نواز شریف کو سعودی عرب میں مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا


صدر ٹرمپ سعودی عرب آئے اور آتے ہی چھا گئے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے سعودی عرب کی روایات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی بیٹی ایوانکا اور بیوی میلینا کے سر کو ڈھانپنے سے انکار کیا۔ بلکہ ایسا ہوا کہ سعودی شاہ سے ان کی ہاتھ ملاتے ہوئے تصویر تک پبلش کی گئی۔ اس کے بعد انہوں نے بطور امریکی صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے میں ہی سعودی عرب سے تین کھرب ڈالر سے زیادہ کے تجارتی سودے کیے جن میں اسلحے کا ایک کھرب ڈالر کا سودا بھی شامل ہے۔

اس کے بعد دربار سجایا گیا اور دنیا کے 50 ممالک کے سربراہوں کا ریاض میں اکٹھ ہوا۔ ان پچاس ممالک میں سے بیشتر مسلم ممالک تھے۔ اس میں سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت عالمی رہنماؤں نے انتہا پسندی سے لڑنے کے لیے ریاض میں ایک عالمی مرکز ’گلوبل سینٹر فار کومبیٹنگ ایکسٹریم ازم‘ کی بنیاد ڈالی۔

اس عالمی مرکز ’گلوبل سینٹر فار کومبیٹنگ ایکسٹریم ازم‘ کے قیام کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ انتہا پسند نظریات جو دہشت گردی کی جانب لے جاتے ہیں اور دہشت گرد جو دنیا کا مشترکہ دشمن ہے اس کے خلاف بین الاقوامی تعاون ممکن بنایا جائے گا۔ رکن ممالک نے انتہا پسندی کے خلاف قائم کیے جانے والے اس سینٹر کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر ریاض کا انتخاب کیا ہے جہاں انتہا پسند نظریات کا تجزیہ کیا جائے گا، اس کی مخالفت کی جائے گی اور اسے روکا جائے گا۔ اس کے علاوہ حکومتوں اور تنظیموں کے تعاون سے اعتدال پسندی کے کلچر کو فروغ دیا جائے گا۔

اس مرکز میں بین الاقوامی تعاون سے جدید دانشوروں، میڈیا اور عددی تجزیوں کے ذریعے سے انتہا پسندی کی مخالفت کی جائے گی۔ اس مرکز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں 12 نمائندے مختلف ممالک اور تنظیموں سے منتخب ہوں گے۔

پاکستانی میڈیا کو جاری کردہ خبر کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف اور امریکی صدر ٹرمپ نے اسلامی امریکی سربراہی کانفرنس کے موقع پر مصافحہ کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے روایتی انداز میں گرمجوشی سے نواز شریف سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی جبکہ نواز شریف نے کہا کہ آپکے پہلے غیر ملکی دورے کیلئے سعودی عرب کا انتخاب قابل تعریف ہے ۔

جبکہ وزیر اعظم کے وفد میں شامل سینئر پاکستانی صحافی مجاہد بریلوی نے کہا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم اور امریکی صدر کے گرم جوشی سے ہاتھ ملانے کی خبریں افواہوں پر مبنی ہیں اور یہ کہ جن صحافیوں نے کہا ہے ان دونوں ممالک کے سربراہان نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا تو انہوں نے ہی ایسا دیکھا ہوگا، ہم نے یہ منظر نہیں دیکھا۔ مجاہد بریلوی کا مزید کہنا تھا کہ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ تھی کہ پاکستانی وزیر اعظم کو تقریر کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ دوسری طرف پاکستانی وزیراعظم کے مقابلے میں مصر، انڈونیشیا اور کئی دیگر ممالک کوتقریر کا موقع دیا گیا۔ گلوبل سینٹر کے افتتاح پر بھی پاکستان وزیراعظم کو شامل نہیں کیا گیا ۔ یہ بات اہم ہے کہ افغان صدر اور بنگلہ دیشی وزیراعظم سعودی حکمرانوں کے ساتھ شیر و شکر رہے لیکن پاکستانی وزیراعظم کہیں نظر نہ آئے ۔ پاکستانی وزیراعظم آخری صفوں میں بھی موجود نہیں تھے ۔

خبروں کے مطابق نواز شریف صاحب جہاز میں سفر کے دوران کئی گھنٹے اپنی تقریر کی تیاری کرتے رہے تھے اور اپنے ساتھیوں سے اس کے اہم نکات پر صلاح مشورے میں مصروف رہے تھے۔ سیاسی مخالفت سے قطع نظر ہمیں یہ بات دیکھنی چاہیے کہ یہ ہتک نواز شریف صاحب کی نہیں ہوئی ہے بلکہ وزیراعظم پاکستان کی ہوئی ہے۔

غیر ملکی سربراہان مملکت میں سب سے زیادہ اہمیت مصری صدر جنرل عبدالفتح السیسی کو دی گئی۔ دوسری طرف بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو خاطر خواہ اہمیت دیا جانا بھی بظاہر پاکستان ہی کے لئے ایک پیغام دکھائی دیتا ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بنگلہ دیش عالمی منظر نامے پر وجود ہی نہیں رکھتا ہے جبکہ پاکستان نے اس جنگ میں ستر ہزار سے زیادہ جانیں گنوائی ہیں اور دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو ایک ہاٹ سپاٹ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ماضی میں القاعدہ بہت زیادہ سرگرم رہی ہے اور اب داعش افغانستان کے راستے پاکستان میں راستے بنا رہی ہے۔

یہ پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اسے اس بری طرح سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ کیا اب وقت نہیں آ گیا ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی پر مکمل طور پر نظر ثانی کریں اور داخلی طور پر بھی اپنے ملک کے لئے نئے اہداف مقرر کریں۔ برادر مسلم ممالک تو ہمیں کوئی بھی لفٹ کرانے کو تیار نہیں ہیں۔ افغانستان، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی آنکھوں کا تارا تو اب بھارت ہے اور ان ممالک کے لئے پاکستان ایک ناپسندیدہ ملک بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

پاکستان کو جذباتی قسم کی خارجہ پالیسی سے نکلنا ہو گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ملکوں کے مفادات اہم ہوتے ہیں، جذبات نہیں۔ دنیا ایسے ہی چلتی ہے۔ دنیا میں پاکستان کو اہم مقام دینا ہے تو پھر ہمیں سب سے زیادہ توجہ معیشت کو دینی ہو گی۔ انسانی سرمائے کی ترقی پر توجہ دیتے ہوئے تعلیم پر زیادہ فوکس کرنا ہو گا۔ مزید یہ کہ یونیورسٹیوں کو تنگ نظری یا انتہاپسندی کا گڑھ بنانے سے بچانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے ان کو روشن خیالی اور رواداری کا مرکز بنانا ہو گا۔ سائنس اور معیشت کے میدان میں ترقی کرنے کے لئے شرط یہی ہے کہ سوچ پر سے پہرے اٹھا لئے جائیں۔ اگر ہمارے نوجوان بہتر راہ پر چلیں گے اور معیشت ترقی کرے گی تو پھر ہر شعبے کے لئے زیادہ سرمایہ میسر آئے گا، خواہ وہ صحت ہو، شہری سہولیات ہوں یا دفاعی ضروریات۔

کاروبار اور معیشت کی ترقی کے لئے ایک اہم چیز یہ ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو اور عدالتیں بے خوف ہو کر جلد از جلد انصاف کر سکیں۔ عدالتوں میں سے مقدمات کا ڈھیر ختم کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ سننے میں یہ آیا ہے کہ تیز ٹرائل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ وکیلوں کے اپنے مفادات بھی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کسی ایک گروہ کے مفادات اہم ہیں یا جملہ عوام کے؟

ہمیں اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا مرکز معیشت اور علم کو بنانا ہو گا تو پھر ہی ہمیں کوئی اہمیت دے گا۔ ورنہ یہی ہو گا کہ وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کیا جائے گا اور شیخ حسینہ واجد اور نریندر مودی ہی برادر اسلامی ممالک اور مغربی دنیا کی آنکھوں کا تارا بنیں گے۔

زمانہ خراب ہے، اب غریب رشتے دار کو کون پوچھتا ہے؟


ٹرمپ اور نواز شریف میں گرم جوشی سے مصافحے کی خبریں بے بنیاد: وزیراعظم کو بری طرح نظر انداز کیا گیا
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments