شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اوربھارت کی شرکت


پاکستان اور بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت مل گئی ہے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور بھارتی وزیر آعظم نریندر مودی نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے والی تقریب میں شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کا ساتواں جبکہ بھارت آٹھواں مستقل رکن بن گیا ہے۔ یہ تنظیم 1996ء میں قائم ہوئی اور اس کے پانچ رکن ملک تھے جن میں چین، کرغزستان، قازقستان، روس اور تاجکستان شامل تھے 2001ء میں اس تنظیم میں ازبکستان نے شمولیت اختیار کی۔بھارت اور پاکستان 2005ء میں بطور مبصر شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بنے ۔

پاکستان کی جانب سے 2010ء میں شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن بننے کی درخواست دی گئی تھی اور پاکستان یہ درخواست دینے والا پہلا مبصر ملک تھا۔ 2015ء میں روس کے شہر اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ہیڈ ٓف دی اسٹیٹ کونسل‘ کے اجلاس میں اصولی طور پر پاکستان اور بھارت کو اس تنظیم کا رکن بنانے کی منظوری دی گئی۔اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ مستقبل میں ایران بھی شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن بن جائے۔ ایران کی شمولیت سے اس تنظیم کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گا۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک یوریشا کے تقریبا ساٹھ فیصد رقبے پرمحیط ہیں۔ علاوہ ازیں ایس ای او ممالک کی آبادی کم و بیش ڈیڑھ ارب افراد پر مشتمل ہے۔قدرتی گیس کے قریب 40۔50 فیصد اور تیل کے 17 فیصد ذخائر بھی ایس ای او کے ممبر ممالک میں پائے جاتے ہیں ۔لہذا اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ایس ای او ایک نہایت اہم تنظیم ہے اور مستقبل کےبہت سے معاملات میں ایس ای او اہم کردار ادا کرے گی ۔

سٹاک ہولم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ’’ شنگھائی تعاون تنظیم بہت تیزی سے ترقی کی منازل عبور کر رہی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا ایجنڈا بہت متوازن ہے اور اس کے اہداف حقیقت پر مبنی ہیں۔ اس کے علاوہ ان پٹ اور آؤٹ پٹ بیلنس کو بھی برقرا ر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی وجہ سے شنگھائی تعاون تنظیم بہت فعال نظر آتی ہے۔ ‘‘

پاکستان اور بھارت دونوں کو شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت سے ترقی کے بہت سے مواقع میسر ہوں گے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت سے وسطی ایشائی ممالک کے تیل اور گیس کے ذخائر تک رسائی حاصل ہو سکے گی۔ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے لیے کاسا 1000 ، سینٹرل ایشاء ۔ساؤتھ ایشاء ریجنل الیکٹریسٹی مارکیٹ،اور ٹاپی گیس پائپ لائن جیسے منصوبوں پر عمل درآمد ممکن ہو گا۔ چین پہلے ہی ’’ون بیلٹ ۔ون روڈ‘‘ کی پالیسی کے تحت پاکستان میں سی پیک اکنامک کاریڈور پر ایک خطیر رقم خرچ رہا ہے۔ اسی طرح بھارت میں ’’بنگلہ دیش۔چین۔انڈیا ۔میانمار‘ بی سی آئی ایم اکنامک کاریڈور پر بھی کام کر رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت سے معاشی اور اقتصادی ترقی کے مواقع اور بڑھ جائیں گئے اور موجودہ پراجیکٹس پر عمل درآمد میں تیزی آئے گی۔

اس کے علاوہ شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت سے پاکستان اور بھارت کومل بیٹھنے کا موقع ملے گا۔ دوسری علاقائی تنظیمیں جیسا کہ سارک پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کو کم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سارک میں بھارت معاشی،جغرافیائی اور اقتصادی اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے۔ بھار ت جنوبی ایشاءکے 76 فیصد رقبے پر محیط ہے، اس کی آبادی جنوبی ایشاء کی آبادی کا 77 فیصد ہے، اس کا جی ڈی پی جنوبی ایشاء کے جی ڈی پی کا 71 فیصد ہے۔ اس لیے سارک جیسی تنظیم میں بھارت کی اجارہ داری ہے اور پاکستان اور بھار ت برابری کی سطح پر سارک کے پلیٹ فارم پر اپنے مسائل کا حل نہیں نکال سکتے ۔

شنگھائی تعاون تنظیم کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پہلے ہی چین اور روس جیسے طاقتور ممالک شامل ہیں۔ یہاں پاکستان کو چین جیسے ملک کا ساتھ بھی حاصل ہے ۔ یہاں بھارت اپنی اجارہ داری قائم نہیں کر سکتا ۔ وسطی ایشائی ممالک کے توانائی کے ذخائر تک رسائی بھارت کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اہم ہے اور یہ رسائی شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے ممکن ہے۔ اور شنگھائی تعاون تنظیم میں مستقل ممبر رہنے کے لیے اس کے قوانین اور اصول و ضوابط پر عمل درآمد لازم ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر کا آرٹیکل ۱ کہتا ہے کہ

’’ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبر ممالک خطے میں امن ، سیکیورٹی اور استحکام کوفروغ دینے کے لیے کام کریں گے اور باہمی مسائل کو پرامن انداز میں حل کرنے کے لیے کوشاں رہیں گےـ‘‘

پاکستان اور بھارت کے لیے یہ بہت اچھا موقع ہے کہ انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آگیا ہے جہاں وہ برابری کی سطح پر بات چیت کر سکیں اور اپنے مسائل کا پر امن حل تلاش کر سکیں تاکہ خطے میں امن قائم ہو اور بھوک اور افلاس کے مارے لوگوں کی جانب حکمرانوں کی توجہ ہو سکے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).