‘عید اور ہولی ایک جیسی ہی تو ہیں’


 

سنہ 2007 میں شادی کے بعد جب پہلی عید آئی تو روایتی پکوان بنانے ہی نہیں آتے تھے۔ میری ساس نے مجھے بڑے پیار سے سب کچھ سکھایا۔ اس وقت میں پہلی بار عید کو اتنے قریب سے دیکھ رہی تھی اور مجھے حیرت ہوتی تھی کہ بھلا یہ لوگ 30 دن بھوکے پیاسے رہ کر اتنے جوش و خروش کے ساتھ کس طرح کام کرتے ہیں۔

یہ کہتے ہوئے سمستی پور کی مردلا ورما کی آنکھوں میں عجب سی چمک تھی۔ مردلا ہندو ہیں اور انھوں نے ضیا حسن سے شادی کی ہے جو ایک مسلمان خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان دونوں کی پہلی ملاقات سنہ 1978 میں کھیل کے میدان میں ہوئی تھی۔ مردلا کے والد اعلیٰ سرکاری عہدیدار تھے اور ضیا کے والد معمولی سے مزدور لیکن مذہب اور سٹیٹس کے فرق کو بالائے طاق رکھ کر دونوں نے ایک دوسرے سے محبت کی اور 29 سال کے طویل انتظار کے بعد کورٹ میرج کر لی۔

Mardula

مردلا بتاتی ہیں ‘میں روزے تو نہیں رکھتی کیونکہ اس کا نظم و ضبط میرے بس کی بات نہیں۔ لیکن رمضان کی ساری روایات کو ادا کرتی ہوں اور یہ کرتے ہوئے مجھے بہت سکون محسوس ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ میں اتنی ہی مسلمان ہوں جتنے کہ میرے شوہر ہندو۔

عید کے مختلف رنگوں سے شالنی کا رابطہ بھی 17 سال پہلے بنا تھا۔ 10 سال کے طویل انتظار کے بعد انھوں نے اعجاز حسین سے شادی کی۔ وہ بتاتی ہیں، ‘میرا خاندان رضامند تو ہوا لیکن وہ شادی میں شریک نہیں ہوئے۔

پٹنہ کے فریزر روڈ علاقے کی رہنے والی شالنی ورما نے اپنے بڑے بھائی کے دوست اعجاز حسین سے محبت کے بعد سنہ 2001 میں پہلے کورٹ میرج کی اور اس کے بعد کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ شادی کے بعد انھوں نے ہندی میں قرآن بھی پڑھا۔

وہ بتاتی ہیں ‘شادی کے بعد جب پہلی بار رمضان کا مہینہ آیا تو روزانہ شام کو افطار کی تیاری، اس کی محلے بھر میں تقسیم، زندگی میں ایک نئے رنگ سے روبرو ہونے جیسا تھا۔

شالنی کہتی ہیں ’17 سال کی شادی شدہ زندگی میں عید سے میں نے ویسے ہی لطف اٹھایا جیسے ہولی، دیوالی سے بلکہ شادی کے فوراً بعد تو بہت ایكسائٹمنٹ تھی اس تہوار کے بارے میں۔ بعد میں یہ جوش ایک طریقے سے وائرل بھی ہوا۔ بہت سے ہندو دوست اب افطاری کے لیے انتظار کرتے ہیں اور کبھی کبھار دل چاہے تو روزے بھی رکھ لیتے ہیں۔

Nautan

نوتن پٹنہ میں ایک بیوٹی پارلر کی مالکن ہیں۔ انھوں نے 26 سال پہلے تنویر اختر سے کورٹ میرج کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں ہولی اور عید میں بہت مماثلت نظر آتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ‘مجھے ان تہواروں میں اتنی مماثلت لگتی ہے کہ کبھی یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ میں مسلم خاندان میں چلی گئی ہوں۔

نوتن کے مطابق ‘اگر آپ دیکھیں مسلمانوں کے نام پر خوف پیدا کیا جاتا ہے جبکہ کچھ مختلف نہیں ہے۔ اگر آپ ایک بار ان کی زندگی میں شامل ہو جائیں تو دل میں یہ احساس بڑھتا جاتا ہے کہ وہ بھی ہمارے جیسے ہی ہیں۔

برصغیر میں تہواروں کا تانا بانا کچھ ایسا ہے کہ اس سے باہمی محبت بڑھتی ہے جیسا کہ مردلا کے شوہر ضیا حسن کہتے ہیں ‘تہوار تو ہوتے ہی محبت بڑھانے کے لیے ہیں۔ یہ تو ہم ہے جو عید، بقر عید، ہولی، دیوالی کو مذہبی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔

)سیتو تیواری(

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp