اقبال، میں اور میری خودی


”خمار گندم“ میں ابن انشا کا ایک مضمون ہے ”فیض اور میں“ ۔ مضمون کیا ہے گویا اردو مزاح کا ایک شاہکار ہے۔ ابن انشا نے ان لوگوں پر طنز کیا ہے جو مشاہیر کے فوت ہونے کے بعد ان سے اپنی بے تکلفی کے قصے بیان کرتے ہیں۔ مضمون کے شروع کا حصہ اقبال سے متعلق ہے۔ ایک ٹکڑا دیکھئے۔ ”اسی زمرے میں ڈاکٹر محمد موسی ٰ پرنسپل بانگ درا ہو میو پیتھک کالج گڑھی شاہو کو رکھئے۔ جنہوں نے علامہ اقبال مرحوم کی زندگی کے ایک اور غیر معروف گوشے کو بے نقاب کیا۔

اپنی کتاب ’تسہیل الہومیو پیتھی‘ کے دیباچے میں رقم طراز ہیں۔ ’لوگوں کا یہ گمان غلط ہے کہ ڈاکٹر اقبال فقط نام کے ڈاکٹر تھے۔ اس عاجز کا مطالعہ اتنا نہیں کہ ان کے شاعرانہ مقام پر گفتگو کر سکے۔ ہاں اتنا وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مرض کی تشخیص میں اپنے بعد میں نے انہی کو دیکھا۔ بعض اوقات دواؤں کے ضمن میں بھی ایسے قابل قدر مشورے دیتے کہ یہ عاجز اپنے تبحر علمی کے باوجود حیران رہ جاتا۔ بہرحال شاعر تو ہمارے ہاں اب بھی اچھے اچھے پائے جاتے ہیں، میرے نزدیک علامہ مرحوم کی رحلت ہومیوپیتھی طب کے لیے ایک نا قابل تلافی نقصان ہے۔

میں مریضوں پر توجہ دیتا اور وہ کونے میں بیٹھے حقہ پیتے رہتے۔ تاہم اس عاجز کے مطب کی کامیابی جو مایوس مریضوں کی آخری امید گاہ ہے، اور جہاں خالص جرمن ادویات باکفایت فراہم کی جاتی ہیں، ان کے نام نامی کا بڑا دخل ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ آپ نے اپنی ایک مشہور تصنیف کا نام بھی عاجز کے مطب کے نام پر ہی رکھا۔ ”ابن انشا کی پیروی میں فدوی نے بھی آج اقبال پر ہی کالم لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ اصولاً تو مجھے اقبال کے فن کالم نگاری پر روشنی ڈالنی چاہیے اور عوام کو یہ بتانا چاہیے کہ اس فقیر کے بعد بر صغیر پاک و ہند میں اگر کوئی صاحب طرز کالم نگار ہے تو وہ علامہ محمد اقبال ہی ہے۔ مگر اپنے لوگ حاسد بہت ہیں، نہ جانے اس موازنے کا کیا مطلب نکال لیں، لہذا بہتر ہے کہ یوم اقبال کی مناسبت سے آج علامہ کا موازنہ کچھ فلسفیوں سے کیا جائے اور دیکھا جائے کہ اقبال کا فلسفہ خودی اور مرد مومن کس حد تک مغرب سے مستعار لیا گیا ہے۔

کالج کے زمانے میں ایک کتاب ہاتھ لگی تھی جو اس قدر دلچسپ لگی کہ ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی، نام تھا ”اقبال اور مشرق و مغرب کے مفکرین“ ۔ مشکل سے دو سو صفحات کی یہ کتاب ڈاکٹر عشرت حسن انور کی لکھی ہوئی ہے جسے ’بزم اقبال‘ نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف اقبال کے فلسفے کا نچوڑ نکال کر رکھ دیا ہے بلکہ ساتھ ہی اقبال کی فکر کا موازنہ چند بڑے فلسفیوں سے بھی کیا ہے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اقبال کب اور کس فلسفی سے متاثر ہوئے اور کب اس کی فکر سے اختلاف کر کے آگے نکل گئے۔ جن فلسفیوں سے اقبال کا موازنہ کیا گیا ہے ان میں برگساں، نطشے، وائٹ ہیڈ، جیمس وارڈ، ولیم جیمس، رومی اور شنکر شامل ہیں۔ کتاب میں شامل مضامین موضوع کے اعتبار

سے کسی قدر پیچیدہ اور دقیق ہیں مگر مجموعی طور پر رواں اور خوبصورت زبان میں بیان کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ برگساں کی طرح اقبال کا بھی یہ ماننا تھا کہ حقیقت مطلقہ تک پہنچنے کے لیے وجدان کا ہونا ضروری ہے، محض عقل کی رسائی کائنات کی حقیقت تک نہیں ہو سکتی۔ برگساں کو جب وجدان ہوا تو اسے لگا ”کہ وہ تو حالات، کیفیات اور احساسات کا ایک متلاطم سمندر ہے اور درون سینہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ کون سی کیفیت کہاں پر ختم ہوتی ہے اور دوسری کیفیت یا حالت کہاں سے شروع ہوتی ہے۔

” بقول ڈاکٹر عشرت، اقبال برگساں کے خیالات سے پوری طرح متفق ہیں اور دونوں فلسفی عقل و فکر کو ٹھکرا کر حقیقت کی تلاش میں آگے بڑھتے ہیں۔ تاہم ایک مقام پر پہنچ کر اقبال برگساں کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، برگساں کے نزدیک“ ذات نفس مسلسل تغیر اور انقلاب کی حامل ہے ”مگر برگساں اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ اس کا مقصد کیا ہے جبکہ اقبال کے نزدیک مقصد کا ہونا ضروری ہے اور اقبال کا خیال ہے کہ“ ذات نفس مسلسل تغیر اور انقلاب احوال کے ذریعے ’خودی‘ کی پرورش اور تکمیل میں مصروف ہے۔ ”گویا جس فلسفے کو برگساں نے ادھورا چھوڑا اسے اقبال نے ’خودی‘ کی شکل دے کر آگے بڑھایا۔

سب سے دلچسپ مضمون نطشے سے متعلق ہے۔ اقبال کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مرد مومن کا تصور نطشے کے مافوق البشر سے مستعار لیا۔ نطشے کا مافوق البشر ایک ایسے عظیم الشان انسان کا تصور ہے جو عالم کی ”تمام بے درد اور ظالم قوتوں سے بڑھ کر بے درد اور ظالم ہوگا، جو عالم کے مصائب کا ہنس ہنس کر مقابلہ کرے گا، جس میں اتنی قہاری اور جباری ہو گی کہ اگر دنیا اس کی مرضی پر نہ چلی تو وہ دنیا کو ہی پاش پاش کر دے گا۔

ایسا شخص ہماری طرح ابن الوقت ہونے کی بجائے ابو الوقت ہوگا۔ اس میں خودی کا ظہور اس قدر شدید ہوگا کہ اپنے علاوہ کسی اور کو نہیں دیکھے گا۔ جو کچھ اس کو پسند ہوگا وہی سارے عالم کو پسند کرنا لازم ہوگا۔ تمام عالم میں وہی شخص ہوگا، جو صحیح معنوں میں آزاد عالم ہوگا۔ ”نطشے کا فلسفہ شاپن ہار کے رد عمل میں پیدا ہوا تھا، شاپن ہارنے دنیا کی ایک بہت المناک تصویر کشی کی تھی، نطشے نے دنیا کی سفاکی سے اتفاق تو کیا مگر شاپن ہار کی طرح ہار ماننے کی بجائے اپنا مافوق البشر تخلیق کیا۔

اقبال بھی نطشے کی طرح نا امید نہیں ہوئے بلکہ جا بجا اپنی شاعری میں شاپن ہار کے فلسفہ قنوطیت کی تردید کرتے نظر آتے ہیں، یہی نہیں بلکہ وہ نطشے کی طرح خودی کو ہی زندگی کا راز بتاتے ہیں۔ لیکن اقبال نطشے کے مافوق البشر کے تصور سے متفق نہیں اور وہ اسے تخریبی سمجھتے ہیں، اقبال کے خیال میں نطشے کا مافوق البشر ”معاشرت، سیاست، اخلاق، مذہب، فکر و عمل کے تمام نظاموں کی بنیادوں کو متزلزل کرنے کے بعد کوئی تعمیری لائحہ عمل پیش نہیں کرتا۔

” مگر اقبال کا مرد مومن حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم جبکہ رزم حق و باطل میں فولاد ہے، فرشتوں کی نظر میں دل آویز ہے اور حوروں کی نگاہ میں کم آمیز ہے، اقبال کا مومن اللہ کا بندہ ہے، نطشے کا مافوق البشر ہٹلر ہے۔ نطشے کے فلسفے نے جرمنی میں فسطائیت کو جنم دیا جس کے نتیجے میں لاکھوں کروڑوں بے گناہ انسان مارے گئے، نطشے کے نزدیک کمزور انسانوں کے مارے جانے کے بعد اگر Ubermenschپیدا ہوتا ہے تو

یہی اولوالامر ہے۔ تاہم مغرب کے کچھ جدید مفکرین نطشے کے فلسفے کو نازی جرمنی کی فسطائیت کا ذمہ دار نہیں سمجھتے اور اس کے فلسفے کو عدم تشدد سے عبارت کرتے ہیں۔ اقبال بھی نطشے کی طرح مومن کی کبریائی کے قائل تھے، مومن کا جو فعل قوت اور جوش سے بھرپور ہو، خودی کی نمو کرے، وہی عمل ’خوب‘ ہے جبکہ جو فعل یاس اور نا امیدی کی طرف لے جائے، پست ہمتی کا سبب بنے، غلامی میں دھکیلے وہ ’نا خوب‘ ہے۔ نطشے کا بھی یہی فلسفہ تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اقبال نطشے کی طرح مذہب کی تردید نہیں کرتے، انہوں نے نطشے کے مافوق البشر کو مشرف بہ اسلام کر کے خودی کا سبق پڑھا دیا۔ مگر مملکت خداداد میں اس سبق کا بھی کچھ فائدہ نہ ہوا کیونکہ ”جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں، ہم خودی کو بلند کرتے رہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada