے کیونکہ کلبھوشن کے معاملے پر بلکل حق پر ہونے کے باوجود ہم اپنا مقدمہ عالمی طور پر ٹھیک طرح سے نہیں پیش کرسکے۔ ہماری فوج صرف بلیک اینڈ وائٹ دیکھتی ہے، اس کو ڈپلومیسی کے گرے ایریا کا پتہ نہیں، ہمارے میڈیا کے پاس انڈین پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لئے کوئی انگریزی چینل نہیں ہے، ہمارے سیاست دانوں کو ڈان لیکس اور پانامہ لیکس کے سجھائی نہیں دے رہا۔ جب کہ انڈیا کلبھوشن کے معاملے پر اقوام متحدہ پہنچ گیا ہے اور شاید عالمی عدالت سے بھی نہ رجوع کرلے کہ جب ہم نے اجمل قصاب کو سرے حقوق دیے تو پاکستان ایسے کیوں نہیں کر رہا۔

اس پروگرام کو شاید کسی نے نہیں دیکھا، دیکھا بھی تو اس میں پانامہ کا مصالحہ نہ پاکے توجہ کے قابل نہ سمجھا۔

دو تین ہفتے اور گذر گئے، پنڈی نے نورین لغاری کی صورت میں ”قوم کی نئی بیٹی“ پالی، اسلام کا درس دینے کے لئے احسان اللہ احسان کی صورت میں ایک نیا مولانا آگیا۔ سیاست دان ڈان لیکس پر ”کتی چوراں نال رل گئی“ کی دہائیاں دیتے رہے، عدلیہ کیلسن، ہارٹ، اور ڈائسی کو چھوڑ کے ماریو پازو کے گاڈ فادر میں قانون ڈھونڈتی رہی اور انڈیا انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس پہنچ گیا۔

انڈیا کے سلوے صاحب نے ایک روپیہ لے کے دنیا بھر میں عزت کمائی، جب کہ ہمارے پانچ لاکھ پاؤنڈز لینے والے سورما کو دو دن بھی کم نظر آئے اور رولا یہ رہا کہ پاکستان کو تیاری کے لئے وقت نہیں دیا گیا۔

اقوام متحدہ نے کشمیر میں ہونے والے مظالم کو بھلا کے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انٹرنیشنل کنونشن اگینسٹ ٹارچر کی خلاف ورزی کرنے پر شدید مذمت کردی، امریکہ نے الگ سرجیکل اسٹرایکس کا موچڑا دکھا دیا جس سے جان صرف شکیل آفریدی کو ہینڈ اوور کرکے بچ سکتی ہے۔ میاں صاحب اپنے چار یار (وزرائے آعلی) لے کر ”ون بیلٹ ون روڈ“ پر رال ٹپکاتے ہوئے اربوں کے معاہدے کرنے چین پہنچ گئے۔ پنڈی والے قوم کی بیٹی کے انٹرویو نشر کرتے رہے، سیاستدانوں کی سوئی ڈان لیکس پر ہی اٹکی رہی، میڈیا کو انڈین عظمیٰ کی صورت میں ایک نئی کہانی مل گئی تو ہیگ میں تو وہی ہونا تھا جو کہ کل ہوا۔

انڈیا انہی تین نکات پر ایک ہارا ہوا کیس جیت گیا، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے پھانسی روکنے پر پاکستان کو حکم نامہ جاری کردیا۔

All measures at its disposal to prevent the execution

کسی نے نہیں دیکھا کہ عدالت میں صرف وربل آرگومنٹ ہی کیوں دیے گئے، کیوں کلبھوشن کے ویڈیو بیانات یا اس کے پاسپورٹ کی کاپی نہ جمع کرائی گئی۔ کیوں کسی نے نہیں دیکھا کہ انڈیا کی پانچ نکاتی سبمشن کے نتیجے میں ہم نے کلسٹرڈ آرگمینٹس دے کے اپنا کیس خراب کیا۔ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ہم لا گرانڈ کیس (امریکا vs جرمنی ) یا امریکا vs نکاراگوا کو پریسیڈنٹ بنا کے عالمی عدالت سے ”میں نہیں مانتا“ کہہ کر بھی نہیں نکل سکے۔ کیونکہ ہمارے میر جعفروں نے کولبھوشن کی سہولت کاری کرتے ہوئے 29 مارچ 2017 کو ایک نیا ڈیکلریشن اقوام متحدہ میں جمع کرا دیا جس کے تحت پاکستان آئی سی جے کی ” compulsory jurisdiction ” کو ماننے کا پابند ہے۔ لہٰذا نوے منٹ کی بجائے پچاس منٹ میں کیس مکانے والے سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اس ڈیکلریشن کے بعد آئی سی جے سے جورسڈکشن نہ مانگنے کی ” exception ” لیتے ہوئے احمق کس کو بنا رہے ہو۔ کیونکہ ادھر بھی پتہ ہے کہ پاکستان میں قانون کوئی نہیں پڑھتا۔ 8 مئی سے 15 مئی تک کسی نے آئی سی جے کی ویب سائٹ کھول کے چیک نہیں کیا کہ پاکستان کیا کر بیٹھا ہے۔

ڈان لیکس پر ہائی ٹریزن یا غداری کے فتوے لگانے والوں کو یہ نظر نہیں آیا کہ پاکستان میں کلبھوشن کا کون سہولت کار ہے جس نے ستمبر 1960 کے ڈیکلریشن کو لات مار کر 29 مارچ 2017 کو نیا ڈیکلریشن جمع کرا دیا۔ میڈیا پر محب وطنی کے ترانے گانے والوں کو یہاں کوئی بریکنگ نیوز کیوں نظر نہیں آئی۔ کیوں کوئی ان کوائری نہیں ہو رہی کہ جب مارچ میں ملٹری کورٹ میں کلبھوشن کا خفیہ ٹرائل چل رہا تھا تو وہاں سے کس نے یہ بات حکومت کو لیک کی جس سے اسے بچانے کے لئے عجلت میں یہ ڈیکلریشن جمع کرانا پڑا۔ حکومت میں کون ہے جو جانتا تھا کہ وہ اسے فوج سے نہیں بچا سکتا لیکن اس ڈیکلریشن کے تحت یہی ہوگا جو کہ انڈیا نے ابھی عالمی عدالت سے اسٹے کی صورت میں حاصل کیا ہے اور جتنی طوالت سے سالوں تک وہاں مقدمے چلتے ہیں، کولبھوشن ویسے بھی اپنی طبعی عمر گزار لے گا۔ کیوں کسی نے اس بیرسٹر کی باز پرس کیوں نہ کی یا اسے سو کرنے کا نہیں سوچا کہ پانچ لاکھ پاؤنڈز لے کے تم نے نوے کی بجائے پچاس منٹ لگائے۔ کیوں عدالت میں کنفیشن یا پاسپورٹ ایویڈنس نہیں جمع کرائے گئے۔ کیوں حوالدار اینکروں کا طبقہ اس عالمی ذلت کو بھی پاکستان کی فتح قرار دے رہا ہے۔ کیوں فوج نے اس کا مقدمہ ایک عام عدالت میں چلانے کے بجائے فوجی عدالت میں ایک سیکریٹ ٹرائل کرنے پر ترجیح دی جس پر پاکستان ایک مضبوط موقف کے ہوتے ہوئے بھی آج دنیا میں حمان رائٹس کو سبوتاژ کرنے والے کے طور پر جانا جارہا ہے

کیوں کسی اخبار نے عالمی عدالت سے انڈیا کے پھانسی رکوانے کے بجائے ہمارے انڈیا کو یہ فتح دلانے کے لئے مارچ کے ڈیکلریشن جمع کرنے پر ہیڈ لائن نہ لگائی

مجھے تو لگ رہا ہے کہ ہم سب لوگ دانستہ یا نادانستہ کلبھوشن کے سہولت کار ہیں، آپ خود سوچیں۔ کیا نہیں ہیں؟

شمع جونیجو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمع جونیجو

شمع جونیجو علم سیاسیات میں دلچسپی رکھنے والی ماہر قانون ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن سے ایل ایل بی (آنرز) کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات میں میں ایم اے کیا۔ ایس او اے ایس سے انٹر نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز اور ڈپلومیسی میں ایم اے کیا۔ آج کل پاکستان مین سول ملٹری تعلاقات کے موضوع پر برطانیہ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ تعلیم کے لئے بیرون ملک جانے سے پہلے شمع جونیجو ٹیلی ویژن اور صحافت میں اپنی پہچان پیدا کر چکی تھیں۔

shama-junejo has 15 posts and counting.See all posts by shama-junejo