نواز شریف کی ایران دوستی اور سعودی برہمی


سعودی عرب میں امریکی صدر ٹرمپ کے دورے کے موقعے پر وزیراعظم پاکستان کو جس طرح سے نظرانداز کیا گیا اور ان کی تقریر تیار ہونے کے باوجود نہ کی گئی، اس کی کچھ وجوہات سرگوشیوں میں بیان کی جانے لگی ہیں۔

راویاںِ غلط بیان کہتے ہیں کہ امریکی اور سعودی سربراہان اس کانفرنس میں ایران کو ہدف بنانا چاہتے تھے مگر وزیراعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں اس موقف کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ تقریر کا مسودہ برادر اسلامی حکمرانوں نے دیکھا، ایران کے خلاف بات کرنے کی خواہش ظاہر کی یا حکم دیا، وزیراعظم پاکستان نے تقریر نہ کرنا مناسب سمجھا کہ وہ ایک دور دراز دوست کی خاطر اپنے ہمسائے ایران سے کھلی دشمنی میں پاکستان کا نقصان دیکھتے تھے۔ غالباً یہ وزیراعظم پاکستان کی خفگی کا اظہار ہی تھا کہ وہ ’گلوبل سینٹر فار کومبیٹنگ ایکسٹریم ازم‘ (عالمی مرکز برائے انسداد انتہا پسندی) کی تقریب میں دکھائی نہ دیے جہاں پچاس ممالک کے سربراہان یا ان کے نمائندے موجود تھے۔ شاید آپ نے ایران کے ایک اور پڑوسی ملک کے سربراہ کی غیر موجودگی کو بھی محسوس کیا ہو۔

ترک صدر رجب طیب ایردوان سعودی عرب نہیں آئے۔ انہی تاریخوں میں ان کی پارٹی کے انتخابات کو ان کی غیر موجودگی کی وجہ بتایا گیا۔ ریاض سربراہی کانفرنس کی تاریخیں بیس اور اکیس مئی تھیں۔ ترکی کی اے کے پی پارٹی کے غیر معمولی اجلاس کی تاریخیں بھی یہی رکھی گئیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی کے اس غیر معمولی اجلاس کی تاریخیں سوچ سمجھ کر یہ رکھی گئی تھیں؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ ترک وزیراعظم بن علی یلدرم بھی وہاں تشریف نہیں رکھتے تھے بلکہ ترکی کی نمائندگی وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو نے کی۔

کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ دہشت گردی سے شدید متاثر دو طاقتور اسلامی ممالک اس کانفرنس کے موقعے پر اس طرح سے لاتعلق رہے؟ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ یہ دونوں ممالک ایران کے ہمسائے ہیں جسے اس کانفرنس میں دہشت گردی کا منبع قرار دیتے ہوئے ہدف بنایا گیا۔

ظاہر ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے لئے سعودی عرب کو ناراض کرنا ایک آسان فیصلہ نہیں تھا مگر انہوں نے سعودی عرب سے واپسی پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ ”دہشتگردی کا خاتمہ ہرصورت کرینگے ، پاکستان فیصلے اپنے مفاد کے تحت کرے گا“۔ جنرل مشرف سے نواز شریف صاحب کی جان بچانے والے سعودی محسنوں کے خلاف نواز شریف صاحب کا یہ موقف نہایت جرات مندانہ تھا جبکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ دوبارہ ویسی صورت حال پیش آئی تو ایسے فیصلوں کی وجہ سے سعودی دوبارہ ان کی حمایت نہ کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔

ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سیکولر شاہ ایران کے دور میں نہایت دوستانہ تھے۔ سنہ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں ایران نے پاکستان کی بھرپور فوجی اور سیاسی مدد کی۔ لیکن 1979 کے ایرانی اسلامی انقلاب کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں رہے۔ اس کی ایک وجہ پاکستان میں ایرانی اور سعودی پراکسی وار بھی بتائی جاتی ہے۔ تعلقات کی سرد مہری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی چند ہفتے قبل ہی ایک ایرانی جرنیل نے پاکستانی سرحدی علاقے میں حملہ کرنے کا بیان بھی دیا ہے۔

ایسے ایرانی رویے اور دوسری طرف شدید سعودی دباؤ اور ناراضگی کے باوجود پاکستان خود کو مشرق وسطی کے جھگڑوں، یعنی شام اور یمن کی جنگ سے دور رکھ رہا ہے اور ایران کے خلاف کسی اتحاد کا حصہ بننے سے انکاری ہے۔ ہماری دو سرحدیں پہلے ہی گرم ہیں اور تیسری کو بھی جنگ کے شعلوں سے سرخ کر دینا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔

لیکن پاکستان کے اس دوستانہ رویے کا جواب میں ایران کی جانب سے کیا مل رہا ہے؟ بھارت کے ساتھ ایران کے چابہار قسم کے منصوبے بھی ہیں اور کلبھوشن بھی ایران ہی کو مرکز بنائے ہوئے تھا۔ گوادر کے مخالفین میں ایران کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ لیکن ان سب سے بڑا دردِ سر یہ ہو گا کہ حالیہ شامی جنگ میں پاکستانی نوجوانوں کو مسلک کی بنیاد پر ایران میں ٹریننگ دے کر شام بھیجا جا رہا ہے۔ ان نوجوانوں کی واپسی بھی ہو رہی ہے جو کہ داعش کے خلاف جنگ لڑنے کا عملی تجربہ حاصل کر چکے ہیں۔

یعنی پاکستان جو ایک طرف سنی انتہا پسند لڑاکوں کا سامنا کر رہا ہے اسے ممکنہ طور پر اسے انتہائی اعلی تربیت یافتہ شیعہ انتہا پسند جنجگوؤں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ دونوں انتہاپسند گروہ آپس میں ٹکراؤ کے لئے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سرزمین کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کے احتجاج کے باوجود ایران اپنی یہ پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے جو پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔

پاکستان بجا طور پر مشرق وسطی میں سعودی ایرانی جھگڑے سے الگ رہا ہے۔ لیکن اگر ایک طرف پاکستان ایران کی خاطر اپنے اہم اتحادی سعودی عرب کو ناراض کر رہا ہے اور دوسری طرف ایران پاکستان کے خلاف اقدامات اٹھا رہا ہے تو پاکستان یہ سب کچھ کتنے عرصے برداشت کرے گا؟ اگر ایران نے یہ پالیسی جاری رکھی تو پاکستان کو طوعاً و کرہاً سعودی اتحاد کا حصہ بننا پڑے گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar