ہم چنے ہوئے لوگ


انسانیت اور حیوانیت میں فرق صرف معاشرتی بلوغت کاہوتا ہے۔ معاشرتی بلوغت سے مراد رسم و رواج اور اقدار کا ایسا مسلسل ارتقا ہے، جس کے ذریعے وہ اقدار یا رسوم جو انسانی ترقی کیلئے زہر قاتل ہیں ان کا ترک کرنا اور ان اقدار و رسوم کا اپنانا جس سے انسانی ترقی ممکن ہو۔ معاشرتی بلوغت اور ارتقا کے اس عمل پر منتج ہونے کیلئے کسی بھی انسانی گروہ میں درج ذیل کمالا ت کا ہونا ضروری ہے۔

i۔ حقیقی تاریخ کا گہرا ادراک۔
ii۔ انسانی خوشحالی کی حقیقی تحریک۔
iii۔ وجود اور کردار کے بنیادی خصائص کے بارے میں غیر متعصبانہ رویہ۔
iv۔ اقدار کی صحیح اور غلط کو مابعد طبیعاتی اصولوں کے بنا پر جانچ کی بجائے انسانی خوشحالی اورامن کی بنیاد پر جانچ۔

رسم و رواج بنیادی طور پر ’وجود‘ کے ممکنات میں یعنی وجود اپنے ممکنات کی تشکیل میں رسم و رواج اور اقدار کا مرہون منت ہے اور ہر زمانہ (Time) ’وجود‘ کو نئے اور منفرد ممکنات سے دو چار کرتا ہے، تو اگر ان وجودی ممکنات کے بارے میں ایک غیر متعصبانہ، خوشحالی سے بھر پور اور خالصتاً انسانی رویہ رکھیں گئے تو انسانی شخصیت ممکنہ وجودی کمالات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ اور اگر ان کے بارے میں ہم ایک متعصبانہ اور مابعد طبیعاتی رویہ رکھیں گے تو ہم ہر روز ایک نئے حادثے سے دوچار ہوں گے۔

تین سالہ ثبات کا ذہن صحیح اور غلط کی منطق سے پاکیزہ تر ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک روایت پسند (مگر پڑھے لکھے) والدین کی اولاد ہے مگر اس کا زیا دہ تر وقت ایسے شخص کے ساتھ گزرا ہے جو وجود کی تما م ممکنات کو اپنی ذات کا اثاثہ سمجھتا ہے۔ اس نے اپنی بیٹی کو اس اثاثے میں شریک کیا۔ زندگی کی یہ شراکت داری ایک بنیادی اصول پر قائم تھی کہ وہ بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسان ہے ایک مکمل آزاد انسان اور وہ بہت خوش تھا۔ مگر یہ خوشی محض ایک خوش فہمی ہی تھی۔

ہوا یوں کہ ثبات (تین سالہ ثبات) گاوں کی مسجد میں جا پہنچی۔ سب نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ گاوں کی سب سے بڑی بچی نے اسے اپنے ساتھ بٹھا یا، وہ خو ش تھی۔ مگر چند منٹوں کے بعد وہ روتی چلاتی گھر آ پہنچی جب اسکی دادی نے پوچھا کہ وہ اتنی جلدی گھر کیوں آگئی تو پتہ چلا کہ مولوی صاحب نے اسکو مسجد سے اس وجہ سے نکال دیا ہے کہ وہ پیمپر لئے ہوئے ہے اور پیمپر سمیت مسجد میں جانا حرام ہے۔ ذرا سوچئے ایک وہ لوگ ہیں جنہوں نے پیمپر ایجاد کر کے ماں اور بچے کے تعلق میں ایک نئی جہت روشناس کی اور ایک ہم جو پیمپر کو حرام سمجھتے ہیں اور ہمار ا دعویٰ ہے کہ ہم چنے ہوئے لوگ ہیں اور چنے ہوئے لوگوں کا معاشرتی ارتقا سے کیا لینا دینا۔ ہم تو بس تاریخی حکم کے ازلی غلام ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).