مجھے قائدین ہونے پر شرمندگی ہے


میں قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم فل پاکستان اسٹڈیز کے دوسرے سمسٹر کا طالب علم ہوں جو اس موجود لمحے میں اپنے بکھرے ہوئے مان کی کرچیاں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے تین سال داخلے کی کوشش کے بعد یہاں پڑھنے کا موقع پایا ہے۔ میں ہر کسی کو فخر سے بتا سکتا تھا کہ قائداعظم یونیورسٹی پاکستان کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں سب سے زیادہ سلجھا ہوا ادارہ ہے، جہاں فکر کی کسی قدر آزادی ہے، جہاں تشدد کی زبان میں بات نہیں ہوتی۔ لیکن یہ سب مان اور فخر آج جاتا رہا۔  واضح رہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی جت طالب علموں کو اصطلاحاً قائدین کہا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پانی کی طرح ہے اس پہ کوئی بند لگایا جانا ازحد مشکل ہے۔ اس کی سطح پہ کوئی خبر تیرنے لگے تو کوئی ہو جو اس کی زد سے بچ پائے۔ ایسے ہی کسی لمحے میں میری انگلی اس ویڈیو پہ کلک ہوئی ہے جس میں کسی ایک صوبائی کونسل کے طلبہ کسی دوسری صوبائی کونسل کے طلبہ کو ڈنڈوں سے پیٹ رہے ہیں۔ شدت کا پوچھیں تو وہی تھی جس سے مشال قتل ہوا تھا۔ ویڈیو بنانے والا ایک پنجابی بولنے والا طالب علم ہے، جو ساتھ ساتھ کمنٹری کرتے ہوئے یوں لطف لے رہا ہے گویا کوئی کھیل دیکھ رہا ہوں۔

شرمندگی سے ڈوب جانے کا مقام ہے کہ جن ہاتھوں میں قلم کتاب بھلا لگتا ہے، وہ اپنے دفاع میں منتیں کرتے ہوئے بلند ہیں۔ جن ہاتھوں میں قلم کتاب بھلا لگتا ہے، وہ ڈنڈا اٹھائے دوسرے نہتے پہ برس رہے ہیں۔ جن ہاتھوں میں قلم کتاب بھلا لگتا ہے، وہ ہاتھ میں موبائل اٹھا ئے اس بربریت کی فلم بناتے ہوئے قہقہے لگا رہے ہیں۔

جب کوئی طالب علم تشدد پہ اترتا ہے تو اس لمحے علم اور درسگاہ اپنی وقعت، مقام اور رفعت کھو دیتے ہیں۔ کس ذی شعور کو یہ احساس نہیں کہ تشدد اپنی ہر شکل میں برا ہے۔ یونیورسٹی طلبہ میں یوں متشدد رویوں کا ابھرنا اور ہتھیاروں سے مسلح ہوکر قتل و غارت پہ اتر آنا، کیا یہ ہمیں جنجھوڑنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ پاکستان کا مستقبل دہشت پسند دماغوں کے ہاتھ میں ہے۔ کیا ہم یہ سمجھنے سے تاحال قاصر ہیں کہ ایسا کوئی تو عفریت ہے جس نے ہماری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ نام لینے سے کترائیں کہ نام لینا جرم ہے۔ سوال سے خوفزدہ رہیں کہ سوال پوچھنا لائق تعزیر ہے۔ ہم اپنے اپنے جسم کے لاک اپ میں موجود سزائے موت کے وہ قیدی ہیں جو اپنی اپنی موت کے آرڈر لینے کی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ جو بھی بول کر اپنی باری کا وقت پوچھتا ہے اس کی باری لگادی جاتی ہے۔

میرے علم میں نہیں ہے کہ ہماری یونیورسٹی میں جھگڑا کیوں ہوا لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ کوئی بھی وجہ اتنی وحشت کا باعث نہیں بن سکتی جو وحشت اور بربریت آج ہوئی ہے۔ ملوث لوگ پکڑے جائیں گے۔ بعض کو سزا ہوجائے گی۔ بعض رہا ہوجائیں گے۔تھوڑے ہی دنوں میں کوئی نیا واقعہ ہوجائے گا۔ ہم سب اس کو بھول جائیں گے۔ لیکن یاد رکھئے گا کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں ایسی فکر کو پروان چڑھا رہے ہیں جو مشال خانوں کو قتل کر دینا جائز سمجھتی ہے۔ مشال خان فکر، سوچ اور سوال ہے جس کی بنیاد امن اور عدم تشدد پرکھڑی ہے۔ آج قائد اعظم یونیورسٹی کے سینکڑوں طلبہ نے امن اور انسانیت پر لاٹھیاں اور گولیاں برسا کر اسے لہولہان کردیا ہے۔ زخمی طالب علم پمز میں داخل ہوئے ہیں۔ زخمی انسانیت اپنے نصیب کی لاٹھیاں سہتے ہوئے استاد کی آنکھو ں میں جھانک رہی ہے کہ وہ کب بولے گا۔

 پیارے بچو ! عقیدے، نظریئے، جغرافیے، مسلک، مذہب، نسل اور زبان کی بنیاد پر تشدد جائز نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).