زندہ باد ….۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر


ذوالفقار علی بھٹو نے سب کو پریشان کر دیا ہے۔ گویا وہ ہم سب کی مشترکہ پراپرٹی ہو جو اب ہماری بندر بانٹ میں ہمارے حصے میں آ نہیں پا رہی۔ ہم ہاتھ ملتے رہ گئے ہیں۔

تلملا رہے ہیں۔

مگر کمال کر دیا اس بچے نے!

پاکستانی سماج، پاکستان میں مذہب کے بیوپاریوں، پاکستانی سیاست اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے منہ پر ایک طمانچہ دے مارا ہے اس نے۔

سب انجانے میں اپنا اپنا رخسار سہلا رہے ہیں۔

سب سسک رہے ہیں کہ یہ دادا جیسا کیوں نہیں بنا! تاکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں پھانسی چڑھتا اور ہم تماشا دیکھتے۔

یہ باپ کی طرح گریبان پھاڑ کر اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے کیوں نہیں نکلا، تاکہ یہ بیچ سڑک پر مارا جاتا اور ہم واہ واہ کرتے۔

چچا کی طرح کسی کے ہاتھوں زہر ہی کھا لیتا۔ پھوپھی کی طرح بنتا اور چوراہے پر مار دیا جاتا۔

دادی کی طرح یاداشت کھو کر وہیل چیئر پر ہی بیٹھ جاتا۔

کیوں موروثی تاج کی دعویداری نہیں کر رہا!

رو بھی نہیں رہا کہ مجھے میرا تخت و تاج لوٹا دو!

یہ پاکستان پر اپنی بادشاہت کیوں کلیم نہیں کر رہا!

مگر کمال ہے کہ یہ بچہ کہتا ہے کہ میں جینا چاہتا ہوں!

ایک ایسے سماج کے سامنے سینہ تان کر جینا چاہتا ہوں جو جنونی ہجوم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جس کے مردوں کو غیرت کی لاعلاج بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ جو بہنوں اور بیٹیوں کو غیرت کے نام پر نوچ کھسوٹ کر، زندہ جلا کر اپنی مرادنگی مظاہرہ کرتے ہیں۔ Muslim men کا ایک انبوہ جو مردانگی کے ساتھ کسی بھی معصوم muslim man پر ٹوٹ پڑتا ہے اور کچل کچل کر اس کے زندہ وجود کے چیتھڑے اڑا دیتا ہے۔

صبح سے شام تک گلیوں، محلّوں میں اور پھر پوری رات سوشل میڈیا پر مردانگی کی بدبودار لاش کندھوں پر اٹھائے یہ مردانہ سماج ہانپتا پھرتا ہے۔ فتوے جاری کرتا ہوا۔ ایک دوسرے کے منہ نوچتا ہوا۔ عورتوں کے کردار پر سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہوا۔

اس مردانہ سماج کے منہ پر تھوک دیا ہے ذوالفقار علی بھٹو نے یہ کہہ کر کہ مرد کے اندر بھی نفاست اور نسوانیت ہونی چاہیے۔ کیا بات کہہ دی ہے اس نے!

واقعی جس مرد کے اندر نفاست اور نسوانیت نہیں ہے وہ محض جانور ہے۔ مرد کے ہاتھوں میں نفاست اور نسوانیت ہوتی تو وہ کہاں بہنوں اور بیٹیوں کے گلے گھونٹتا غیرت کے نام پر اور انسانوں پر تشدد کرنے کو ٹوٹ پڑتا۔

اس نے مذہب کے نام پر فتوے بازوں اور بیان بازوں اور دکان چلانے والوں کے منہ پر بھی تھپڑ دے مارا ہے۔ وہ مسلمان مرد کے اندر نسوانیت اور نفاست ڈھونڈنے نکلا ہے۔ مذہب کا سرٹیفکیٹ مٹھی میں پکڑے جو باریش حضرات سرِ عام عورت کی شلواریں اتارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں اور عورت کی جائے تولید کی تشریح کرتے ہیں اور صرف تولید کی جگہ کو ملکیت قرار دے کر خرافات بولتے ہیں اور دین کی تشریح کو عورت پر ہلکے پھلکے تشدد تک محدود کر کے دین کے معاملات کو اُلجھاتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی سوچ کے مطابق اگر ان میں ذرا سی بھی نسوانیت ہوتی تو ایسی باتیں کہتے ہوئے یہ حضرات شرم سے سُرخ پڑ جاتے.

حیا …..۔ دین میں مرد اور عورت دونوں کے لیے برابر برابر پسند کی گئی ہے۔ آتا ہے نا لفظ حیا کے ساتھ ہی نسوانیت کا خیال! مگر حیا مردانگی کے مردانہ جوتوں تلے کُچلی جا چکی ہے عورت سمیت۔

پاکستانی سیاست پر بھی اس نے تھوکا ہے۔ اس نے بڑی نفاست کے ساتھ سرسری سا زکر کر دیا اپنے خاندان کے مارے جانے کا۔ اس نے احسان نہیں جتلایا۔ وہ چیخا نہیں۔ وہ بپھرا نہیں۔ اس نے پاکستانی قوم اور سیاست دانوں کو گالیاں نہیں دیں۔ اس نے للکارا نہیں۔ اس نے کسی کی ماں بہن یا داشتہ کا حساب نکال باہر نہیں کیا۔ اس نے کسی پر الزام نہیں لگایا۔ وہ چاہتا تو کہتا۔ اس کا حق بنتا تھا۔ مگر اس کے اندر کی نفاست اور نسوانیت نے اسے اس بدنمائی سے روک دیا شاید۔

اسٹیبلشمنٹ بھی دیکھ لے….۔ جب جوتوں تلے آوازیں کچلی جائیں گی تو ایک یہ بھی ردعمل نکلے گا۔ جو ابھی اکا دکا دکھائی دے رہا ہوگا مگر جو اکثریت اختیار کرتا جائے گا اور ایک دن سپاہی بھی نہیں ملے گا بھرتی کے لیے کہ نہیں صاحب ہمیں جینا ہے۔ ایک بھرپور زندگی۔ یہ ہمارے نازک ہاتھ بندوق نہیں اٹھائیں گے۔ ان ہاتھوں سے ہم نے اپنی بیٹیوں کی چُنریاں رنگنی ہیں اور ان کے قمیصوں کے دامن پر کڑھائی کرنی ہے۔ خدارا ہمیں جینے دو صاحب۔ دیکھ لیجیے عالی جاہ! یہ بھی ہے ایک جبر اور تشدد کا ردِعمل کہ جیو اور جینے دو۔ ہمیں اپنی مرضی سے جینے دو۔

ذوالفقار علی بھٹو مصنوعی مردانگی کے پٹھوں کو اپنے نفیس ہاتھوں سے کڑھائی کرکے ڈھکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا کمال کا خیال ہے اس کا! گہرائی میں اتر کر دیکھیے۔ اس بچے کو مردانہ پٹھے ڈھکنے کا ایسا خوبصورت خیال آیا کیسے!

آپ بھی دیکھ لیجیے عالی جاہ! ایک بچہ جو خون کی ہولی میں پرورش پاتا ہے۔ طاقت کے ایوانوں میں کھیلی گئی سازشوں کی لرزا دینے والی کہانیوں کے بیچ دبے پاؤں چلتے ہوئے بڑا ہوتا ہے تیز تیز دھڑکتے دل کے ساتھ کہ پتہ نہیں ابھی کتنی گولیاں بندوق میں باقی ہیں اور کونسی گولی پر میرا نام لکھا ہے! بڑا ہونے پر وہ کس سکون سے بغیر کچھ کہے بہت کچھ کہہ بھی جاتا ہے۔

جیسے کہہ رہا ہو کہ لعنت ہے اس ملک کی سیاست پر۔ جبر پر۔ تشدد پر۔ جاؤ… میں نے نہیں پھانسی چڑھنا۔ جاؤ میرے نام کی گولی نہیں چاہیے مجھے۔ جاؤ مجھے نہیں حوروں کا لالچ دے کر دوسروں کے بیٹوں کو دہشت گردی میں دھکیلنا۔ میں خود کیوں نہ ایسی حوُر بن جاؤں جو زندگی کو بہشت بنا دے۔

جاؤ ….۔ میں رقص میں ہوں

وہ آج کے زمانے سے انکاری ہے۔ پچھلے زمانوں میں بھی تو اسی زمین پر شاعروں نے خود کو کنجری بھی کہا اور کنجری بن کر ناچنے کی بات بھی کی اور رقص بھی کیا اور عورت کے روپ میں ڈھل کر نسوانی زبان میں اظہارِ عشق کو اعلیٰ ترین شاعری میں ڈھالا بھی۔

یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنے اپنے وقت کے بادشاہوں اور مُلّاؤں کے منہ پر شاعری و رقص و موسیقی کی صورت میں طمانچہ دے مارا۔ آج ان کی قبروں پر منّتوں اور مرادوں کے چراغ جلائے جاتے ہیں۔

یہ آج کی بغاوت ہے۔ یہ آج کا انکار ہے، جو مغرب کے لیے تو باعثِ حیرت نہیں مگر مشرق میں موجود پاکستان نامی ملک کے سماج کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہے.

نرم و نازک و نفیس اور ایک عورت کا دل لیے ہوئے بغاوت اور انکار۔

جینے کے لیے بغاوت اور مصنوعی مردانگی سے انکار۔

وڈیو میں جب میں نے کڑھائی کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے نرم و نازک ہاتھ دیکھے تو مجھے شاہ عبدالطیف بھٹائی کے ایک بیت کی پہلی سطر یاد آگئی، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ …۔

باریک سی سوئی سے کاڑھا ہے میں نے اپنا من، اپنے ہم وطنوں کے ساتھ۔


اسی بارے میں
زندہ باد ….۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر
ذوالفقار علی بھٹو جونئیر کا سچ
ہائے! میں ذوالفقار علی بھٹو ہوں 

 

 

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments