ممتاز قادری اور تشدد کی سماجیات


\"mubashir\"  یہ قصہ نیا نہیں، پرانا ہے دوستو۔ بس بھیس بدل بدل کر سامنے آتا رہتا ہے۔

لاہور کے ایک ہندو، راج پال نے سنہ 1923 میں اک کتاب لکھی۔ راج پال نے کتاب لکھی، غلط کیا۔ کسی بھی مذہب کی کسی بھی مقدس ہستی، نشانی، عبادت گاہ وغیرہ کی تقدیس دوسرے مذاہب کے لوگوں پر بھی فرض ہوتی ہے، اور انسان نے تاریخ میں منظم معاشرے کی بنیاد شاید اسی اکٹھ میں مل جل کر رہنے کے لیے ہی رکھی تھی۔ خیر، اس کتاب نے مسلمانانِ ہند میں طوفان برپا کر دیا، اور مختلف مسلم، اور غیرمسلم رہنماؤں نے اپنے اپنے دائرہ میں اس کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ مسلمانان ہند کی جانب سے اس معاملے پر آگے بڑھنے والوں میں سید عطا اللہ شاہ بخاری صاحب بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ برصغیر میں آسماں نے ان سے بہتر مقرر نہیں دیکھا۔ انہوں نے بھی راج پال، اس کی کتاب کے خلاف، اور رسول اللہ آقا محمدﷺ کی شان کے حق میں شعلہ بیاں تقاریر کیں۔ ان کی اسی زمانے کی تقاریر کا ایک حوالہ کچھ اس طرح تھا کہ: جنت کے دریچوں میں حضرت عائشہ ؓ شدت غم اور اداسی کی کیفیت میں ہیں کہ ہے کوئی جو میرے اور اللہ کے محبوﷺ کی توہین کا بدلہ لے۔

اس بیان نے اک منظر او رماحول بہرحال بنانا ہی تھا، بنا ڈالا جس کے نتیجہ میں متاثر ہو کر جناب علم دین، جو کہ لاہور میں اک بڑھئی کے بیٹے تھے، اور شاید اپنے ابا کے ہاں ہی مزدوری کرتے تھے، راج پال کو چھری گھونپ دی، راج پال قتل ہوگیا، علم دین کو جیل ہوگئی۔ مقدمہ بنا، علم دین کا مقدمہ قائد اعظم، محمد علی جناح نے ڈاکٹر (علامہ) اقبال کی فرمائش پر لڑا، ہار گئے، اور یوں، 31 اکتوبر سنہ 1929 کو علم دین کو میانوالی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ پھانسی پر لٹکتے وقت، علم دین صاحب کی عمر 20 سال، 10 مہینے اور 26 دن تھی۔ ان کی پھانسی پر ڈاکٹر علامہ اقبال صاحب نے یہ مشہور فقرہ بھی کہا جو پاکستان میں مذہب کی مقبول تاریخ کا حصہ ہے: اسی گلاں کردے رہ گئے، تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا!

چند اک سوالات ہیں آپ سب کی سوچ کی نذر اور مجھے معلوم ہے کہ آپ میں سے 99 فیصد کو ان کے جوابات معلوم نہیں:

۔ علم دین کے والد صاحب کا کیا نام تھا، اور وہ کتنے بہن بھائی تھے؟

۔ علم دین کی پھانسی کے بعد ان کے خاندان پر کیا بیتی اور ان کے کیا حالات رہے؟

۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ علم دین کی والدہ فوت ہو چکی تھیں، مگر اگر میرا حوالہ غلط ہے تو بتائیے کہ علم دین کی والدہ پر ان کی پھانسی کے وقت کیا بیتی، اور بعد ازاں ان کی حیات کیسی رہی؟

۔ علم دین کی جنازہ پر آنے والوں نے بعد ازاں کتنی مرتبہ جا کر ان کے والد اور باقی خاندان کی خیر خبر لی، یا ان کو ہندو اکثریت کے مقابلے میں اک علامت کے طور پر ہی جوابی جارحانہ بیانیہ میں استعمال کیا جاتا رہا؟

۔ اور دو ضمنی سوالات کہ راج پال کو چھری سید عطا اللہ شاہ بخاری صاحب یا ڈاکٹر اقبال صاحب نے کیوں نہ گھونپی، حالان کہ ان میں سے ایک تو خود سادات کی لڑی میں سے تھے، اور دوسرے مفکر اسلام جانے جاتے تھے؟ کیا انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٰ کی صدا پر جواب دینا نہ آتا تھا، یا وہ دونوں احباب عمر کے اس حصہ میں تھے کہ جہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنی شخصیت کے سماجی اور معاشی مفادات کہیں اہم ہوتے ہیں؟

یاران، جو کہ واقف حالات بھی ہیں، میری بھی کچھ رہنمائی کریں کہ علم دین صاحب کے اس عمل پر بلبل ہند، جناب مولانا ابوالکلام آزاد کا کیا مؤقف تھا؟ ان کے حوالہ جات، تقسیم ہند کے حوالے سے تو کافی سننے کو ملتے ہیں، کچھ ناموسِ رسالت کے حوالے سے بھی ان کا ذکر ہو ہی جائے!

وقت کے پہیئے کو آگے بڑھا کر سنہ 2006 میں لے آتے ہیں۔ جرمنی کی حکومت کی جانب سے وظیفہ پر گئے عامرعبدالرحمٰن چیمہ نے جرمن اخبار، ڈائی ویلٹ کے ایڈیٹرراجر کاپل کو مارچ کے مہینے میں اس کے دفتر میں گھس کر قتل کرنے کی کوشش کی کیونکہ راجر کاپل نے ڈنمارک میں شائع ہونے والے آقا محمدﷺ کی شبیہ شائع کر دی تھی۔ عامر چیمہ پکڑے گئے، اور جیل میں پراسرار حالات میں ان کی زندگی اختتام کو پہنچی۔ میرے خیال میں ان پر تشدد کیا گیا ہوگا، مگر حتمی وجہ معلوم نہیں ہو سکی آج تک۔ خیر ان کی نعش کو 21 مئی، سنہ 2006 کو وزیرآباد تحصیل میں ساروکی کے مقام پر دفنا دیا گیا۔ ان کے والد نذیر چیمہ ریٹائرڈ پروفیسر تھے، اور عامر ان کے اکلوتے بیٹے تھے، اور شاید تین بہنیں تھیں۔ میرے اک صحافی دوست نے اس جنازے کی کوریج کی اور مجھے بتایا تھا کہ ان کے جنازے پر اس وقت کے جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم کی نمائندگی محترم منور حسن کر رہے تھے۔ دوسری طرف جمعیت علمائے پاکستان کے نمائندگان بھی موجود تھے، فریقین کے درمیان اس بات پر تلخ کلامی بھی ہوئی تھی کہ عامر کا جنازہ کون پڑھائے گا۔ دفنانے کے بعد، اناحباب نے پلٹ کر کوئی خبر بھی کبھی لی ہوگی پروفیسر چیمہ صاحب کی؟ اس سوال کا جواب آپ پر چھوڑتا ہوں۔ میرے اسی مقامی صحافی دوست نے چیمہ صاحب کی بہنوں، اور پھپھیوں کے بین کے بارے میں بھی بتایا، اور یہ کہ پروفیسر چیمہ صاحب اپنے بیٹے کی موت پر ٹوٹے اور بکھرے ہوئے تھے، مگر وطن عزیز میں مذہب کی سماجیات ان کے بیٹے کی نعش کے جنازے میں جھگڑ رہی تھی۔ پروفیسر نذیر چیمہ اس وقت کس حال میں ہوں گے؟ ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں، اور نہ ہی کسی نے کبھی کوئی پرواہ کی ہوگی۔ پرواہ اگر ہوگی تو عامر کی بہنوں اور اگر ان کے والد صاحب ابھی زندہ ہوئے تو انہیں ہوگی، جو ساری عمر اس خلا کے ساتھ زندہ رہیں گے۔

ممتاز قادری صاحب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہے گا۔ آج اسلام آباد، بریلوی بھائیوں کے تشدد کے خوف کے سائے تلے رینگ رہا ہے۔ پولیس ہے، اور شہر میں اک عمومی سا خوف کا ماحول ہے۔ سکولوں میں چھٹی جلد ہو رہی ہے، اور پولیس والے اپنے riot gear میں ملبوس ڈیوٹی دے رہے ہیں۔

علم دین، عامر چیمہ اور اب ممتاز قادری۔ کیا اپنے تئیں ناموس ِ رسالتِ آقا محمدﷺ کی حفاظت کے لیے تشدد اور قتل کرنا ضروری تھا؟ اور اگر ضروری تھا تو یہ کام مذہب و ملت، اور مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والے’عظیم رہنماؤں‘ یا ان کے بچوں نے کیوں نہ کیا؟

علم دین، عامر چیمہ اور ممتاز قادری، اور ان جیسے دیگر افراد کے مذہبی تشدد کو آقامحمدﷺ کی ناموس کی ضمانت سمجھنے والوں سے پوچھنا یہ بھی ہے کہ کیا قتل کرنے سے میرے آقا کملی والےﷺ کی شان میں اضافہ ہوا ہوگا؟ کیا اس تشدد نے اسلام کا امیج غیرمسلموں کی نظر میں بہتر بنایا ہو گا؟

اور اک سوال خود سے بھی پوچھئے کہ وطن عزیز پاکستان میں مذہب کی عمومی متشدد سماجیات میں رہنے والے مسلمان، دوسرے مذاہب کی کتب، شخصیات اور عبادت گاہوں کے بارے میں اپنے دل میں کیا جذبات رکھتے ہیں؟ میرے گناہگار کانوں نے خود کئی مرتبہ جمعہ کے خطبہ میں ہندوؤں، مسیحیوں اور یہودیوں کی بربادی کی دعائیں سنی ہیں، اور بےشمار مرتبہ ان کی کتب کے بارے میں ایسا ہی پڑھا اور سنا ہے۔

اور ہاں، علم دین، عامر چیمہ اور ممتاز قادری، مذہب کی سماجیات میں عمومی بیانیہ سے متاثر ہو کر اپنے جذباتی تشدد کو کرتے وقت اپنی اپنی عمروں کی تیسری دہائی میں تھے۔ وہ کر گزرے، ان کے پسماندگان پر کیا گزری، کسی کو معلوم نہیں، کسی کو پرواہ نہیں۔ اور یہی سچ ہے۔ آپ مانیں، یا نہ مانیں، کہ کسی کو پرواہ نہیں، ان کے سمیت جنہوں نے ان کے جنازوں پر گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگائے، اور واپس آکر اپنی دکان پر ریڈیو لگا لیا، کیبل پر انڈین فلم دیکھ لی اور انٹرنیٹ پر سیاسی تبصروں میں مشغول ہو گئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments