ایٹمی ریاست میں گھٹتی مرتی انسانیت


اس وقت جب ہم میں سے زیادہ تر لوگ ہر سال ’’یومِ تکبیر‘‘ مناتے ہیں، وہ دن جب ہم نے ایک ایسے بم کا تجربہ کیا جو آپ کے چیتھڑے اڑا سکتا ہے، ایک ایک درخت تباہ کر سکتا ہے، تقریباً ہر جاندار کو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں نیست و نابود کر سکتا ہے۔ ایسے میں جب پاکستان اور ہندوستان جنگ کی بات کرتے ہیں، ایک دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ’’غزوہ ہند‘‘ کا ذکر کرتے ہیں، میں ’’انسانیت‘‘ کو یاد کرنا چاہتا ہوں۔

سات سال قبل اسی سے زائد احمدیوں کو عظیم پنجاب کے دل لاہور میں جمعہ کے دن ’عبادت‘ کے دوران بے دردی سے قتل کیا گیا اور بہت سے لوگوں نے اس خون کی ہولی کا جشن منایا، بدقسمتی سے صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے گھروں، ’عبادت گاہوں‘ اور قبرستانوں کو بھی تباہ کیا۔ اس کے علاوہ چند سال پہلے ایک اور احمدی، ڈاکٹر مہدی علی (امریکہ میں کارڈیک سرجن) جو کہ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں ایک انسانی مشن پر تین ہفتوں کے لئے یہاں آئے تھے کو احمدی جماعت کے قبرستان کے قریب اپنے پانچ برس کے بیٹے اور بیوی کے سامنے نو گولیاں مار دی گئیں۔ اس برس بھی اب تک تین احمدیوں کو ان کے عقائد کی وجہ سے قتل کیا جا چکا ہے۔ چند لوگوں کے علاوہ اس بارے میں نہ کوئی بات کرنے کی جسارت کرتا ہے نہ کوئی آواز اٹھاتا ہے۔ ہزاروں اہلِ تشیع، ہزارہ، بوہریوں، اسماعیلیوں اور احمدیوں کو قتل کرنے کے بعد ہم ان لبرل سوچ کے حامل افراد کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں جو اقلیتوں کے حق میں بات کرتے ہیں یا آزاد خیال محسوس ہوتے ہیں۔

ایٹمی ہتھیاروں کا دوبارہ ذکر کرتے ہوئے میں پوچھنا چاہتا ہوں، کیا پاکستان اور انڈیا میں سب دو وقت کا کھانا کھا سکتے ہیں؟ یا سب کے سر پر چھت ہے؟ کچھ عرصہ قبل ہی بھوک کی وجہ سے تھر میں سینکڑوں بچے جان کی بازی ہار گئے، یہاں بھوک اپنا روزانہ ننگا ناچ رچاتی ہے۔ دیکھیئے ہم ایسی بے تحاشہ طاقت والی قوم ہیں کہ ہمارے بچے شدید گرمیوں میں بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہ رات کو سو سکتے ہیں اور نہ ہی امتحانات کی تیاری کر سکتے ہیں۔ چالیس ڈگری سینٹی گریڈ میں ہم صرف چند گھنٹے آنے والی بجلی کے بارے میں ہی سوچ سکتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ان نومولود بچوں کے بارے میں سوچا ہے جو ناقص ویکسین ہونے کے باعث خسرے میں مبتلا ہو کر مر جاتے ہیں؟ اب بہت سے لوگوں کو لگے گا کہ یہ ایک غیر متعلقہ بات ہے۔ مجھے بیان کرنے دیجیئے کہ اس کا تعلق ایٹمی دھماکوں سے کیسے ہے۔

ڈاکٹر مہدی علی قمر

 خود کو اس شخص کی جگہ رکھ کر سوچئے جو دن رات کام کرتا ہے، جس کے کچھ بچے ہیں اور بدقسمتی سے اس کے والدین اعلی تعلیم کے لئے اسے کسی نجی یونیورسٹی میں بھیجنے کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے تھے جس کی وجہ سے وہ صرف دس ہزار روپے کما رہا ہے۔
وہ ایک ایسے ملک میں کام کر رہا ہے جہاں صبح کے آٹھ یا نو بجے آفس پہنچ کر دن میں بارہ سے پندرہ گھنٹے کام کرنے کے بعد بھی ’’اوور ٹائم‘‘ ایک خواب ہے، جہاں اس کی کمپنی کی روایت ہے کہ تنخواہ دیر سے دی جائے اور جب وہ بارہ سے پندرہ گھنٹے بعد کام کر کے آئے تو اس کے بچے ہر گھنٹے بعد چار سے پانچ گھنٹے جانے والی بجلی کے باعث شدید گرمی میں رو رہے ہوں اور وہ یو پی ایس یا جنریٹر خریدنے کی سکت نہ رکھتا ہو۔ ایک دن اسے معلوم پڑے کہ اس کا بچہ خسرے کا شکار ہو گیا ہے کیونکہ ویکسین ناقص تھی اور اب اسے سرکاری ہسپتال لے جانا پڑے گا جہاں صحت کے حالات ناقص ہیں اور کم بستروں کے باعث مریض زمین پر تڑپتے ہیں۔ ایسے خاندان کے لئے موج مستی، بہتر تعلیم، چھٹیوں یا ایسی کسی بھی تفریح کے بارے میں سوچئے گا بھی نہیں۔ اب اسے بتائیں کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں، ہم نے 28 مئی 1998 کو ایٹمی تجربوں کی دوڑ میں انڈیا کو مات دی ہے اور آج ان شاندار حالات میں جب کئی کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہے، صحت کے حالات خراب ہیں، سوئی گیس ناپید ہے، جب وہ ایک مسجد میں مارا جا سکتا ہے یا پھر اپنے گھر کے باہر بچوں کو پولیو کے قطرے پلواتے ہوئے بھی، جہاں اس کا کوئی بھی احمدی، ہزارہ یا شیعہ دوست شناختی کارڈ جانچنے کے بعد صرف اپنے مسلک کے باعث مارا جا سکتا ہے اور پھر اس کی قبر کو مسلح جتھہ تباہ کر سکتا ہے بے شک وہ وزیرِ اعلی کے گھر کے پاس ہی کیوں نہ ہو، اور پھر قاتل اور مسلح ہجوم کو ممتاذ قادری کی طرح ہیرو بنایا جا سکتا ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ شخص ایسے حالات میں ایٹمی بموں پر نہ ہی خوشی کے شادیانے بجائے گا اور نہ ہی اس پر جھومے اور ناچے گا۔

نیا اور روشن پاکستان اس وقت وجود میں آئے گا جب کوئی فٹ پاتھ پر نہیں سوئے گا، کوئی بھوک سے نہیں مرے گا، جب کوئی اس پچھتاوے کے بوجھ تلے نہیں جئے گا کہ وہ نجی ہسپتالوں کی فیس نہ ہونے کے باعث اپنے بچے کو نہیں بچا سکا، جب ہر کوئی معیاری تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت رکھے گا، جب پانچ سال کی بچی کے والدین کو یہ خوف نہیں ستائے گا کہ ان کی بچی زیادتی کا نشانہ بن جائے گی یا اس کے لڑکپن میں کوئی سردار اسے ونی کر دے گا، جب ہر کوئی اپنے ایمان کے مطابق آزادی سے اپنی مسجد، چرچ، مندر یا امام بارگاہ میں کسی بھی ملّا جتھے کے خوف کے بغیر عبادت کر سکے گا۔ اگر میں مایوس کن خیالات والا ہوں اور معاشرے کی اچھائیوں کو سامنے نہیں لا سکتا اور آپ کے خیال میں صرف پاکستان کی تاریکوں کو اجاگر کر رہا ہوں تو میں معذرت کرتا ہوں، میں معذرت خواہ ہوں کہ میں اس ملک و قوم کی فکر کرتا ہوں اور کم سے کم جو کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ مظلوم طبقے کی آواز بن کر آگاہی کے لئے قلم اٹھا سکتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).