کپتان نے کرپشن کو اپنا تعصب بنا تو لیا مگر۔۔۔


بجلی آتی رہے، گیس پانی وافراور ٹرانسپورٹ اچھی ہو۔ پولیس سرگرم اور شہری حکومت کے ادارے کام کرتے ہوں۔ یہ بہت بنیادی سی ضروریات ہیں، جو کسی شہر میں موجود ہونی چاہئیں۔ کراچی ہمارا سب سے بڑا شہر ہے۔ وہاں بنیادی ضرورت کی ہر چیز کا بحران ہے۔ بحران اتنا ہے کہ شہریوں میں ذرا دم ہوتا تو ہر قسم کی حکومت اٹھا کر سمندر میں پھینک دیتے۔ یہ مسائل آج سے نہیں، بلکہ اب تو لگتا ہے جب سے کراچی ہے تب سے ہیں۔ کراچی پھل پھول رہا ہے تو مسائل بھی ساتھ ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔

کراچی جیسے شہر کی سیاست مسائل کے حل کے گرد گھومنی چاہیے تھی۔ لیکن یہاں سیاست کئی دہائیوں سے ایک البیلے لیڈر کے گرد گھوم رہی ہے، جس نے کراچی میں آباد سب سے بڑے لسانی گروہ کو بس اتنا ہی تو یقین دلایا کہ کراچی تمھارا ہے۔ تم سے زیادتی اس لیے ہو رہی ہے کہ تم مہاجر ہو۔ تم نے پاکستان بنایا تھا اب یہاں تمھیں کوئی دیکھ کر ہی راضی نہیں۔ آپ جو کوئی بھی ہیں، کچھ دیر کو مہاجر ہو جائیں۔ اب سوچیں الٹی الٹی باتیں، آپ کو نوکری نہیں ملتی کہ کوٹہ سسٹم ہے۔ اپ سوچیں کہ یہ کوٹہ نہ ہوتا تو میرٹ پر کیا کوئی آپ کا مقابلہ کرپاتا۔ آپ سے بسوں میں اچھا سلوک نہیں ہوتا کیونکہ آپ ایک خاص زبان بولتے ہیں۔

بطور مہاجر اپنی ساری چھوٹی چھوٹی محرومیاں سوچیں۔ وہ بھی جنہیں آپ زبان سے ادا تک نہیں کر سکتے۔ ان میں سے اکثر محرومیاں وہ ہیں جو کم ہمتی کی پیداوار ہیں۔ کامیابی شاید دو قدم دور تھی لیکن ہم ہی خود تھک ہار گئے، جس کا الزام پھر دوسروں پر لگا دیا۔ الطاف حسین نے لوگوں کی ان سب محرومیوں کو زبان دی۔ ان سارے تعصبات کا ذکر سر عام کیا جو ہم دل میں رکھتے ہیں، کہہ نہیں پاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی والوں نے اسے اپنی آواز مان لیا اور ان کے ہو گئے، آج بھی انہی کے ہیں۔ اب بت تراشتے رہیں، ان میں جان ڈالتے رہیں، وہ دو قدم چل نہیں پائیں گے، میدان میں الطاف بھائی کو آنے تو دیں پتہ لگ جائے گا۔

الطاف حسین کی سیاست سے بحث نہیں اور نہ ہی ہم کراچی کے مسائل پر بات کر رہے ہیں۔ ان کا کوئی حل ہمارے پاس ہے نہ پیش کرنے لگے ہیں۔ بات صرف سیاست میں تعصبات کے استعمال کی کرنی ہے۔

امریکہ چلتے ہیں جہاں ایک عام امریکی کے تعصبات کو زبان دے کر ٹرمپ امریکہ کا صدر بن گیا۔ عام امریکی بیروزگاری سے تنگ تھا۔ ٹرمپ نے اسے بتایا کہ تم اس لیے بیروزگار ہو کہ امریکہ میں فیکٹریاں بند ہیں۔ عام امریکی جرائم سے دہشت گردی سے خوفزدہ تھا۔ ٹرمپ نے انہیں بتایا کہ جرم تب کم ہو گا جب میکسیکو کے ساتھ ایک احمقانہ سی دیوار بنا کر آمدورفت روکی جائے۔ ٹرمپ نے امریکیوں کو بتایا کہ مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں مسئلہ ان کے مذہب میں ہے۔ میں ان کی امریکہ آمد ہی رکوا دوں گا جو یہاں ہیں، انہیں نکال دونگا۔ یہ سادی سادی سی باتیں تھی۔ امریکیوں کے سادہ سادہ مسائل کا ٹرمپ نے ایک سطری حل پیش کیا۔ امریکیوں کے اندرونی خوف، ان کے تعصبات کو پکارا بدلے میں ملے ووٹ۔ ٹرمپ امریکہ کا صدر بن گیا، میڈیا اس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ سارے تجزیے تبصرے اندازے جائزے اور سروے ناکام ہوئے۔ بات معمولی سی تھی، ٹرمپ نے یہ پروا کیے بغیر کہ بات ٹھیک ہے یا غلط وہ سب کہا جو ایک پریشان امریکی سوچتا تھا۔

کرپشن پاکستان میں ایسا ہی ایک مسئلہ ہے۔ اس ملک کا شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو یہ کہہ سکے کہ ہمارا نظام کرپٹ نہیں۔ لوگوں کو چھوڑیں اپنی بات کرتے ہیں۔ کبھی ناکوں پر پولیس کو سو پچاس دے کر جان چھڑائی۔ شناختی کارڈ تک جلدی بنوانے کے لیے نذرانہ دیا۔ کبھی فرد نکلوانے کو پٹواری کو پیسے دیے۔ کبھی بل دینے چالان فارم جمع کرانے کے لیے بنک کے چوکیدار کی مٹھی گرم کی۔ کبھی درے سے جعلی ڈگری خرید کردوستوں کو باہر نوکری کرنے جاتے دیکھا۔ کبھی پیسوں پر ہی نوکریاں بکتے دیکھیں۔ یہ سب وہ ہے جو ہم سب کے ساتھ ہوتا رہتا ہے اور ہم دیکھتے رہتے ہیں۔

ایسے میں جب سرکار بڑے منصوبوں کا اعلان کرتی ہے۔ بڑے ڈیم موٹر وے میٹرو ائیر پورٹ بجلی گھر یا کسی بھی قسم کے معاہدے کرتی ہے۔ ہم سب دل سے یہ مانتے ہیں کہ یاروں نے اس میں اپنے لیے مال ضرور سائیڈ پر کیا ہے۔ آپ بتائیں ذرا پاکستان کے دس امیر ترین لوگوں کے نام۔ پہلے نام جو ذہن میں آتے ہیں کیا وہ کاروباری لوگ ہیں؟ نہیں نا۔ یہی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں منافع کاروبار کی بجائے مفاد دینے، فیوردینے میں چلا گیا ہے۔ وہ لوگ زیادہ امیر ہیں ان کے اکاؤنٹ میں زیادہ پیسے ہیں جو آپ کو کوئی فیور دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہ فیور وہ آپ کو صرف اپنے عہدے کی وجہ سے دے سکتے ہیں۔ فیور دینے والا ہاتھ ہلائے بغیر منافع کا زیادہ تر حصہ لے اڑتا ہے۔ اس پیسے کو وہ ٹیکس نیٹ میں چاہتے ہوئے بھی نہیں لا سکتا۔ ظاہر ہے پھر پیسہ باہر نہیں جائے گا تو کہاں جائے گا۔

یہ سب کچھ ہم لوگ دل میں سوچتے ہیں۔ کپتان نے ہمارے دل کی باتوں کو زبان دے دی ہے۔ اس کے اثرات دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ اس کیبہت سوچی سمجھی پالیسی ہے۔ کپتان نے ایشو بھی توایسا اٹھایا ہے جو ہر پاکستانی کے لیے جانا پہچانا ہے۔ کپتان نے پاکستانیوں کے تعصب کو ٹھیک پکڑا ہے اور اس کو جگانے کے لیے آواز لگا دی ہے۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے، اس کا پتہ تو الیکشن میں ہی لگے گا۔ اس سے پہلے ایک بات سن لیں۔ ہمارے مشر کا ایک جرمن دوست پشاور آیا ہوا تھا۔ تب باڑہ مارکیٹ جوان ہوتی تھی۔ جرمن پشاور زیادہ ٹائم رکنا چاہتا تھا۔ مشر کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا تھا کہ اس سے ایک بڑی کاروباری ڈیل کرنا چاہتا تھا۔ وہ خیبر ایجنسی بھی دیکھنا چاہتا تھا، جس کے لیے پرمٹ ملتا تھا۔ پرمٹ پر ان دنوں پابندی تھی، مشر نے دو سو دے کر پابندی کی ناک مروڑی اور جرمن کو اپنے ہجرے لے گیا۔ جرمن سارے راستے پھر یہی کہتا گیا کہ کمیشن دینے کے کتنے فائدے ہیں۔ مشر بھی کہتا تھا ’خبرہ خو ٹیک دہ‘ یعنی بات تو ٹھیک ہے کام تو ہو ہی جاتا ہے۔ کام ہوتا رہنا چاہیے۔ کام رک گیا تو سب کچھ رک گیا۔ مشر کی طرح سوچنے والوں کی اکثریت ہے۔ ایسے میں آپ بس یہ سوچیں کہ اگلے الیکشن میں کپتان کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi