ریاض سمٹ میں پاکستان کے ساتھ کیا ہوا؟ کچھ ذاتی مشاہدات


ریاض پہنچے تو قدرے خجل خواری کے بعد بالآخر شاہ عبدالعزیز کنونشن سینڑ لے جایا گیا۔ مقامی گائیڈ اور ڈرائیور دونوں شہر کے بارے میں تقریباً اتنا ہی جانتے تھے جس قدر ہم۔ عظیم الشان کنونشن سنٹر پورا دن لگا کر دیکھنے کی چیز ہے۔ جدید اور قدیم طرز تعمیر اور بالخصوص یونانی انداز کے اونچے ‘پِلرز’ سے ایستادہ عمارت قابل دید ہے۔ سینئر صحافی اور ہمارے استاد سید فہد حسین نے جملہ چست کیا کہ حضرت! سعودی شاہ کس قدر مال دار ہیں کنونشن سنٹر اس کی محض ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ بہرحال اندر داخل ہوتے ہی ہمیں کسی ایسے ٹھکانے کی تلاش تھی جہاں بیٹھ کر سمِٹ کی کارروائی پر مسلسل جان کاری حاصل کر سکتے۔ ایسا بہر حال سمِٹ کے اختتام تک بھی ممکن نہ ہوسکا۔تعجب رہا کہ سمِٹ شاہ عبدالعزیز کنونشن سنٹر میں اور میڈیا انفارمشین سنٹرز کسی اور ہوٹل میں تھے۔ کم از کم تین گھنٹے تک خاکسار اِدھر اُدھر’ ٹھنڈی ٹھار راہداریوں’ میں مارا مارا پھرتا رہا کہ شاید کوئی مسلمان بھائی رہنمائی فرمائے۔ لیکن جس سے بھی پوچھا جواب یہی ملا: ’سوری برادر، وی دونت ناؤ اینی تھنگ، یو کین چیک آن انترنت۔‘ ایک ٹی وی پر کارروائی براہ راست نشر ہو رہی تھی وہیں بیٹھ کر کان لگا کر تقاریر سنیں۔ معلومات کا فقدان سعودی یاترا کی واحد تلخ یادگار رہے گی۔

حضرت شاہ سلمان اور قبلہ ٹرمپ کےفرمودات سنتے ہوئے عربی صحافیوں کے چہرے کھِل رہے تھے اور ہمارے لٹک رہے تھے۔ تشویش مایوسی میں اس وقت بدلی جب سعودی شاہ جو سمِٹ کے میزبان بھی تھے نے ‘وما علینہ الل بلاغ’ کا نعرہ لگاتے ہوئے سمٹ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ ہمارا انتظار مزید تکلیف دہ ہو چکا تھا کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف کو تقریر کے لئے دعوت نہ دی گئی۔ لٹکے چہرے اور تھکے ہارے اجسام اٹھائے ہم ریاض میں اپنے ہوٹل پہنچا دئے گئے۔ موضوع بحث پاکستانی پرائم ٹائمز شوز میں بھی وہی تھا جو ریاض میں ہمارے ہاں تھا۔ بہتیرا کوشش کی کوئی سرا ، کوئی جواب، کوئی منطق ہاتھ آئے مگر ’وائے ناکامی ! متاع کارواں جاتا رہا‘۔

اگلے روز صبح سویرے مدینہ شریف جا پہنچے۔ خاکسار کی خواہش تھی کہ کاش ہم مکہ جانے سے پہلے وہاں جائیں جہاں سے یہ علم ہوا کہ مکے والا کون ہے؟ مکے کیوں جانا ہے اور مکے جا کر کیا کرنا ہے؟ عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ لوگ پہلے مکہ ہی جاتے ہیں، عمرہ یا حج کرنے کے بعد مدینہ حاضری دیتے ہیں۔ لیکن ہماری خواہش پوری ہوئی، مکہ جانا پلان کا حصہ نہیں تھا، پہلے مدینہ حاضری ہوئی۔ جہاز لینڈ کرنے کو تھا، قربان جاؤں اس سر زمین پر جہاں میرے سرکارؐ موجود ہیں، جہاں انہوں نے حیات پاک بسر کی، وہ سر زمین، وہ پہاڑ وہ کھجوریں جہاز کی کھڑکی سے نظر آئیں تو خود پر اختیار نہ رہا۔ جہاز سے نیچے اترنا گویا محال ہو چکا تھا، فقیروں کا تو معاملہ ہی عقیدت کا ہے، اندر کا نظام یکسر بدل چکا تھا، کیفیات ایسی کہ لفظ شاید بیان نہ کر پائیں۔ ہوٹل بھی وہ ملا جہاں سے مسجد نبوی چند قدموں کی دوری پر تھی، فوری سرکار دو عالمؐ کے ہاں حاضری کے لئے ہاتھ باندھے جا پہنچے۔ خیر! قلبی واردات کا ذکر پھر کسی اور تحریر میں پیش کرنے کی کوشش ہوگی۔ یہاں مدینہ میں وزیراعظم اور مشیر خارجہ سے کھانے کی میز پر ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ تقریر کا ارادہ تو تھا، لیکن باری نہ آسکی۔ وقت کی قلت تھی کیونکہ سمٹ ڈیڑھ دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا تھا۔ ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ انگریزی زبان میں حروف تہجی کے اعتبار سے چند ممالک کے سربراہان نے حضرت شاہ سلمان اور قبلہ ٹرمپ کی تقاریر کے بعد اظہار خیال فرمانا تھا، لیکن پاکستان کی باری آنے تک وقت ختم ہو چکا تھا۔ بظاہر تو دلیل میں وزن ہے لیکن گزارش ہے کہ اگر یہی پیمانہ رکھا گیا تھا تو پھر پہلے اردن (جورڈن) کی بجائے باری مصر یعنی (ایجپٹ) کی آنی چاہیے تھی ۔

بہرحال ، ملائیشیا، انڈونیشیا اور کویت کے سربراہان نے بھی اظہار خیال کیا، ان حضرات کی تقاریر دراصل سعودی خواہشات کی ’انڈورسمنٹ‘ تھی، بالخصوص ملائیشیا اور انڈونیشیا نے بھر پور حق ادا کیا۔ انڈونیشا میں حالیہ دنوں سعودی شاہ نے بارہ روزہ طویل دورہ کیا تھا جہاں اربوں ڈالر کے گیارہ معاہدوں پر دستخط کئے گئے تھے۔ دہشت گردی کے خلا ف ہوئے اس اکٹھ میں دہشت گردی کی جو تعریف سامنے آئی اس کا مرکز فقط ایران تھا۔ ایران کو دہشت گردوں کی مالی معاونت سے لے کر ان کی ٹریننگ اور انہیں ایک ملک سے دوسرے ملک میں بد امنی پھیلانے کا ’مجرم‘ قرارد دیا گیا۔ ایران اور شام کا ’ذکر شر‘ مکمل اور بھر پور دلائل کے ساتھ کیا گیا۔ حضرت شاہ سلمان اورقبلہ ٹرمپ نے دہشتگرد تنظیموں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے حزب اللہ کے ساتھ ساتھ القاعدہ اور داعش کا بھی بار بار نام لیا۔ لیکن یہ دونوں ‘عالم فاضل’ دانشور یہ بتانے سے حتی الوسع گریز فرماتے رہے کہ کیا القاعدہ اور داعش کو بھی ایران کی حمایت حاصل ہے؟ کیا القاعدہ اور داعش بھی ایران کے ہاتھوں پروان چڑھیں؟ اور اگر نہیں تو پھر خاکسار یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ان تنظیموں کی مالی معاونت کرنے والوں، ان سے تیل خریدنے والوں اور انہیں پروان چڑھانے والوں کا قلع قمع کرنے کا نعرہ کیوں نہ لگایا گیا ؟ کیا دنیا بھر میں دہشت گردی اور بد امنی پھیلانے کی مکمل ذمہ داری محض ایران پر عائد کر کے حضرت شاہ سلمان اور قبلہ ٹرمپ بری الذمہ ٹھہرائے جا سکتے ہیں؟

سچ پوچھئے تو دل پر پتھر رکھتے ہوئے یہ کہنا پڑے گا کہ اچھا ہوا جو وزیراعظم پاکستان کو سمِٹ میں تقریر کا موقع نہ مل سکا۔ جو تقریر پاکستان نے کرنا تھی اس سے یقیناً سعودی شاہ مطمئن نہ ہوپاتے۔ کیونکہ انہیں دراصل ملائیشیا جیسا ’ایران مخالف سخت موقف‘ درکار تھا۔ سمٹ میں دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں اور کاوشوں کا ذکر تک نہ گیا۔ ٹرمپ سرکار کو البتہ بھارت کی یاد ضرور آئی، افغانستان کی صورت حال پر بھی ان کی آواز یقیناً بھر آئی ہو گی۔ لیکن انہیں پاکستان یا پاکستان کا ’ٹریفیک گائے‘ یاد نہ آیا۔ سعودی شاہ اور دیگر مقررین بھی کسی اور دُھن میں ہی مگن رہے۔ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ اور اس کے تجربے بارے سننا مطلوب و مقصود مومن نہ تھا۔ چونتیس ہزار افراد پر مشتمل فورس بنائی جائے گی، ریاض میں سینٹر بھی قائم کر دیا گیا، جنرل راحیل شریف ایڈوائزر ہوں گے، لیکن فورس کی فنکشنل صورت کیا ہوگی؟ کچھ معلوم نہیں۔ فی الحال تو آل سعود کو صرف اور صرف اپنی فکر لاحق ہے۔ ایک سو دس بلین ڈالر کے اسلحے کی ’ریکارڈ‘ ڈیل یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہ اسلحہ کہاں استعمال ہو سکتا ہے۔ اب اس قدر زیادہ اسلحہ محض نمائش کے لئے تو نہیں رکھا جائے گا۔

ہمسایہ ملک بھارت سے فون آئے کہ جناب آئیے ہمارے پروگراموں میں اس سمِٹ بارے اظہار خیال کیجئے کہ بھارت کا تو ذکر خیر ہوا، لیکن سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ تعلقات کے باوجود پاکستان کو ’ڈی لفٹ‘ کیوں کرایا گیا؟ وغیرہ وغیرہ۔ مصروفیات کے باعث ہم نے ایسے پروگراموں میں شرکت سے بالکل ویسے ہی معذرت کی جیسے ہم نے حضرت شاہ سلمان کی درخواست پر ان سے ملاقات کی خواہش پر کی تھی۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کی سمِٹ میں تقریر نہ ہونا پاکستان کے لئے حقیتاً ’بلیسنگ اِن ڈِس گائز‘ ہے۔ تئیس لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے ہیں جو پانچ ارب (عرب) ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ وطن بھیجتے ہیں۔ پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد کسی اور ملک میں مقیم نہیں، پلک جھپکتے قلم کی ایک جنبش سے سعودی شاہ انہیں واپسی کا پروانہ کسی وقت بھی تھما سکتے ہیں، شاہ جو ہوئے! سعودی سرکار کی پاکستان پر مہربانیوں کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔ ایسے میں ہم بھٹو صاحب کی طرح تقریر کی کاپی کیسے پھاڑتے؟ ویسے بھی ابھی ہفتہ بھر پہلے ہی تو ہم چینی محبت کی پینگیں چڑھا کر آئے ہیں، بھارت، امریکہ یا ان کے ہمنواؤں کو ’تپ‘ تو چڑھی ہو گی۔ لہٰذا اسی پر اکتفا کرنا ہوگا کہ ایران کو تنہا کیا گیا ہے، ایران ہی جانے کہ اب انہوں نے اس صورت حال سے کیسے نمٹنا ہے۔ ہمیں البتہ شدید تشویش کے ساتھ اب دھیمے سروں میں ہی راگ درباری الاپنا ہوگا۔ چمڑے کے لانگ گلووز پہنے ’شاہوں‘ کے بازو پر انہی کا پالا ہوا  شاہین انہیں ہی کاٹ اڑے۔۔۔۔ ناممکن ہے۔۔! اور نہ ہی یہ عقاب اس قابل ہے کہ وہ ہمسایہ ایران کو آنکھیں دکھائے۔

جاتے جاتے سن لیجئے کہ سمِٹ کے آخر میں سعودی وزیر خارجہ عال الجبیر نے امریکی ہم منصب ریکس ٹیلرسن کے ہمراہ مختصر پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس میں شوکت پراچہ صاحب کے سوال کے جواب میں عادل الجبیر نے محض ایک مختصر جملے میں یہ ضرور کہا کہ پاکستان کا اس اتحاد میں کردار انہتائی اہم ہوگا۔ وطن عزیز کا اس سے زیادہ ذکر کہیں اور سننے کو نہ ملا۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ حکام نے یہ پریس کانفرنس امریکی صحافیوں کے بغیر منعقد کی جس پر امریکی دوستوں نے سوشل میڈیا پر خاصا ہنگامہ برپا کیا ، یہی وجہ ہے کہ امریکی دفتر خارجہ کو بعد میں معذرت بھی کرنا پڑی۔ کہا گیا کہ سیکرٹری خارجہ کسی اور موقع پر امریکی میڈیا کو اس سمِٹ بارے آگاہ کریں گے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر امریکی صحافی دوست بھی پریس کانفرنس میں موجود ہوتے تو یقینا سوالات مختلف ہوتے اور جواب دینے والوں کو دقت محسوس ہوتی ۔ اور ’شاہ‘ ایسی ناگواری برداشت نہیں کرتے۔

اگر قارئین کی اس موضوع پر اب بھی تشفی نہیں ہوئی تو پھر سلمان خان (ایکٹر نہیں،لاہور میں اووبر ٹیکسی والے ہمارے دوست) سے ہوئی ہماری حالیہ گپ شپ کا احوال سن لیجئے، امید ہے آپ شانت ہو جائیں گے۔ سلمان خان سے ہم نے پوچھا کہ اگر بہت امیر ہوجاؤ تو کیا کروگے؟ وہ بولے: ہم امیر ہو کر ایک ایمبولینس خریدے گا۔ کہا ، نیک خیال ہے۔ انسانیت کی خدمت ہوگی۔ ہمیں ٹوکتے ہوئے وہ بولے: لیکن ہم تو ایمبولینس اس لئے خریدے گا کیونکہ ہمیں ’تیز رپھتاری‘ کا شو ق ہے۔

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami