ایک شخص نے تنِ تنہا ایٹمی بحران روک دیا


1988 میں تائیوان ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ گیا تھا جب ایک فوجی سائنسدان نے امریکہ فرار ہو کر منصوبہ افشا کر دیا۔ یہ اس شخص کی کہانی ہے جس کا اصرار ہے کہ اس نے اپنے ملک کو بچانے کے لیے اس سے غداری کی۔ تائیوان میں آج بھی بہت سے لوگ چانگ ہسیئن یی کو غدار سمجھتے ہیں، لیکن انھیں اس پر پچھتاوا نہیں ہے۔ انھوں نے امریکی ریاست آئیڈہو میں اپنے گھر میں بی بی سی کو بتایا کہ ‘اگر مجھے موقع ملا تو دوبارہ یہی کروں گا۔’

سابق کرنل چانگ 1988 سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ انھوں نے اس واقعے کے بعد پہلی بار تفصیلی انٹرویو میں اس بارے میں بتایا ہے۔ تائیوان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعلقات تھے لیکن امریکہ کو اچانک پتہ چلا کہ تائیوان خفیہ طور پر ایٹم بم بنا رہا ہے۔ تائیوان کا حریف چین تھا جس کے پاس 1960 کی دہائی ہی سے ایٹم بم موجود تھے۔ تائیوان کو خطرہ تھا کہ کہیں یہ بم اس پر نہ استعمال کر دیے جائیں۔

تائیوان اور چین 1949 کی خانہ جنگی کے دوران جدا ہوئے تھے اور چین آج بھی تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ امریکہ کو خدشہ تھا کہ اگر تائیوان نے ایٹم بم بنا لیا تو خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ اس لیے انھوں نے خفیہ طریقے سے چانگ کی خدمات حاصل کیں تاکہ تائیوان کے ایٹمی پروگرام کو روکا جا سکے۔

چانگ 1980 کی دہائی کے اوائل میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے میں شامل ہوئے۔ اس وقت وہ تائیوان کے انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر ریسرچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ وہ تائیوان کے چوٹی کے ایٹمی سائنسدان تھے اور اس حیثیت سے پرتعیش زندگی گزار رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ 1986 میں چرنوبل کے تباہ کن حادثے کے بعد وہ اس کشمکش میں پڑ گئے کہ آیا تائیوان کو ایٹمی ہتھیار بنانے چاہییں یا نہیں۔ وہ اس امریکی دلیل کے قائل تھے کہ ایٹمی پروگرام روکنا امن کے لیے ضروری اور چین اور تائیوان دونوں کے مفاد میں ہے۔ چانگ کہتے ہیں ‘یہ میرے مزاج کے عین مطابق تھا۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ تھی کہ انھوں نے میرے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوششیں کیں۔’

اگلا مرحلہ ان کے اور ان کے خاندان کو بحفاظت ملک سے نکالنا تھا۔ اس وقت فوجی اجازت کے بغیر تائیوان سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔ اس لیے پہلے چانگ نے اپنی بیوی اور تین بچوں کو چھٹیاں منانے جاپان بھیجا۔ ان کی بیوی چانگ کہتی ہیں کہ انھیں اپنے خاوند کی دہری زندگی کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ ‘انھوں نے مجھے بتایا کہ یہ میرا امتحان ہے کہ میں کتنی آسانی سے تائیوان سے باہر جا سکتی ہوں اور ساتھ کتنا سامان لے جا سکتی ہوں۔’ مسز چانگ آٹھ جنوری 1988 کو بچوں کو لے کر ٹوکیو روانہ ہو گئیں۔

اس کے اگلے ہی روز چانگ سی آئی اے کے دیے ہوئے جعلی پاسپورٹ پر امریکہ چلے گئے۔ سابقہ رپورٹوں کے برعکس وہ اپنے ساتھ کوئی دستاویزات نہیں لے کر گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں ‘امریکی حکومت کے پاس پہلے ہی سے تمام شواہد موجود تھے۔ وہ صرف کسی شخص کی طرف سے اس کی تصدیق چاہتے تھے۔’ اسی دوران ٹوکیو میں ان کی اہلیہ کو ایک عورت نے چانگ کا خط دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ان پر انکشاف ہوا کہ ان کے شوہر سی آئی اے کے جاسوس ہیں اور وہ ملک چھوڑ کر امریکہ چلے گئے ہیں۔

‘خط میں لکھا تھا کہ آپ دوبارہ کبھی تائیوان نہیں جائیں گی اور جاپان سے امریکہ جائیں گی۔ میرے لیے یہ حیران کن بات تھی۔‘ چانگ اور ان کی اہلیہ بیٹی چانگ کو امریکہ پہنچنے کے بعد ایک خفیہ مقام پر رکھا گیا۔ ان کی اہلیہ جن کا نام بیٹی ہے بتاتی ہیں کہ ‘میں روتی رہی کہ میں کبھی دوبارہ تائیوان نہیں جا سکوں گی۔’ وہ بچوں سمیت جہاز میں بیٹھیں اور امریکی شہر سیئیٹل پہنچ گئیں جہاں چانگ ہوائی اڈے پر ان کا انتظار کر رہے تھے۔ بعد میں چانگ کو ریاست ورجینیا میں ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا کیوں کہ خدشہ تھا کہ تائیوانی جاسوس یا پھر محب وطن شہری انھیں قتل کر سکتے ہیں۔

ایک ماہ کے اندر اندر امریکہ نے چانگ کی فراہم کردہ معلومات استعمال کرتے ہوئے تائیوان پر دباؤ ڈال کر اس کا ایٹمی پروگرام بند کروا دیا۔ اس وقت اندازے کے مطابق تائیوان ایٹم بم کی تیاری سے صرف ایک یا دو برس دور تھا۔ چانگ نے عشروں تک چپ سادھے رکھی۔ تاہم اب وہ ریٹائر ہونے کے بعد اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک کتاب لکھی ہے۔

اس کتاب کی اشاعت کے بعد تائیوان میں بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا جو چانگ نے کیا وہ تائیوان کے لیے ٹھیک تھا یا نہیں۔ بعض لوگ ان کی تعریف کر رہے ہیں کہ انھوں نے ملک کو ایٹمی جنگ چھڑنے سے بچا لیا۔ تاہم بہت سے ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ تائیوان کو دفاعی ہتھیاروں سے محروم کرنے کے دمہ دار ہیں۔ تائیوان کی حکمران جماعت ڈی پی پی سرکاری طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خلاف ہے۔ تاہم وہ بھی چانگ کے اقدامات کے بارے میں منفی نقطۂ نظر رکھتی ہے۔

چانگ کا اصرار ہے کہ اس وقت کے جوشیلے سیاستدان ایٹمی ہتھیار استعمال کر کے چین پر قبضہ کرنے کی کوشش کر سکتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت بھی تائیوان میں ایسے سیاستدان موجود ہیں جو چین سے اپنی خودمختاری کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

چانگ کے فرار کے بعد انھیں بھگوڑا قرار دے دیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کا وارنٹ 2000 میں زائد المیعاد ہو گیا لیکن وہ پھر بھی تائیوان واپس نہیں آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں افسوس ہے کہ وہ اپنے والدین کے انتقال پر ملک نہیں آ سکے۔ وہ کہتے ہیں ‘تائیوان سے محبت کے لیے تائیوان میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ میں تائیوان سے محبت کرتا ہوں۔ ‘میں تائیوانی ہوں، میں چینی ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ خلیجِ تائیوان کے دونوں طرف کے بسنے والے چینی ایک دوسرے کو ہلاک کریں۔’

)سنڈی سوئی(


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp