ہندوستان کے بانکے۔۔۔ عبدالحلیم شرر کی ایک نادر تحریر (2)


اس سے زیادہ قیامت یہ تھی کہ ان (بانکے) لوگوں کا تبختُر، ان کا فخر و ناز، ان کی چال ڈھال، ان کی وضع قطع اور ان کے مخصوص شعار سب چیزوں کی یہ حالت تھی کہ دیکھتے ہی انسان کو بے اختیار ہنسی آجائے، مگر کس کی مجال تھی کہ اُن کی طرف دیکھ کے مُسکرا بھی دے۔ انھوں نے کسی کو جھوٹوں بھی مسکراتے دیکھا اور قرابنچے پر ہاتھ جا پڑا۔ پھر اُس وقت اگر کوئی ایسے ہی بُردبار بانکے ہوئے تو اُسے خوشامد درآمد کرکے عفوِ تقصیر کا موقع بھی ملا ورنہ بلاتامل قرابنچہ بھونک دیا اور اپنی راہ لی۔

یہ مجال نہ تھی کہ کوئی بانکے صاحب کسی صحبت میں ہوں اور کوئی اُن کی بات ٹالتا یا اُن پر اعتراض کرے۔ نتیجہ یہ تھا کہ بڑھ بڑھ کے باتیں بناتے، لاف زنی کرتے، بے پر کی اور جھوٹ کے پُل باندھتے مگر کسی کو جرأت نہ ہوسکتی کہ چوں کرے یا مسکرائے۔ مشہور ہے کہ ایک بانکے صاحب چند مہذب لوگوں کی محفل میں کہنے لگے ’’اجی فلاں راجہ کی گڑھی پر جب ہم نے سو آدمیوں سے دھاوا کیا ہے تو ہر سپاہی کے گلے میں پانچ پانچ ڈھولیں تھیں اور ہمارے سو آدمی پانسو ڈھولیں بجاتے ہوئے جا پڑے‘‘۔ اور تو کس کی مجال تھی کہ ایک بانکے کی زبان پکڑے؟ سب خاموش بیٹھے رہے مگر ایک نوجوان کی زبان سے نکل گیا: ’’خیر پانچ ڈھولیں تو گلے میں ڈال کے شاید راون کے سر کی طرح چاروں طرف پھیلالی ہوں مگر ہر آدمی پانچ پانچ ڈھولیں کن ہاتھوں سے بجاتا ہوگا؟‘‘ یہ سنتے ہی بانکے حضرت آگ بگولا ہوگئے۔ تلوار سیدھی کی اور ڈانٹ کے کہا ’’ایں! یہ ہم پر اعتراض! تو ہم جھوٹے ہوئے؟‘‘ سب نے کہا ’’آپ کو جو جھوٹا کہے وہ خود جھوٹا۔ یہ لڑکا بزرگوں کی کیا قدر جانے؟ آپ اپنی طرف دیکھیں‘‘۔

دُھن کے اس قدر پکے تھے کہ کسی کا دباؤ ہی نہ مانتے۔ یہاں تک کہ بعض بعض بہت اعلا درجے کے بانکے، بادشاہوں اور حکامِ وقت کی بھی پروا نہ کرتے تھے۔ نواب سعادت علی خاں کے زمانے میں دہلی کے آئے ہوئے مشہور بانکوں میں ایک میرزا جہانگیر بیگ تھے۔ اُن کا نوعمری کا زمانہ تھا۔باپ نواب صاحب کے درباریوں میں تھے۔ جہانگیر بیگ کی جھگڑا و فساد* کی خبر کئی بار سُن کے نواب سعادت علی خاں خاموش ہورہے، مگر آخرکار ایک دن بہت برہم ہوئے اور اُن کے والد سے کہا ’’آپ کے صاحبزادے کی شورہ پشتیاں حد سے گزرتی جاتی ہیں اور انھوں نے سارے شہر میں اُدھم مچا رکھا ہے۔ اُن سے کہہ دیجیے گا کہ اپنے اس بانکپن پر نہ بھولیں۔ ناک نہ کٹوالی ہو تو میں سعادت علی خاں نہیں‘‘۔ باپ خود ہی بیٹے کی حرکتوں سے عاجز تھے۔ عرض کیا ’’خداوند! اُس کی شرارتوں سے غلام کا ناک میں دم ہے۔ ہزار سمجھاتا ہوں نہیں مانتا۔ شاید حضور کی یہ دھمکی سُن کے سیدھا ہوجائے‘‘۔ یہ کہہ کے گھر آئے اور بی بی سے کہا ’’تمھارے صاحبزادے کے ہاتھوں زندگی سے عاجز آگیا ہوں۔ دیکھیے اس نالائق کی حرکتوں سے ہماری کیا گت بنتی ہے؟ جی چاہتا ہے نوکری چھوڑ دوں اور کسی طرف منہ چھپا کے نکل جاؤں‘‘۔ بی بی نے کہا ’’اے تو کچھ کہو گے بھی؟ آخر ہوا کیا؟‘‘ کہا ’’ہوا یہ کہ آج نواب صاحب بہت ہی برہم بیٹھے تھے۔ میری صورت دیکھتے ہی کہنے لگے اپنے بیٹے سے کہہ دینا کہ میں سعادت علی خاں نہیں جو ناک نہ کٹوالی ہو‘‘۔ اتنے میں مرزا جہانگیر بیگ جو کہیں باہر گئے ہوئے تھے، گھر میں آگئے۔ ماں نے کہا ’’بیٹا خدا کے لیے اپنی یہ حرکتیں چھوڑدو، تمھارے ابا بہت ہی پریشان ہیں‘‘۔ مرزا صاحب نے کہا ’’میرا کچھ قصور بھی بتائیے گا یا خالی الزام ہی دیجیے گا‘‘۔ باپ نے کہا ’’کوئی ایک قصور ہو تو بتایا جائے؟ تم نے وہ سر اُٹھا رکھا ہے کہ سارے شہر میں آفت مچ گئی۔ آج نواب صاحب کہتے تھے کہ اپنے صاحبزادے سے کہہ دینا میں سعادت علی خاں نہیں جو ناک نہ کٹوالی ہو‘‘۔ باپ کی زبان سے اتنا سنتے ہی مرزا صاحب کو جو طیش آیا تو کمر سے خنجر نکال لی اور خود ہی اپنی ناک کاٹ کے باپ کی طرف پھینک دی اور بولے ’’بس اسی ناک کاٹنے کی نواب صاحب دھمکی دیتے ہیں؟ لیجیے یہ ناک لے جاکے انھیں دے دیجیے‘‘۔ یہ دیکھتے ہی ماں باپ دونوں سناٹے میں آگئے اور جب باپ نے بیٹے کی ناک نذر کے طریقے سے نواب صاحب کے سامنے پیش کی اور واقعہ بیان کیا تو وہ بھی دم بخود رہ گئے اور معذرت کرنے لگے کہ ’’بھئی میرا یہ منشا نہ تھا، میں تو سمجھا تھا کہ اس دھمکی سے انھیں تنبیہ ہوجائے گی‘‘۔ باپ نے کہا ’’خداوند! ایسا نالائق اور اپنی دُھن کا پکّا ہے کہ کسی کا زور ہی نہیں چلتا۔ جسے نہ جان کا خیال ہو نہ عزت آبرو کا، اُس کے منہ کون لگے؟‘‘

اس واقعے کے بعد مرزا جہانگیر بیگ نکٹے مشہور ہوگئے۔ اور اب اتنے بڑے زبردست اور سند یافتہ بانکے تھے کہ شہر کے سارے بانکے اُن سے دبتے تھے۔ سینکڑوں بانکے ان کے شاگرد ان کے حکم کے تابع، بے عذر فرماں بردار اور اُن کے جتھے میں بھی شریک تھے جن سے سارا شہر کانپتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک مشہور بھانڈ نے نواب سعادت علی خاں کے سامنے کوئی گستاخانہ نقل کی تو اُنھوں نے ہنس کے کہا ’’میرے سامنے تو جو چاہتا ہے کہہ جاتا ہے جب جانوں کہ تو مرزا جہانگیر بیگ نکٹے پر کوئی فقرہ تیز کرے‘‘۔ اس نے عرض کیا ’’خدا وند کہہ تو جاؤں گا مگر حضور بچا لینے کا اقرار فرمائیں‘‘۔ نواب نے وعدہ کیا اور اُس کے دوچار روز بعد ایک دن مرزا جہانگیر بیگ پورے اسلحہ لگائے دریا کنارے اپنی نشست میں مونڈھے پر بیٹھے تھے۔ پچاس ساٹھ شاگردوں اور بانکوں کا مجمع گرد تھا کہ وہ بھانڈ ایک لُنگ باندھے ہوئے دریا سے نکل کے آیا۔ اس کی صورت دیکھتے ہی مرزا جہانگیر نے کہا ’’اخاہ تم ہو؟ اچھے تو رہے‘‘۔ یہ سنتے ہی وہ آداب بجالایا۔ سامنے آکے زمین پر بیٹھ گیا اور اُن کے چہرے کی طرف ہاتھ اٹھاکے کہنے لگا ’’خداوند اتنی کٹ گئی اور جو یہ رہی ہے یہ بھی کٹ جائے گی‘‘! ایک بھانڈ کی زبان سے یہ جملہ سنتے ہی مرزا جہانگیر کو ایسا طیش آیا کہ مارے غصے کے اس قدر کانپے کہ ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی اور وہ بے تحاشا بھاگ کے پانی میں کود پڑا، دو چار غوطے لگائے اور پانی ہی پانی میں کسی طرف نکل گیا۔ اب مرزا صاحب کے جتھے کے لوگ ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ کہیں ملے تو حرام زادے کو مار ڈالیں۔ آخر ایک دن نواب سعادت علی خاں نے اُسے مرزا جہانگیر بیگ کے قدموں پر گراکے کہا ’’بھئی اس کی بات کا بُرا ماننا ہی کیا؟ یہ تو مجھے بھی کہہ جاتا ہے‘‘۔ اور اس کا قصور معاف کروادیا۔

Kaiser-Pasand-Palace-Lucknow

شاہی کے آخری زمانے تک اِن لوگوں کا بڑا زور رہا۔ اور بانکپن میں کچھ ایسی امتیاز کی صورتیں تھیں کہ اکثر شریف زادے خصوصاً وہ جنھیں سپہ گری کا شوق ہوتا، بانکے بن جاتے اور اپنی کوئی خاص دھج بنالیتے۔ اگر قاعدے اور سلطنت کی قوت کے ساتھ کوئی ایسا گروہ موجود ہوتا تو دراصل یہ لوگ سلطنت کے قوتِ بازو ثابت ہوتے اور اُن کی ذات سے قوم و ملک کو بڑا نفع پہنچتا۔ لیکن بدنصیبی سے جن دنوں بانکوں کا گروہ پیدا ہوا تھا۔ دہلی و لکھنؤ کی دونوں سلطنتیں نہایت کمزور اور عجیب غیر منتظم حالت میں تھیں اور یہی بانکے جو مایۂ ناز اور ذریعۂ عروج ہوسکتے تھے اُن کے لیے باعثِ زوال بن گئے۔ سلطنت اُن کو دبا نہ سکتی تھی اور اُن کی خود سری و سرکشی سے آئے دن شہر کے گلی کوچوں میں خانہ جنگیاں ہوا کرتی تھیں۔ جن لوگوں کو اُن کے ہاتھ سے آزار پہنچتا سلطنت اُن کی دادرسی نہ کرسکتی اور انھوں نے اپنے ایسے ایسے جتھے بنالیے تھے کہ بڑے بڑے رسال داروں کو بھی اُن سے دب جانا پڑتا تھا۔

ان میں باوجود احمقانہ تفاخر و غرور کے یہ خاص بات تھی کہ ہندوستان کے بلکہ شاید ساری اگلی دنیا کے کج خانوں میں سپہ گروں کے خلاف یہ نہایت ہی مہذب سپاہی ہے۔ اور اُن لوازم اخلاق کو جو دو مہذب و شائستہ دوستوں میں ہوا کرتے ہیں اپنے حریف کے ساتھ برتتے تھے۔ کسی ادنیٰ درجے کے سپاہی سے لڑنا اور مقابلہ کرنا اپنا شان و وضع کے خلاف اور موجبِ توہین تصور کرتے۔ شریف حریف ہی سے لڑتے اور پھر اُس کے ساتھ شرفا کا سا برتاؤ بھی کرتے۔ اکثر یہ بھی ہوا کہ دو بانکوں میں لڑائی ہوئی اور لڑائی میں بھی دونوں کو اس کا لحاظ ہے کہ کوئی بات حریف کی عزت و حرمت یا مرضی و شان کے خلاف نہ ہونے پائے۔ ایک کہتا ’’پہلے آپ وار کریں‘‘۔ دوسرا کہتا ’’نہیں پہلے آپ۔ یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ پھر جب حریف کمزور ثابت ہوجاتا تو فوراً لڑائی سے ہاتھ روک لیتے اور پھر اُس کے حق میں اُن سے زیادہ کوئی مہربان نہ تھے۔ دنیا میں اس کے نہایت ہی سچے ہمدردیہ تھے۔ اگر مغلوب دشمن اپنے پاؤں سے جانے کے قابل نہ ہوتا تو اُس کے گھر تک اُس کی مشایعت کرتے۔ راستے میں بیسیوں جگہ یہ واقعہ پیش آتا کہ یہ کہتے آپ آگے چلیے۔ اور وہ کہتا آپ آگے چلیے۔ بعض بانکوں کے واقعات میں مشہور ہے کہ لڑائی کے بعد زخمی حریف کو اُس کے گھر تک پہنچانے گئے اور وہاں سے چلے تو حریف دوست نے کہا ’’تو کیا آپ تنہا جائیں گے؟ یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ وہ انھیں ان کے گھر تک پہنچانے کو آیا اور جب وہ پہنچا کے چلا تو اخلاقاً پھر اُس کے ساتھ ہولیتے۔ اسی اخلاق میں صبح ہوگئی کہ جب یہ اُس کے گھر پہنچتے ہیں تو وہ ان کی مشایعت کے لیے ان کے ساتھ ہولیتا ہے۔ اور جب وہ ان کے گھر پہنچتا ہے تو یہ اُس کی مشایعت کے لیے اُس کے ساتھ ہولیتے ہیں۔

اکثر بانکوں کی یہ وضع تھی کہ شربتی کے باریک انگرکھے کے سوا کوئی کپڑا نہ پہنتے اور لڑائی میں زرہ پہننا یا ڈھال سے کام لینا بُزدلی اور نامردی خیال کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ حریف کا سامنا ہوتا تو اُس کی تلوار کو گویا ننگے سینے پر لیتے۔ چرکے پر چرکے کھاتے اور اُف نہ کرتے۔ اسی طرح چلّوں کا جاڑا اُسی شربتی کے انگرکھے پر گزرتا اور مجال کیا کہ کانپیں، تھرتھرائیں یا زبان سے ’سُو! سُو! کی آواز نکلے۔ بعض اس پر بھی یہ قیامت کرتے کہ اُس کے باریک لباس پر باسی پانی چھڑکواتے اور جوں جوں سردی معلوم ہوتی اور اکڑتے جاتے۔

ان کی آخر زمانے کی عام وضع دکھانے کے لیے ہم ایک بانکے صاحب کی صورت اپنے ناظرین کو دکھائے دیتے ہیں جنھیں خوش نصیبی سے ہم نے اپنے بچپن میں غدر کے تیرہ چودہ برس بعد مٹیا برج (کلکتہ) میں اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ یہ صاحب عہدِ شاہی کے باقیات الصالحات میں سے تھے۔ غدر میں جابجا لڑے۔ جب انگریزوں کا تسلط ہوگیا تو ہتھیار پھینک کے بہت دنوں تک ادھر اُدھر چھپتے پھرے اور آخر جب پریشان ہوئے تو کلکتہ میں آئے کہ واجد علی شاہ کے ظلِ عاطفت میں باقی ماندہ زندگی بسر کردیں۔ اُن سے اگرچہ ہتھیار چھِن گئے تھے مگر وضع نہیں بدلی تھی۔ یہ ایک کشیدہ قامت دُبلے چھریرے آدمی تھے۔ پیشانی سے گُدی تک بیچ میں سرمُنڈا ہوا تھا۔ ایک پٹا بڑا تھا اور ایک چھوٹا اور دونوں دو پلڑی ٹوپی اور پگڑی کے نیچے نکلے ہوئے تھے۔ ڈاڑھی چڑھی تھی اور مونچھیں ہمیشہ کھڑی رہتیں۔ بدن میں کھنچا ہوا چُست نیچے دامنوں کا انگرکھا تھا۔ ٹانگوں میں عورتوں کا سا لمبے پائنچوں کا کلیوں دار پاجامہ۔ پیٹھ پر مثلث وضع کا رومال اوڑھے رہتے۔ ہاتھ میں ہر وقت ایک پنکھا رہتا اور لکھنؤ کا خورد نو کا جوتا پاؤں میں تھا، مگر یک رنگی کا سب سے زیادہ نمایاں ثبوت یہ تھا کہ یہ سب کپڑے چھینٹ کے تھے جس چھینٹ کا انگرکھا تھا اُسی کی ٹوپی اُسی کی پگڑی تھی۔ اسی کا رومال پیٹھ پر، اُسی کا پائجامہ تھا، اُسی کا پنکھا تھا اور وہی چھینٹ جوتے کے بیرونی رُخ پر بھی منڈھی ہوئی تھی۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سارے بانکوں کی یہی وضع تھی، ممکن ہے کہ اِنھیں بزرگ نے خاص اپنی یہ دھج رکھی ہو۔

La Martiniere College Lucknow

مٹیابرج میں چند روز یہ اسی وضع میں رہے۔ جدھر سے نکل جاتے انگلیاں اُٹھنے لگتیں اور لوگ گھبرا گھبراکے ان کی صورت دیکھتے اور ہنستے۔ اب انگریزوں میں یہ تو مجال نہ تھی کہ کسی کو ہنسنے پر ٹوکیں۔ وہ جو مثل مشہور ہے کتاوبی بلی چوہوں سے کان کٹاتی رہے۔ یہ بے چارے خود ہی نظر نیچی کرلیتے اور کوئی چاہے کچھ کہے یا کچھ کرے یہ اپنی آنکھیں جھکائے چلے جاتے، مگر باوجود اس کے اکڑ اور تیوروں کا وہی حال تھا۔ کسی محفل میں بیٹھ کے باتیں کرتے تو معلوم ہوتا کہ ساری صحبت پر حکومت کررہے ہیں اور کسی کی اپنے سامنے کچھ ہستی نہیں سمجھتے۔ جب واجد علی شاہ کا سامنا ہوا تو بادشاہ نے کہا ’’بھئی چھوٹے خان… اور یہی ان بانکے صاحب کا نام تھا…‘‘۔ اب زمانہ بدل گیا، نہ وہ ہم رہے نہ وہ تم رہے، اس لیے جس طرح ہماری وضع بدل گئی ایسے ہی اب تم بھی اپنی وضع بدل دو‘‘۔ عرض کیا ’’خداوندا! اب تھوڑی سی رہ گئی ہے اسے اسی وضع میں گزر جانے دیجیے‘‘۔ بادشاہ نے کہا ’’نہیں تمھیں میرے سر کی قسم اب وضع بدل دو اور سمجھو کہ جو کچھ ہونا تھا سو ہوچکا‘‘۔ یہ کہہ کے بادشاہ نے ایک خواص کو اشارہ کیا جس نے ایک دوشالہ لاکے اُڑھا دیا۔ جب دوسری وضع کا کپڑا اُڑھاہی دیا گیا تو مجبور ہوگئے۔ آداب بجا لاکے وہ دوشالہ لے لیا اور گھر آئے، پھر اس کے بعد جو گھر سے نکلے تو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔

چند سال بعد اُنھوں نے مٹیابرج میں انتقال کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کی موت پر نہیں بلکہ اُن کی وضع بدلنے ہی پر پُرانے بانکوں کا خاتمہ ہوگیا۔

اس میں شک نہیں کہ جب شریف زادوں اور عام سپہ گروں میں بانکے بننے کا شوق بڑھا، ادنیٰ و اعلا ہر گروہ میں بانکے پیدا ہونے لگے اور شہر میں بانکوں کی کثرت ہوئی تو بہت سے ایسے بانکے بھی نظر آنے لگے جن میں نہ ویسی شرافت تھی اور نہ ویسی شجاعت اور جب موقع پڑتا اُن کی کمزوری کھُل جاتی۔ لیکن اصلی بانکپن ملک و قوم کا ایک بہت ہی اعلا درجے کا شریفانہ جوہر تھا جو مسلمانوں کے سوا آخر ایام میں بہت سے ہندوؤں سے بھی ظاہر ہوا۔ اس اعلا جوہر کا ہندوستان سے مٹ جانا اِس کی تاریخ کا ایک حسرت ناک ورق ہے۔

ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ بانکوں کی کثرت اور ہتھیاروں کے بے روک بے ضرورت استعمال نے ملک کے امن و امان میں فرق ڈال دیا تھا۔ شہر میں روز خانہ جنگیاں ہوتیں اور اکثر رہ گذروں پر لاشیں پھڑکتی نظر آتیں۔ یہی نہیں بلکہ روز بروز ثابت ہوتا جاتا کہ بانکے سپہ گر خانہ جنگیوں اور باہمی جدال و قتال میں جس قدر زیادہ باکمال اور شجاع ہیں اُسی قدر غنیم کے حملے روکنے اور میدانِ جنگ میں اپنے ابنائے وطن کے ساتھ شریک ہوکے لڑنے میں ناقص و ناکارہ ہیں، لیکن اس پر بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ گروہ مٹنے کے قابل نہ تھا اور مٹانے کی نہیں بلکہ باضابطہ بنانے کی ضرورت تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).