میرے قتل کی منصوبہ بندی ہو چکی تھی   


جب میں جھک کر اپنی ماں کے قدم چوم رہا تھا
جب میں اپنے باپ کے ساتھ
شانے سے شانہ ملا کر چل رہا تھا
اور وہ مجھے رشک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا
جب میری بہنیں
مجھ سے لاڈ اٹھوا رہی تھیں
میرے قتل کی منصوبہ بندی ہو چکی تھی
منصوبے کے مطابق
آج کا دن طے تھا
سارے کردار لمحہ بہ لمحہ
اپنی جگہ سے حرکت کر رہے تھے 
ہر حرکت طے شدہ تھی
جتنی طے شدہ تھی اتنی ہی غیر محسوس
یہاں تک کے مجھے بھی پتا نہ چلا
شاید میں اپنے کمرے میں کمپیوٹر پر کام کر رہا تھا
لکھ رہا تھا یا کچھ کھا رہا تھا
اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے کہ میں کچھ کر بھی رہا تھا یا نہیں
میرے قتل کی منصوبہ بندی ہو چکی تھی
صبح میں نےجب کھڑکی سے آسمان کو دیکھا
وہ مجھے دیکھ کر مبہم سا مسکرایا تھا
آج میں نے کچھ چیزوں کو نتیجہ کن شکل دینی تھی
کچھ کچی پکی تحریروں پر نئے سوال چسپاں کرنے تھے
آج مجھے بہت سے ادھورے کام مکمل کرنا تھے
اچانک شور سنائی دیا
یہ شور اس قدر تیز تھا کہ اس نے میرے دروازے کے قبضے اکھیڑ دئیے
اس کے بعد میرے کان شور سے پھٹے
پھر مجھ پر لاتوں، گھو نسوں، لاٹھیوں کی بارش ہوئی
میرا سر کئی بار رنگین ہو کر فرش سے اور دیواروں سے ٹکرایا
پھرمیرا وجود کپڑوں سے عاری کر دیا گیا
کبھی میرا بازو ٹوٹا، کبھی پسلی، کبھی ناک۔ کبھی گردن
میں بہت چیخا بہت چلایا
اللہ رسول کے واسطے دیے
لیکن میرے قتل کی منصوبہ بندی ہوچکی تھی
مجھے قتل کر دیا گیا!
(جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد مشال خان کے لئے لکھی گئی نظم)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).