ہندوستان کے بانکے۔۔۔ عبدالحلیم شرر کی ایک نادر تحریر (1)


اپنے مضمون ’’پابند ادب انفرادیت: دہلی اور لکھنؤ میں وضع داری کی مختصر تاریخ‘‘ (مطبوعہ ’اردو ادب‘ کتاب 352) میں لکھنؤ کے بانکوں کے ذکر میں میں نے لکھا تھا کہ بانکوں کے بارے میں کوئی مطبوعہ تحریر مجھے دستیاب نہیں اگرچہ بچپن میں کئی کتابچے اس موضوع پر دیکھے تھے۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ (عبدالحلیم) شرر نے بانکوں کا ذکر محض ایک خاص انداز کے پاجامے کے بیان میں کیا ہے اور یہ کہ شرر نہ تو وضع داری کے خاص مدح خواں تھے اور نہ بانکوں کے۔ ان کی مشہور کتاب جسے اب ’گذشتہ لکھنؤ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، بانکوں کے دل چسپ قصّوں سے عاری ہے جب کہ اور ہر طرح کے متعدد پُرلطف قصّے اس میں موجود ہیں۔

اس وقت تک میری نظر سے محمد قمر سلیم کی انتہائی مفید تالیف ’اشاریہ دلگداز‘ جلد اوّل، نہیں گزری تھی۔ اب اس کے مطالعے سے پتا چلا کہ شرر نے ایک پورا مضمون لکھنؤ کے بانکوں کے بارے میں لکھا تھا جو ’دلگداز‘ (ستمبر 1914ء) میں شائع ہوا تھا، اس کا عنوان تھا ’ہندوستان کے بانکے‘۔ یہ مضمون دراصل ایک ابتدائیہ تحریر تھا کیوں کہ شرر کا اصل موضوع تھا یورپ کے عہدِ وسطیٰ بالخصوص صلیبی جنگوں کے تعلق سے معروف وہ جنگجو افراد جن کو تاریخ میں Knights Templar یا Kinghts Hospitaler  کہہ کر یاد کیا جاتا ہے، چناں چہ پہلے مضمون کے بعد اس سلسلے کے دوسرے مضامین کا عنوان ہے: ’یورپ کے بانکے، نائٹ ٹمپلرز‘۔

شرر کے یہ تمام مضامین ان کے مضامین کے قدیم مجموعوں میں شامل تھے جو نایاب ہیں۔ اب پاکستان میں نئے انتخاب شائع کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام ہی ’یورپ کے بانکے‘ ہے۔ اسے ڈاکٹر فاروق عثمان نے مرتّب کیا ہے اور بیکن ہاؤس، لاہور نے 2007ء میں شائع کیا ہے۔ وہاں سے لے کر شرر کا مضمون ’ہندوستان کے بانکے‘ یہاں دوبارہ شائع کیا جارہا ہے۔

شرر کے مضمون سے نہ صرف میری بچپن کے قصّوں کی یادوں کی تائید ہوتی ہے بلکہ یہ بھی تسلّی ہوتی ہے کہ بانکوں اور وضع داری کے متعلق ان کی رائے جو میں نے قائم کی تھی وہ غلط نہ تھی۔ ساتھ ہی کچھ اور دل چسپ باتیں سامنے آتی ہیں۔ یاد رہے کہ یورپ کے نائٹوں کا ذکر اردو میں سب سے پہلے شرر نے کیا تھا اور طنز و مزاح کے ساتھ۔ سرشار کے مدنظر سروانتے کا عظیم ناول ’ڈان کی ہوئے‘ تھا جس کو انھوں نے اردو میں ’خدائی فوجدار‘ کی شکل میں غلط صحیح اور انتہائی مختصر کرکے پیش کیا تھا۔ سرشار کی نظر میں یورپ کے نائٹ تمسخر کے لائق تھے۔ شرر کی نظر میں نائٹ ٹمپلرز نہ صرف دلاور اور جنگجو تھے، وہ اپنی قوم کے محافظ بھی تھے اور ایک طرح کے ٹریجک ہیرو بھی۔ اس نقطۂ نظر کی تائید کی خاطر انھوں نے اپنے مضامین میں ان تمام اعتراضات کو یا تو نظر انداز کردیا یا پھر سرسری ذکر کر کے آگے بڑھ گئے جن سے یورپ کی تاریخیں بھری ہوئی ہیں اور جن کو سروانتے اور والتیئر نے مزے لے لے کر لکھا ہے۔ خود نائٹ ٹمپلرز کی تاریخ کے کئی باب سیاہ ہیں۔ لیکن شرر کے سامنے کچھ اور تھا جس کا اندازہ اس بات سے ہوجائے گا کہ انھوں نے لکھنؤ کے بانکوں کو اپنے مضمون کی ابتدا ہی میں ’ہمارے یہ قومی سپاہی‘ کہا ہے۔

شرر کا مکمل مضمون ذیل میں ملاحظہ ہو۔( چودھری محمد نعیم)

٭٭٭

انگریزی حکومت سے پہلے جب دہلی کا دربارِ مغلیہ برقرار تھا، پھر اُس کے بعد لکھنؤ میں جب اودھ کی چند روزہ سلطنت قائم تھی، ہمیں بانکوں کا ایک عجیب و غریب گروہ نظر آتا ہے جن کا انجام یہ ہے کہ اُن کا کہیں پتا نہیں اور آغاز یہ تھا کہ تاریخ سے کہیں سراغ نہیں لگتا کہ یہ گروہ کب پیدا ہوا اور اس کی بنیاد کیوں کر پڑی؟

ہمارے یہ قومی سپاہی جو ’بانکے‘ کہلاتے تھے اپنی زندگی سپہ گری کی نذر کردیتے، سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر وقت پورے اسلحہ جنگ سے آراستہ اور اوپچی بنے رہتے۔ یک رنگی و یک وضعی کو اپنا شعار جانتے اور اس بات کی دُھن تھی کہ ہماری ہی بات سب پر بالا رہے۔ باوجودیکہ وہی مروّج و متداول اسلحہ سب کے پاس ہوتے مگر ساتھ ہی ہر ایک اپنی کوئی خاص دھج اور اپنا کوئی مخصوص بانا رکھتا جس کو مرتے دم تک نہ چھوڑتا اور اس کی تاب نہ لاسکتا کہ اس دھج شعار کو کوئی اور بھی اختیار کرے۔

پہلے پہل ان بانکوں کا نام محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں سُنا جاتا ہے۔ پُرانے راوی اور یادگارِ زمانہ بڈھے بیان کرتے ہیں کہ محمد شاہ کے پاس ایک لشکر بانکوں کا تھا اور ایک زنانوں کا اور نادر شاہ کے مقابلے میں اگر کچھ لڑے تو یہی لوگ لڑے۔ بانکے جانیں دینے پر تُلے ہوئے تھے اور زنانے عورتوں کی طرح ’اوہی‘ کہہ کے تلوار مارتے تھے۔ اُس زمانے کے بعد جب دہلی اپنے باکمالوں اور ہر فن کے استادوں کی قدر کرنے کے قابل نہ رہی تو اُن کا رُخ اودھ کی طرف پھر گیا اور قدردانی کی امید میں ہر ادنیٰ و اعلا دہلی چھوڑ چھوڑ کے یہاں آنے لگا۔ اب یہ لوگ فیض آباد اور لکھنؤ کی سڑکوں پر ٹہلتے نظر آتے تھے۔ مگر یہاں زنانے سپہ گروں کا تو پتا نہ تھا، ہاں بانکے تھے جن کی روز بروز کثرت ہوتی جاتی تھی۔

بادی النظر میں خیال ہوتا ہے کہ تمام بانکوں کی ایک سی وضع ہوگی، مگر ایسا نہ تھا، ان میں سے ہر فرد اپنے بانکپن کو ایک نئے عنوان سے اور نئی شان سے ظاہر کرتا۔ پہلے عام وضع یہ تھی کہ سر کو چندیا سے گُدّی تک مُنڈاتے اور دونوں طرف کے پٹوں میں سے ایک تو کانوں تک رہتا اور دوسرا شانوں تک لٹکتا، بلکہ کبھی اس کی چوٹی گوندھ کے ایک طرف سینے پر ڈال لی جاتی۔ اس کے بعد جدتیں ہونا شروع ہوئیں اور ہر بانکے نے اپنے لیے کوئی نئی دھج ایجاد کی۔ کسی صاحب نے ایک طرف کی مونچھ اس قدر بڑھائی کہ وہ بڑھتے بڑھتے چوٹی سے بوس و کنار کرنے لگی۔ کسی صاحب نے پگڑی کا شملہ بجائے پیٹھ کے ایک طرف شانے پر ڈال لیا۔ کسی صاحب نے پائجامے کا ایک پائنچا اس قدر نیچا کرلیا کہ زمین بوس ہورہا ہے اور دوسرا پائنچا اس قدر اُٹنگا رکھا کہ آدھی پنڈلی کھُلی ہوئی ہے۔کسی صاحب نے لوہے کی ایک بیڑی پاؤں میں ڈال کے اُس کی زنجیر کمر میں اٹکا لی اور اُسے کھڑکاتے ہوئے پھرنے لگے۔ کسی صاحب نے یہ ترقی کی کہ بہت سے روپوں میں دونوں طرف کُنڈے لگاکے اور اُنھیں باہم جوڑکے ایک نئی قطع کی نقرئی زنجیر بنائی۔ پھر اُس کے دونوں سروں پر چاندی کے دو حلقے لگائے۔ ایک حلقے کو ایک طرف کے پاؤں میں ڈال لیا اور دوسرے کو اُسی طرف کے بازو میں پہن کے شانے پر اٹکالیا اور نہایت غرور و تمکنت کے ساتھ زنجیر بجاتے ہوئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ غرض جتنے بانکے تھے اُتنی ہی دھجیں تھیں۔ اسی قسم کی جدت طرازیاں اسلحہ کے متعلق تھیں۔ کوئی صاحب دو دھارا تیغہ ہاتھ میں رکھتے جو ہر وقت برہنہ اور ہوا سے لڑتا رہتا۔ کوئی صاحب رستم و نریمان کے زمانے کا وزنی سلاخ گُرز لیے پھرتے۔ کوئی صاحب تبر کاندھے پر رکھے نظر آتے اور ساری دنیا کو اپنی نظر میں ہیچ خیال کرتے۔

ان لوگوں کے باہر نکلنے کی یہ شان تھی کہ تبختُر اور نخوت کے ٹھاٹھ سے اپنے اوپر ناز کرتے ہوئے چلتے۔ ہر ایک پر کڑوے تیور ڈالتے اور اگر کہیں کسی کو دیکھ لیتے کہ اُنھیں کا بانا اور شعار اُس نے بھی اختیار کرلیا ہے تو بلاتامل ٹوک بیٹھتے اور کہتے ’’آئیے ہم سے آپ سے دو دو ہاتھ ہوجائیں۔ یہ بانا یا تو ہمارا ہی ہوگا یا آپ ہی کا ہوگا‘‘۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).