لنگی بردار اوگھڑ سادھو اور عورت


بزرگوں سے سنا ہے کہ کسی محلے میں ایک ہندو سیٹھ اور ایک مسلمان ساتھ ساتھ رہا کرتے تھے۔ مسلمانوں کے گھر گوشت پکتا تو سیٹھانی کا بھی من کھانے کو کرتا۔ آخر سیٹھانی نے مسلمان بی بی کے ساتھ دوستی گانٹھی اور گاہے گاہے بھنا ہوا گوشت چکھ لیا کرتی، اس دوران رازداری شرط تھی کہ سیٹھ کو اس حرکت کا پتا نہ چلے، ایک دن جانے کس بات پہ دونوں عورتوں میں ٹھن گئی۔ اب مسلمان خاتون ہاتھ بڑھا بڑھا کر لڑ رہی تھی مگر سیٹھانی ایک دم چپ تھی۔ جب بی بی نے دیکھا کہ لڑائی تو بے کار جارہی ہے، کوئی فائدہ ہی نہیں سیٹھانی تو منہ میں گھنگھنیاں ڈال کے بیٹھی ہے تو اسے سمجھ آگئی، کہ سیٹھانی افشائے راز کے خوف سے کسی بات کا جواب نہیں دے رہی۔ اس پر مسلمان خاتون نے تاریخی جملہ کہا کہ۔ ”بھیڑ بھِڑ ساں، کبھیڑ نہ بھِڑساں تو بھِڑ تاں سہی“ یعنی ․․․لڑائی کروں گی کوئی غیر اخلاقی چال نہیں چلوں گی تم لڑو تو سہی۔ اصل میں مجھے یہ کہاوت اردو ادب میں ہونے والی ایک تازہ واردات سے یاد آئی کہ جب سے عورت نے مختلف علوم و فنون کے اندر اپنی صلاحیتوں کو منوانا شروع کیا ہے، اس کی اس برق رفتار ترقی پہ جلنے والوں کو اور کچھ نہیں سوجھتا تو اسے اخلاق باختہ، بے راہرو، دوسروں کے بستر سے نکل کر آگے بڑھنے والی اور ترقی کرنے والی قرار دینے لگتے ہیں۔ اور اب تو یہ رسم کافی کہنہ ہو گئی ہے․․․․تازہ ترین واقعہ ایک اوگھڑ سادھو کا ہے، جو اردو کے پرلے درجے کے ادیب ہیں۔ پرلے درجے سے آپ کچھ بھی مراد لے لیجیے۔ پہلے اوگھڑ یا آگھوڑی سادھو کا تعارف کرادوں۔

جب ایک چیلہ اوگھڑ سادھو بننے کے لیے گرو کے پاس جاتا ہے تو گرو اسے حکم دیتا ہے کہ ایک ہر لحاظ سے مکمل کھوپڑی ڈھونڈ کے لائے۔ چیلہ نکل جاتا ہے اور پھر ایسی کھوپڑی ڈھونڈ کے گرو کے قدموں میں لا رکھتا ہے۔ اگلا حکم ملتا ہے کہ اس کھوپڑی کو توڑ کر اس کا کشکول بنایا جائے، کشکول بن جاتا ہے۔ کشکول کے اندر باہر گیروے رنگ کا پینٹ کیا جاتا ہے۔ اب گرو حکم دیتا ہے کہ آج کے بعد تم اس کھوپڑ کے اندر کھاؤ گے، پیو گے، اسی کو سر پہ اوڑھو گے، اسی میں مانگو گے۔ یہ کھوپڑ ہی اب تمہارا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اس کے بعد یہ سادھو شمشان گھاٹ کا رخ کرتے ہیں، جلتی ہوئی ارتھی میں سے انسانی جسم کے ادھ جلے حصے نکال کے کھانا، عورتوں کے مردہ جسموں کے ساتھ اختلاط کرنا، کالا جادو کرنا، ان کے اہم ترین وظائف میں شامل ہے۔ کتے، بلی، سانپ، نیولے سے ان کو گھِن نہیں آتی۔ گلی سڑی چیزیں کھانے سے اِن کا معدہ نہیں ابلتا، یہ ایک مختصر ترین پٹی سے اپنے وسط کو ڈھانپے رکھتے ہیں۔ شراب جی بھر کے پیتے ہیں۔ اور اکثر سادھو جنہیں بابے بھی کہا جاتا ہے برہنہ بستیوں میں نکل جاتے ہیں اور اپنے کھوپڑ میں بھیک اکٹھی کرتے ہیں۔

تو سابقہ سادھو جو ماہر علمِ نجوم بھی ہیں، نے ایک ناول لکھا۔ اس ناول پہ پٹنہ یونیورسٹی کی ایک خاتون محقق نے مضمون لکھا جو کہ بہار اردو اکادمی کے تحت چھپنے والے مجلہ ”زبان و ادب“ میں چھپ گیا۔ ناول میں چونکہ محقق نے صاف سیدھی تنقید کی تھی لہذا افسانہ نگارکو اس کا رنج تھا۔ انہوں نے ایک سیمینار میں محقق کو دھمکی دی کہ اسے ایسا سبق سکھائیں گے کہ وہ منہ چھپاتی پھِرے گی۔ اور پھر ایک افسانہ لکھ کے چھپوا دیا۔ افسانہ نہ صرف دو جگہوں پر چھپوایا بلکہ ایک ایسے سیمینار میں پڑھا بھی جہاں افسانے میں قلمزد افراد کے جاننے والے موجود تھے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف خاتون محقق کی بلکہ ان کے پی ایچ ڈی کے نگران کی کردار کشی بھی کی۔ اور نوبت بہ ایں جا رسید ․․․․کہ خاتون محقق واقعی گھر میں قید ہوکررہ گئی ہیں۔

افسانے پر پچھلے ایک ہفتے سے زور وشور کی بحث جاری ہے۔ یار لوگ چسکے بھی لے رہے ہیں اور افسوس بھی کررہے ہیں۔ چسکے اس لیے کہ افسانہ ہی کچھ اس اندازمیں لکھا گیا ہے۔ اور افسوس اس لیے کہ اب ادب میں ایسا ہونے لگے گا تو ادب کہاں جائے گا۔ کیا ادب اب ایک دوسرے کی کردار کشی کا نام بن کے رہ گیا ہے؟ اس کے علاوہ اس کی اور کوئی مقصدیت نہیں رہی۔ ادیب کے پاس سوائے جنس زدہ کہانیوں کے اور کوئی موضوع نہیں بچا؟ میں جانتی ہوں کہ مذکورہ افسانہ نگار میرا بھی ایسا حال کرسکتے ہیں جیسا انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی کی خاتون محقق کا کیا، مگر کیا ہم اس طرز کے کرداروں کے خوف سے لکھنا چھوڑ دیں گی؟ محض اس لیے کہ ہم عورتیں ہیں اور کوئی لنگی بردار ہمیں اپنی لنگی کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ یہ نہایت افسوس ناک صورتحال ہے، اور اس صورتحال سے عورت نے خود کو خود ہی نکالنا ہے، اس سے صرف ایک معزز خاتون کی شہرت ہی خراب نہیں ہوئی بلکہ تنقید کی آزادی کی راہ بھی کھوٹی ہوئی ہے۔ اگر ایسی مثالیں آئندہ بھی سامنے آتی رہیں تو خواتین بالخصوص آزادی کے ساتھ اپنی تحقیق کے حق کو کھو دیں گی۔ آج ہم جتنی شدو مد سے عورت کے مرد سے مساوی حقوق کی بات کررہے ہیں، دوسری طرف اتنی ہی شدت کے ساتھ عورت کی کردار کشی بھی کررہے ہیں۔ ہمیں جب اپنا غصہ اتارنے کا اور کوئی مؤثر طریقہ نہیں ملتا تو بات سیدھی عورت کے کردار تک لے آتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس بات کی تحقیق بہت کم لوگ کریں گے اور یقین زیادہ لوگ۔ اور پھر عورت بھی ہمارے سماج کی، جس کے لیے سب سے بڑی گالی یہی ہے۔

یہ انجیلینا جولی نہیں ہے کہ جسے غریب امیر بچوں میں تفریق کرنے والی کہلانے پہ دکھ ہو، جبکہ کسی غیر مرد کے ساتھ بستر میں حصہ دار کہلانے پر نہیں․․․․․یہ ہمارے سماج کی عورت ہے جو اس گالی سے بچنے کے لیے زندہ جلتی آئی ہے۔ یہ سراسر ایک منفی رویہ ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ آپ اپنے آس پاس کسی بھی عورت کی ذہانت سے متاثر ہیں تو اپنی لنگیوں سے باہر نکل کر ایک فرد کی سطح پر اس سے بات کیجئے۔ منطقی طریقے سے اسے شکست دیجئے۔ یہی آپ کا اصل امتحان ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).