محترم ساحر لودھی کچھ آداب میزبانی بھی سیکھ لیں!


رمضان جو کہ پہلے رحمتوں اور برکتوں کی وجہ سےجانا جاتا تھا، پچھلے کچھ چند برسوں سے ہمارے ٹی وی چینلز کی مہربانی سے اس بابرکت مہینے کو ایک نئی پہچان مل گئی ہے اور اب اس ماہ مبارک کی آمد کے ساتھ ہی، مختلف ٹی وی چینلز پر مختلف مختلف انداز کی نوٹنکی پیش کی جاتی ہے۔ چند سال پہلے رمضان ٹرانسمیشن کا آغاز نیلے پیلے چینل سے اب نیلے پیلے چینل کو کوسنے والے ہمارے محب وطن ڈاکٹرصاحب نے کیا تھا، اب تقریباً ہر نجی چینل پر رمضان ٹرانسمیشنز پورا ماہ زور و شور جاری رہتی ہیں۔ دوپہر 3سے کررات 8 تک اور رات 1 سے لے کر صبح 4 تک کوئی بھی نجی چینل لگالیں مجال ہے کسی چینل پر آپ کو خوش شکل اورخوش باش اینکر حضرات نور برساتے ہوئے نظر نہ آئیں۔

رمضان ٹرانسمیشنز ٹی وی چینلز کے لیے ایک کاروبار ہے اور وہ کاروبار جس سے پیسہ نہ آئے تو فائدہ اسے کاروبارکا؟ اورپیسہ تو ریٹینگ سے ہی آتا ہے اب جب مقابلہ اتنی کثیر تعداد میں چینلز کے درمیان ہو تو وہ مقابلہ جنگ کی صورت اختیار کر لیتا ہ اور محبت اور جنگ میں توویسی ہی سب جائز ہے تو بھر جب سب جائز ہے تو ریٹنگ کے لیے کسی کے منہ میں آم ٹھونسے پڑیں یا کسی کو اپنے پروگرام میں ہونے والی تقریری مقابلے کے دوران روک کر اس کی تذلیل کرنی پڑے تو وہ بھی کریں کیوں کے ریٹینگ کی دوڑ میں تو سب جائز ہے۔

لگتا ہے محترم ساحر لودھی اپنی فلم کے ریکارڈ توڑ کاروبار کی خوشی میں اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں کہ انہیں اداب میزبانی بلکل بھول چکے ہیں۔ پہلے روزے والے دن میں جب افطاری کے انتظار میں ٹی وی کےآگے بیٹھ کر افطار کا انتطار کر رہی تھی تو میں نے چینل بدلتے ہوئے ایک نجی چینل پر ساحر لودھی کو چیختا ہوا پایا، معلوم ہو ہورہا تھا جناب کسی بات پر برہم ہیں میں نے تجسس میں ریموٹ سائیڈ پر رکھا اور لگی سننے، ان کی گفتگو کے دوران قائداعظم  کا ذکر بار بار بار آرہا تھا اور وہ اپنی سامنے بیٹھی آڈینس کو چیخ چیخ کر قائداعظم کی عظمت کا یقین دلوا رہے تھے، گفتگو کے دوران وہ سامنے کھڑی لڑکی سے مخاطب ہو رہے تھے میں نے بھی سوچا کہ اس لڑکی نے ہمارے قائد کی شان میں ایسی کیا گستاخی کر دی کہ محترم ساحرصاحب اتنا لال پیلے ہو رہے ہیں۔

میں پروگرام کی ویڈو یو ٹیوب پر اپلوڈ ہونے کا انتظار کرنے لگی، کچھ گھنٹوں بعد جب پورے پوگرام کی ویڈیو یو ٹیوب پراپلوڈ ہوئی تو پورا واقعہ شروعات سےدیکھا، جس لڑکی پر سحر لودھی برہم تھےوہ ڈاؤ یونیوسٹی کی طلبہ صبا رضوان تھیں، جو پروگرام میں ہونے والے تقرری مقابلے کا حصہ تھیں۔ صباء نے اپنی تقریر میں قائد پاکستان کو کیا کہا آپ خود ہی پڑھ لیں۔

تقریرر کا موضوع تھا” میرے آواز سارے زمانے کی صدا ہے” جس کی مخالفت میں صبا کو تقریر کرنے کا کہا گیا۔ صبا کی تقریر کچھ یوں تھی،

“عزت نفس کسی شخص کی یہاں مخفوظ نہیں، اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگتا ہے، ڈنکے کی چوٹ پر ظالم کو برا کہتی ہوں، مجھے سولی سے نہ زندانوں سے ڈر لگتا ہے، صدر اعلیٰ وقارموجودہ قرارداد میری آواز سارے زمانے کی صدا ہے میں سے مراد اس ملک کی باون فیصد خواتین اور میری آواز سےمراد ہم پر کئےجانے والا ظلم اورجبر، میں آج بھی اس معاشرے سے تعلق رکھتی ہوں جہاں عورت کو کم تر اور حقیر سمجھا جاتا ہے،جہاں ہماری آواز کو دبا دیا جاتا ہے، تو کیا یہ ہماری آواز زمانے کی آواز ہے؟ نہیں بالکل نہیں۔ میں عافیہ صدیقی ہوں جسے راتوں رات امریکہ منتقل کر دیا جاتا ہے، بے تحاشا مظالم ڈھائے جاتے ہیں خود مظلوم ہونے کے بعد بھی ظالم ہونے کا الزام سہنا پڑتا ہے۔ میں خدیجہ صدیقی ہوں جس پر دن دیہاڑے 23 چاقو کے وار ہوتے ہیں، میں در در ٹھوکریں کھاتی ہوں انصاف کی بھیک مانگتی ہوں، لیکن انصاف نہیں ملتا تو منطقی اعتبار سے تو یہ قرارداد اسی وقت مسترد کی جاتی ہے، کہ میری آواز زمانے کی صدا ہے۔ اگر اس ایوان میں بیٹھا کوئی ایک شخص بھی اٹھ کریہ کہہ دے کہ میں غلط ہوں تو میں یہاں کی بجائے وہاں ہوں گی، میں اس مملکت میں رہتی ہوں کہ جہاں مجھ پر ظلم و جبردورجہالیت سے ہوا کبھی زندہ دفن کردیا گیا کبھی قرآن سےشادی کر دی گئی، کبھی دو چار کتابیں پڑھ جانے کے عوض ظلم ستم سہنا پڑا۔ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ برابری کا زمانہ ہے آرے کیسی برابری کہاں کی برابری اگر میں آج بھی نوکری کرنا چاہوں یاں اپنے گھر کی کفالت کرنا چاہوں تو اس درندہ نما  معاشرے کی بھینٹ چڑھنا پڑتا ہے۔ میں اس قوم کی ہر وہ بیٹی ہوں جو چند پیسے کمانے کے لیے گھر سے نکلتی ہے اس کی عزت و حرمت کا سودا ہوتا ہے میں قندیل بلوچ ہوں جسے عزت و حرمت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے، میں سارہ ریاض ہوں جسے پسند کی شادی کرنے پر تیزاب سے جھلسنا پڑتا ہے۔ ارے میں دیہات کی وہ معصوم آٹھ سالہ بچی ہوں جسے چند پیسوں کے عوض 80 سالہ بوڑھے سے شادی کرنا پڑتی ہے، تو دل سے ایک ہی آواز نکلتی ہے کہ میری آواز زمانے کی صدا نہیں ہے اورایک ہی شخص کو پکارنے کا دل کرتا ہے کہ چور، لٹیرے قاتل سارے شہر کے چوکیدار ہوئے ہیں، حواس کے متوالے بھی دھرتی کے حقدار ہوئے ہیں کوئی نہیں یہ دیکھنے والا، کوئی نہیں یہ پوچھنے والا کن ہاتھوں میں سونپ گئے تم قائد جان سے پیارا پاکستان، قائداعظم آؤ ذرا تم دیکھو اپنا پاکستان۔ یہ وہ ملک ہے کہ جہاں کبھی کسی عورت کو قتل کر دیا جاتا ہے تو کبھی اس کی عزت سے کھیلا جاتا ہے۔۔۔۔۔

اور یہاں اس مقررہ کو محترم نے روک کر اپنی تقریرمیں قائد اعظم کو برا بھلا کہنے پر خوب ڈانٹا،جب صبا نے یہ کہنا چاہا کہ انہوں نے دارصل قائد کو کچھ نہیں کہااور ان کا مطلب تھا کہ اگر وہ ہوتے تو ملک کا یہ حال نہ ہوتا اور تقریر کے اختتام پر صبا نے اپنی تقریر پوری کرنے کا مطالبہ بھی کیا مگر حضور کو غصہ کچھ زیادہ تھا انہوں نے صبا کی بات پردھیان نہیں دیا۔ مجھے محترم کی نیت پر کوئی شک نہیں انہوں نے یقیناً یہ سب ریٹنگ کے چکر میں نہیں بولا ہوگا مگر کسی کو اپنے پروگرام میں بلا کر اس کی تقریر کو درمیان میں ہی روک کر اس کی تذلیل کرنا اور اسے اپنے تقریر پورا نہ کرنے دینا اخلاقیات کے منافی ہے، ساحر لودھی اور دیگر رمضان ٹرانسمیشنز کے اینکرز کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ریٹنگز کی خاطر آپ اپنے پروگرام میں مہمانوں کو مدعو کر کےانہیں یوں تذلیل کا نشانہ نہیں بنا سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).