کیلاشی زبان، ثقافت اور عقائد کو در پیش خطرات


پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں مین بسنے والی لسانی اور مذہبی اکائیوں میں سے ایک کیلاشی بھی ہیں جو اپنے مخصوص لباس، زبان اور رقص کی وجہ سے اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں۔ کیلاشی جو کبھی چترال بشمول افغانستان کے صوبے نورستان کی اکثریتی آبادی ہوا کرتی تھی آج سکڑ کر صرف تین پہاڑی دروں تک محدود ہوگئی ہے جہاں وہ اپنے ہی ہم نسل لوگوں میں بہ لحاظ زبان، بود و باش اور مذہبی عقیدہ صرف چار ہزار نفوس پر مشتمل ایک اقلیت رہ گئی ہے۔ افغانستان کے موجودہ صوبہ نورستان کی پوری آبادی کی امان اللہ کے دورمیں جبری تبدیلی مذہب کی وجہ سے افغانستان سے معدوم ہونے کے بعد کیلاشی حالیہ برسوں میں دنیا سے تیزی سے ختم ہونے والے عقائد اور ثقافتوں میں سے ایک ہے۔ چترال میں بسنے والے ان لوگوں پر کوئی بیماری نہیں آئی اور نہ ہی ان کی نس بندی کی گئی ہے کہ ان کی نسل آگے نہ بڑھ سکے مگر اس کے باوجود ان کی آبادی میں اضافے کے بجائے کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس کمی کی وجہ ان لوگوں کی تبدیلی مذہب ہے جس کے بعد ان کے لباس اور رہن سہن کے ساتھ زبان بھی بدل جاتی ہے جس سے کیلاشی لوگوں کے ثقافتی وجود کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ تبدیلی مذہب کی وجہ سے اس خوبصورت ثقافت اور یہاں کے لوگوں کےعقائد کو درپیش خطرات کی نوعیت کثیرالجہتی ہے جن میں سے چند ایک پر ہم نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1۔ ریاست کا جانبدارانہ رویہ اور احساس عدم تحفظ:

ویسے بھی پاکستان میں عمومی طور بھی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کیساتھ ریاست کا رویہ انتہائی معاندانہ رہا ہے لیکن وادی کیلاش کو کافرستان قرار دے کر یہاں کے لوگوں کو اکثریتی عقائد سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اپنے مذہب کی تبلیغ اور ایک بے ضررلسانی، مذہبی اور ثقافتی اقلیت کے خلاف کارروائیوں کے لئے کھلا میدان بنا دیا گیا ہے۔ ایک طرف ایک مخصوص مذہبی گروہ اور اس کی تبلیغی جماعت کے اراکین کی ریاستی سر پرستی یہاں سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی تو دوسری طرف اس اکثریتی گروہ کے مسلح جتھے اس اقلیتی براداری یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ اس تبلیغی جماعت کے ایک رکن کی تبدیلی مذہب کے اپنے مشن کے بعد چترال سے واپسی پر ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں مر جانے پر ریاستی اداروں، میڈیا، سماجی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے فقیدالمثال پزیر ائی اس بات کی عکاسی ہے کہ پاکستان کے ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کو کیلاش اور دیگر مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو درپیش خطرات سے کوئی سروکار نہیں۔ ریاست کی اس اقلیتی گروہ کے لئے سرد مہری بلکہ جانبداری کی وجہ سے نہ صرف مقامی مبلغین کی طرف سے بلکہ ملک بھر سے ان لوگوں کے تبدیلی مذہب کے لئے ایک مسلسل یلغار کی سی کیفیت ہے۔ ریاست کی طرف سے ان اقلیتوں کو درپیش مشکلات کو دور کرنا تو کجا ان کے بارے میں صحیح اعداد و شمار اکھٹا کرکے ان کی تعداد کے بڑھنے یا گھٹنے کی نشاندہی بھی کبھی نہیں کی گئی۔

2۔ مذہبی انتہا پسندی اور منافرت:

کیلاش کی وادی چترال کا ایک حصہ ہے جہاں مذہبی جبر کا آغاز صدیوں پہلے ہوا ور یہاں کے لوگوں نے کثیر تعداد میں چترال کی سرحدی حدود سے باہر ہجرت کرکے پڑوس میں پناہ لی اور جائے پناہ غرز کہلایا جس کے معنی چترالی زبان میں پناہ گزینوں کی جگہ کے ہیں جو آج گلگت بلتستان کا ایک ضلع بن چکا ہے جس کا نام غذر ہے ۔ اس خطے میں مذہبی یلغار کو روکنے کی کاوشوں میں زوالفقار علی بھٹو کے دور میں کچھ اقدامات کیے بھی گئے تھے مگر افغان ثور انقلاب کے خلاف امریکی سامراج اور اس کے حواریوں نے جس انداز میں مذہبی انتہا پسندی کو سوشلزم کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا اس کے نتیجے میں منافرت اس پورے خطے میں ایک وبا کی طرح پھیل گئی ہے۔ اگر ہم اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ روس کے خلاف امریکہ کی سرپرستی میں لڑی جانے والی لڑائی کے بعد یہاں کے لوگوں کی تعداد میں بہت تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ گیارہ ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد اس پورے خطے میں مذہبی انتہا پسندی اور منافرت میں مذید اضافہ ہوا ہے جس سے یہ علاقہ اور یہاں رہنے والے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ان کی تعداد زیادہ تیزی سے کم ہوئی ہے۔

3۔ عدم تحفظ اور احساس تنہائی :

یہاں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے اکثریتی مذہب اور پڑوس سےہونے والی ثقافتی یلغار کو روکنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرنے کے بجائے معاشی ترقی کے نام پر یہاں کی مقامی آبادی کو ثقافتی اور مذہبی طور پر زیادہ عدم تحفظ کا شکار کیا۔ بعض اوقات ان غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے والے نام نہاد سماجی کارکنان بھی تبدیلی مذہب کے فعل کے مرتکب بھی پائے گئے۔ یہاں آنے والے گزشتہ تباہ کن زلزلے کے بعد بعض مذہبی غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے مذہب تبدیل کرنے والے لوگوں کی بے تحاشہ امداد کی وجہ سے بھی کیلاش کے لوگ خود کو بے یار و مددگار محسوس کرنے لگے ہیں جس کا کسی طرف سے مداوا نہیں کیا گیا۔ سرکاری مشینری کی جانبداری اور سماجی شعبے میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی نا اہلی یا قصداً روا رکھے گئے رویے نے بھی کیلاش میں پہلے سے موجود مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔

4۔ ثقافتی اور مذہبی تنگ نظری :

یہاں کے رہنے والے اپنی مخصوص ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جس میں ان کا لباس، بود و باش اور طرز زندگی نمایاں ہیں۔ ان لوگوں کے مذہب اور ان کی ثقافت کو دیگر اکثریتی مذاہب اور ثقافتوں کی طرف سے انتہائی تنگ نظری کا سامنا ہے۔ یہاں کے رہنے واے لوگوں کے خلاف مذہبی اور ثقافتی تنگ نظری کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے جس پر حکومتی اور ریاستی اداروں کی طرف سے کبھی کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا ہے۔ اس تنگ نظری نے بھی یہاں کے ثقافت اور مذہبی عقائد کو خطرے سے دوچار کیا ہے۔ چونکہ ان لوگوں کے لباس، زبان اور رہن سہن کو بھی ان کے مذہب سے منسوب کیا جاتا ہے جو مذہب کی تبدیلی کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ان لوگوں کی ثقافت کے لئے اس تنگ نظری کی وجہ سے یہاں صرف ان کامذہبی عقیدہ ہی ختم نہیں ہوجاتا بلکہ ان کا لباس، زبان اور رہن سہن بھی معدوم ہوتا جارہا ہے۔

5۔ معاشی اور معاشرتی دباؤ:

کیلاش کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کو تعصب اور تنگ نظری کا شکار ایک اقلیتی مذہبی گروہ کے طور پر سماجی طور پر کمتری کے درجے پر رہنا ہے یا پھر پورے ملک میں سرکاری سرپرستی کے حامل اور مذہبی طور پر طاقتور ایک اکثریتی فرقے میں شامل ہوکر اپنا سماجی مقام کو بڑھانا ہے۔ اپنی سماجی حیثیت بدلنے یا کسی بھی دباؤ کے زیر اثر جب کسی خاندان میں ایک فرد مذہب تبدیل کرتا ہے تو پورا گھرانہ اس سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ مذہب تبدیل کرنے والا اپنے خاندان کے دیگر افراد کیساتھ میل جول اور حتیٰ کہ ساتھ ملکر کھانا کھانے کو بھی معیوب ہی نہیں بلکہ گناہ سمجھتا ہے۔ ایک فرد کا یہ رویہ خاندان میں انتشار کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے پورے خاندان کو تبدیلی مذہب کرنا پڑتا ہے یا اس ایک شخص سے ناطہ توڑا جاتا ہے۔ خاندان کے ایک فرد کے اپنے عقیدے کی تبدیلی ذاتی فیصلے سے پورے خاندان اور برادری متاثر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ اپنے ہزاروں سال سے کاربند رسم و رواج، عقیدے، زبان اور لباس کو ترک کرکے ایک نئی طرز زندگی اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیلاش کے لوگوں کی آپس مین خاندانی وابستگی اور ایک خاندان کے افراد کا ایک دوسرے پر معاشی اور معاشرتی انحصار کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیلی مذہب کے لئے سرگرداں مہم جو عموماً خاندان کے کسی با اثر فرد کو نشانہ بنا کر تبدیلی مذہب پر مجبور کرتے ہیں اس کے بعد پورا خاندان اپنے عقائد، زبان، ثقافت اور طرز زندگی سے تائب ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جب کیلاش کے نوجوان تعلیم حاصل کرنے یا حصول روزگار کے لئے دیگر شہروں میں چلے جاتے ہیں تو اکثریتی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں جو کبھی کبھار ایک سماجی دباؤبن جاتا ہے اوراس سے متاثر ہوکریہ لوگ اکثریتی گروہ میں شامل ہوکر اس رویے سے جان چھڑانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب ایک تعلیم یافتہ شخص خاندان میں تبدیلی مذہب کا فیصلہ کرتا ہے تو اس سے خاندان کے دیگر افراد بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔

6۔ نظام تعلیم میں سقم:

کیلاش کے بچوں کو دیگر اکثر یتی مذہب کے بچوں کے ساتھ اسی مذہب سے تعلق رکھنے والے اساتذہ تعلیم دیتے ہیں۔ سکول میں شروع سے ہی کیلاشی بچوں کو اپنے ہم جماعت بچوں اور اساتذہ کی طرف سے اپنے عقیدے اور طرز زندگی کی تضحیک کا سامنا ہوتا ہے۔ کیلاشی بچےاپنے عقیدے کی تضحیک کو برداشت کرنے کے ساتھ دوسرے مذہب کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو ان کے کچے ذہنوں پر ابتدائی عمر میں ہی اثر انداز ہو جاتی ہے۔ جب یہ بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو تبدیلی مذہب کی کاشوں کو آسانی سے قبول کرتے ہیں اور اپنی مذہب کے ساتھ اپنی ثقافت، زبان اور طرز زندگی سے بھی تائب ہوجاتے ہیں۔

7۔ بیرونی اثرات:

جب تک چترال کے لوگ بیرنی اثرات سے دور تھے کیلاش کے لوگ بھی محفوظ تھے لیکن جیسے ہی بیرونی اثرات چترال میں داخل ہوئے کیلاش کے لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے۔ چترال کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی سڑکوں کی تعمیر سے یہاں سیاحت اور تجارت بڑھ گئی ہے جس سے یہاں بیرونی اثرات بھی نفوذ پزیر ہوئے جس کی وجہ سےکیلاش کے لوگ زیادہ دباؤ کا شکار ہیں۔ حالیہ برسوں میں کیلاش کے لوگوں کے مذہبی تہواروں پر سیاحوں اور تماشائیوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ مقامی لوگوں کو اپنی مذہبی اور ثقافتی رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر سیاحوں اور تماشائیوں کی آمد کے سلسلے کو نہ روکا گیا تو کیلاش کے لوگوں کو اپنی رسومات کی ادائیگی مشکل ہو جائے گی اور یہ رسومات ختم ہو جائینگی جو کیلاش کے لوگوں کی طرز زندگی اور ثقافت کا ایک خاص حصہ ہیں جن کے بغیر ان کی ثقافتی انفرادیت از خود معدوم ہو جائے گی۔

8۔ زمین اور دیگر املاک پر قبضے اور حق ملکیت سے محرومی:

چترال میں رہنے والے یہ قبائل ایک خاص علاقے میں رہائش پزیر ہیں جہاں ان کے معبد، قبریں اور چراگاہیں بھی ہیں جو اس ثقافت کی جزوء لاینفک ہیں جس کے بغیر کلاشی طرز زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حالیہ برسوں میں با اثر لوگوں کی طرف سے ان کی املاک یعنی پشتینی ملکیتی زمینوں، معبدوں اور قبروں کی جگہوں پر قبضے کیے جارہے ہیں۔ یہ قبضے تبدیلی مذہب کرنے والے کیلاشی بھی کرتے ہیں جو نئی مذہب اختیار کرنے کے بعد اپنے پرانے رشتے داروں کی نسبت زیادہ با اثر ہوجاتے ہیں اور بعض سرکاری ادارے بھی اس طرح کے اقدامات محض چند افراد کے ذاتی منفعت کے لئے کرتے ہیں۔ کیلاشی لوگوں کی شکایات کو سننے والا کوئی ادارہ نہیں اور نہ ان لوگوں کو ایسے با اثر لوگوں کی کاروایئوں سے کسی قسم کا تحفظ حاصل ہے۔

9۔ سیاسی و ابلاغی دباؤ

حالیہ برسوں میں کیلاش کی زبان، ثقافت اور عقائد کو درپیش خطرات میں مذید اضافہ ہو گیا ہے۔ چترال میں ایک مذہبی سیاسی جماعت کی طرف سے کھلم کھلا مذہبی انتہا پسندی کے اظہار اور اس صوبے میں ایک نیم مذہبی سیاسی جماعت کی حکومت کی طرف سے خاموشی نے بھی یہاں کے لوگوں کے احساس عدم تحفظ کو بڑھا دیا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں پر بے جا پابندیوں کی وجہ سے یہاں ان کا کام کرنا محال ہو چکا ہے جس کی وجہ سے مذہبی تنظیموں کو کھلا میدان مل گیا ہے جہاں وہ اب زیادہ موثر طریقے سے اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میڈیا کی جانب سے اپنے ریٹینگ کے لئے مخصوص عقائد کے مذہبی پروگراموں کی ترویج اور تشہیر نے بھی ملک کے اقلیتوں کی احساس کمتری میں اضافہ کیا ہےجس سے کیلاش کے لوگ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ جب سماجی اور سیاسی شخصیات ٹیلی ویژن کے سکرین پر ایک خاص عقیدے کے علاوہ سب کو غلط قرار دیتے ہیں تو دیگر عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔

اگر کیلاش کی ثقافت، زبان و عقائد کو درپیش خطرات کو دور کرنے کے اقدامات نہیں کیے گئے تو بہت جلد یہ صفحہ ہستی سے مٹ کر تاریخ کا حصہ بن جایئگا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan