سندھ میں نابینا ڈولفن سے جنسی زیادتی کی مکروہ روایت


دنیا میں ڈالفن کی چار اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن میں ایک نابینا ڈالفن ہے جو کہ صرف دریائے سندھ میں پائی جاتی ہے ۔ مقامی طور پر اس مچھلی کو بلھن کہا جاتا ہے۔ جینیاتی طور پر یہ مچہلی نابینا نہیں ہوتی بلکہ سالوں سے دریائے سندھ کا مٹی والا پانی اور بڑھتی ہوئی آلودگی اس کے نابینا ہونے کی وجہ بتائی جاتی ہے۔

انڈس ڈالفن کوئی معذور مچھلی نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نابینا بلھن کی آنکھ دن اور رات میں فرق کرسکتی ہے اور تیرنے اور راستے کی معلومات کیے لیے یہ مچھلی آواز نکالتی ہے جس کی بازگشت پلٹ کر اس تک پہنچتی ہے جسے وہ قدرتی طور پر اپنے ماتھے پر وصول کرتی ہے۔ اس سے یہ نابینا ڈالفن چیزوں کی پہچان اور راستوں کا پتہ چلاتی ہے۔

ان نابینا ڈولفن کو کئی برسوں سے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کئی وحشی درندے ان بے ضرر مچھلیوں کو اپنی ہوس کا شکار بناتے آ رہے ہیں۔ دریائے سندھ کے کنارے پر آباد لوگ بلھن مچھلی کی شرم گاہ کی مشاہہت انسانی صنف نازک سے کرتے ہیں اور اسے جنسی استحصال کا شکار بناتے آ رہے ہیں۔

 دریائے سندھ کے کنارے پر آباد اکثر ملاح اور دیگر لوگ، چرواہے اس معصوم مچھلی کو زیادتی کا نشانہ بناتے آ ریے ہیں۔ مقامی لوگوں کو اس طرح کی زیادتی کا پتا ہے مگر آج تک اس برے فعل کے خلاف کسی نے آواز بلند نہیں کی۔

 ایک طرف تو اس نابینا ڈولفن کے وجود کو مسلسل کرچی کرچی کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف کچے کے علاقے میں زراعت کیلئے کھاد اور کیڑے مار ادویات کے استعمال کے وجہ سے زہریلے کیمیکل دریائے سندھ میں شامل ہوکر پانی کو زہریلا کردیتے ہیں، جو ان نابینا ڈولفن کی اموات کا سبب بنتا ہے۔

انڈس ڈولفن کا شمار پاکستان میں پائی جانے والی نایاب مچھلیوں میں ہوتا ہے۔ آئے روز انڈس ڈولفن دریائے سندھ سے نکلنے والے نہروں میں بہہ جاتی ہے جہاں راستہ تنگ ہونے کے باعث اکثر وہ پھنس جاتی ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے دریائے سندھ میں یہ نایاب مچھلی اکثر و بیشتر نہروں میں مردہ پائی جاتی رہی ہے۔

دریائے سندھ میں پائی جانے والی اس نایاب نسل کی مچھلی کی اصل تعداد کے بارے میں اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے تاہم جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم صوبائی ادارے کے محتاط اندازوں کے ان کی تعداد تقریباً 700 سے 800 ہے جو گڈو اور سکھر بیراج کے درمیان گھومتی رہتی ہیں۔

انڈس ڈولفن کا شمار ان جانداروں میں ہوتا ہے جن کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انڈس ڈولفن ماحول کی بقا کیلئے کام کرنیوالے عالمی اداروں کی ریڈ لسٹ میں بھی شامل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ مچھلی مکمل طور پر ناپید ہو جائے گی۔

ایک مقامی تحقیق کے مطابق دریائے سندھ میں پائی جانے والی نابینا ڈالفن کی نسل مختلف طریقوں سے شکار کے باعث تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ ہمیں چاہے کہ انڈس ڈالفن کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں اور ان کی نسلی اور جنسی زیادتی کے حوالے سے ایک آگاہی مہم کا آغاز کریں اور عالمی ادارے بھی ان محصوم ڈالفن کو جنسی زیادتی سے بچانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ فوری طور پر ان نابینا ڈولفن کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کو روکا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments