داتا کے دیوانے، تماش بین اور ایک طوائف


آصف اور میں پہلی بار سیاحت کو نکلے تھے، یعنی اپنے خرچے پہ پہلی بار، پہلی بار ہی ہماری کمیٹی نکلی تھی اور چونکہ اس کی زیادہ تر اقساط حرام کے پیسوں سے ادا کی جاتی تھیں اس لئے اجتہاد ہوا کہ ان پیسوں کا گھر پہ لگانا درست نہیں، البتہ تفریح کیلئے مباح ہے۔

لاہور پہنچے، داتا دربار سے دو تین گلیاں پیچھے ایک ہوٹل میں کمرا لیا گیا۔ دو لوہے کی چارپائیاں بان سے بنی ہوئی، ایک سائیڈ ٹیبل، جگ گلاس اور چھت کا پنکھا۔ یہ اس کمرے کی کل متاع تھی اور ہمارے لئے کافی تھی۔ باتھ روم میں پانی البتہ وافر تھا اور گرمیوں کے باوجود کافی ٹھنڈا۔ بہت خوش ہوئے، آخر ہوٹل میں کمرا بھی پہلی بار ہی لیا گیا تھا۔

اگلے روز پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس جا پہنچے۔ ہمارے لاہور جانے کا سن کر کرنل اعوان کو اپنی صاحبزادی کی مارکس شیٹ یاد آگئی تھی۔ اس مفت کی بیگار کو ویسے ہی نبٹایا گیا جیسے مفت کی بیگار نبٹائی جاتی ہے۔ آدھ گھنٹے میں فارغ ہوگئے۔ باہر نکلے تو تھوڑا آگے کیمپس کی دیوار کے ساتھ ہی ایک مزار دکھائی دیا۔

آپ کو مزارات شرک کی فیکٹریاں لگتے ہوں گے، مگر ہم اکثر چلے جایا کرتے ہیں۔ قسمت یا اتفاق کہ ہمارا خدا کبھی ملٹی پلائی نہ ہو پایا، واحد و یکتا ہی رہا۔ فاتحہ پڑھی گئی، قبر پہ موجود کتبے کا مطالعہ ہوا اور مزار کی اندرونی حالت پہ تبصرہ۔ باہر نکلے، ہمارے جوتے جو بے ڈھنگے پن سے اتارے گئے تھے، بہت سلیقے سے ایک طرف رکھے ہوئے تھے۔ ایک صاحب پچاس پچپن برس کے، سفید کاٹن کا سوٹ، سر پہ کروشیا والی سفید ٹوپی، ہاتھ میں جھاڑو لئے، مسکرا کے ہمیں دیکھا اور احاطے کی صفائی میں مصروف ہوگئے۔ ایسا سفید پوش مجاور ہم نے پہلے نہ دیکھا تھا مگر سوچا کہ لہور لہور اے۔ باہر نکلے تو یہ فیصلہ کرنے میں کچھ وقت لگا کہ اب کدھر کا رخ کیا جائے، غالباً یہ وقت اسی لئے لگا کہ وہ ایک خاص منظر دیکھنے سے ہم رہ نہ جائیں کہیں۔۔۔۔مکتوب۔

مجاور صاحب باہر آئے، مزار کی چوکھٹ کو ہاتھ لگایا، الٹے قدموں سیڑھیاں اترے، آخری سیڑھی پہ رکے، اور کسی وکٹ کیپر کی طرح ہاتھوں کو کیچنگ پوزیشن میں لائے۔ کسی غیر مرئی شے کو کیچ کیا، آنکھوں سے چھوا، جیب میں ڈالا اور قریب کھڑی گاڑی میں یہ جا وہ جا۔ آپ کو یہی شرک لگتا ہوگا حضرت، ہمیں تو محبت کی ایک ادا لگی۔ بہت مزا آیا، اللہ قسم۔

چلتے پھرتے لاہور میوزیم کے گیٹ پہ آن پہنچے۔ عمارت تو شاندار ہے، کیا خیال ہے اندر چل کر دیکھا جائے۔ اندر؟ اندر کیا ہوگا، وہی زمانے کے سرد و گرم سہتی کچھ بوسیدہ، استعمال شدہ چیزیں، انہیں دیکھ کر کیا کرنا، کیوں نہ انہیں ان کے حال پہ چھوڑ دیا جائے۔ نکل لئے وہاں سے بھی۔

اب کے خود کو اردو بازار میں موجود پایا۔ کہنے کو ایک اردو بازار پنڈی میں بھی ہے، منی ایچر ٹائپ کا، جتنی دیر میں آپ نے یہ فقرہ پڑھا بازار اتنی دیر میں ختم ہو جاتا ہے، اس لئے لاہور کا اردو بازار دیکھ کر کچھ حسد سا محسوس ہوا۔ یہ بڑی بڑی کتابوں کی دکانیں، ریڑھوں پہ لدے کاغذوں کے انبار، عجیب سی گہما گہمی۔ ہونقوں کی مانند گھومتے پھرے، ایک گلی میں ایک پہلوان صاحب دودھ دہی فروخت کرتے پائے گئے، میٹھی لسی بنوائی گئی۔ گاہکوں اور پہلوان کی گفتگو سنی۔ ہمیشہ سے ہی مجھے عمارتوں، باغات اور آثارِ قدیمہ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی، یا انسان اچھے لگتے ہیں یا جنگل اور پہاڑ۔ یہاں انسان تھے اور ان کی گاڑھی پنجابی۔ لاہوری سنجیدگی سے بھی کچھ کہیں، تو ہمیں مذاق لگتا تھا اس وقت، خواہ مخواہ ہنستے رہتے تھے، لوگ شاید احمق سمجھتے ہوں۔ لوگ غلط نہیں سمجھتے۔

وہ گلیاں ہمیں اچھی لگیں، انہی میں بھٹکتے پھرے، پھر ایک بازار میں داخل ہوئے، یہاں نسبتاً خاموشی تھی اور چہل پہل بہت کم۔ مگر یہ کیا؟ یہاں تو ساز مرمت ہورہے ہیں، ستار، طبلہ، ہارمونیم، اور وہ کیا گھنگھرو، ارے واہ۔ پنڈی میں کوئی ایسی دکان نہ تھی، اندر چلے گئے دکاندار صاحب سے سلام دعا کی۔ معلوم ہوا تیس برس سے وہ یہی کام کر رہے ہیں اور ان سے پہلے ان کے والد صاحب۔ پوچھا بہت دور دور سے لوگ آتے ہوں گے ان کے پاس، بولے زیادہ تر اسی بازار سے۔ ہائیں۔۔۔اسی بازار سے؟ لیکن اس بازار میں تو کوئی چہل پہل نہیں، بولے رات کو ہوا کرتی ہے۔ بہت اچھے بھئی۔

کچھ آگے بڑھے تو ایک صاحب ملے، تیس بتیس برس کے ہوں گے، دبلے پتلے سے، شیو بڑھی ہوئی، لمبے الجھے بال، ہاتھ میں گھٹیا سا سگریٹ، ہمیں دیکھتے ہی مسکرائے، ہم بھی مسکرائے۔ قریب آگئے، پوچھنے لگے شغل میلے کا ارادہ ہے؟ لو بھلا اور ہم آئے کس لئے ہیں۔ جناب نے جو شغل میلے کی تفصیلات بتانا شروع کیں تو بہت شرمائے ہم، جان چھڑانے کی کوشش کی۔ کہاں چھوڑتے تھے وہ، پیچھے ہی پڑ گئے۔ تنگ آ کر آصف نے انہیں ماں، بہن کا گالی نما طعنہ دیا، تلخ سی ہنسی ہنس کر انہوں نے ہماری جانب دیکھا، غالباً زیرِلب گالی بھی دی اور پتلی گلی سے نکل لئے۔ ہم دونوں ایک بار پھر اسی نتیجے پہ پہنچے کہ لہور، لہور اے۔

تو یہ تھا وہ بازار، بہت خوب۔ اتنا علم تو ہو چکا تھا کہ یہاں رونق رات کو ہوتی ہے، سوچا رات کو پھر یہاں آیا جائے۔ تھک گئے تھے، کھانا کھایا اور سو گئے۔ مغرب کے بعد کہیں آنکھ کھلی، نہائے دھوئے، تازہ دم ہو کر داتا دربار آن پہنچے۔ جی جی، مشرک جو ٹھہرے۔

ان دنوں وہاں موجودہ صورتحال تو تھی نہیں، مومنین نے مشرکین پہ پھٹنا ابھی شروع نہیں کیا تھا۔ ہر وقت رونق ہوا کرتی تھی، بھانت بھانت کے لوگ، جپسی گرلز، نشئی، بدمعاش، زبردستی آپ سے دیگیں دلوانے والے، ملنگ، دور دراز سے آئی پینڈو خلقِ خدا۔ اتنا مزا آیا کہ دربار کے اندر جانے کا تو خیال ہی نہ رہا، وہیں گھومتے، گپیں لگاتے، آنکھیں چار کرتے، پچھلی گلی میں وڈیو گیمز کھیلتے، جپسی گرلز کو چھیڑتے، ملنگوں سے بھنگ کا پتہ کرتے، نشئیوں سے چرس مانگتے، رات گہری ہوگئی۔

ملنگوں نے رش کم ہوتا دیکھا تو اپنے پر پھیلانا شروع کر دیے، بستر سیدھے ہونے لگے۔ ہم اس وقت دو ملنگوں کے ساتھ پنڈی سے بھنگ برامد کرنے کے امکانات پہ تبادلۂ خیال کر رہے تھے۔ ایک تیسرا ملنگ بھی آ پہنچا۔ جہاں اس نے چادر بچھانی تھی، وہیں ہمارا شاپر پڑا تھا جس میں ایک دو میگزینز تھے، ملنگ نے شاپر اٹھایا، ہیرالڈ کا شمارہ نکالا، دو تین سرخیاں پڑھیں اور حقارت سے ایک جانب رکھ دیا۔ آصف باتوں میں مصروف تھا مگر میں نے ملنگ کو پڑھتا دیکھ لیا تھا، اس کا انگریزی تلفظ مجھے حیران کر گیا۔ آصف کو بھی متوجہ کیا، دونوں اب اس کے دوالے ہو گئے۔

پوچھا گیا تو بتایا کہ ہم دونوں پنڈی سے آئے ہیں گھومنے پھرنے۔ ملنگ بولا کہ وہ بارہ سال بری امام رہ کر آیا ہے۔ بارہ سال۔۔۔۔تو اب یہاں کیوں آگئے۔ ڈیوٹی جو ادھر لگ گئی۔ ڈیوٹی۔۔۔آپ کسی خفیہ ایجنسی میں ہیں کیا؟ ہمارے ذہن میں جاسوسی کہانیاں گھومنے لگیں۔ ملنگ ہنس پڑا، بولا ہاں، ہماری بھی خفیہ ایجنسی ہی ہوا کرتی ہے۔ اس پہ بقایا دونوں ملنگوں نے بھی بے ہنگم سا قہقہہ لگایا، یہ ضرور کوئی معرفت کی بات تھی جو ہم نہ سمجھ پائے۔ سنبھل کر پوچھا یہ انگریزی اتنی اچھی کیسے سیکھ لی آپ نے، کتنا پڑھے ہیں آپ؟ بولے یہ سب بیکار ہے۔ عرض کیا وہ تو ہے مگر پڑھ لکھ کر آپ یہاں کیسے، یہ چولا، یہ مالائیں۔۔۔ضرور عشق میں ناکام ہوئے ہوں گے۔ اس پہ وہ اکیلا ہی ہنسا، خوب ہنسا اور بولا کہ عشق میں کوئی ناکام نہیں ہوتا۔ ہم دونوں اس کی زندگی کی کہانی سننے پہ مصر تھے، مگر وہ اور دیگر ملنگ اب ہم سے بیزار ہو چلے تھے۔ ایسے نمونے انہیں بھی کم ہی ملتے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ بے عزت کر کے اٹھاتے، ہم نے کپڑے جھاڑے اور بازارِ حسن چل دیے۔

دس کے لگ بھگ وقت تھا، جہاں سجی سجائی بگھیاں کھڑی تھیں اسی کے سامنے ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔ دودھ پتی منگوائی گئی، توقع سے بڑھ کر نکلی، پھر منگوائی جاتی رہی، دو فارغ قسم کے بابے قریب بیٹھے تھے انہیں بھی پلائی گئی، قیمتی معلومات حاصل ہوئیں، کچھ چٹپٹی باتیں، کچھ عبرتناک کہانیاں، کچھ ان چاروں گناہگار آنکھوں کے دیکھے دلخراش واقعات۔ ہمیں نصیحت کی گئی کہ جوانی نیک کاموں میں بسر کریں، عرض کیا نیک کاموں میں بسر ہوتی تو آپ سے ملاقات کہاں ممکن تھی۔ بابے اس پہ بھی شرمندہ نہ ہوئے اور مزید چائے منگوا ڈالی۔ آخر سوچا کہ باہر بھی کچھ گھوما پھرا جائے، اسی راستے کو نکلے جہاں دن کو ساز مرمت ہوتے دیکھے تھے، اب کئی دکانیں کھلی تھیں، کئی میوزک بینڈز کے دفاتر بھی دکھائی دیے، ایک گلی میں گھسے، سامنے گھر پہ بورڈ لگا دیکھا۔ یہ شریفوں کا گھر ہے، دروازہ کھٹکھٹانے سے پرہیز کریں۔ واقعی لہور، لہور اے۔

عوام کا ایک جمِ غفیر حضرت عیسٰی کی گمشدہ بھیڑوں کی طرح گھومتا پھرتا تھا۔ جو اکیلے دکیلے تھے، کچھ کچھ شرمائے، گھبرائے ہوئے، جو گروپس کی شکل میں تھے ان پہ شوخی سوار۔ گجرے، موتیے، گلاب، پان، کچھ زیادہ نہیں دکھائی دیے مگر تھے ضرور۔ پولیس والے جگہ جگہ کھڑے مگر بے نیاز اور مگن۔ یقین جانئے اس بھیڑ میں بہت ولولہ تھا۔ جیسے میچ شروع ہونے سے پہلے سٹیڈیم میں بیٹھے تماشائیوں میں ہوا کرتا ہے۔ انتظار، توقع، بے چینی، افففف۔

آخر شور بلند ہوا، بے سمت ہجوم اب منظم ہو کر کچھ مخصوص گلیوں کا رخ کرنے لگا۔ ہم بھی سیلاب میں بہہ نکلے۔

وہی گلیاں جہاں سے کچھ دیر پہلے گزرے تھے مگر اب یہاں کا عالم ہی کچھ اور تھا۔ دروازے، کھڑکیاں کھل چکے تھے۔ ہر دروازے سے جھانکتی شوخ و شنگ حسینائیں، کھڑکی سے دکھائی دیتا اندر کا منظر، سینکڑوں مردوں کا ہجوم۔۔۔میری اور آصف کی کیفیت ایسی تھی جیسے کوئی دیہاتی بچہ پہلی بار میلہ دیکھنے آیا ہو۔ زندگی ہمیں اب بھی ایسی ہی لگتی ہے، کسی میلے کی طرح بارونق، پر ہجوم، پراسرار۔ یہاں تو اب کیفیت ہی کچھ اور تھی، ہجوم میں سے چند درجن افراد کسی نہ کسی بالاخانے کی سیڑھیاں چڑھتے چلے جارہے تھے، معلوم ہوا کہ نیچے ڈسپلے سنٹر ہے، اصل دکان اوپر سجی ہے۔ دو تین گلیاں گھومتے گھومتے نوے فی صد عوام کہیں غائب ہوگئے۔ ہم سے چند ایک باقی رہ گئے مگر وہ بھی ہم سے کہاں تھے۔ انہیں شاید فیصلہ کرنے میں دقت ہورہی تھی۔

یہ شاید آخری گلی تھی، یا اور بھی ہوں گی معلوم نہیں۔ اتنا یاد ہے کہ دروازے، کھڑکیاں بند ہو رہے تھے، پردے گرائے جا رہے تھے، اوپر سے اب موسیقی کی صدائیں آنے لگی تھیں۔ ایک گھر کے سامنے ہم بس چھ سات لوگ کھڑے تھے۔ دو لڑکیاں اٹھارہ بیس برس کی دروازے پہ بظاہر ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھیں، کنکھیوں سے حاضرین کا جائزہ بھی مگر ساتھ ساتھ لیا جارہا تھا۔ ان کی شوخیاں، مسکراہٹیں، اچٹتی سی نظر ڈالنا، دل میں گدگدی سی ہونے لگی۔ ہم دو کو چھوڑ کر باقی قوم سیڑھیاں چڑھ گئی۔ اب گلی کے سب دروازے بند تھے، بس اس گھر کے سامنے ہم دو ہونق اور یہ دو لڑکیاں۔ کھڑکی سے جھانکا تو بیٹھک میں کرسی پہ ایک اور لڑکی بیٹھی دکھائی دی۔ ان دونوں سے عمر میں بڑی شاید پچیس چھبیس برس کی مگر بہت خوبصورت۔ بال کھلے ہوئے، کسی سوچ میں گم۔ عجیب سا منظر تھا، بھلائے نہیں بھولتا۔ دروازے والی دونوں لڑکیاں اب ہم دونوں کی جانب متوجہ تھیں، شاید تہیہ کر لیا تھا کہ انہیں بھی اندر بلا کے رہیں گی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، وہی صورتحال جو میوزیم سے باہر درپیش تھی۔ کیا کریں، اندر جایا جائے، اندر کیا ہوگا۔۔۔۔وہی زمانے کے سرد و گرم سہتی کچھ بوسیدہ، استعمال شدہ جوانیاں۔ انہیں دیکھ کر کیا کرنا، کیوں نہ انہیں ان کے حال پہ چھوڑ دیا جائے۔ ہم ہنس پڑے، ایک لڑکی نے منہ چڑایا اور دروازہ زور سے بند ہوگیا۔ کرسی پہ بیٹھی لڑکی اٹھی، کھڑکی کے پاس آئی، ہمیں دیکھ کر مسکرائی۔۔۔جانے کیوں ایسا لگا اسے ہمارے نہ آنے کی خوشی ہوئی۔۔۔اور کھڑکی بھی بند ہوگئی۔

دو ڈھائی بجے رات داتا دربار جا پہنچے، تب داخلی دروازہ مزار کے بالکل سامنے ہوا کرتا تھا، وضو کیا، دربار پہ آئے، فاتحہ پڑھی، وہیں بیٹھ گئے، مزار کی برامدے والی دیوار کے ساتھ، خاموش اور باادب ہوکر۔ بے ڈھنگے پن سے اللہ کو یاد کرنے کی کوشش کی، کبھی کلمہ، کبھی درود۔۔۔ پانچ دس منٹ بعد تھک ہار کر مزار کی دیوار سے ٹیک لگا دی۔ کئی زائرین اس وقت اوپر سو رہے ہوتے تھے۔ آصف کو آرام نہیں آیا، پھر کہیں چلا گیا۔ میں بابا جی کے مزار سے سر ٹکائے وہیں سیدھا ہوگیا۔

اکا دکا لوگ اب چلتے پھرتے دکھائی دینے لگے، تہجد کا وقت ہو گیا تھا۔ میں وہیں سر ٹکائے بیٹھا رہا، ایک دم سے جانے کتنا ڈھیر سارا سکون اتر آیا، ایک عجیب سی ٹھنڈک دل پہ چھا گئی، پتہ نہیں کیوں آنسو بہہ نکلے۔ یوں لگا بہت ہلکا پھلکا سا ہوگیا ہوں۔ آصف بھی آگیا، وہ بھی بدلا بدلا سا تھا، پرسکون اور خاموش۔ دونوں نے پھر فاتحہ پڑھی، واپس پلٹنے لگے تو سامنے ایک اور منظر ہمارا منتظر تھا۔

ہم لوگ برامدے والی طرف تھے، داخلی دروازے والی جانب مزار کے بالکل سامنے ایک معمر خاتون، ایک مچھندر مرد اور ایک جوان لڑکی مصروف دعا تھیں۔ سفید چادر میں لپٹی لڑکی کے ہاتھ بھی چادر میں ہی بلند تھے، ہونٹوں کی لرزش، آنکھوں سے بہتے آنسو، دعا کے آخر میں سسکاری بھر کر وہ آسمان کو دیکھنا۔ بہت مقدس سا منظر جسے ہم کبھی یوں محویت سے نہ دیکھتے اگر یقین نہ ہوتا کہ وہ ہمارے لئے ہی تخلیق کیا گیا تھا۔

یہ وہی لڑکی تھی جسے ہم چند گھنٹے پہلے اس بازار میں دیکھ کر آئے تھے، بال کھولے، کرسی پہ بیٹھی، کسی گہری سوچ میں گم۔ مکتوب۔

فتوے دینا کتنا آسان مگر زندگی کو سمجھنا کتنا مشکل ہے نا۔

اب بھی لاہور ہی ہوں اور جانے کب تک رہوں، مگر وہ مجاور، وہ ملنگ، وہ دلال، وہ طوائف۔۔۔۔۔وہ لاہور شاید اب دوبارہ کبھی نہیں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
13 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments