سرفراز کی جیت اور ہماری ہار


سب سے بڑے قابل مذمت وہ غلام ذہن ہیں جو سر فراز کی انگلش کا مذاق بنا رہے ہیں۔ یہ ہے میرے بھائی کی فیس بک پوسٹ اور میرا آج کا عنوان اور ہمارا المیہ، جی ہاں انگریزی۔

ارے جناب، آپ سب آخر کس طرح خوش ہوتے ہیں، اب تو جیت کے بھی دکھا دیا آپ کو۔ یہ کس قسم کی حب الوطنی ہے آخر؟ اب تو اچھا بھی کھیل لیے۔ کس خام خیالی میں سینہ تانے گھومتے ہیں کہ پاکستانی ہیں۔ گاڑیوں میں بھارتی گانے لگائے، پاکستان کو گالیاں دیتے، ہر قدم پہ تنقید کرتے، آپ کو خوش کیسے کیا جائے جناب۔ ہر وقت ہر جگہ اپنے اندر کا احساس کمتری سے بھر پور انسان لیے گھومتے پھرتے ہیں جسے خود تو انگریزی کے دو بول سے زیادہ نہیں آتے، چلے ہیں میرے ملک کے ہیرو پہ تنقید کرنے، اس کا مذاق اڑانے، کبھی انضمام الحق، کبھی سرفراز تو کبھی حسن علی۔ ارے جناب انہوں نے تو کھیل کے دکھا دیا اپنے ملک کے لیے، آپ نے آج تک کیا کیا؟

قابل فخر بات یہ ہے کہ پہلی بار interpreterدیا گیا ہمیں۔ حسن علی نے کل اپنے سچے تاثرات شیئر کیے۔ جو کہنا چاہتا تھا کھل کے کہا۔ اس کا پہلا فرض ملک و قوم کے لیے کھیلنا تھا، اس نے پورا کیا۔ اس کا پہلا کام انگریزی سیکھنا نہیں تھا۔ آخر ہم کیوں اپنی چیزوں پہ، اپنی زبان پہ، اپنے لوگوں پہ فخر کرنا نہیں سیکھتے، کیوں کمتری اور منفی احساسات سے باہر نہیں آ پا تے۔

چائنہ، جاپان یا جرمنی، کس کی پہلی زبان انگریزی ہے؟ مگر پھر بھی دنیا پہ راج کر رہے ہیں۔ ہم لوگ خود انہیں ٹرانسلیٹر فراہم کرتے ہیں تو پھر ہم کسی کو یہ اجازت کیسے دے سکتے ہیں کہ وہ حسن علی پہ شرمندہ ہو کے منہ چھپا لے یا سرفراز کا مذاق اڑا سکے۔ مگر کوئی اور کیا ہم خود اس تکلیف دہ مذاق کا حصہ ہیں۔

بجلی، پانی، روٹی۔ کون کہتا ہے کہ یہ ہمارے ملک کا المیہ ہیں۔ ارے صاحب، ہمارا المیہ تو انگریزی ہے۔ ہم ٹھہرے آدھے تیتر، آدھے بٹیر۔ آج تک یہی فیصلہ نہ کر پائے کہ زیادہ ضروری کیا ہے ۔ ہم محب وطن، جہاں کسی نے ٹانگ کھینچی تو اردو زبان ہماری ہو جاتی ہے مگر جہاںکسی کو نیچا دکھانے کی بات آتی ہے تو انگریزی زبان ہماری ہو جاتی ہے۔ اس پہ ستم ہمارے دوغلے حکمران۔ ایک آتا ہے تو اردو میں سب تبدیل کر دیتا ہے، دوسرا آتا ہے تو انگریزی کی اہمیت سمجھاتا ہے۔ اسی کشمکش میں پستی عوام ’دو ماہ میں انگریزی بولیے‘ جیسی کتابوں کا رٹا لگاتے رہتے ہیں۔ کیونکہ آپ تعلیم میں سرخرو ہو بھی جائیں تو آگے تو سب انگریزی ہے۔ ہوٹل کے مینیو کارڈ سے لے کر دکانوں کے بورڈز، ہورڈنگز تک۔ میرے سسر ہمیشہ اسی بات پہ اعتراض کرتے آئے ہیں کہ دوسرے ملکوں کی طرح ہمارے بورڈز ہماری زبان میں کیوں نہیں ہوتے۔ ہم سیدھی بات کرتے کرتے پٹری سے کیوں اتر جاتے ہیں۔ بریڈ لے آﺅ، بٹر پاس کرو، ڈسٹرب نہ کرو وغیرہ۔

ارے جناب، انگریزی اتنی ہی لازمی ہے تو مان لیجیے نا اور اسے لازمی قرار دے دیجیے۔ جتنی محنت آج کل چائنیز سکھانے پہ کی جا رہی ہے، یقین کیجیے اس سے آدھی بھی انگریزی کے لیے کی جاتی تو حالات اتنے برے نہ ہوتے۔ حکمران، سیاستدان، اپنے بچوں کو تو باہر ملک پڑھنے بھیج دیتے ہیں، ہمارا کیا۔ ملائیشیا جیسے ملک میں ٹھیلے والے تک کو انگریزی آتی ہے۔ ( معذرت کے ساتھ کہ میں نے بھارت نہیں لکھا کہ اس پہ ایک نیا طوفان کھڑا ہو جاتا۔ ) مگر اس کے باوجو د ان کی اولین ترجیح اپنی زبان ہے جس پہ انھیں فخر ہے شرمندگی نہیں۔ ہم لوگ اتنے دوغلے ہیں کہ خدا کی پناہ۔

ہمارے بچے ماسٹرز کی تعلیم حاصل کر کے نوکری ڈھونڈنا شروع نہیں کرتے۔ وہ پہلے انگریزی بولنے کا کورس کرتے ہیں۔ انگریزی سکھانے کی کتابیں اور انسٹی ٹیوٹ کھلے عام لوٹ رہے ہیں۔ ہم لوگ تو خون نچوڑنے والوں میں سے ہیں جو کسی کو نیچا دکھانے کے لیے اس حد تک غلطیاں نکالتے ہیں کہ اس کے اندر ایک ناسور اور بے اعتباری جنم لے لیتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے وہ ڈر، لوگوں کے اندر۔

کیا ہو اگر ہم سب مذاق اڑانے کی خرافات سے عاری رہیں اور بچوں کو بھی یہی سکھایا کریں کہ کسی کا دل نا توڑیں، حوصلہ شکنی نہ کریں۔ ہم کیوں اتنے کھوکھلے ہیں۔ میں پوچھتی ہوں کہ ہم میں سے کتنے ہی لوگ اس اذیت سے گزر کر اس سے نکل پائیں ہوں گے۔ کتنے لوگوں نے اعتراض کیا ہو گا کہ ہمارے ملک کے ہیرو کا مذاق کیسے اڑایا گیا، مٹھی بھر لوگ بھی نہیں۔ لیکن مذاق اڑانے والے اور شرمندہ ہونے والے بے شمار ہیں۔ اسی خود اعتمادی کی کمی کو لے کر ہم ایک اور قوم کو جنم دے دیتے ہیں اور سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو بچوں کو بڑے اسکول میں کروا کے سرخرو ہونا چاہتے ہیں یا اپنے والدین کے منہ پہ طمانچا مارنا چاہتے ہیں۔ خود کو کیوں نہیں سکھاتے کہ خود اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔ ان میں خوداعتمادی لا سکیں۔ اتنا مضبوط تناور درخت بنائیں کہ اسے کوئی ہلا نہ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).