سوشل میڈیا کی خرافات اور رشتے داریاں


بیٹا، آج آفس سے آتے ہی مجھے علی کے بچوں کی تصاویر دکھانا۔ میرے مرنے سے پہلے تو اس نے آنا نہیں۔ کم از کم روز دیکھ تو لیا کروں گی۔ امی کتنی بار بتاؤں مجھے فیس بک میں اکاؤنٹ بنانا بالکل پسند نہیں۔ اسکائپ پہ وہ جناب آنا پسند نہیں کرتے۔ اچھا بیٹا۔ امی نے آنسو اور تڑپ چھپانے کے لیے کروٹ لے لی۔ خیر جناب، آج سے آٹھ سال پہلے میں نے بلآخر اکاؤنٹ بنا لیا کہ ماں کے آنسو نہیں دیکھے جاتے۔ شروع شروع میں ان کا چمکتا چہرہ دیکھ کے بہت خوشی ملتی۔ میں نے سوچا کہ میں کتنی غلط تھی۔ امی کے لیے کتنا آسان ہو گیا کہ خاندان بھر کی تصاویر دیکھیں، ان کے بچوں کو دیکھیں، ان سے رابطے میں رہیں اور اسطرح سے میرا فیس بک پہ ایک سلسلہ سا شروع ہو گیا۔ مجھے اچھا لگتا، سارے خاندان اور دوستوں کو اپنی کامیابیاں بتانا، اپنی پریشانیاں بتا کر ہمت لینا، میں کہاں گھومنے گئی، میں نے کونسی نئی ڈش بنائی، میں نے کیا نیا کھایا۔ ز ندگی اسی طرح بہت اچھی گزر رہی تھی۔ پھر فیس بک کے اکاؤنٹ کی وجہ، یعنی امی ہی نہ رہیں۔ لیکن اکاؤنٹ ہر بری عادت کی طرح برقرار رہا۔ پہلے میرے چھوٹے سے چھوٹے مسائل امی حل کر دیا کرتی تھیں، خیر وہ اپنی تربیت تو میرے پاس چھوڑ گئی تھیں۔

پھر بدلتے وقت کے ساتھ فیس بک بھی بدل گیا اور عجیب مقابلہ شروع ہو گیا۔

لوگ مذاح سمجھنے کی صلاحیت سے عاری، حسد کی عادت سے سرشار۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ قریبی دوست اور رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں، آپ کی کامیابی سے نفرت کرتے ہیں۔ پہلے شکایت ہوتی ہے کہ کچھ لکھو ہماری وال پہ، لکھو تو لفظ پکڑے جاتے ہیں۔ میں نے فیس بک کے پیچھے منگنیاں ٹوٹتے دیکھی ہیں۔ برداشت کی کمی کی تو خوب فراوانی ہے ہم سب میں لیکن اسقدر بچپنہ بھی ہو گا، نہیں پتہ تھا۔ بیوی کوئی تصویر ڈال دے تو شوہر رشتہ توڑنے پہ تیار، شوہر کوئی تصویر ڈال دے تو بیوی کی پوچھ گچھ۔

پچھلے دنوں ایک اٹھارہ سالہ لڑکے نے خودکشی کی کوشش کی۔ وجہ یہ پتہ چلی کہ لڑکی کا اسٹیٹس (status) فیس بک پر ہر وقت آن لائن آتا ہے لیکن وہ مجھے کہتی ہے کہ میں تو آف لائن ہوں۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتی، جھوٹ بولتی ہے۔ یا خدا، میری قوم کے معمار کی محبت کا پیمانہ تو دیکھیے۔ اتنا ہی نہیں، لڑکی کی تصویر جینس شرٹ میں ہے اور کسی لڑکے نے لائک کر دی، تو اگلے دن منگیتر پچاس لڑکوں کی فوج کے ساتھ مارنے پہنچ گئے۔

کچھ دن پہلے ایک رشتے دار نے کوئی شعر اپ لوڈ کیا۔ غالب۔ اً ان کی اپنی کاوش تھی۔ کچھ رشتے داروں نے ان کی اصلاح کی کوشش کی۔ بعد میں اسی فورم پہ ہنسی مذاق کرنے لگے۔ ہماری لیڈیز کا یہ المیہ رہا ہے (جس پہ بہت جلد تحریر کرنے والی ہوں) کہ لڑکوں کے اڑائے مذاق کا کم ہی برا مانتی ہیں او ر ’ ہٹ پاگل‘ کہہ کے چپ ہو جاتی ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کا اصل مقابلہ تو خواتین سے ہے۔ غلطی ہی کہوں گی، غلطی سے ان کی ایک کزن نے بھی مذاق میں اپنے کزنز کو کچھ لکھ دیا اسی فورم پہ۔ بھئی پہلے تو انھوں نے محاذ کھول لیا اور پھر comments ہٹا دیے اور پھر کچھ نہ پوچھیے، تمیز کی آخری حد تک گئیں وہ۔

کبھی کبھی ہماری نئی نسل کے نمائندے لطائف کی شکل میں کافی کچھ کہہ جاتے ہیں۔ آج کل سب سے زیادہ سر گرم موضوع ’پھپھو‘ ہے۔ پتہ نہیں کیوں اس بات پہ ایک کامل یقین سا ہے کہ یہ page کوئی دکھوں کی ماری بہو چلا رہی ہے لیکن ساتھ ہی حیرت بھی ہوئی اور ہنسی بھی آتی ہے کہ یہ کتنے ہی دکھیاروں کے دل کی آواز تھی۔ میں نے اپنے ملک میں ہتھوڑا ما ر گروپ کے بعد، اگر کسی چیز پہ اتنا شور دیکھا ہے تو وہ لفظ ’پھپھو‘ ہے۔

االلہ کا شکر ہے کہ میری پھپھو بہت اچھی تھیں اور میں خود بھی نو ننھے منوں کی پھپھو ہوں۔ میری طرح انگنت پھپھیاں سوچتی ہوں گی کہ کون پھپھو اتنی بری ہوتی ہو گی ہم تو ایسے نہیں۔ لیکن جواب آپ کو بھی پتہ ہے اور مجھے بھی۔ ایسی ہی ایک دکھیاری بھتیجی نے پھپھو کے پیج سے کچھ لے کر اپنی فیس بک وال پہ لگا لیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن وہ پھر فیس بک پہ آن لائن نظر نہ آئی۔ اتنا اثر و رسوخ تو، خیر چھوڑیں۔

یہ تو کچھ بھی نہیں، میری خالہ زاد بہن کی زمانے بعد کال آئی۔ خیریت کے بعد کہتی ہیں کہ تم جھوٹ بولنے جیسی خرافات میں کب سے گرفتار ہو گئیں۔ تم تو کہتی تھیں کہ ماموں کے بچوں سے کبھی بات نہیں کرو گی مگر تم نے تو فیس بک پہ ان کی اور بچوں کی تمام تصاویر لائک کی ہوئی ہیں۔ میں نے لاکھ سمجھایاکہ غصے میں کبھی کہہ دیا ہو گا، رشتے ہیں یہ قریبی۔ مجھے تو اب یاد بھی نہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ کو کیسے پتہ، آپ تو فیس بک پہ نہیں۔ تو کہتی ہیں کہ Angelina Julie نامی اکاؤنٹ میرا ہی تو ہے۔ میں نے غصے سے کال بند کر دی۔

سب سے مزاحیہ بات تو کسی خاص دن پہ ہوتی ہے مثلاً Valentines Day، Mother‘s Day، New Year، Christmas Wishesپہ خاندان والے بھوکے شیروں کی طرح پل پڑنے کو تیار رہتے ہیں۔ جہاں کوئی نوٹیفیکیشن دیکھا وہاں ہائے ہائے کا ماتم شروع۔ ایک دفعہ تو میں نے بول دیا کہ کل جو آپ نے سالگرہ کی تصاویر ڈالی تھیں بہت شاندار تھیں اور میں نے سبھی شور مچانے والوں کو یہ باور کرایا۔ پھرجو جواب مجھے ملے وہ میں یہاں نہیں لکھ سکتی آپ خود ہی سمجھ گئے ہوں گے۔ بات بات پہ تو اسلام سے خارج کر دیتے ہیں ہمارے بزرگ۔ ایک دفعہ سحری پہ میں اپنی خالہ کے گئی۔ میری کزن نے ایک پلیٹ بنائی۔ اس میں ایک سلائس رکھا، چند کھیرے کے ٹکڑے اور لسی کا گلاس اور تصویر لے کر فیس بک پہ ڈال دی کہ ’میری سحری اور آپ بھی اس رمضان میں سادگی اپنائیں۔ ‘ اس کے بعد انھوں نے دو پراٹھے دو انڈے، قیمہ کھایا، پھر لسی پی، پھر کیلا کھایا کہ اس سے پیاس نہیں لگے گی۔ مجھ پہ سائرن سے پانچ منٹ پہلے غشی دور ہوئی۔

میری سالگرہ پہ میری سہیلی زبردستی مجھے اور میری فیملی کو شاندار جگہ کھانے پہ لے گئی۔ وہیں بیٹھے خوشی کے اظہار کے لیے اس نے تصویریں اپ لوڈ کیں اور مجھے بھی ٹیگ کر دیا۔ کچھ لوگوں نے مبارکباد دینے کے بجائے بڑی جگہ پہ کھانا کھانے پہ اور فضول خرچی کرنے پہ خوب طنز کیا۔ اب میں کیا بتاتی کہ میری تو جیب خالی تھی مہینے کے آخر میں اسی لیے وہ ہمیں لے گئی تھی۔

لوگ شاید سہی کہتے ہیں کہ رشتے داروں کو ہماری تصویریں دیکھ کے لگتا ہے کہ دنیا میں ہم سے زیادہ امیر کوئی نہیں تو آپ کے ہوتے ہوئے آپ کے خاندان والے اتنے آسودہ حال کیوں ہیں۔ اب کیا بتائیں انھیں کہ جو مرسڈیز کے ساتھ تصویر کھینچی گئی ہے وہ دو دریا پہ ہوٹل کے باہر کھڑی ملی تھی۔

وہ دن ہے اور آج کا دن، میں نے اپنی تصاویر، اپنی تفصیل سب بتانا چھوڑ دیا۔ میرے پہلے آرٹیکل کے چھپنے پہ بہت داد ملی مگر سب سے کم جس نے سراہا وہ میرے رشتے دار، میرے اپنے ہی تھے۔ بڑی بوڑھیاں کہہ گئی ہیں کہ اپنا مارے بھی تو چھاؤں ہی میں پھینکتا ہے۔ میں کہتی ہوں کہ اپنا مارتا ہی کیوں ہے ہمیں۔ پھر وہ اپنا تو نہ ہوا نا۔

غیر مصدقہ اسلامی پوسٹس کے بعد سب سے زیادہ پوسٹس ایسی ہوتی ہیں جن میں یا تو رشتہ داروں کا شکوہ ہوتا ہے یا ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ آخر کیوں وہی اپنے آپ کو کامل سمجھتے ہوئے دوسروں میں کیڑے نکالنا۔

پڑی اپنے عیبوں پہ جب نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).