ایک پلیٹ پھل


سوشل میڈیا پر پھلوں کی خریداری کے بائیکاٹ کی مہم زوروشور سے جاری ہے۔ اس کے حق میں اور مخالفت میں بیسیوں صفحے کالے کیے جا چکے ہیں۔ مخالفت میں لکھنے والے ریڑھی والوں کے سگے بنے ہوئے ہیں، حق میں لکھنے والے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ رمضان میں فروٹ چاٹ کھانا بھی ایمان کی مضبوطی اور پائیداری کے لیے ضروری ہے۔

دونوں گروہ اپنی اپنی ’لوحِ منور‘ پہ کشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں۔ جمہوری عمل جاری و ساری رہتا ہے تو عوام میں اس قسم کی چھوٹی چھوٹی بے ضرر بے داریاں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ کافی سال پہلے جب میں نے باقاعدہ کاشتکاری کا ارادہ کیا تو ایک ضابطۂ اخلاق کی پابندی کا فیصلہ کیا۔

اس کی رو سے میں نے ’ذخیرہ اندوزی‘ اور ’ضرر رساں‘ فصلوں کی کاشت اپنے لیے بالکل ممنوع قرار دی۔ ہمارے علاقے میں آلو اور تمباکو خوب کاشت ہوتا ہے۔ تمباکو کاشت کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آلو کاشت کر کے معلوم ہوا کہ اگر اسے رمضان تک کسی طرح سٹاک کرلیا جائے تو ’پکوڑوں‘ کے بھاؤ بکتا ہے۔

آس پاس دیکھا تو معلوم ہوا کہ بہت سے کاشتکاروں، آڑھتیوں اور ’سٹاکیوں‘ کی خوشحالی کا راز یہ ’رمضانی پکوڑے‘ تھے۔ دل مسوس کے رہ گئی اور خود پہ ہزار نفرین بھیجی کہ پہلے صحافت کے ضابطۂ اخلاق کی پابندی کرتے کرتے، اس کوچے سے کوچ کرنا پڑا اب یقیناً یہاں سے بھی ’نہ نکلتے تو نکالے جاتے‘ والا احوال ہو گا۔ لیکن چونکہ میری تربیت کو کوئی سمجھدار شخص موجود نہ تھا اور میں نے ٹارزن کی طرح فقط کتابوں سے لکھنا پڑھنا سیکھا تھا اس لیے آلو کی ذخیرہ اندوزی پہ لعنت بھیجی۔

چونکہ عورت ہوں اور وہ بھی مملکتِ خدا داد پاکستان کی بیٹی تو وراثت میں ملنے والی زمین بھی سالہاسال کی ذلت وخواری، سازشوں، کٹوتیوں، بد دعاؤں، کوسنوں، نفرتوں اور گھریلو سیاستوں کے بعد جب ملی تو بقدرِ اشکِ بلبل۔ اس لیے روایتی فصلوں اور ایماندارانہ روش کے ساتھ چادر اور پیر کا تناسب برقرار رکھنا مشکل تھا۔ پھلوں کی کاشت کا سوچا۔

تب معلوم ہوا کہ پھل اور سبزی کی ’شیلف لائف‘ بمشکل چوبیس گھنٹے ہوتی ہے۔ پھل دار درخت سال بھر میں چند ماہ پھل دیتا ہے اور باقی سال اس کی رکھیا کرنا پڑتی ہے۔ کچھ پھل، مثلاً آم، کھجور، جامن، ہرڑ وغیرہ، آٹھ سال تک پالنے پڑتے ہیں تب کہیں جاکے نخلِ امید پہ خوابوں کے شگوفے نمودار ہوتے ہیں۔ اس دوران زمین کا ٹھیکا، پانی، نلائی، اور دیگر اخراجات پورے کرتے کرتے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔

تب بہت سوچ ساچ کے ادبی رسائل میں افسانے وغیرہ لکھنے کی واحد عیاشی سے ہاتھ کھینچ لیا اور ڈرامے لکھنے شروع کیے۔ ڈراموں سے حاصل شدہ آمدن سے دل کڑا کر کے پپیتے اور انگور کا ایک باغ لگایا۔ وہ بھی اس لیے کہ پپیتا نسبتاً جلدی، یعنی سال بھر کے اندر پھل دے دیتا ہے اور اس دوران انگور پلتا رہتا ہے۔

پپیتے کی کاشت میں مجھے کیا کیا مشکلات درپیش آئیں وہ ایک الگ مضمون ہے اور کبھی فرصت سے سناوں گی۔ کسی طرح پپیتا بارور ہوا، اسی دوران چند درجن جھاڑیاں فالسے کی بھی لگا لیں۔ پھل لگنے کی خبریں، دور دور تک پھیل گئیں، جہاں فروٹ فلائی، میلی بگ اور دیگر حشرات نے حملہ کیا، وہیں دور دراز کے جاننے والوں نے فرمائشوں کے طومار باندھ دیے۔

پہلی فصل تحائف کی شکل میں ان ہی برادرانِ یوسف کو بھیجنا پڑی جنہوں نے اس تمام سفر میں قدم قدم پہ میرے راستے میں کانٹے بکھیرے۔ منافقت بھرے اس تحفے کے جواب میں یہ بھی سنا ’یہ بھی ٹھیک تھے، مگر ترین فارمز سے جو آم آتے ہیں ان کی بات ہی کچھ اور ہے۔ ‘

کسی نے نواب زادہ نصراللہ کے باغات کی یاد میں دہائی مچائی، کسی کو کوڑے خان یاد آئے اور کوئی نواب صادق عباسی کے پھل پھلاری کو رویا۔ سوا ایکڑ پہ آم انگور اور فا لسہ لگانے والی یہ ’جاگیر دارنی‘، جب پپیتا بیچنے نکلی تو معلوم ہوا کہ مقامی منڈی میں اس پھل کی کوئی کھپت نہیں، لاہور کی منڈی میں بکے گا۔ روزانہ کی چنائی، پیکنگ، اور کئی سو کلومیٹر دور بھیجنے کا کرایہ نکال کے ہاتھ اتنا آیا کہ اتنا تو میں ایک ڈرامے کی ایک قسط سے کما لیتی ہوں۔

ڈھٹائی چونکہ مجھ پہ ختم ہے۔ اس لیے وہیں باغ کے سامنے ایک بابا جی کو بٹھا دیا گیا۔ اللہ بھلا کرے ڈاکٹروں کا، بہت سے امراض کے لیے پپیتا تجویز کرنے لگے، یوں پپیتا بکنے لگا۔ مگر یہاں بھی میرا ضابطۂ اخلاق پھن کاڑھے سامنے آگیا۔ دوا کے طور پہ کھایا جانے والا پپیتا مہنگا کیوں بیچا جائے؟ رمضان آئے تو بازار سے سو روپیہ سستا انگور بیچا۔

یہ ساری کتھا اس لئے یاد آگئی کہ پھل کے صارفین کے بارے میں میری ساری تحقیق حالیہ ہنگامے میں فیل ہو گئی۔ میرے نزدیک پھل کا صارف یا تو بنیادی آمدن سے اوپر کا شخص ہوتا ہے، یا وہ غریب جسے کسی بیماری کی وجہ سے پھل تجویز کیا گیا ہو۔ لیکن آج معلوم ہوا، پھل کا صارف وہ شخص ہے، جس نے روزے کی نیت کرتے ہوئے افطاری میں پکوڑوں کے ساتھ فروٹ چاٹ کھانے کی نیت بھی کی ہو اور اب گراں فروشی کے باعث یہ ثواب حاصل کرنے سے محروم ہو اور فقط پکوڑوں پہ اکتفا کررہا ہو۔ اتنی بڑی محرومی کے بعد اتنا احتجاج تو حق بنتا ہے۔ قدم بڑھائیے ہم آ پ کے ساتھ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).