سراج الحق 3: بلاسفیمی، ہجوم کی لاقانونیت، سی پیک، پاناما، سیکولرازم


وصی بابا: پچھلے کچھ مہینوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلاسفیمی کے حوالے سے لوگوں پر الزامات لگ رہے ہیں۔ کچھ بلاگرز پہلے غائب کیے گئے ان پر یہ الزام لگایا گیا، پھر انہیں چھوڑ دیا گیا، مشعال کا واقعہ ہوا۔ آپ کی اپنی پارٹی کا ایک کارکن تھا اس پر اسی طرح کا غلط الزام لگا کے پندرہ بیس سال پہلے گوجرانوالہ میں ایک شخص مارا گیا، جس پر قاضی حسین احمد صاحب نے اس کے حق میں بیان بھی دیا۔ اس کے گھر بھی گئے۔ آپ لوگ اس حوالے سے کیا پالیسی لائے۔ نہ اس قانون کا غلط استعمال روکا جا رہا ہے نہ اس کے متعلق آپ یہ بتا رہے ہیں کہ ایسے معاملات میں لوگ کیا کریں۔ سوشل میڈیا پر جو لوگ یہ چیزیں پھیلاتے ہیں ان کے روکنے کے لیے کیا مراحل ہیں۔ آپ نے کہیں بھی آگے آ کر لوگوں کو سمجھایا نہیں ہے کہ کریں کیا وہ۔

عدنان کاکڑ : آزاد کشمیر اسمبلی میں جو واقعہ ہوا ہے اپوزیشن نے پھاڑی ہے وہ گورنمنٹ کی تحریک، اس پر بلاسفیمی کا الزام لگایا گیا ہے۔

سراج الحق : میری باتیں سنیں آپ۔ ابھی ہماری قومی اسمبلی میں دو اراکین آپس میں لڑ پڑے۔ ایک میرے خیال میں پنجاب کا تھا ایک سوات کا تھا۔ وجہ کیا بنی کہ میرے خاندان کا ذکر اچھا نہیں تھا۔ اگر ایک شخص اپنے ماں باپ کی گالی برداشت نہیں کر سکتا تو رسول االلہ ﷺ کے بارے میں کیسے برداشت کرے گا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب رہی یہ بات کہ جتنے واقعات ہوئے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پاکستان میں اس قانون پر کوئی بھی امپلی ٹیشن نہیں ہوا۔ ریاست محافظ بنے نبی پاک ؐ کی حرمت اور حفاظت کا، تاکہ ہر انسان کو یقین ہو کہ اگر کسی نے رسول االلہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو وہ دروازہ موجود ہے مجھے وہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب لوگ وہ بند پاتے ہیں اور ہر واقعے کے بعد یہی محسوس کیا گیا ہے کہ ہم بین الاقوامی کیس پہ جاتے ہیں۔

وکلا اور ڈیڑھ سو مزدور جلانے پر، ڈاکو کے ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے پر، کرسچن کے جلائے جانے پر اقوام عالم خاموش رہتی ہیں مگر جس مسئلے میں نبی کریم ؐ کی بات آجائے اس کے پیچھے پوری دنیا کھڑی ہو جاتی ہے کہ یہ تو حق ہے ان کا کوئی ان پر درود بھیجے کوئی ان کو گالی دے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہجوم کو اس طرح کے واقعات سے منع کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اب ریاست اور حکومت کھل کر یہ کردار اپنا لے کہ حضور ﷺ کے حوالے سے حکومت ہی اونر ہے۔ آپ مجھے بتائیں ناں کہ آپ نے گوجرانوالہ کا ذکر کیا تو وہ تو عوام نے اٹھ کر ایک آدمی کو مارا۔ اس میں قانون کا عمل دخل تو نہیں ہوا۔ اگر ممتاز قادری کا مسئلہ ہے تو وہ قانون کا امپلی ٹیشن تو نہیں ہوا وہ عام آدمی نے محسوس کیا کہ گورنر جیل میں جاتے ہیں اور اس جیل میں سینکڑوں اور مائیں، بہنیں اور بیٹیاں موجود ہیں لیکن وہ ایک خاتون کو بلا کر اس کو شاباش دیتے ہیں کہ ہم اس قانون کو تبدیل کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے کو انارکی سے بچانے کے لیے راستہ یہی ہے کہ حضور ؐ کی شان اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ریاست اور حکومت خود ہی مدعی بنے۔

عدنان کاکڑ : اس میں ہم ایک چیز دیکھتے ہیں کہ سلمان تاثیر والے معاملے کے اوپر ابھی چند ماہ پہلے مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک بیان آیا جس میں ان کو بتایا گیا کہ تاثیر صاحب نے یہ یہ کہا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ اس حوالے سے سلمان تاثیر صاحب نے بلاسفیمی نہیں کی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں آسیہ مسیح کا جنید حفیظ کا کیس، اس کو عدالتیں لٹکا رہی ہیں، ان کو تاریخ تک نہیں دے رہیں۔ اب عدالتوں کی بھی ہم مجبوری دیکھتے ہیں کہ بلاسفیمی کے ایک ملزم کو بے گناہ قرار دے کر رہا کرنے کی وجہ سے ایک جج قتل کیا جا چکا ہے۔ عدالتوں کے اوپر بھی دباؤ دکھائی دیتا ہے کہ اگر کسی پہ غلط الزام بھی ہے تو اس کو رہا نہیں کر سکتی ہیں اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کسی کو اس معاملے میں سزائے موت بھی نہیں دی گئی ہے۔ دونوں معاملات ہیں۔

سراج الحق : دیکھئے واقعات تو ہوتے ہیں ناں۔ آپ کے فیس بک پہ جو گالیاں موجود ہیں جس کو دیکھ کر انسان اس کو ادا نہیں کر سکتا ہے۔ گالیاں دینے کی نہ تو برطانیہ میں اجازت ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں، نہ اسرائیل میں کوئی اجازت دیتا ہے کہ ان کے مذہبی لوگوں کے بارے میں۔ تو پاکستان میں ایسی کون سی بات ہے اور حضور ؐ تو رحمت اللعالمین ہیں۔ یعنی اس میں کیا فائدہ ایک انسان کو پہنچ رہا ہے کہ آپ ہمارے نبی کو گالیاں دیں سوائے اس کے کہ آپ ہمیں مشتعل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ خود ریاست اور حکومت کو یہ مسئلہ حل کرنا ہے کہ میڈیا میں ہے، الیکٹرانک میڈیا میں، پرنٹ میڈیا میں، یہ طے کرنا عدالت کا کام ہے کہ جرم ہوا ہے کہ نہیں۔ یہ طے کرنا عوام کا کام نہیں ہے کہ جرم ہوا ہے۔ لیکن جب تک لوگوں کو یقین نہ ہو جائے جس طرح آپ خود کہتے ہیں کہ کسی آدمی کو سزا نہیں ہوئی ہے، کسی آدمی کو رہا بھی نہیں کیا گیا ہے۔ اگر آپ اپنے معاشرے کو انتشار سے بچانا چاہتے ہیں تو آپ کو اس سوسائٹی میں حضور ؐ کی شان اور حرمت کو بالکل محفوظ بنانا ہو گا۔ آپ یہ دیکھیں کہ مسیحیوں کے پوپ فرانسس نے بھی کہا تھا کہ ”اگر میرا اچھا دوست بھی میری ماں کو گالی دیتا ہے تو اسے ایک مکے کی توقع رکھنی چاہیے۔ یہ نارمل ہے۔ آپ اشتعال نہیں دلا سکتے ہیں۔ آپ دوسروں کے عقیدے کی توہین نہیں کر سکتے ہیں۔ آپ دوسروں کے عقیدے کا مذاق نہیں اڑا سکتے ہیں“۔

آپ بھی مغربی میڈیا کے اس دباؤ میں آجاتے ہیں، ہم بھی آجاتے ہیں کہ اب مغرب ہمارے بارے میں کیا کہے گا۔ میرا سینیٹ میں بیان موجود ہے کہ ہجوم کو جج بننے کا حق نہیں ہے۔ ہجوم کو جلاد بننے کا حق نہیں ہے۔ اگر ایک آدمی نے چوری کی ہے تو آپ اس کو پکڑ کر سزا دیں کہ اس نے چوری کی ہے۔ یہ عدالت کا کام ہے۔ ایک آدمی نے اگر قتل کیا ہے تو آپ نے اگر قاتل کو پکڑ لیا ہے تو آپ اس کو قتل نہیں کر سکتے۔ یہ عدالت کا کام ہے لیکن یہ ریاست اور حکومت کا کام ہے کہ وہ خود سینہ تان کر کھڑی ہو کہ عوام اس بارے میں خود کچھ نہ کرے یہ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے وہ ضرور اس کو نبھائے گی۔

عدنان کاکڑ : اس میں جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ ٹرائل کورٹ وغیرہ کے جج خوفزدہ ہوتے ہیں اور وہ عموماً سزائے موت دینے لگے ہیں بے شک الزام ٹھیک ہو یا غلط ہو۔

سراج الحق : نہیں۔ اگر الزام غلط ہے تو اس میں خوف کی ضرورت نہیں ہے۔

عدنان کاکڑ : کیا جماعت جا کر اس کو سپورٹ کرتی ہے، اگر وہ عدالت میں موجود ہوتی ہے یا سوشل میڈیا کے ذریعے اس پر پریشر ڈالتی ہے کہ بے گناہ ہے تو چھوڑا جائے۔ گناہ گار ہے تو اس کو بھرپور سزا دی جائے۔ کیا جج کو یہ سپورٹ ملتی ہے۔

سراج الحق : اس میں کہنا کیا ہے۔ ہم ہزار بار کہہ چکے ہیں کہ جو بے گناہ ہے اس کو چھوڑا جائے۔ جو گناہ گار ہے اس کو سزا دی جائے۔

عدنان کاکڑ : ابھی آپ نے بات کی کہ ہجوم کو جلاد بننے کا حق نہیں ہے۔ کیا کسی بھی معاملے میں یہ اختیار ہے کسی گروہ کو کہ وہ اخلاقی حالت دوسرے پر نافذ کرے، قانون کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے۔ یہ میں اس حق میں پوچھ رہا ہوں کہ جمعیت کے بارے میں پنجاب میں یہ دلیل دی جاتی ہے سب سے بڑی کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سراج الحق : میں آپ کے سوال کا جواب دیتا ہوں کہ کسی بھی تنظیم کو یہ حق نہیں ہے۔ یہ یونیورسٹیوں میں ہو یا یونیورسٹیوں سے باہر ہو۔ کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔ بھئی ادارے موجود ہیں، یونیورسٹیوں میں بھی ادارے موجود ہیں۔ آپ جا کر وہاں شکایت کریں۔

عدنان کاکڑ: یہ تو وہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ چونکہ اس کا سدباب نہیں کر رہی تو اس لیے ہم یہ خود سے کر رہے ہیں۔

سراج الحق : ایک واقعے کو اگر آپ پورے ملک پر چسپاں کرنا چاہیں تو آپ کی مرضی ہے۔ میں اصولی بات کروں گا کہ کسی فرد کو، کسی تنظیم کو عدالت کا اختیار، ریاست کا اختیار استعمال کرنے کا حق نہیں ہے۔

وصی بابا : سراج صاحب اب موضوع بدلتے ہیں۔ جب آپ وزیر خزانہ تھے تو آپ صوبے کے حق کے لیے کسی بھی قوم پرست سے زیادہ مرکز کے ساتھ آپ جھگڑے میں رہتے تھے۔ یہ بتائیں کہ ابھی سی پیک ایک بڑا پراجیکٹ آیا ہے اس میں ہمارے صوبے کے ساتھ کیا زیادتی ہوتی ہے۔ اس پراجیکٹ کے کیا فوائد ہوں گے۔

سراج الحق صاحب : سی پیک کے بارے میں، میں کہوں گا کہ پرویز خٹک صاحب تو خوش ہیں۔ یہ ہماری اپنی تجویز اب بھی ہے کہ ایک تو ہم چاہتے ہیں کہ ایک متبادل روٹ گلگت، چترال اور مالاکنڈ ڈویژن کی سائیڈ پہ ہو۔ اس لیے کہ زیادہ محفوظ ہے۔ اس لیے ہماری تجویز ہے کہ جو ریلوے ٹریک ہے یہ پشاور اور کوہاٹ، کرک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے راستے پر ہو گوادر تک۔ ہماری یہ تجویز ہے کہ قبائلی علاقہ ہمارا ایک بہت بڑا ایریا ہے، سی پیک میں اس کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کو اڈریس کرنا ضروری ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ مانسہرہ سے گڑھی حبیب االلہ کے راستے مظفر آباد بہت قریب ہے۔ اس سے آزاد کشمیر مستفید ہو سکتا ہے اور پھر ہماری تجویز یہ ہے کہ جو اس میں لیبر ہے اور ٹیکنیکل لوگ ہیں تو باہر سے لانے کی بجائے ہمارے اپنے لوگوں کو اس میں استعمال کیا جائے۔ ابھی میں گوادر گیا تھا اور یکم مئی میں نے وہاں مچھیروں کے ساتھ دو دن گزارے۔ اس لیے کہ وہ بے چارے بڑی خراب صورت حال میں ہیں اور وہ آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے ہیں اور ہمیں خطرہ ہے کہ وہ وہاں اقلیت میں تبدیل ہو ں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں کا جو زمین کا بیٹا ہے وہ اس کا اونر رہے۔ اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ سی پیک کے آنے سے جو خواب دکھائے جا رہے ہیں اور زبردست پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے تو اس میں عام آدمی کے لیے بھی خوشی کا انتظام کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے بس ایک راستہ کھل جائے۔

عدنان کاکڑ: سی پیک کا معاہدہ اوپن نہیں کیا گیا ہے ہمیں نہیں پتا آپ کو شاید علم ہو کہ اس معاہدے کے اندر شرائط کیا ہیں۔ کیا یہ چیز آپ کو پریشان کرتی ہے۔

سراج الحق صاحب : ہم پہلے دن سے یہی کہتے ہیں کہ حکومت کی پالیسیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ بالکل دیوار پر نظر آئے کہ یہ معاہدہ ہے۔ ہر ان پڑھ کو بھی پتا چلے اور تعلیم یافتہ کو بھی پتا چلے۔

عدنان کاکڑ :ابھی دہلی میں چینی سفیر نے بیان دیا ہے اور بھارت کو اس میں شرکت کے لیے کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ہم اس کا نام وغیرہ تبدیل کر دیں گے۔ بھارت اگر سی پیک میں شامل ہونا چاہتا ہے تو آپ کے اس پر کیا تحفظات ہوں گے یا آپ اس کو خوش آمدید کہیں گے۔

سراج الحق صاحب : دیکھئے جب تک بھارت کا پاکستان کے ساتھ معاملہ طے نہ ہو اور خاص کر کشمیر کا مسئلہ تو ان کا ہمارے ساتھ کسی پراجیکٹ میں شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے کوئی اور کلبھوشن ہمارے لیے فٹ کیا ہے۔

عدنان کاکڑ: ایک نظریہ یہ بھی ہے اور چینی بھی اس کی تائید کرتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارت اوپن کر لی جائے۔ ہماری جغرافیائی صورت حال یہ ہے کہ ہم اس کے تجارتی راستے کے دہانے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر اس نے سنٹرل ایشیا یا یورپ جانا ہے تو اس نے پاکستان سے گزر کر جانا ہے۔ تو ان کی تجارتی شاہراہ پاکستان سے ہی گزرے گی۔ کیا ٹرانزٹ فیس وغیرہ کی صورت میں بھارت سے تجارتی تعلقات قائم کر کے پیسہ لینا اچھا نہیں ہے؟

سراج الحق صاحب : ایک چین کا مفاد ہے اور ایک ہمارا مفاد ہے۔ ظاہر ہے ملکوں کے درمیان مفادات ہوتے ہیں، دوستی نہیں ہوتی ہے۔

وصی بابا :آپ نے ملکوں کے درمیان مفادات کی بات کی۔ یہ بتائیں کہ مودودی انسٹی ٹیوٹ میں سنکیانگ سے باشندے پڑھنے آیا کرتے تھے اب ہم سی پیک میں چینیوں کے ساتھ ایک بڑے پارٹنر بننے جا رہے ہیں اور خبریں آتی ہیں کہ اسی صوبے میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔

سراج الحق صاحب : دیکھئے بات یہ ہے کہ اگر وہ ہمارے جغرافیے کا احترام کرتے ہیں تو ہم بھی اس کے جغرافیے کا احترام کرتے ہیں۔ ایک بات یہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیشہ ہم نے وہاں کے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ آپ تعلیم میں آگے بڑھیں۔ آپ مسلح جدوجہد کی بجائے اپنی اہمیت میں اضافہ کر لیں تاکہ اس ملک، اس معاشرے میں آپ کو ایک اچھی جگہ مل جائے۔ ہم جب وہاں گئے تھے تو چین کے جو لیڈر تھے ان کو خوئی مسلم کہتے تھے۔

وصی بابا :خوئی قوم اور ہے اور یغور اور ہیں۔

سراج الحق صاحب : خوئی اور یغور کے بجائے آپ ان کو چائنیز مسلم کہیں۔ آپ ان کو چائنیز تسلیم کریں۔ اس لیے جب بھی انہوں نے بغاوت کا راستہ اپنایا ہے ان کو بری طرح کچلا گیا ہے اور ان کو خاصا نقصان ہوا ہے۔ ہم نے ہمیشہ ان کو ایک پرامن انداز میں اپنا کلچر محفوظ کرنا، اپنے دین کو محفوظ کرنا اور تعلیم اور تجارت کے میدان میں ان کو آگے بڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔

وصی بابا :ہم نے دیکھا کہ پاناما ایشو پر آپ لوگ کپتان کے ساتھ سپریم کورٹ گئے۔ پہلے تو ہمیں یہ بتائیں کہ جماعت اسلامی جیسی ایک منظم جماعت جو ہمیشہ اصول اور نظریے کی بات کرتی ہے وہ ان وقتی ایشوز کی بجائے قانون سازی کی طرف کیوں نہیں گئی۔ آپ وقتی پاپولر ایشو میں کیوں فریق بنے اور اسی کے ساتھ ضمنی سوال یہ ہے کہ آپ اس وقت ایک قسم کا ایشو لیس سا محسوس ہوتے ہیں کہ جو چیز زیادہ چل رہی ہے آپ اسی چیز کو اٹھا لیتے ہیں۔ صرف کراچی میں ابھی آپ نے پبلک ایشوز پہ بات کی ہے اور اس کا رسپانس بھی آپ کو اچھا ملا ہے لیکن اوور آل پاکستان میں آپ پاپولر ایشوز کے پیچھے جا رہے ہیں خود آگے ہو کے قیادت نہیں کر رہے۔ ان ساری چیزوں پر آپ کیا کہتے ہیں۔

سراج الحق صاحب : دیکھئے کرپشن کے خلاف پہلا دھرنا تو سب سے پہلے جماعت اسلامی نے 1996 ء میں دیا تھا۔ ہمارے پانچ کارکن بھی شہید ہوئے تھے اور پاناما سکینڈل نہیں آیا تھا کہ ہم نے پاکستان میں کرپشن کی مہم شروع کی۔ ٹرین مارچ کیا، جلسے کیے۔ پریس کانفرنس کیے، سیمینار کیے، بار روم میں گئے، مشاعرے کیے۔ ہم نے کرپشن کے خاتمے کے لیے قانون سازی میں چار بل پیش کیے اس میں نیب کا بارگینگ اختیار ختم ہونا چاہیے۔ نیب کے چیئرمین کی تقرری میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کا اختیار ختم ہونا چاہیے۔ یہی تو اصل میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس میں ہم نے یہ طے کیا تھا کہ کرپشن کو بھی ایک سنگین غداری تسلیم کیا جائے۔ ایسے میں پاناما سکینڈل کا واقعہ ہو گیا تو ساری اپوزیشن نے مل کر کمیشن کا مطالبہ کیا جو حکومت نے نہیں مانا۔ چونکہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کی اکثریت ہے انہوں نے ہمارے بل کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ عمران خان صاحب نے اعلان کیا تھا کہ ہم اسلام آباد کو بند کریں گے، ہماری پارٹی نے سوچا کہ ہم عدالت میں جائیں گے۔ اس لیے ہم سپریم کورٹ گئے۔ ہمارے بعد پھر پی ٹی آئی والے بھی آگئے۔ پھر میری ڈیمانڈ وہی تھی کہ ایک فیئر گیم کے لیے وزیراعظم جب تک کیس چل رہا ہے اپنے اختیارات کو ایکسر سائز نہ کریں تاکہ اس کی شفافیت اپنی جگہ پر رہے۔ کرپشن کے خلاف جماعت کی مسلسل جدوجہد رہی ہے اور اب عدالت میں بھی کیس چل رہا ہے۔

وصی بابا :آپ نے کہا کہ بل بورڈ جب توڑے گئے تو ورلڈ بینک نے پانچ ارب روپے روک لیے۔ آپ وزیر خزانہ رہے۔ آپ بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جب ہم کرپشن پہ ان چیزوں کو ہائی لائٹ کریں گے تو سرمایہ کاری رکتی ہے۔

عدنان کاکڑ: جب جنرل مشرف آئے تھے ادھر، انہوں نے مارشل لا لگایا تھا۔ ایک انہوں نے کام کیا تھا کہ انہوں نے بلیک منی کو پکڑنے کے لیے مہم چلائی تھی۔ اس وقت ان کو روکنی پڑی وجہ یہ تھی کہ فلائٹ آف کیپیٹل شروع ہو گئی تھی۔ ادھر سے لوگ سرمایہ نکال کر باہر لے جانے لگ گئے تھے۔ اس کو روکنے کے لیے جنرل مشرف کو یہ مہم روکنی پڑی تھی۔

سراج الحق صاحب : میں نے آپ سے عرض کیا ناں کہ جماعت اسلامی یہ کوشش کرتی ہے کہ انتخابی کرپشن کا راستہ بھی روکا جائے۔ اس کے لیے میں نے کوشش شروع کی ہے اور سیاسی لیڈروں سے بھی مل رہا ہوں۔ عدالت کے حوالے سے بھی ہم مشورے کر رہے ہیں۔ خیال یہ ہے کہ اس پر مناسب وقت میں، میں کوئی راؤنڈ ٹیبل بھی کر لوں۔

ہم کرپشن کے خلاف ہیں اور کرپشن تو یہ افراد کرتے ہیں ناں جی۔ ہمارا ملک کرپشن کے خاتمے کے بغیر ترقی کر نہیں سکتا۔ ہم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے پنجے میں پھنس گئے ہیں۔ پہلے وہ قرضے دیتے تھے اب وہ قرضے کے ساتھ کنسلٹنٹ بھی بھجوا کر آپ کے دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ ان کا کلرک اور بابو ہوتا ہے یہاں آکر آپ کا کنسلٹنٹ ہوتا ہے اور لاکھوں ڈالر واپس تنخواہوں میں لے جاتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ کیوں؟ تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کرپٹ لوگ ہیں۔ اس کرپشن خاتمہ مہم میں پانچ چھ ہزار لوگ جیلوں میں جائیں تو آپ کو ایک بہتر پاکستان مل سکتا ہے۔ کرپشن کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ غریب پر ہاتھ ڈالیں۔ آپ تبھی ٹھیک ہو سکتے ہیں کہ جب آپ نے آئی جی کو پکڑا تو آپ کی پولیس ٹھیک ہو جائے گی۔ جب آپ نے سیکرٹری کو پکڑا تو آپ کا کلرک ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ نے وزیراعظم کو پکڑا تو آپ کا صوبائی اسمبلی کا ممبر تو کیا کونسلر بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ اور ورلڈ بینک بھی یہ کہتا ہے کہ اپنا پیسہ صحیح استعمال کریں۔ تبھی تو ان کے اب اپنے چوکیدار ہیں جو دفتر میں آپ کو نظر آئیں گے۔

وصی بابا :جماعت اس وقت لیڈ کیوں نہیں کر رہی۔

سراج الحق صاحب : اگر کرپشن کے خلاف لوگ آج بات کرتے ہیں تو یہ جماعت اسلامی کی کامیابی ہے۔ آج چوکوں اور چوراہوں میں ہر زبان پر کرپشن کے خلاف بات ہے تو یہ ہماری کامیابی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض لوگوں کا لاؤڈ سپیکر بہت تیز ہے ہمارا میگا فون اتنا نہیں ہے۔ اب میں کہتا ہوں کہ نظریاتی اور اخلاقی کرپشن بھی خطرناک ہے۔ یہ ملک ٹوٹ جائے گا اگر ہم نظریاتی کرپشن کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔

عدنان کاکڑ: اس میں مسئلہ یہی آتا ہے کہ آپ کے اراکین جو سوشل میڈیا پر موجود ہیں وہ یہ بیان دیتے ہیں کہ لبرل اور سیکولر پاکستان کے غدار ہیں ۔ جب آپ ایسے بیانات آپ کے اراکین کی جانب سے آتے ہیں تو لوگ آپ سے دور بھاگتے ہیں۔ ایک وجہ تو یہ بھی ہے آپ کی جماعت کے ووٹ نہ لینے کی۔

سراج الحق صاحب : ہرمسلمان اپنے آپ کو نہ سیکولر کہتا ہے نہ لبرل کہتا ہے۔ یہ ایک مخصوص چھوٹی سی اقلیت ہے۔ ہر انسان اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے یا وہ غیر مسلم ہے۔ سیکولرازم اور لبرل ازم نہ کوئی مذہب ہے، نہ کوئی دین ہے۔

عدنان کاکڑ: ایک لبرل یا سیکولر سوچ رکھنے والا، وہ مسلمان ہو سکتا ہے یا نہیں ہو سکتا۔

سراج الحق صاحب : مسلمان ہونا یا نہ ہونا یہ انسان کا اپنا فیصلہ ہے۔ وہ اپنے آپ کو سمجھتا ہے تو وہ ہے اگر وہ نہیں سمجھتا ہے تو نہیں ہے۔ لیکن سیکولر اور لبرل جو یہاں لوگ اپنے آپ کو سمجھتے ہیں تو وہ اس کے معنی نہیں سمجھتے ہیں۔

عدنان کاکڑ: صدر اردوان صاحب تو اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں۔

سراج الحق صاحب : دیکھیں ایک ملک میں سیکولرازم آپ کی ضرورت ہے جس طرح بھارت میں، بھارت میں سیکولر کا مطلب ہے کہ اسلام اور دیگر مذاہب کو بھی مقدم سمجھیں، سب کو۔ لیکن پاکستان چونکہ ایک نظریاتی ملک ہے، اس کا قانون، اس کا آئین، دیکھئے ان کی بیوی فنکشن میں نہیں جا سکتی تھی۔ وہ جب وزیراعظم بن رہے تھے تو وہ اس حلف اٹھانے کی تقریب میں نہیں جا سکتی تھی اس لیے کہ ان کے سر پر سکارف تھا۔ وہاں ایک خاتون کو اس لیے اسمبلی سے نکلنا پڑا کہ سپیکر نے کہا کہ یا تو آپ ممبرشپ چھوڑیں یا حجاب اتار دیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سکارف نہیں چھوڑنا چاہتی اس نے ممبر شپ چھوڑا۔ ایک طالبہ کالج سے نکلنا گوارا کرتی ہے لیکن سکارف کو چھوڑنا نہیں چاہتی۔ ہمارے ملک میں تو الحمداللہ آزادی ہے۔ ہم اسی طرح غلام تو نہیں ہیں۔

عدنان کاکڑ: احترام رمضان کا قانون ابھی سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی نے پاس کیا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ ٹھیک ہے۔ کیا روزہ تو ایک انسان اور خدا کے درمیان ڈائریکٹ چیز نہیں ہے۔

وصی بابا :کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ قانون انسان اور تھانیدار کے درمیان کی کوئی چیز بن گیا ہے۔

سراج الحق صاحب : دیکھئے اگر ایک اسلامی ملک ہے یہ تو کوئی ہندوستان نہیں ہے ناں یہ تو اسلامی پاکستان ہے۔ اس میں اگر خدا کے احکامات کو، رسول االلہ ؐ کی شریعت کو عزت اوراحترام دینا پڑے گا۔ اگر کوئی آدمی روزہ نہیں رکھتا ہے اور وہ گھر کے اندر ہے، اس کے گھر میں کوئی مداخلت نہیں کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ باہر آکر اس مقدس چیز کا مذاق اڑانے کی کوشش کرتا ہے کہ آپ مجھے منع کریں میں یہ کرتا ہوں۔ ہاں اگر آپ یہ کہیں کہ میں غیر مسلم ہوں۔ تو پھر آپ کو اجازت ہے آپ اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزاریں کون آپ کو منع کر سکتا ہے۔

عدنان کاکڑ: روزے کے اسلامی احکامات میں چھوٹ بھی دی گئی ہے۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کراچی میں دو سال پہلے ہیٹ ویو آئی تھی اور بہت زیادہ لوگ مرے تھے اس وقت بھی وہاں یہ کہنا پڑا تھا کہ روزہ قضا کر لیں یا چھوڑ دیں۔ میں باہر جا رہا ہوں اور باہر 45۔ 46 ڈگری سنٹی گریڈ ہے اور رمضان ہے ابھی۔ اگر میری حالت خراب ہوتی ہے، شوگر ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے یا پھر مزدور ہیں جو محنت مزدور ی کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کیا کریں گے؟

سراج الحق صاحب : حضرت عمر کے زمانے میں قحط آیاتو انہوں نے چوری کی جو سزا تھی اس کو وقتی طور پر منقطع کیا لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ چوری کو ہمیشہ کے لیے جائز قرار دے دیں کہ یہ تو میرا انفرادی فعل ہے آپ کا اس میں کیا کام ہے۔

عدنان کاکڑ: انہوں نے تو سختی کی وجہ سے ایک سزا کو موقوف کیا جو کہ قرآنی سزا تھی۔

سراج الحق صاحب : اگر آپ ٹریفک قوانین پہ ایکشن تو لیتے ہیں تو خدا اور رسولؐ کے حکم پر کیسے آپ ایکشن نہیں لیتے۔

عدنان کاکڑ: آپ نے ذکر کیا کہ غریب آدمی الیکشن نہیں جیت سکتا کیونکہ یہ سرمائے کا کھیل ہے۔ ترکی میں ایک بہت اچھی چیز ہے کہ سیاسی جماعتوں کو الیکشن لڑنے اور جماعت چلانے کے لیے حکومت فنڈنگ دیتی ہے۔ کیا اس طرح کا کوئی قانون آپ پاکستان میں لانے میں دلچسپی نہیں رکھتے؟

سراج الحق صاحب : میں جو یہ کہتا ہوں ناں کہ میرا میگافون چھوٹا ہے۔ پرسوں جو میری پریس کانفرنس تھی اس میں یہی بات تھی کہ پارٹی کو الیکشن کے لیے اخراجات حکومت دے تاکہ فرد اپنا انویسٹمنٹ نہ کرے جس کو کل واپس لینے کے لیے وہ غلط راستے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن میرا فون چھوٹا ہے اس لیے میری یہ بات آپ تک نہیں پہنچی۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ عام امیدوار کے پاس ٹرانسپورٹیشن کے لیے پیسے نہ ہوں تو وہ اپنا ووٹر نہیں پہنچا سکتا۔ یہی کام حکومت کرے تو ہماری دھاندلی اور کرپشن کم ہو سکتی ہے۔

عدنان کاکڑ: ترکی میں ایک متناسب نمائندگی کا قانون موجود ہے جوکہ براہ راست یہ کہ جتنے آپ کو ووٹ ملے ہیں اسی تناسب سے آپ کو سیٹیں مل رہی ہیں۔ کیا اس طرح کا نظام پاکستان کے لیے موزوں نہیں ہے؟

سراج الحق صاحب : متناسب نمائندگی پر میری کئی دفعہ بات ہوئی ہے پی ٹی آئی کے ساتھ، مسلم لیگ کے ساتھ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ، اور اب بھی ہماری کوشش ہے، جماعت اسلامی کا تو مطالبہ ہی متناسب نمائندگی ہے۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں پچاس فیصد سیٹیں متناسب نمائندگی پہ ہوں اور پھر پچاس فیصد ڈائریکٹلی الیکشن ہوں تاکہ اسمبلی میں فیوڈل اور سرمایہ دار کے علاوہ باصلاحیت لوگ آجائیں۔ وکلا آئیں گے، ڈاکٹر آئیں گے، اچھے کسان آئیں گے، زراعت کے ماہرین آئیں گے، سیاسی ورکر آئیں گے تو ہم ترقی کریں گے۔ اس وقت تو ہر لیڈر یہ پوچھتا ہے کہ آپ کو ٹکٹ دیتا ہوں پہلے آپ یہ بتائیں کہ پارٹی کو کتنا فنڈ دیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ پچاس کروڑ تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں دوسرا آپ سے زیادہ دیتا ہے اور آپ خرچ کتنا کریں گے۔ متناسب نمائندگی ان بیماریوں کا علاج ہے۔ لیکن یہی پارٹیاں کہتی ہیں کہ نہیں ہم تو ہر پارٹی میں ایک جاگیردار کو دیتے ہیں ایک ضلع اس کے behalf پہ دیتے ہیں پھر وہ جانے اور اس کا کام جانے۔ ہمیں تو سیٹ چاہیے۔ میں متناسب نمائندگی کے اس آئیڈیا کو سپورٹ کرتا ہوں ۔

عدنان کاکڑ: اپنے مطالبات منوانے کے لیے جو اسلام آباد میں دھرنے دینے کا رواج ہے۔ کیا آپ اس کو درست سمجھتے ہیں۔

سراج الحق صاحب : غیر قانونی تو نہیں ہے دھرنا ہو، احتجاج ہو، ریلی ہو۔

عدنان کاکڑ: آپ اس کو درست سمجھتے ہیں کہ جماعت نے اس ٹرینڈ کو شروع کیا تھا اور پی ٹی آئی اب اس کو انتہاؤں پہ لے کے جا رہی ہے۔ وہ آپ کی رائے میں درست ہے۔

وصی بابا :غیر قانونی نہیں ہے، وہ تو یہ کہہ رہے ہیں۔

عدنان کاکڑ: غیر قانونی نہیں لیکن ایک ہوتا ہے ناں کہ پبلک اوپینین اور باقی چیزیں جیسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے دھرنے میں ان کے بہت سارے ووٹر الگ ہو گئے تھے۔ جس میں، میں بھی شامل ہوں۔

سراج الحق صاحب : دیکھنا یہ ہے ناں کہ آپ کا مقصد کیا ہے۔ اگر غلط کام کے لیے آپ احتجاج کرتے ہیں اور اس سے عوام کو تکلیف ہوتی ہے لیکن ہمارا جو دھرنا تھا وہ پرامن تھا اور مہذب تھا۔

عدنان کاکڑ: داعش اور طالبان وغیرہ جو ہیں ان کے متعلق آ پ کا کیا مؤقف ہے جبکہ منور حسن صاحب کا ایک مشہور بیان بھی آیا تھا، اس کی تردید میں یعنی پاکستانی فوج کے حق میں آپ کا کوئی بیان آیا ہے جو شہید ہوئے ہیں پاکستانی فوجی۔

سراج الحق صاحب : اس کو باسی سبزی میں کہوں گا آپ پریشان نہ ہوں۔ اس لیے کہ یہ آؤٹ آف ڈیٹ سوال ہے۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستان کے اندر مسلح جدوجہد کی گنجائش اور ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہاں ایک گیٹ موجود ہے تو روشن دان سے داخل ہونا ناجائز ہے۔

وصی بابا: سراج صاحب آپ نے سلیم صافی کے ساتھ پروگرام میں باچا خان کے بڑے ہاتھوں کا جس طرح ذکر کیا اس کو کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں؟

سراج الحق: میں اس پر اظہار ندامت کرتا ہوں مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا اور میں یہ وضاحت پہلے بھی جماعت کے اجتماع میں سرِعام کر چکا ہوں۔

ہم سب ٹیم: آپ کا بہت شکریہ

ختم شد


سراج الحق 1: سیاسی کارکردگی، جمعیت، سیکولرازم، امور خارجہ

سراج الحق 2: افغانستان، ڈیورنڈ لائن، کشمیری جہاد، حقوق نسواں، اقلیتیں

سراج الحق 3: بلاسفیمی، ہجوم کی لاقانونیت، سی پیک، پاناما، سیکولرازم 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments