عدالت کی بے بی نے چھی کر دی ہے


برطانیہ میں مسز مونیکا نام کی ایک صاحبہ حال ہی میں مجسٹریٹ مقرر ہوئی ہیں۔ آل اولاد والی ہیں۔ ماشا اللہ چار بچے ہیں۔ اور خبر کے ساتھ جو تصویر چھپی ہے اس میں وہ ایک طفلک کو جو تادم تحریر ان کا سب سے چھوٹا بچہ ہے، اپنی گود میں لئے (بوتل سے) دودھ پلاتی دکھائی گئی ہیں۔

یہاں تک تو اس خبر میں کوئی خاص بات نہیں۔ لیکن مسز مونیکا کے متعلق آگے چل کر بتایا گیا ہے کہ وہ مقدمات سننے کے دوران اپنے گود کے بچے کے پوتڑے اور دوسرے کپڑے بھی دھویا کریں گی۔ اس کے علاوہ ان کا فرمانا ہے کہ میں اپنے دوسرے بچوں کے لئے کھانا بھی عدالت ہی میں پکایا کروں گی۔

خاتون مجسٹریٹیں ہمارے ہاں بھی ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ آزادی کہاں؟ کھانا پکانا اور پوتڑے دھونا تو ایک طرف ہماری عدالتوں میں سروتے سے چھالیا کاٹنے اور سل پر مسالہ پیسنے تک کی اجازت نہیں حتی کہ بچوں کو بھی گھر پر چھوڑ کر آنا پڑتا ہے۔

بہرحال اب جو برطانیہ میں اتنی مراعات ملی ہیں تو ہم جو ہر معاملے میں مہذہب ملکوں کی تقلید کرتے ہیں، امید کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی عدالتوں کے قواعد و ضوابط کو نرم کر دیا جائے گا تاکہ خاتون مجسٹریٹیں دلجمعی سے مقدمہ سنتی رہیں اور گھر کے دھندے بھِی بھگتاتی رہیں۔ پھر یہ نہیں ہو گا کہ بظاہر مقدمہ سن رہی ہیں لیکن دھیان گھر میں لگا ہے کہ کب مقدمہ ختم ہو کب جا کر آٹا گوندھیں اور بچوں کے کپڑے دھوئیں۔ یہ وقت ابھی کچھ دور نظر آتا ہے لیکن چشم تصور سے ابھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بلکہ ہم دکھاتے ہیں آپ دیکھیے۔

ایک طرف فائلوں کا ڈھیر ہے اور دوسری طرف ایک چولہا جس پر دیگچی چڑھی ہے۔ یہ آلو گوشت کی اشتہا افزا خوشبو وہیں سے آ رہی ہے۔ ایک نظر ادھر ملزم پر بھی ڈالیے۔ بیٹھا زار و قطار رو رہا ہے۔ اس لئے نہیں کہ اپنے کیے پر پشیمان ہے بلکہ مجسٹریٹ صاحبہ نے حکم دیا ہے کہ جب تک خالی بیٹھے ہو کچھ پیاز ہی کتر دو۔

تو حضرات با ادب، با ملاحظہ، ہوشیار، یہ بی بی نیک پروین مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت ہے۔ ایوان عدالت میں یہاں سے وہاں تک رسیاں تنی ہیں جن پر بچے بچیوں کے کرتے، نیکریں، بب اور پوتڑے سوکھ رہے ہیں۔ کوئی کپڑا ٹھیک سے نہیں نچوڑا جا سکا تو اس سے پانی کے قطرے بھی ٹپک رہے ہیں۔ لہذا مدعی اور مدعا علیہ دونوں فریقوں کے آدمی سمٹے سمٹائے بیٹھے ہیں، خصوصاً وہ جو نمازی ہیں۔ اگرچہ چپراسی ابھی ابھی سارے میں فنائل کا چھڑکاؤ کر کے گیا ہے اور ایک طرف اگربتیاں بھی سلگ رہی ہیں۔ پھر بھِی گواہوں کے کٹہرے کے پاس کچھ لوگ ناکوں پر رومال رکھے بیٹھے ہیں کیونکہ پوتڑے تو آخر پوتڑے ہیں خواہ وہ مجسٹریٹ کے بچوں ہی کے کیوں نہ ہوں۔ کوئی اعتراض بھی نہیں کر سکتا کہ توہین عدالت ہی نہ ہو جائے۔

اب ڈائس کی طرف نظر کیجیے۔ ماں بچے کو گود میں لئے بیٹھی ہے۔ یہی تو بی بی نیک پروین ہیں۔ ادھر داہنے ہاتھ جو صاحب بیٹھے حقہ پی رہے ہیں اور قوام والا پان کلے میں دبائے ہیں، وہ بچے کے باپ نہیں ہیں بلکہ پیش کار صاحب ہیں۔ ان کی میز پر دیکھیے۔ بائیں ہاتھ ایک اسٹول پر ایلومینیم کا ایک تسلہ اور پانی کی بالٹی نظر آ رہی ہے۔

تسلے میں بچوں کے کپڑے بھیگے ہوئے ہیں۔ ابھی استغاثے کا بیان ختم ہو گا تو انہیں دھوئیں گی اور مقدمے کے فریقین رسیوں پر پھِیلاتے جائیں گے تاکہ کارروائی جلد از جلد دوبارہ شروع کی جا سکے۔ مجسٹریٹ صاحبہ کی اپنی میز پر عدالت کی گھنٹی اور موگری کے علاوہ ایک نامکمل سویٹر، اون کے گولے اور سلائیاں بھی نظر آ رہی ہیں۔ جب بچہ سو جائے گا تو اسے سرکاری وکیل کی گود میں دے کر انہیں اٹھا لیں گی۔ چونکہ ہوشیار اور فرض شناس ہیں اس لئے سویٹر بنن کے ساتھ ساتھ مقدمہ بھی سنتی جائیں گی اور منصفی کرتی جائیں گی۔

اب تو شاید یہ جنس ناپید ہے لیکن انگریزوں کے عہد معدلت مہد میں آنریری مجسٹریٹ ہوا کرتے تھے جن کو کم پڑھے لکھے لوگ اناڑی مجسٹریٹ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ قانون وغیرہ کی رسمی تعلیم کے جھنجٹوں میں یہ کم پڑتے تھے۔ بس عقل کے زور سے فیصلے کرتے اور شیر بکری کو ایک گھاٹ پانی پلواتے تھے۔

انبالے میں میر حامد علی نام کے ایک بزرگ سے ہماری بھی یاد اللہ تھی جو اس عہدہ جلیلہ پر فائز تھے۔ آنکھوں دیکھی بات ہے کہ ایک روز ان کے سامنے ایک مقدمہ آیا جس میں ایک شخص نے دوسرے کو سربازار زدوکوب کیا تھا اور ضربات شدید پہنچائی تھیں۔ ملزم سے پوچھا گیا تو اس نے اقبال جرم سے انکار کیا۔ میر صاحب کو بہت طیش آیا۔ بولے نابکار ایک تو مارتا ہے اور پھر جھوٹ بھی بولتا ہے۔ جس وقت ارتکاب جرم ہو رہا تھا عدالت خود وہاں کھڑی سبزی خرید رہی تھی۔

سو بی بی نیک پروین کی عدالت میں یہ بھی ہو گا کہ وہ پیش کار سے فرمائیں گی ”منشی جی میں ذرا ’لی مارکیٹ‘ والے مقدمے کی فائل اور بچے کی چوسنی دینا اور دیکھنا ذرا دیگچی میں کڑچھی پھیرتے جانا۔ میں ذرا فریقین سے حلف لے لوں تو پھر بگھار لگاؤں گی“۔ بحث زور شور سے جاری ہو گی کہ یکایک صدر عدالت سے اعلان ہو گا۔ ”صاحبان کارروائی پانچ منٹ کے لئے ملتوی، عدالت کی بے بی نے چھی کر دی ہے۔ عدالت اس کے اور اپنے کپڑے بدل کر ابھی آتی ہے“۔

پھر جب وکیل استغاثہ طویل بحث کے بعد ملزم کے جرم کو پایہ ثبوت کو پہنچا کر عدالت سے درخواست کرے گا کہ اب مجرم کے لئے عبرتناک سزا تجویز کی جائے تو مجسٹریٹ صاحبہ یہ کہتی سنائی دیں گی ”اسے آگ پر چڑھا دو اور دھیمی آنچ پر بھونو“۔ ملزم کانپنے لگتا ہے اور ہاتھ جوڑ کر کہتا ہے ”حضور اتنی سخت سزا نہ دیجیے۔ میں بھِی بال بچوں والا ہوں“۔ اس پر عدالت مآب ڈانٹتی ہیں ”چپ رہو جی۔ تم سے نہیں کہہ رہی۔ پیش کار سے کہہ رہی ہوں۔ ہاں منشی جی، اب قیمے کی ہنڈیا آگ پر چڑھا دیجیے نا۔ اچھا تو وکیل صاحب آپ کیا فرما رہے تھے۔ میرا دھیان ادھر تھا۔ ذرا یہ گرائپ واٹر کی بوتل تھما دیجیے اور اپنے دلائل ذرا دہرا دیجیے پلیز“۔

عدالت ختم ہوئی تو بی بی نیک پروین نے برقعہ سنبھالا اور چل دیں۔ بچے کو سرکاری وکیل نے کاندھے پر بٹھایا اور دیگچیاں پیش کار صاحب نے ایک ٹوکرے میں سنبھالیں۔ انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو گئے اور گھر کا کام بھی ہو گیا۔

ہمارے نامہ نگار نے لپک کر پوچھا کہ ”بی بی جی آپ کیا سارے کام عدالت میں کر لیتی ہیں؟ “ بولیں جی نہیں، یہاں تو صرف پکانا ریندھنا ہو سکتا ہے یا کپڑے دھوئے جا سکتے ہیں۔ جھاڑو دینے کا کام گھر جا کر کرتی ہوں۔ وہ عدالت نہیں کر سکتی۔ نہ رضائیوں میں ڈورے ڈالنے کے لئے یہاں کافی جگہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).