لندن کی سیر


پہلی بار لندن اکیلی گئی تھی، وہ مجھے اتنا اچھا لگا کہ سوچا کہ میرے بچوں‌ کو لندن ضرور گھومنا چاہئیے اس لئیے اگلی بار گروپ بنا کر گئے۔ اگر کوئی میری جگہ ہو تو وہ سمجھ سکے گا کہ ایک ساتھ ایک جگہ پانچ سال سے زیادہ نہ رہے ہوں اور ہمیشہ یہ ہی سوچا ہو کہ اس امتحان کے بعد فلاں امتحان دینا ہے، پھر یہ کرنا ہے پھر وہ کرنا ہے۔ اس کے بعد سارے امتحان ختم ہوجائیں، سارے سال کے سارے مہینوں‌ کے سارے ہفتوں کے سارے دن ایک جیسے ہوجائیں اور ایک دن آپ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہوں‌ کہ یہاں‌ سے کہاں‌ جانا ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب مقام ہوگا جس کی آپ کو عادت نہیں۔ اسی لئیے اس کورس میں‌ داخلہ لیا تھا جو لندن میں‌ ہورہا تھا۔  

 جس سال میرے والد پیدا ہوئے تو اس وقت جنوب ایشیاء برٹش راج کا حصہ تھا۔ ان کی جنیریشن برٹش راج کے دوران پل کر بڑے ہونے والے نوجوانوں‌ کی تھی جنہوں نے جدیدیت اپنا لی تھی اور ویسے ہی سوٹ بوٹ پہنتے تھے اور برطانوی انگریزی کے الفاظ عام ہندی اور اردو میں سرایت کرگئے تھے۔ کافی برٹش اور لوکل لوگوں‌ نے آپس میں شادیاں‌ بھی کرلی تھیں۔ آبادی اتنی نہیں‌ تھی اور سکھر ایک صاف ستھرا ترقی پذیر شہر تھا جس کا مستقبل اچھا دکھائی دیتا تھا۔ برطانوی راج میں‌ اس علاقے میں‌ کافی کنسٹرکشن ہوئی جن میں تاریخی لینڈزڈاؤن برج، سکھر بیراج، ریلوے کا سسٹم، سینٹ میریز اور سینٹ سیوئر اسکول، جیسس اور میری کے مجسمے، مشن ہسپتال، وکٹوریا مارکیٹ اور کلاک ٹاور شامل ہیں جس کو مقامی افراد گھنٹہ گھر کے نام سے جانتے ہیں۔ کنگ جارج کی شہنشاہیت کے 25 سال گذرنے کے بعد 1935 میں‌ دنیا کے کئی شہروں میں‌ یہ کلاک ٹاورز بنائے گئے تھے۔ لوگ انھیں توڑ پھوڑ کرکے گھڑیاں چرا کرلے گئے ہیں‌ لیکن گھنٹہ گھر اب بھی وہاں موجود ہے۔ ایک لمحہ ٹھہر کر کوئی بھی سوچے گا کہ شائد آزادی لینے میں‌ ابھی ایک سو سال انتظار کرنا چاہئیے تھا تاکہ عام افراد تک وہ تعلیم اور ہنر پہنچ جاتے جن کی بنیاد پر وہ اپنے نئے ملک کو کھڑا کرسکتے اور مستقبل میں‌ چلا بھی پاتے۔ 

 ہمارے زمانے میں پاکستان میں‌ میڈیکل کالج بایواسٹیٹ یا ایپیڈیمیالوجی زیادہ نہیں‌ پڑھاتے تھے۔ بایو اسٹیٹ کا نام ونشان بھی نہیں‌ تھا۔ یو ایس ایم ایل ای امتحانوں کے لئیے   خود سے اتنی پڑھی کہ امتحان پاس ہوجائے۔ اس لئیے میں‌ اس کورس کو کافی عرصہ سے ڈھونڈ رہی تھی۔ جب کوئی ڈرگ ریپ نئی دوا لے کر آئیں اور کہیں فلاں اسٹڈی کے لحاظ سے یہ اچھی ہے تو ایک ڈاکٹر کو اتنا ریسرچ کا پتا ہونا ضروری ہے کہ وہ ان نمبروں‌ کا تنقیدی تجزیہ کرسکیں کیونکہ ہم پر اپنے مریضوں‌ کے لئیے ایک تعلیم یافتہ فیصلہ کرنے کی ذمہ داری ہے۔ جب ہارورڈ کالج سے ای میل آئی کہ وہ لوگ ایک نیا انٹرنیشنل پروگرام شروع کررہے ہیں جس میں‌ میڈیکل ڈاکٹرز اور پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کو بایو اسٹیٹ اور ایپیڈیمیالوجی سکھائی جائے گی تو اسی وقت ایپلیکیشن بھر کے فیس کا چیک ساتھ میں‌ لگا کر بھیج دیا تھا۔ ساتھ میں‌ لیٹر بھی لکھنا تھا کہ آپ یہ کورس کیوں‌ کرنا چاہتے ہیں وہ بھی لکھ دیا۔ جلدی سے کیا تو فورا” قبول بھی ہوگیا۔ ہماری جی سی ایس آر ٹی یعنی گلوبل کلنکل سکالرز ریسرچ ٹریننگ پروگرام میں‌ 150 اسٹوڈنٹس تھے اور وہ دنیا کے 35 ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ میری ٹیم 7 تھی اور ہماری ٹیم میں‌ ایک انڈین امریکی تھے، ایک ایرانی جو دبئی میں‌ اینڈوکرنالوجسٹ ہیں، ایک دبئی کی خاتون، ایک روسی خاتون، ایک سعودی عرب کے بچوں‌ کے جینیٹک اسپیشلسٹ اور ایک فلسطینی اور مجھے ملا کر دو پاکستانی امریکی شامل تھے۔ ہماری کلاس رائل کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز میں‌ ڈنر پر مدعو کی گئی تھی، وہ بہت خوبصورت شام تھی۔

 ایک سال میں‌ تین کانفرنس میں‌ جانا تھا اور باقی سال آن لائن کلاسیں‌ لے کر اپنی ٹیم کے ساتھ پراجکٹس پر کام کرنا تھا۔ یہ ایک نہایت اچھا ایجوکیشنل تجربہ ہے اور اس میں‌ کس طرح‌ مختلف ٹائم زون کے لوگوں‌ کے ساتھ کس طرح‌ اپنے ری سورسز استعمال کرکے ٹیم ورک کرنا ہے، وہ آج کی گلوبل دنیا کو اس کے پیچیدگیوں‌ کے ساتھ آگے بڑھانے کی ایک اچھی تعلیم ہے۔ یہ کورس ان تمام افراد کے لئیے بہترین ہے جو اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد بھی آگے تعلیم جاری رکھنا چاہیں۔ تحقیق کے میدان میں‌ شامل رہنے سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ آگے کیا کیا نیا نکلنے والا ہے۔ ریسرچ سینٹر کھولنا ایک منافع بخش کام بھی ہے جس سے کافی نوکریاں‌ بنائی جاسکتی ہیں جس سے مڈل کلاس بڑھے۔ بڑی دوا کی کمپنیاں‌ ان ریسرچ سینٹرز کے بغیر اپنی دوا کو اسٹڈی نہیں‌ کرسکتیں۔ انڈیا میں‌ ایسے سینٹر موجود ہیں۔ وہ مجھے اس لئیے پتا ہے کیونکہ ہم لوگ کچھ پراجکٹس پر دنیا کے بہت سارے ملکوں‌ سے کام کررہے ہیں۔ ان نتائج کو کیلکولیٹ کر کے دیکھا جائے گا کہ دوا فائدہ مند ہے یا نہیں۔ دنیا میں‌ جابز کی کمی نہیں‌ ہے۔ اس کے لئیے کچھ لوگوں‌ کو یہ سوچنا ہوگا کہ بنے بنائے اداروں کے باہر لائن میں‌ لگنے کے بجائے اپنے ادارے بنانے کے بارے میں‌ سوچیں۔ ایک کالم میں‌ وجاہت مسعود صاحب نے لکھا تھا کہ قوموں کی ترقی کا راز چرایا جائے تو وہ راز یہاں‌ لکھ دیتی ہوں۔ راز یہ ہے کہ ایک موضوع پر سب کچھ سیکھ لیا جائے اور پھر اس

 کی کمی کو سمجھا جائے اور اس کو پہلے سے بہتر بنا دیا جائے، خالی ہوا میں‌ سے کچھ ایسا نیا بنایا جائے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں‌ سوچا تھا۔ یعنی جس طرف پاکستانی گاڑی جارہی ہے، اس کو روک کر ریورس گئر میں‌ ڈال کر مخالف سمت میں‌ چلانا شروع کرنا ہوگا۔ پہلے سے گذری ہوئی زندگیاں‌ بار بار جینے کی کوشش کرنا اور انہی نتائج کی توقع کرنا جو پہلے سے نکل چکے ہیں، یہ ناممکن ہے اور اس پر دو سیکنڈ بھی ضایع نہیں‌ کرسکتے۔ 200 ملین لوگوں‌ کے دو سیکنڈ مل کر چار سو ملین سیکنڈ بن جاتے ہیں۔ ان چار سو ملین سیکنڈوں سے کیا نہیں بن سکتا؟ 

 بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ لندن پہنچ کر ایسا محسوس بالکل نہیں ہوگا کہ یہ کوئی نئی جگہ ہے۔ اگر غور سے دیکھیں تو وہ ساری دنیا کے سارے لوگوں‌ سے جڑا ہوا ہے۔ خاص طور پر عام محلوں‌ کے چھوٹے گرجاگھر، سرخ اینٹوں‌ کے بنائے ہوئے راستے، سڑکوں‌ کے نام، تاریخی مقامات۔ لندن دو ہزار سال پرانا شہر ہے جس کو رومنز نے دریا تھیمز کے کنارے شروع کیا تھا۔ 1666 میں‌ جب آگ لگنے سے سارا لندن جل گیا تھا اور اس کو رحمت سمجھا گیا کیونکہ اس سے پلیگ ختم ہوگئی تھی۔ جہاں‌ سے آگ شروع ہوئی اس کی یادگار میں‌ ایک ٹاور بنا ہوا ہے جس کی 311 سیڑھیاں ہیں۔ اوپر جاکر نیچے آئیں تو سرٹیفکٹ بھی ملتا ہے۔ ہم سب اپنے سرٹیفکٹ ساتھ میں‌ گھر واپس لائے تھے۔ ڈارون اور نیوٹن ویسٹ منسٹر ہی میں‌ دفن ہیں۔ کئی مشہور پینٹرز، آرکیٹیکٹ اور سائنسدان سینٹ پال کتھیڈرل کی بیس منٹ میں‌ دفن ہیں۔ سینٹ پال کتھیڈرل کی پانچ سو سے زیادہ سیڑھیاں ہیں اور اوپر سے سارا شہر نظر آتا ہے۔ یہاں‌ لیڈی ڈیانا کی شادی ہوئی تھی جب ہم لوگ چھوٹے بچے تھے۔ اس کو ساری دنیا میں‌ دیکھا گیا تھا۔ 

 اس بات سے کوئی فرق نہیں‌ پڑتا کہ آپ کون سے ملک کے کس علاقے کے شہری ہوں، ہم سب کی زندگیاں ان فیصلوں‌ سے متاثر ہوچکی ہیں جو ٹاور آف لندن میں‌ کئیے گئے۔ وہ ایک ہزار سال سے دنیا پر اثرانداز ہے۔ اس کے تہہ خانے میں‌ جیلیں‌ تھیں جہاں‌ قیدی دیواروں پر لکھتے تھے۔ وہ پانچ سو سال بعد تک اب بھی لکھا ہوا ہے۔ جن ملکاؤں اور بادشاہوں‌ کے قتل ہوئے، ان کی تاریخ بھی قلم ہے۔ بچپن سے کوہ نور کے قصے پڑھے تھے اور وہ میں‌ اپنی آنکھوں‌ سے دیکھنا چاہتی تھی۔ کوہ نور ٹاور آف لندن میں‌ رکھا ہوا ہے۔ اس کو کئی بار کاٹا گیا اور اب وہ ایک تاج میں‌ جڑا ہوا ہے۔ ٹاور آف لندن کے ایک ایک قدم پر وہ مشہور بادشاہ، ملکائیں، اسکالرز، شاعر، جرنل، رائٹرز گذر چکے ہیں جن کے بارے میں‌ ہم کتابوں‌ میں‌ پڑھتے ہیں۔ دریا تھیمز کے قریب شیکشپئر نے یہ مشہور لائن لکھی تھی، “ٹو بی آر ناٹ ٹو بی!”۔ یہ تو مجھے لندن جا کر پتا چلا کہ اوریجنل لندن برج کو ایک مالدار امریکی نے خرید لیا تھا۔ اس کو کاٹ کر اس کے حصے ایریزونا لے جائے گئے جہاں‌ ان کو جوڑ کر پھر سے لندن برج بنا دیا گیا۔ اصلی لندن برج اب امریکہ میں‌ ہے۔  

 بس ٹؤر کا گائڈ جہاں سے گذرتے وہاں‌ کی ہسٹری بتاتا جارہا تھا۔ اس کی برطانوی لہجے کی انگریزی میرے کانوں‌ کو موسیقی کی طرح لگ رہی تھی۔ بچپن میں‌ جو پہلی انگریزی سیکھی تھی وہ برٹش ہی ہوتی تھی پھر امریکہ میں‌ اتنے سال رہتے رہتے آہستہ آہستہ خود ہی امریکی بن گئی۔ بہت سارے الفاظ اور جملے ہیں جو برطانوی انگریزی اور امریکی انگریزی میں‌ مختلف ہیں۔ جیسے وہ لوگ کہتے ہیں‌ ہاؤ ڈو یو ڈو؟ اور ہم کہتے ہیں ہاؤ آر یو؟ ان کا ربش ہمارا ٹریش، ان کا فلیٹ ہمارا اپارٹمنٹ، ان کا پوسٹ مین ہمارا میل مین۔ وہ لوگ پوچھتے کہ کیا آپ ہالی ڈے پر ہیں؟ یہاں اس کو ویکیشن کہتے ہیں۔ ہالی ڈے ان مخصوص دنوں‌ کو کہتے ہیں جب سرکاری چھٹی ہو، جیسے فورتھ آف جولائی ہالی ڈے۔ اس دن اتفاق سے فورتھ آف جولائی ہی تھا، ایک ریسٹورانٹ کے باہر چاک سے امریکی جھنڈا بنا ہوا تھا اور لکھا تھا ہیپی فورتھ آف جولائی امریکہ۔ امریکیوں‌ اور برطانویوں‌ نے ایک دوسرے کا قتل و غارت کیا تھا اور امریکہ نے برٹش کو اپنے ملک سے نکال کر آزادی لے لی تھی جس کو فورتھ آف جولائی پر مناتے ہیں۔ ایسے بھی مہذب دنیا میں لوگ ہیں جنہوں‌ نے ماضی کی تلخیوں‌ کو بھلا کر آنے والی نسلوں‌ کی بھلائی کے لئیے ایک دوسرے سے دوستی کرلی ہے۔

 ٹی کوزی کے قصے کے بغیر لندن کا ذکر مکمل نہیں‌ ہو گا۔ ٹاور آف لندن کے باہر گفٹ شاپ کے باہر سے گذر رہے تھے تو اس میں‌ ایک چیز پر میری نظر ٹک گئی۔ یہ دیکھو لیا! ٹی کوزی! لیا میری امریکی نرس ہے۔ امریکہ میں‌ ٹی کوزی کون جانتا ہے؟ اتنے سالوں‌ میں‌ خود بھی بھول گئی کہ وہ کوئی چیز ہے۔ یہاں‌ گرم چائے کا رواج نہیں ہے۔ گرم کافی اور ٹھنڈی آئس ٹی کا رواج ہے۔ میرے ابو اپنی چائے کی کیتلی پر اس کو گرم رکھنے کے لئیے ٹی کوزی پہنا دیتے تھے۔

 پالو کوئیلو اپنی کتاب الکمسٹ میں‌ ایک لڑکے کی کہانی لکھتے ہیں جو روز یہ خواب دیکھتا ہے کہ دور دراز کوئی علاقہ ہے جہاں خزانہ دفن ہے۔ وہ مہینوں سالوں بہت ساری رکاوٹوں کو عبور کرکے جب وہاں پہنچتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ خزانہ اس کے اپنے پچھواڑے میں دفن تھا۔ اپنی منزل پر پہنچ کر یہ پتا چلتا ہے اس سارے قصے کا سب سے اہم حصہ سفر اور اس کی مشکلات ہیں جو ہمیں‌ وہ انسان بناتی ہیں جو دوسرے سرے سے باہر نکلتا ہے۔ لندن جاکر سکھر یاد آگیا اور امریکہ بھی بہتر سمجھ میں‌ آیا، سینٹ میریز اسکول کے چرچ میں‌ بجتی ہوئی گھنٹی، سینٹ سیویر اسکول کے لال اینٹوں کے بنے ہوئے راستے، وکٹوریا مارکیٹ، اینگلو انڈین نن ٹیچرز اور گھنٹہ گھر جس کے پاس سے اسکول کی بس روز گذرتی تھی۔ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).