موسوی صاحب اور کوئٹہ کے ہم وطن


موسوی صاحب کہنے لگے، ”کوئٹہ شہر۔ بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا۔ میں، یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ سے پیدل گھر آتا تھا۔ سب لوگ باہم اطمینان سے رہتے تھے، میزان چوک، سریاب، سب ٹھیک تھا۔ اور اب“
ان کی بھرائی ہوئی آواز ابھری۔

شہر طلب کرے اگر، تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو

”کون ہزارہ“ کی ریکارڈنگ ختم ہو گئی۔ جس دوران موسوی صاحب نے مائک اتارا اور نادر نے کیمرہ سمیٹا، مصدق سانول اپنی انکھیں صاف کر چکا تھا۔ موسوی صاحب پورا ہفتہ سکیچ کلب میں لکیروں کا کام کرتے تھے۔ دلوں پہ پڑی لکیریں، کاغذ پہ ڈالنا سکھاتے تھے، مگر اصل نشست، جمعے کو لگتی۔ سادہ سی پڑچھتی میں گلستان بوستان کی کہانیاں ہوتیں ہیں، اوشو سے علی شریعتی کا ذکر ہوتا۔ فارسی کے چست جملے رواں ہوتے اور بہت سی باتیں چلتی۔ سب لوگ بھول جاتے کہ کس کی کیا کہانی ہے۔ موسوی صاحب کی آنکھیں۔ فکر سے روشن آنکھوں میں سے تھیں۔

”کون ہزارہ“ صرف ایک دستاویزی فلم نہیں تھی۔ یہ کہانیوں کی وہ کتاب تھی جو باقی کے پاکستان سے گم ہو چکی تھی۔ کسی کا باپ کنوئیں میں ڈالنے والے ٹھیے سے زندگی کا سامان نکالتا تھا۔ دن چڑھے کچھ لوگ آئے، گولی ماری اور اطمینان سے لوٹ گئے۔ کسی کا بیٹا، علمدار روڈ اور مومن آباد کے درمیانی قیدخانے سے اوبھ گیا تھا۔ ایجنٹ کو پیسے دے کر نکلا مگر کرسمس آئی لینڈ تک نہیں پہنچ پایا۔ کسی کا بھائی القدس کے جلوس میں گیا، اور اب ماں اس کی جگہ خالی رکھتے رکھتے تھک چکی تھی۔ مصدق نہ ہوتا تو یہ کہانیاں گم ہی رہتیں۔

پھر جنوری دو ہزار تیرہ میں علمدار روڈ پہ دھماکہ ہوگیا۔ ابھی اس کا احتجاج ختم نہ ہوا تھا کہ ہزارہ ٹاؤن میں پانی کا ٹینکر، موت کا پیغام لے آیا۔

رنجش، تعلق، تاسف اور حزن جیسے الفاظ کے معانی، مجھ پہ اس دھماکے والے دن آشکار ہوئے۔ علمدار روڑ پہ رہنے والے، پاکستان بننے سے پہلے کے وقتوں سے یہاں آباد تھے مگر ہزارہ ٹاؤن کی اکثریت، افغانستان میں طالبان سے جان بچاتے یہاں پہنچے تھے۔ جب تک عارضی، مستقل ہوا، کوئٹہ گھر لگنے لگا۔ جھنگ کے لشکر بھی یہاں پہنچ گئے۔ اس کے بعد سے ایسا تھا کہ ان لوگوں کے لئے دو جزیرے بن گئے تھے۔ علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاءّن۔ اور درمیان میں خوف، موت اور دہشت کا سمندر۔ یہاں سسے وہاں آنا۔ موت کو دعوت دینا تھا۔

دھماکہ ہوئے کچھ پندرہ گھنٹے بیت چکے تھے۔ کچی پکی سڑکوں پہ لوگ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو تکتے تھے۔ راستوں کے کناروں پہ وہ کھڈے، جن پہ ابھی تک کسی کا قدم نہیں پڑا تھا، کہرے کی مہین برفیلی پرت سے ڈھکے تھے۔ میں آپ کو پھٹی پھٹی آنکھوں کا بتا رہا تھا۔ ایک مکان کی سیاہ ہوئی دیوار کے ساتھ کچھ بچیاں بیٹھی تھیں۔ ان کے گلے، ساری رات رونے سے رندھ چکے تھے، مگر اس کے باوصف تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ گم ہوتی ہوئی آواز میں نعرہ پکارتیں۔

یہ کس کا لہو تھا کون مرا
بدمعاش حکومت بول ذرا
اگر اس روز کہیں حکومت ہوتی تو واقعی کچھ نہ بول سکتی۔

نومبر کے آخری ہفتے میں یا شاید دسمبر کے پہلے ہفتے میں۔ کوئٹہ کی ہوا، ایک مخصوص باس سے بھر جاتی ہے۔ کوئلہ کی مہک سے اٹی یہ ہوا، پھر جاڑے تک ساتھ رہتی ہے۔ اس دن مگر اس ہوا میں باروود کی بو تھی، گندھک کی۔ پیلی پڑتی۔ ٹینکر کے ٹائر کی سیاہی رم پہ چمٹ گئی تھی۔ ایک جلی ہوئی موٹر سائکل کے ساتھ سات آٹھ سال کا بچہ انتہائی انہماک سے کچھ کھرچ رہا تھا۔ اپنے ایک ہاتھ میں موجود پتھر سے وہ موٹر سائیکل کے مختلف حصوں کی کھرچن، دوسرے ہاتھ میں موجود سبز رنگ کے مومی لفافے میں ڈالتا جا رہا تھا۔

دھماکے والی گلی میں نو تعمیر دکانیں تھیں۔ کچھ کا سیمنٹ، اتنا سب کچھ جلنے کے بعد بھی گیلا تھا۔ آپ کا بھائی مرتا ہے تو آپ سوچتے ہیں کہ باپ زندہ ہے، باپ کو گولی لگ جائے تو آسرا ہوتا ہے کہ گھر میں ماں ہے، ماں اور بہن کو جلا دیا جائے تو ڈھارس جیسی چیز ہوتی ہے کہ گھر ہے، خاندان، برادری، قوم، قبیلہ، زبان بولی، مذہب ہے۔ مگر جب آپ کی موت کی وجہ ہی یہ ہو کہ آپ ایک مذہب، عقیدے، بولی، زبان، قبیلے، قوم، برادری، خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو ایک دہشت آنکھوں میں ٹھہر جاتی ہے۔ اور جاتی نہیں۔

میں نے بچے سے پوچھا کہ اس شاپر میں کیا ہے۔ کہنے لگا، میرا بھائی ہے۔
کوئٹہ اور پارا چنار کے مجموعی مقتولین۔ سو سے کچھ تیس اوپر ہیں۔
پتہ نہیں موسوی صاحب کی آنکھیں روشن ہیں یا ان میں بھی حیرت کے قافلے آن پہنچ
Jun 26, 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).