بوسٹن میراتھن سے بہاولپورآئل ٹینکر تک


15 اپریل 2013ء کا دن امریکی ریاست میسیچوسٹس کے شہر بوسٹن کے شہریوں کے لیے جوش،جذبے اور ولولے کا دن تھا کہ آج ان کا شہرایک مرتبہ پھر دنیا کی سب سے قدیم سالانہ میراتھن ریس کی میزبانی کرنے جا رہا تھا۔ ہوپ کنٹن پوائنٹ سے شروع ہو کر کوپلے سکوائر پرختم ہونے والی 26 میل طویل بوسٹن میراتھن میں اس سال بھی دنیا بھر سے اتھلیٹ شریک تھے اور ہمیشہ کی طرح پورا شہر ہی ان کاحوصلہ بڑھانے سڑکوں پر امڈ آیا تھا۔ اتھلیٹ مختلف مرحلوں سے ہوتے اختتامی پوائنٹ یعنی کوپلے سکوائر کے قریب پہنچ رہے تھے کہ اچانک دو زوردار دھماکوں سے پورا علاقہ لرز اٹھا۔ یہ دھماکے دو چیچن نژاد امریکی بھائیوں نے کئے تھے جنہیں عراق اور افغانستان پرامریکہ کی فوج کشی کا رنج تھا۔دھماکوں میں 3 تماشائی موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ 260 سے زائد زخمی ہو ئے جن میں شدید زخمی درجنوں افراد بھی شامل تھے۔ دھماکوں کے فوری بعد ایمرجنسی سروسز حرکت میں آئیں اور زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔ زخمیوں کو صرف 6 لاکھ 73 ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل بوسٹن کے27مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ یہ بوسٹن شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا ایمرجنسی آپریشن تھا جسے حکومتی اداروں نے بخوبی سرانجام دیا۔ ان کی کامیابی کا اندازہ انہی اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ ،ہمارے جیسے ملک کے برعکس جہاں ایسے دھماکوں کے بعد کئی روز تک مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے،260  سے زائد زخمیوں میں سے ایک بھی زخمی نے دم نہیں توڑا۔ ایمرجنسی سروسز کا عملہ ایک ایک زخمی تک پہنچا اور ایک ایک زخمی کو نئی زندگی مل گئی حالانکہ ان میں ڈیڑھ درجن کے قریب ایسے افراد بھی شامل تھے جن کے اعضاء جسم سے الگ ہو چکے تھے اوران کا بہت زیادہ خون بہہ چکا تھا لیکن شہریوں کو ایسی صورتحال میں مدد پہنچانے کے ذمہ دار نظام بنانے والوں اور اسے چلانے والوں نے انہیں بھی موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔

25 جون 2017ء کا دن بہاولپور کے قریب احمد پور شرقیہ کے ایک گاؤں رمضان پور جوئیہ کے لیے معمول کا ہی دن تھا۔ کراچی سے 40 ہزار ٹن پٹرول لے کر لاہور جانے والا ٹینکر نیشنل ہائی پر بجانب منزل رواں دواں تھا۔ صبح 7 بجے رمضان پور جوئیہ کے قریب ایک ترچھا موڑ کاٹنے کی کوشش میں ٹینکر ڈرائیور اس پر قابو نہ رکھ سکا ، ٹینکر الٹ گیا اور اس سے پٹرول بہہ کر سڑک سے ہوتا ہوا قریبی کھیتوں میں پھیلنے لگا۔ گاؤں میں خبر پہنچتے ہی ہر چھوٹا بڑا گھر کا جو برتن ہاتھ لگا پکڑ کر پٹرول لینے پہنچ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سو سے زائد افراد گلاسوں اور ہاتھوں سے اپنے اپنے برتن بھرنے لگے۔ موٹروے پولیس نے انہیں پٹرول سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ اچانک ٹینکر نے آگ پکڑ لی اورایک دھماکے کے ساتھ دیکھتے ہی دیکھتے قریب کھڑی چھ کاروں اور 12موٹرسائیکلوں کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں پٹرول اکٹھا کرتے افراد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ نہ کاروالوں کو باہر نکلنے کا موقع ملا نہ موٹرسائیکل والے کو اترنے کا۔ سانحے میں ڈیڑھ سو کے قریب افراد لقمہ اجل بنے اور  100 سے زائد جھلس گئے جن میں بیشتر کی حالت انتہائی نازک ہے۔ حادثے کے بعد سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آگ سے جھلسنے والوں کی زندگی کو دھماکے میں زخمی ہونے والوں سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے کیونکہ آگ سے جلد کا اوپری حصہ جل جانے سے جسم کو مہلک انفیکشن ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے جو اکثر اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ریاست نے اپنے شہریوں کو علاج معالجے کی وہ تمام سہولیات باہم مہیا کیں جن کی انہیں اشد ضرورت تھی۔اس کا جواب افسوسناک اورمایوس کن ہے۔ جس جگہ حادثہ پیش آیا وہاں سے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بہاولپور 45  کلومیٹردور ہے۔ پونے 7 لاکھ آبادی والے بوسٹن میں 27 اور دس لاکھ سے زائد آبادی والے بہاولپور میں 2 ہسپتال ہیں۔ تمام زخمیوں کو فوری طور پر شہر کے بڑے سرکاری ہسپتال بہاول وکٹوریا ہسپتال منتقل کیا گیا۔ دس سال قبل بہاول وکٹوریا ہسپتال میں صوبائی حکومت نے برن یونٹ، نیورویونٹ اورکڈنی سنٹر بنانے کا اعلان کیا۔ خادم اعلیٰ کی سیاسی مخاصمت کے باعث دس سال بعد بھی نہ یہاں برن یونٹ بن سکا اور نہ ہی نیورو یونٹ کا نام ونشان ہے۔ بہاول وکٹوریا کا بھی یہ حال ہے کہ جنوبی پنجاب کے علاوہ اندرون سندھ سے بھی مریض یہاں آتے ہیں۔ ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض یہاں کا معمول ہے اور میڈیکل سٹاف کے لیے کام کرنے کا ماحول اپنی جگہ ایک الگ المیہ ہے۔ جائے حادثہ سے دوسراقریب ترین بڑا شہر ملتان ہے جہاں نشتر ہسپتال ہی شہریوں کی پہلی اور آخری امید ہے۔ یہاں بھی خاد م اعلیٰ صاحب کے پیشرو نے برن یونٹ تعمیر کروایا تھا جو سالہا سال سیاسی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھا رہا جو دوسال قبل آپریشنل کیا گیا تاہم اس میں زیادہ جھلسے مریضوں کے علاج کی سہولت میسر نہیں جس کے باعث احمد شرقیہ حادثے میں شدید جھلسے افراد کو سی ایم ایچ کھاریاں منتقل کیا گیا ہے۔

موجودہ صوبائی حکومت نے سب سے بڑا ظلم فیصل آباد میں الائیڈ ہسپتال کے اندر بننے والے برن یونٹ کے ساتھ کیا۔ یہ منصوبہ بھی شہبازشریف سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے بنایا اوریہی کئی سال تک اس کے زیر التوا رہنے کا موجب بنا۔ اس کے فنڈز میں پہلے تو بار بار کمی کی جاتی رہی۔ خدا خدا کر کے اس کی عمارت مکمل ہوئی تو آلات کا کٹھن مرحلہ پار ہوتے طویل عرصہ گزر گیا۔ سٹاف بھرتی کرنا ایسا پتھر بن گیا جسے صوبائی حکومت آج تک مکمل طور پر نہیں اٹھا سکی۔ الائیڈ ہسپتال کے برن وارڈ کے بیشتر سٹاف کا ہی یہاں تبادلہ کر دیا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد میں برن یونٹ کا کوئی ریگولر پروفیسر نہیں۔ دو سینئر ڈاکٹر ایڈہاک پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں نے ’اساں قیدی تخت لاہور دے‘ کا نعرہ لگا کر پنجابی اسٹیبلشمنٹ سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں کہ لاہور کا میو ہسپتال بھی سہولیات کے لیے ایسے ہی ترس رہا ہے جیسے بہاولپور کا بہاول وکٹوریا ہسپتال ترس رہا ہے۔

میو ہسپتال کی ایمرجنسی میں ایک ایک ڈاکٹر کے پاس درجن درجن بھر مریض اہل لاہور کو دستیاب صحت کی سہولیات کی عکاسی کے لیے کافی ہے۔ اس کے آرتھوپیڈک وارڈ کا دورہ کیجئے اور دیکھئے کہ چھوٹے چھوٹے آپریشنز کے لیے کتنے کتنے مہینوں سے انتظار کی سولی پر لٹک رہے ہیں۔ پاکستان کے دل میں دل کے سب سے بڑے ہسپتال پی آئی سی سے ایکو گرافی جیسے بنیادی ٹیسٹ کے لیے دیکھئے آپ کو کتنے مہینوں کا انتظار بتایا جاتا ہے۔ لاہورمیں بچوں کے لیے پنجاب کے سب سے بڑے ہسپتال چلڈرن ہسپتال میں دل کے امراض میں مبتلا بچوں کے والدین سے ملئے، وہ آپ کو بتائیں گے کہ کیسے ان کے لخت جگر کے دلوں میں سوراخ کا انکشاف ہونے کے بعد انہیں کتنے کتنے سال انتظار کرنے کا کہا جاتا ہے۔ سڑکوں کے بادشاہ بنے ان ناخداؤں کی سڑکوں کو الگ کر کے دیکھئے اور بتائیے انہوں نے ہمیں کیا دیا ہے؟ آئیے مل کر انہیں بتائیں کہ موٹرویز، میٹروبسوں اور اورنج ٹرینوں کے علاوہ بھی ایک دنیا ہے وہ دنیا جو حقیقی ہے اور جس میں زندہ رہنا پہلی شرط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).