عبداللہ حسین کے ساتھ بعد از مرگ ایک گفتگو  (1)


عبداللہ حسین کی شخصیت کو بیان کرنے کے لیے آپ محض یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ایک لاابالی، لاپرواہ، کسی حد تک کھردرا، یاروں کا یار، خواب دیکھنے والا، سرابوں اور خرابوں کا مسافر، کبھی ناقابلِ اعتبار اور کبھی اعتبار میں اعتبار، گہری دانش کا پیغمبر یا مرنجاں مرنج قسم کا ایک انسان تھا۔ آپ ہرگز اسے ان لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے کہ یہ سب گھسے پٹے اور محاوراتی نوعیت کے اظہار ہیں اور عبداللہ حسین ان سب سے ماورا کچھ اور تھا۔ اُس کی ذات کی تصویر میں رنگ بھرنے کے لیے اظہار کے ایسے رنگ درکار ہیں جو کم از کم میرے رنگوں کے پیلٹ میں موجود نہیں ہیں۔ بیشتر نامور ادیب ایک مخصوص سانچے میں ڈھلے ہوتے ہیں۔ عبداللہ حسین کسی بھی سانچے میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ وہ ہر لمحے اپنے لیے خود ہی ایک سانچا ساخت کرتا تھا۔ اُس میں ڈھل جاتا تھا اور پھر اگلے لمحے اُس سانچے کو توڑ دیتا تھا۔ ایک نیا آدم ہو جاتا تھا وہ کسی سانچے میں قید نہ ہو سکتا تھا کہ آزادی، انصاف، بے راہروی اور بغاوت اس کا منشور تھا۔ مجھے کبھی نہ کبھی عبداللہ کے عشقِ جنوں کے بارے میں لکھنا ہے کہ اُس کی عمر بھی عشقِ بتاں میں بیتی اور وہ آخری وقت میں بھی مسلمان نہ ہوا تھا لیکن یہ ابھی نہیں پھر کبھی سہی کہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں اور میں یہ مضمون اس کی زندگی میں لکھنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا کہ وہ بھی تو میرا رازداں تھا۔میرے سب پول کھول دیتا تو میں اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔ کم از کم اپنی بیوی کو۔ چنانچہ اب کبھی میں بے خطر ہو کر اُس کے متعدد رومانوی سانحات کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھ ڈالوں گا لیکن ابھی نہیں پردہ نشیں ابھی زندہ ہیں۔

عبداللہ حسین کی مانگ بہت تھی۔ وہ اپنی حیات میں ہی ایک لیجنڈ ایک داستان ہو گیا تھا۔ چنانچہ ہر کوئی، وہ ٹیلی ویژن کا کوئی میزبان ہو یا کسی ادبی جریدے کا مدیر، اس کے انٹرویو کے لیے منت سماجت کرتا رہتا تھا اور وہ مانتا نہ تھا اور جب بمشکل مان جاتا تھا تو انٹرویو پینل کے لیے میرا نام سرفہرست رکھ دیتا تھا اور میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ انٹرویو کے دوران میں اپنی جاٹ خصلت سے مجبور کوئی اعتراض کر بیٹھوں کہ خان صاحب کیا آپ صرف ایک ناول کے ناول نگار ہیں، ایک ناول تو کوئی بھی لکھ سکتا ہے۔ کیا ’’اداس نسلیں‘‘ کی توصیف اور عظمت کی کہانیاں سنتے سنتے اب آپ بور نہیں ہو جاتے۔ اور یوں خواہ مخواہ ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے چلے جائیں۔ چنانچہ میں نے کبھی عبداللہ حسین سے کسی ادبی جریدے یا اخبار کے لیے گفتگو نہ کی۔ ہمیشہ اجتناب کیا۔ اس کی ناراضی کا خطرہ مول نہ لیا۔ میں اسے کھونا نہیں چاہتا تھا، لیکن یہ جو دن آگئے ہیں جب اُس کی جانب سے کوئی پیغام نہیں آتا، نہ کوئی خط نہ کوئی سندیسہ آتا ہے نہ ہی ٹیلی فون پر اس کی گہری گونج والی عبداللہ حسینی آواز ایک مدت سے سنائی دی ہے کہ ہاں جی اور سنائو گوپیوں کا کیا حال ہے؟

فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کے دوران جب میں اپنے سیشن سے فارغ ہو کر کافی کے ایک کپ کے لیے لائونج میں چلا آیا اور وہاں آگ اور پانی ساتھ ساتھ بیٹھے چہلیں کر رہے تھے یعنی انتظار حسین اور عبداللہ حسین شیروشکر ہو رہے تھے تو متعدد خواتین میری کتابوں پر آٹوگراف حاصل کرنے کے لیے میرے پیچھے پیچھے چلی آئیں تو انتظار حسین نے کہا: لو جی تارڑ کی گوپیاں آ گئی ہیں۔عبداللہ حسین نے میری چھیڑ بنالی۔ کسی بھی ادبی فیسٹول کے دوران اگر کوئی ایک خاتون مجھ سے رجوع کرتی تو وہ قہقہہ لگا کر کہتا: لو جی، ایک گوپی آ گئی ہے۔

عبداللہ حسین کو بھٹہ چوک کے قبرستان میں دفن ہوئے جولائی کے مہینے میں ایک برس ہو جائے گا چنانچہ اب مجھے خدشہ نہیں کہ وہ میرے سوالوں سے ناراض ہو جائے گا اور میں اسے کھو دوں گا کہ وہ تو خود فنا میں کھویا جا چکا … مزید کیا کھویا جائے گا۔ چنانچہ میں بے خطر آج بعد از مرگ اس کا انٹرویو کروں گا۔ بے دریغ سب سوال پوچھوں گا۔ وہ مجھ سے پہلے مر کر دغا کر گیا تو میں بھی اُس سے وفا نہیں کروں گا۔

امرتا پرتیم نے وارث شاہ سے فریاد کی تھی کہ اٹھ قبراں وچوں بول… تو عبداللہ حسین تُو بھی اٹھ اور اپنی قبر میں سے بول۔ اگرچہ تُو نے کہاں مرنا ہے کہ تُو اردو ادب کا ایک بلھے شاہ ہے۔ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور۔ اگرچہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے تو نہیں اپنی آنکھوں سے تمہیں دفن کیا تھا لیکن کیا یہ واقعی تم تھے یا گور پیا کوئی ہور۔

میرے سامنے سٹڈی ٹیبل پر عبداللہ حسین کی تحریر کے کچھ بے جان ہو چکے پرندے پڑے ہیں، کچھ خط پڑے ہیں، یہ ایک ایسا انٹرویو ہے جس کے جواب خطوط میں موجود تھے اور اُن کے سوال بعد میں وجود میں آئے۔ سوالوں میں کچھ ترتیب نہیں ہے۔ عبداللہ حسین کے خطوط کو سامنے رکھے ہوئے ہوں اور وہ بعد ازمرگ اُن بے ترتیب سوالوں کے جواب دیتا ہے۔ ہیلو عبداللہ حسین، کیا تم سن رہے ہو، ویسے تمہارے بغیر میں تو اجڑ گیا ہوں تو اس اجاڑ پن میں دفن تم سے سوال کر رہا ہوں۔

————-

تارڑ:      ’’عبداللہ تم فیصل آباد چلے گئے ہو جسے تم لائل پور کہتے ہو کہ سریندر پرکاش بھی اسی شہر کا تھا تو واپس کب آئو گے؟‘‘

عبداللہ:     ’’184، سرفراز کالونی، فوارہ چوک، فیصل آباد‘‘ اب میں سولہ تاریخ کو آپ کے لاہور واپس آنے پر آئوں گا۔ ‘‘

                آپ کا عبداللہ!

تارڑ:      ’’میں نے تمہیں اپنا ناول’’راکھ‘‘ بھیجا تھا۔ تم نے کہاں پڑھا ہو گا۔‘‘

 عبداللہ:    ’’میں آج کل ’’راکھ‘‘ پڑھ رہا ہوں تقریباً آدھا پڑھ لیا ہے۔ یہاں تک بہت پسند آیا ہے(کالے رنگ کی سکینڈے نیوئن ایک نئی محبت ہے) پاکستان آ کر مفصل بات ہو گی۔‘‘

تارڑ:      ’’سنگ میل کے نیازاحمد لنڈن گئے تھے ملاقات ہوئی؟‘‘

عبداللہ:     ’’نیازصاحب آئے ہوئے تھے، وعدہ کرتے رہے کہ میرے پاس آئیں گے مگر نہیں آئے ناسازیٔ طبیعت کی شکایت کرتے رہے(میرا خیال ہے ان کے آنے میں جو ناسازیٔ طبیعت مانع تھی وہ ان کی بیگم صاحبہ تھیں)۔ ویسے اب تو تمہارا رشتہ دار مولوی صدر ہو گیا ہے(محمدرفیق تارڑ) تم سے اب کوئی پوچھ گچھ نہیں کر سکتا، ویسے پاکستان کا … اللہ ہی حافظ ہے۔‘‘

’’اور پھر انتظارحسین؟‘‘

’’تم نے لکھا تھا کہ انتظار حسین نے کہا ہے کہ یہ عبداللہ حسین کو کیا ہو گیا ہے، ان سے عرض کر دینا کہ کچھ نہیں ہوا۔ میں پہلے بھی ایسا ہی تھا۔ میں نہ مرنجاں مرنج آدمی ہوں اور نہ ہی ویسی زندگی گزارنے کا عادی ہوں ایک انگریزی کا قول ہے جس کا میں قائل ہوں۔

If you do not fight your corner, you end up being ruled by your Inferior.

یہ انتظار کو سنا دینا۔‘‘ ’’یحییٰ امجد کی وفات کا دُکھ ہوا۔ میرا بہت اچھا دوست تھا۔‘‘

تارڑ:      خاں صاحب، یعنی محمدخان صاحب، کہاں ہو، اتنی مدت سے نہ کوئی خط پتر اور نہ کوئی سندیسہ۔

عبداللہ:     7 Ely Close, Stevenage Herts, SGI 4NN(U.K)

’’ڈیئرمستنصر… سب سے پہلے تو اس خط کو معافی نامہ سمجھ کر اتنی دیر سے تمہیں لکھا…… دراصل میں کچھ ایسی کیفیت میں چلا گیا تھا کہ کسی کو بھی خط نہیں لکھا۔ بہت سا کام اپنے ذمے لے لیا ’’اداس نسلیں‘‘ کا ترجمہ رہا ایک طرف… انگریزی کا ناول ریوائز کر کے پبلشر کو بھیجا ہے۔ پھر پچھلے چند سالوں میں آٹھ دس کہانیوں کے نوٹ بنائے تھے اُنہیں آہستہ آہستہ لکھ رہا ہوں۔ ایک فلم کا سکرپٹ لکھ رہا ہوں… نادار لوگ کے پہلے پروف میں تقریباً تین ہزار غلطیاں تھی۔ میرا ایک مہینہ تو اس پر لگ گیا۔ اب تصحیح شدہ کاپی میں دیکھیں کیا گل کھلاتے ہیں……

تارڑ:      اچھا ایسا کیوں ہے کہ عشقیہ کہانیاں لکھتے ہوئے ہی تم مجھے یاد کرتے ہو؟

عبداللہ:     جب میں کبھی کام میں مصروف ہوتا ہوں اور اپنے کرداروں کی عشقیہ کہانی لکھ رہا ہوتا ہوں تو تمہیں یاد کر کے رشک کرنے لگتا ہوں کہ زندگی کی اس سٹیج پر پہنچ کر بھی دو دو عورتیں(جن میں سے ایک تو بہت ہی عمدہ ہے) تمہاری محبت میں مبتلا ہیں۔ اس سے زیادہ قابلِ رشک اور ساتھ ہی اس سے زیادہ کڑا واقعہ اورکیا ہوسکتا ہے(کڑا اس لیے کہ یہ دو دھاری تلوار ہے، دل کے علاوہ زندگی کو بھی کاٹ کے رکھ سکتی ہے۔ اچھی کوالٹی کی عورت کی کشش جان لیوا شے ہے۔) اقبال کا مجھے ایک ہی شعر پسند ہے۔

کون سی منزل میں ہے، کون سی وادی میں ہے

عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں

تارڑ:      خان صاحب خیریت ہے کبھی مدتوں ہومر کے لوٹس آئے لینڈ میں اونگھتے رہتے ہو، خط لکھنا بھول جاتے ہو اور ان دنوں دھڑا دھڑ مجھے خط لکھتے چلے جا رہے ہو…… بہت بیکاری ہے کیا؟

عبداللہ:     یار تم کہو گے کہ یہ عجیب آدمی ہے، معاملہ یہ ہے کہ میں اکیلا گھر میں بیٹھا انگریزی لکھتا رہتا ہوں اور بور ہو جاتا ہوں۔ ایک تم ہی ہو جسے میں خط لکھ سکتا ہوں (اور کسی سے میری خط و کتابت نہیں ہے۔ کچھ ایرہ وغیرہ لوگ ہیں جن کے خطوں کا میں جواب ہی نہیں دیتا)۔ بہرحال تمہارا ناول ’’راکھ‘‘ پڑھ رہا ہوں، رات کو سونے سے پہلے دس صفحے پڑھتا ہوں۔ ابھی تک تو صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ کہانی میں ایک ’’مِسٹری‘‘ ہے جو مجھے مجبور کرتی ہے کہ خواہ کیسا ہی تھکا ہوا کیوں نہ ہوں، مگر آگے پڑھوں کہ کیا ہونے والا ہے۔

خاور زماں کے بارے میں اخبار میں پڑھا تھا کہ وہ ڈی جی ایف آئی اے تعینات ہو گیا ہے(اُس سے کہو کہ ایک غیرشاعر اور ایک غیرناول نگار ہمیں تکلیف دے رہے ہیں۔ اپنے بندے بھیج کر جاوید شاہین اور انیس ناگی کو ’’غائب‘‘ کرا دے۔)

عطا قاسمی سنا ہے ناروے میں سفیر ہو گیا ہے۔ اللہ کی شان ہے کیسے کیسے لوگ کہاں کہاں کی خاک چھانتے کہاں پہنچتے ہیں۔

تارڑ:      ان دنوں کیا شراب خانہ ہی چلایا جا رہا ہے یا کسی خمارِ ناول میں بھی مبتلا ہو؟

عبداللہ:     ویسے تمہارا خط بسنت کی مستی سے بھرا ہوا تھا، پڑھ کر مزا آیا۔ مارچ کا مہینہ ہے تو وہاں تو موسم بدل چکا ہو گا۔ میں افغانستان کی جنگ کے بارے میں انگریزی ناول لکھ رہا ہوں۔ مئی کے آخر میں The Weary Generations(اداس نسلیں کا ترجمہ) آ رہی ہے۔ تارکین وطن والا ناول بھی اکتوبر نومبر میں آ جائے گا۔ یاد آیا کہ تم نے ایک خط میں لکھا تھا کہ میری انگریزی میری اردو سے بہتر ہے، پڑھ کر میں تم سے خفا ہو گیا تھا ۔ اب میری لٹریری ایجنٹ نے لکھا ہے :

                You write so well in English that I find it amazing that this is your first Urdu novel which you have translated……

            وغیرہ وغیرہ یہ پڑھ کر میں ٹھنڈا ہو گیا ہوں (ویسے ’’نادار لوگ‘‘ کی نثر تم نے پڑھی ہے؟؟)

ویسے تم میرے قریب ترین ادبی و غیرادبی دوست ہو۔ سلجوق کی کامیابی کا سن کر خوشی ہوئی۔ اسے میری جانب سے مبارک باد دینا۔ قرۃ العین اور سمیر کو بھی مبارک ہو۔ ویسے سب سے زیادہ مبارک باد کی مستحق مونا ہے جس نے تمہارے جیسے شخص کے ساتھ اٹھائیس برس گزار لیے ہیں۔

تارڑ:      کمال ہے آپ خود تو اپنے عشق کو بیچ منجدھار چھوڑ گئے۔ بے وفائی کی حد کر دی اور دوسروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ سر دھڑ کی بازی لگا دو۔ آپ لوگوں کو مروانا چاہتے ہیں۔

عبداللہ:     تارڑ! پاکستان ناکام عاشقوں سے بھرا پڑا ہے جن کی چیخ و پکار نے پہلے ہی ہمارے ادب کا بھٹہ بٹھایا ہوا ہے۔ اب تو ہمیں ایک کامیاب عاشق کی ضرورت ہے جس کا سر کٹا ہوا اُس کے ہاتھ پر رکھا ہو اور وہ بھوت کی طرح گلیوں میں پھر رہا ہو اور لوگ چھوٹے بچوں کو لے کر گھروں میں گھس جائیں اور دروازے بند کر لیں۔ خدا کی فالتو فنڈ کی خدائی کے اوپر ایسی دہشت کوئی زندگی کی توانا قوت ہی طاری کر سکتی ہے رونے رلانے والے ابھی ٹک سو گئے ہیں اور امید ہے اب سوئے ہی رہیں گے۔ اب یہ نیا دور ہے اس میں پرانے MYTH نہیں چلیں گے۔ خطبہ ختم۔

تارڑ:      میں بے دھیانی میں کسی پردہ نشین کا حوالہ دے بیٹھا، مجھے کیا خبر تھی کہ تمہارے خطر سنسر ہوتے ہیں۔

عبداللہ:     تریپولی ، لیبیا… فرحت عموماً میرے خط نہیں پڑھتی مگر یہاں لیبیا میں اور کوئی کام ہی نہیں چنانچہ اُس نے بے خیالی سے اٹھا کر تمہارا خط پڑھنا شروع کر دیا۔ اسے اور کوئی عتراض نہ تھا صرف یہ تھا کہ مستنصر نے یہ کیوں لکھا ہے کہ وہ تمہارے ذکر سے Blush ہو گئی تھی۔ نکتہ اُس کا یہ تھا کہ ہوسکتا ہے وہ Blush نہیں ہوئی ہو یا کسی اور بات پر ہوئی ہو مگر مردوں کی یہ پُرانی عادت ہے کہ ایک دوسرے کے Ego کو سہارا دینے کے لیے ایسی باتیں گھڑ لیتے ہیں۔ بہرحال میں نے بڑی مہارت سے بات کو سنبھال لیا۔ تکنیک یہ تھی کہ تم بالکل درست کہتی ہو، ممکن ہے کہ وہ Blush نہ ہوئی ہو یا کسی اور بات پر ہوئی ہو، وغیرہ وغیرہ…

(جاری ہے)

(بشکریہ تسطیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar