مدیر اعلٰی اردو لغت بورڈ، نامور محقق اور شاعر عقیل عباس جعفری سے مکالمہ (1)


س۔ آپ نے تعلیم تو انجنئیرنگ کی حاصل کی لیکن نام ادب و تحقیق کے میدان میں کمایا تو انجنئیرنگ کا طالب علم ایک اعلٰی پائے کا محقق، شاعر اور نثر نگار کیسے بنا؟

ج۔ زمانہ طالب علمی میں کوئز پروگرام میں حصّہ لیا کرتا تھا اُن کوئز پروگرام میں، میں نے بہت سے اس زمانے میں انعامات جیتے جیسے نیلام گھر سے موٹر سائیکل جس کا شمار اس زمانے میں بڑے انعامات میں ہوتا تھا۔ یہ بات 70 کی دھائی کی ہے۔ پھر کوئز کے زمانے میں ہی مجھے شوق ہوا کہ میں چیزوں کی تہہ تک پہنچوں اور بجائے اس کے کہ رٹے رٹائے سوالات اور ان کے جوابات کو سچ جانوں تو بہت ساری چیزیں اسی مطالعے کے دوران سامنے آئیں کہ جیسے کہا جاتا ہے کہ ایڈیسن نے بجلی کا بلب ایجاد کیا تو پتہ چلا کہ بجلی کا بلب تو کسی اور نے ایجاد کیا تھا۔ ایڈیسن نے ایک Improvement  کی تھی جس کی وجہ سے وہ ایڈیسن سے منسوب ہو گئی تھی۔ تو اس طرح سے بہت ساری چیزوں کی تہہ تک پہنچنے کا موقع ملا اور پھر آہستہ آہستہ میں نے ان موضوعات پر لکھنا بھی شروع کیا اور جو مجھے APNS ایوارڈ ملا ہے وہ بھی ایسے ہی ایک موضوع پر میں نے ایک فیچر لکھا تھا کہ لفظ ”پاکستان“ کا خالق کون ہے؟ سب لوگوں کے علم میں ہے کہ چوہدری رحمت علی نے سب سے پہلے اپنے کتابچے Now Or Never میں یہ لفظ استعمال کیا لیکن اس سے پہلے 1928ءمیں ایک صاحب اسی نام سے ایک ڈیکلیریشن داخل کرا چکے تھے ایک اخبار کے لئے تو اوّلیت کا سہرا ان کے سر ہوا۔ تو میں نے جب فیچر اس پر لکھا پورا اور ان کی تصویر بھی لگائی اور سارےDocumentsلگائے تو اس پر مجھے APNS کا ایوارڈ ملا اور پہلا صحافی کہہ لیں آپ مجھے جس نے فری لانسر کے طور پر یہ ایوارڈ حاصل کیا ورنہ عام طور پر یہ جو فیچر رائٹر کا ایوارڈ ہوتا ہے وہ جو ان کے اپنے In House صحافی ہوتے ہیں انہی کو ملتا ہے تو یہ بھی اللٰہ کا شکر ہے کہ میرے اس طرح کے کاموں کو پذیرائی ملی اور اس پر اعزازات بھی ملے تو یہ سلسلہ وھاں سے شروع ہوا تھا جب میں نے کوئز پروگرام میں حصہ لینا شروع کیا تھا Academic Researchجسے کہتے ہیں وہ ہوتی ہے عام طور پر ادبی موضوعات پ۔ ایک دفعہ مجھ سے مشفق خواجہ صاحب نے کہا جو میرے اُستاد تھے کہ اگر آپ مرمت خان مرمت پربھی پی ایچ ڈی کر لیں تو آپ کو زیادہ پذیرائی ملے گی لیکن آپ نے جو موضوع منتخب کیا پاکستان کا یہ زیادہ مشکل موضوع ہے اور اس کو ادبی نقاد جو ہیں وہ کسی خانے میں فٹ نہیں کرتے اور اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ لیکن آپ اپنے اسی شعبے میں رہیں۔ کیونکہ اس شعبے میں کام بالکل نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں بالکل آپ کو ایڈوائس نہیں کروں گا کہ آپ ادبی تحقیق کی طرف آئیں حالانکہ میں نے ادبی حوالے سے بھی تحقیق کی ہے لیکن میرے زیادہ تر جو پسندیدہ موضوعات ہیں وہ یہی پاکستانی موضوعات ہیں اور یہی میرا میدان ہے۔

س۔ آپ نے اپنی تحقیق کے ذریعے بہت سی تاریخی غلطیوں کی تصیحح کی جس کو ابھی تک کوئی چیلنج نہیں کر سکا لیکن ان اہم تصیحح شدہ واقعات کو تسلیم کیوں نہیں کیا گیا؟

ج۔ دیکھئے جیسے وہ 14اگست اور 15 اگست کی جو بحث تھی اس کے آخر میں تو میں نے خود بھی لکھا تھا کہ میں بھی نہیں چاہوں گا کہ پاکستان کا یوم آزادی  14 کی بجائے 15 اگست کو منایا جائے کیونکہ جب پاکستان کا پہلا یوم آزادی 1948ئ میں آیا تو یہ سوچا گیا کہ کب منایا جائے۔ وہ پوری ایک تفصیل ہے اس کی بہت زیادہ کہ پھر یہ معاملہ Cabinet Meeting میں پیش ہوا کہ 15 کی بجائے 14 کو منائیں تو وزیراعظم نے لکھا کہ میں یہ فائل جو ہے گورنر جنرل کو بھیج رہا ہوں یعنی قائد اعظم محمد علی جناح کو اور پھر جب قائد اعظم نے اس کی منظوری دے دی تو میں نہیں سمجھتا کہ میں کہوں کہ جی اس کو 14 اگست کو منایا جائے ویسے بھی آپ کو پتا ہے کہ 15 کو بھارت اپنا یومِ آزادی مناتا ہے۔ تو وہ تو میں خود نہیں چاہتا کہ 14 کی جگہ 15 اگست کو منایا جائے لیکن ایک صرفCorrection ہے یہ کہ اس کی وجہ سے ہماری بہت ساری چیزیں درست ہو جاتی ہیں۔ بلکہ آپ حیران ہوں گے کہ ایک صاحب نے جو منجم تھے میرا وہ فیچر پڑھا اور پھر وہ میرے گھر بھی آئے اور انہوں نے کہا کہ میں وہ ساری چیزیں دیکھنا چاہتا ہوں جو آپ نے Quoteکی ہیں اس میں۔ میں نے ان کو وہ دکھائیں۔ کہنے لگے کہ میں نے اصل میں پاکستان کا زائچہ بنایا تھا۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد جو واقعات پیش آئے وہ زائچے پر منطبق نہیں ہو رہے تھے جب میں نے آپ کا فیچر پڑھا تو 15 اگست کو ذہن میں رکھ کر دوبارہ زائچہ بنایا اور یہ فرض کیا کہ اگر ایک بچہ کراچی میں 15 اگست1947 کی رات 12 بجے پیدا ہو تو اس کے کیا حالاتِ زندگی ہوں گے ؟اس کو جب منطبق کیا پاکستان پر تو ہو بہو وہ ہی واقعات ہوئے۔ تو یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس تحقیق کاایک پہلویہ بھی ہے۔ میں اس لئے چاہ رہا تھا کہ یہ بات جو ہے ناں وہ Correctہو جائے Otherwiseمجھے تو کوئی اصرار نہیں ہے،اسی طرح سے اور چیزیں ہیں۔ اچھا اب کئی جگہ پر میں نے دیکھا ہے کہ قرار داد پاکستان کے حوالے سے ابھی بہت لکھا جانے لگا ہے کہ وہ 23مارچ کو پیش ہوئی تھی اور 24مارچ کو منظور ہوئی تھی تو وہ چونکہ غالباَ اس لئے 23مارچ قبول کر لی گئی کہ ایک تو یہ کہ 23 مارچ کی اپنی پہلے سے بھی ایک Significanceتھی یعنی وہ بھگت سنگھ کی پھانسی کا دن تھا پھر یہ کہ 23 مارچ کو پیش ہونا میرے خیال سے زیادہ اہم سمجھا گیا کیونکہ منظوری تو آپ کو پتہ ہے کہ جب اجلاس ختم ہوتا ہے تو وہ ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے کہ ایک سیشن Concludingہوتا ہے اور پھر اس اجلاس میں پیش کی جانے والی قراردادوں کو منظور کر لیا جاتا ہے۔ تو اس لئے وہ23مارچ مشہور ہوگئی۔ لیکن جب بھی یہ بات کہی جائے گی کہ قرارداد پاکستان منظور کب ہوئیِ؟ تو پھر اس کا جواب 24 مارچ ہوگا۔

س۔ آپ نے ” پاکستان کے سیاسی وڈیرے “ نامی ایک کتاب لکھی اور مُلک میں سیاسے وڈیرے کی اصطلاح متعارف کرائی جس میں ملک کے تقریباََ تمام ہی سر کردہ سیاسی خاندانوں کے اصل پس منظر سے قارئین کو روشناس کرایا تو اس کتاب کا فیڈبیک خصوصاَ سیاست دانوں کی طرف سے کیسا ملا؟

ج۔ اصل میں جن لوگوں کو ناگوار گزرنی چاہیے تھی یہ کتاب، وہ تو کتاب پڑھتے ہی نہیں ہیں۔ ہاں البتہ مجھے خان عبدالولی خان کا خط آیا اور انہوں نے اس میں ایک چھوٹی سی غلطی کی نشاندہی بھی کی اپنے سسرال کے حوالے سے کیونکہ ان کے سسرال کے حالات بھی اس میں شامل کئے گئے تھے تو ایسا بھی ہوا پھر اسی طرح سردار شیر باز خان مزاری نے اس کو بہت پسند کیا کیونکہ میں نے اس کتاب کے لکھنے کے دوران، ان کی لائبریری سے استفادہ کیا تھا اب اس کتاب کا نواں ایڈیشن منظر عام پر آیا ہے۔ تو اس کتاب کو بہت پسند کیا گیا اور ایک بات بتاؤں آپ کو کہ وڈیرے کا بھی جو لفظ اس میں استعمال ہوا ہے وہ اجارہ داری کے معنوں میں استعمال کیا ہے کہ کسی چیز کے اوپر ایک اپنا قبضہ رکھنے والا گروپ اسی کو میں نے وڈیرہ کہا اس میں کیونکہ اس میں بلوچستان کے سردار بھی ہیں اس میں کے پی کے کے خان بھی ہیں اور پنجاب کے سردار اور گدی نشین بھی ہیں، اس کتاب میں میں نے وڈیرہ کے لغوی معنی استعمال کئے ہیں۔

س۔ اسی موضوع پر لاہور کے ایک صاحب کی کتاب ” سیاست کے فرعون “ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ آپ کی کتاب اور اس کتاب میں بنیادی فرق کیا ہے؟

ج۔ اس سوال کا بہتر جواب تو قارئین دے سکتے ہیں۔ ان کی اور میری کتاب میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ان کی کتاب صرف پنجاب کے سیاسی خانوادوں کا احاطہ کرتی ہے اور اس میں صرف 40 خاندان Discuss ہوئے ہیں۔ جبکہ میری کتاب میں 102خاندان موجود ہیں اور ان کی پوریHistoryہے۔ ان سے بھی میں گزارش کرنا چاہوں گا کہ بھئی وہ اپنی کتاب کو Updateکریں۔ 1992ءمیں وہ کتاب آئی تھی اور اس کے بعد 25سال گذر گئے انہوں نے اس کتاب کو Update نہیں کیا تو یہ بھی ایک قاری کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے کیونکہ جب بھی میری کتاب کا نیا ایڈیشن آنا ہے تو اس کو Update ضرور کرتا ہوں کیونکہ میں یہ نہیں کرتا کہ اگر کسی موضوع پر ایک کتاب لکھ دی ہے تو اب میں نے وہ Chapter Close کر کے کہیں الماری میں بند کر دیا ہے۔ اس موضوع پر مستقل جو چیزیں آتی رہتی ہیں یا کوئی فیڈ بیک آتی رہتی ہیں تو اس کو پھر میں اگلے ایڈیشن میں شامل کرتا ہوں اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ میری کتاب بھی Rich ہو جاتی ہے اور اب جیسے آپ نے دیکھا ہوگا کہ ” قائداعظم کی ازدواجی زندگی “ کا جو دوسرا ایڈیشن ہے وہ بالکل یکسر نئی کتاب ہے۔ کیونکہ وہ ختم ہو گئی تھی قائد اعظم کے نواسے پر پھر میں نے نواسے کی اولاد اور پھر بیچ بیچ میں بہت ساری چیزیں اس دوسرے ایدیشن میں شامل کیں تو اس طرح سے میں اپنی ہر کتاب پر نئے ایڈیشن کے وقت بہت کام کرتا ہوں۔ اور بعض اوقات تو پوری کتاب کی Composingبھی نئی کرانی پڑتی ہے۔

س۔ تو کیا اسی وجہ سے آپ کی ہر کتاب کے نئے ایڈیشن کے دام پہلے سے بڑھ جاتے ہیں ؟

ج۔ ہاں وہ تو ظاہر ہے اب اگر دس بارہ سال کے بعد کتاب چھپے گی تو کاغذ کا ریٹ بھی بڑھ جاتا ہے۔

س۔ لیکن آپ کی کتاب کا ایڈیشن دس بارہ برس بعد تو نہیں آتا نا؟

ج۔ میں تو بات کر رہا تھا ” قائداعظم کی ازدواجی زندگی “کی اس میں بھی یہی ہوا تھا لیکن جس کتاب کی آپ بات کر رہے ہیں ”پاکستان کرونیکل “کی کہ جب اس کا نیا ایڈیشن آیا تو اس میں کوئی 40 صفحات کا اضافہ ہوا اور پھر بہت ساری پلیٹس از سرِ نو بنوانی پڑیں اس میں کیونکہ جہاں جہاں پر کوئی غلطی نظر آئی اس کو ٹھیک کیا گیا۔ کئی تصویریں تبدیل کی گئیں بدلی گئیں بہت سارے اس میں، میں نے اضافے کئے تو اس کی پر نٹنگ کاسٹ جو ہے بڑھ جاتی ہے۔

س۔ ” پاکستان کرونیکل “ آپ کی ایک معرکہ آرا کتاب ہے اس کتاب کو مرتب کرنے کا خیال آپ کو کیسے آیا؟

ج۔ یہ پوری تفصیل میں کرونیکل کے پیش لفظ میں لکھ چکا ہوں۔ 1990ءمیں ایک کتاب مجھے ملی جس کا نام تھا ” کرونیکل آف ٹوینٹیتھ سنچری ‘ تو اس سے میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نا ہم پاکستان کی اس طرح سے ایک کرونیکل مرتب کریں۔ اب وہ جس ٹیم نے کیا تھا تو وہ کوئی 54 افراد کی ٹیم تھی اور اس کے پیچھے ایک بہت بڑا ادارہ تھا جو اس کو فنانس کر رہا تھا تو میں یہاں پر اکیلا تھا تو اس لئے مجھے پھر اس کو مکمل کرتے کرتے20 سال لگ گئے

(جاری ہے)

اگلا حصہ: مدیر اعلٰی اردو لغت بورڈ، نامور محقق اور شاعر عقیل عباس جعفری سے مکالمہ (2)

(مکالمہ نگار :۔ سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز ریڈیو پاکستان بہاولپور)

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz