ایٹمی دھماکوں کے بعد۔ ۔ ۔


انیس برس قبل 28 مئی 1998ء کو چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکوں کے بعد ہمارا شمار دنیا کی ایٹمی طاقتوں میں ہونے لگا۔ پوری قوم نعرے لگاتی اور بھنگڑے ڈالتی ہوئی سڑکوں پر نکل آئی۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہم اب ناقابلِ تسخیر ہو گئے ہیں۔ ہماری جانب آنکھ اٹھانے کی جرات تو خیر دشمن نے پہلے بھی کبھی نہ کی تھی بس یہی ہوا تھا کہ وہ ہمارے ایک حصے پر قابض ہونے کے بعد ہمارے 90 ہزار فوجیوں کو قیدی بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ لیکن یہ اس وقت کی بات تھی جب ہم ایٹمی طاقت نہیں تھے۔ اگرچہ ایٹمی طاقت تو اس وقت ابھی دشمن بھی نہیں بنا تھا لیکن ہم نے ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر کبھی توجہ ہی نہیں دی۔ سو ایٹمی قوت بننے کے بعد ہم نے خوب جشن منایا اور جشن منانا ضروری بھی تھا۔ قوتِ اخوتِ عوام کے بے معنی نعرے کے سہارے زندگی گزارنے والوں کو معلوم ہوا کہ ایٹمی قوت کے سامنے قوتِ اخوتِ عوام کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ ہم نے چاغی کے ماڈل بنا کر سڑکوں پر سجائے،جا بجا غوری میزائل ایستادہ کئے۔ بھارت کو کچل دینے کے عزم کے ساتھ 1999ء میں ہم نے پہلا یومِ تکبیر منایا۔ آج اٹھارہ برس بعد محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا فسانہ تھا۔

ہم جو ناقابلِ تسخیر قرار دئے گئے تھے ایٹم بم کے ’’مالک‘‘ ہونے کے باوجود تسخیر ہو چکے ہیں۔ 19سال قبل جب ایٹمی دھماکے ہوئے تو ہم میں سے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایٹمی قوت بننے والی یہ قوم چند ہی برس بعد برقی توانائی سے بھی محروم ہو جائے گی۔ آج ہمیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے۔ ہماری فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔ دریا خشک ہو چکے ہیں۔ زراعت مشکلات کا شکار ہے،گیس کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں ، پینے کا صاف پانی میسر نہیں، لیکن صد شکر ہم ایٹمی قوت ہیں۔ انیس برس قبل جب ہم نے ایٹمی دھماکے کئے تو ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ چند ہی برسوں میں ہمارے گلی کوچے دھماکوں اور ان کے نتیجے میں آہوں سسکیوں اور چیخ و پکار سے گونجنے لگیں گے۔ ہم اس وقت کسی داخلی خطرے کا شکار نہیں تھے۔ ایٹم بم ہم نے دشمن کے مقابلے کے لئے بنایا اور ہمیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ مقابلے میں تو ہمارے اپنے لوگ ہی آ رہے ہیں اور خود بم بن کے آرہے ہیں۔ ایٹم بم کے ذریعے ہم خود کش بموں کا مقابلہ کیسے کریں گے یہ ہم نے نہ اس وقت سوچا نہ آج سوچنے کی زحمت کر رہے ہیں۔

بم ہم نے خارجی خطرات سے نمٹنے کے لئے بنایا لیکن آج محسوس ہوتا ہے کہ خارجی محاذ پر بھی ہم ایٹم بم بنانے سے پہلے ہی محفوظ تھے۔ اگرچہ ہم ایٹمی طاقت بننے سے پہلے بھی دو جنگیں ہار چکے تھے لیکن وہ جنگیں ہم بڑے باوقار طریقے سے ہارے تھے۔ یہ جنگیں ہم سرحدوں پر ہارے تھے۔ دشمن کے ساتھ ہم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہمارے جوان شہید ہوئے اوردشمن کو جانی و مالی نقصان بھی پہنچایا۔ اُس وقت دشمن کو ہماری سرحدیں پامال کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد نوبت یہاں تک پہنچی کہ دشمن اب ہماری سرحدیں پار کرتا ہے اور ہمارے علاقوں میں بمباری کر کے واپس چلا جاتا ہے ، وہ ایبٹ آباد میں آ کر اپنے مطلوبہ دہشت گرد اسامہ بن لادن کو موت کے گھاٹ اتار کر واپس چلا جاتا ہے ، ہم بے خبر رہتے ہیں۔ لیکن صاحب اس میں ملال کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہمارے لئے یہ اعزاز کیا کم ہے کہ ہم اب ایٹمی طاقت بن چکے ہیں۔

لیکن صاحب یہ تو بہت بعد کی باتیں ہیں۔ انیس برس بعد کی صورتِ حال ہے۔ ایٹم بم تو 1999ء کے کارگل معرکے میں بھی ہمارے کام نہ آ سکا تھا۔ ممکن ہے آپ کو یاد نہ ہو ہم یاد کرائے دیتے ہیں کہ جب ہم 1999ء میں یومِ تکبیر کے نام سے ایٹمی دھماکوں کی پہلی سالگرہ منا رہے تھے اور ملک بھر میں سرکاری سطح پر جشن منایا جا رہا تھا عین انہی دنوں میں ہماری افواج کارگل کے معرکے میں مصروف تھیں۔ یہ ساری مہم جوئی اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو علم میں لائے بغیر کی گئی۔ مئی کے آغاز میں شروع ہونے والی یہ جھڑپیں جب باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کر گئیں تو ایٹمی ملک کے سربراہ نواز شریف جنگ بندی کے لئے امریکی مدد حاصل کرنے کی غرض سے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ جولائی میں امریکا پہنچے۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے مشیر رائیڈل کے بقول نواز شریف اپنے اہلِ خانہ کو اس لئے واشنگٹن لے کر گئے تھے کہ انہیں خطرہ تھا کہ اگر وہ جنگ بندی نہ کرا سکے تو ان کی وطن واپسی ممکن نہ ہو گی۔ نواز شریف کی جان بخشی کرانے کے لئے سعودی شہزادے بندر بن سلطان پہلے ہی واشنگٹن میں موجود تھے۔ ایٹمی ملک کے سربراہ نے کلنٹن سے دست بستہ معافی مانگی اور یوں ہمیں اپنی فوجیں لائن آف کنٹرول پر لانے کی اجازت ملی۔ جشنِ تکبیر کے نشے میں چور پاکستانی قوم کو اس روز پہلی بار احساس ہوا کہ جس ایٹم بم کو ہم اپنی بقا کی ضمانت سمجھتے تھے وہ تو اس جنگ میں ہمارے کام ہی نہیں آ سکا۔ ہمیں ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اپنے آقا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا۔

ابھی تو بہت سے تماشے باقی تھے۔ ابھی تو ایٹمی دھماکوں کے ہیرو کو اپنے جرائم کا اعتراف بھی کرنا تھا۔ 28 مئی 1998ء کو قوم ایٹمی سائنسدان عبدالقدیر خان کی تصاویر اٹھا کر سڑکوں پر جشن منا رہی تھی لیکن جشن منانے والوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ جس قدیر خان کی تصاویر اُٹھا کر وہ سڑکوں پر رقص کر رہے ہیں وہ ایک روز خود ٹیلی ویژن پر آ کر اعلان کرے گا کہ لوگو میں تمہارا ہیرو نہیں مجرم ہوں۔ یہ لمحہ 4 فروری2004ء کو آیا۔ انسانیت کی موت کا سامان بنا کر ہیرو قرار پانے والے ڈاکٹر قدیر نے ایٹمی راز فروخت کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے اپنے کئے کی معافی مانگی۔ صدرِ مملکت نے ہیرو کے اعترفِ جرم پر اسے معاف کر کے گھر پر نظر بند کر دیا۔ چند برس بعد عدلیہ نے ہیرو کو آزاد کر دیا۔ اب ہمارا ہیرو ایک بے ضرر سا کالم نگار بن چکا ہے۔

ثابت کیا ہوا؟

ثابت کچھ بھی ہو ہم تو یہی کہیں گے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد ہم پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔

(بشکریہ: گردو پیش ملتان)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).