انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے


آج کل پاکستان میں ایک ہی موضوع زیربحث ہے۔  جے آئی ٹی اور اس کی تفتیش۔ پچھلے سال افشا ہونے والے پانامہ لیکس نے ملک کوجس ہیجانی کیفیت میں مبتلا کیا وہ ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ کوئی بھی نہیں جانتا یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ 20اپریل کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں جے آئی ٹی قائم کرنے کا حکم صادر کیا۔ دومعزز ججز کے مطابق جو مواد ان کے سامنے پیش کیا گیا اس کے بعد وزیر اعظم وزارت عظمی کے عہدے کے اہل نہیں رہے جبکہ تین معزز ججز کا خیال تھا کہ معاملے کی مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ایک جے آئی ٹی قائم کردی جائے جو شواہد اکھٹے کرکے سپریم کورٹ کے سامنے رکھے تاکہ اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جا سکے۔ اپنے فیصلے میں جج صاحبان نے لکھا کہ نیب،ایف آئی اے، ایس ای سی پی، آئی ایس آئی، ایم آئی اور سٹیٹ بنک کے سربراہان اپنے اپنے ادارے سے جے آئی ٹی کے لئے ارکان نامزد کریں گئے۔

جے آئی ٹی اپنے قیام کے ساتھ ہی تنازعات کا شکار ہوگئی۔ 3 مئی کو جب اداروں کے سربراہان کی جانب سے نام بھیجے گئے تو ایس ای سی پی اور سٹیٹ بنک کی طرف سے بھیجے گئے ناموں کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا اور کہا کہ ہم اپنی مرضی کے ہیرے چنیں گے۔  قیمتی اور شفاف ہیروں کی پہلی کھیپ میں ہی بلال رسول اور عامر عزیز کو چن لیا گیا۔  اس لازوال انتخاب سے جے آئی ٹی شروع ہی سے متنازعہ ہو گئی۔  گواہی کے لئے بلائے جانے والے بیشتر گواہوں نے مبینہ طور پر الزام لگا یا کہ ان کو ڈرا دھمکا کر وعدہ معاف گواہ بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح کے تحفظات کو لے کر حسین نواز دادرسی کے لئے سپریم کورٹ گئے۔  ان کے خیال میں جے آئی ٹی میں شامل دو ارکان کا رویہ جانب دارانہ ہو سکتا ہے۔ بلال رسول جن کی اہلیہ قاف لیگ کی سیٹ کی امیدوار تھیں اور اب وہ پی ٹی آئی کی سرگرم کارکن ہے اور عامر عزیز جنرل مشرف کے دور میں ان کے خلاف ہونے والے احتساب میں پیش پیش تھے۔ سپریم کورٹ نے ان اعتراضات کو یہ کہہ کرمسترد کردیا کہ اگر ہمیں کہیں لگا کہ جانب دارانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے تو ہم خود ہی اس جانبداری کا نوٹس لے لیں گے۔

اسی دوران دو ایسے واقعات ہو گئے جنہوں نے اس جے آئی ٹی کو اور مشکوک بنا دیا ایک واٹس اپ والی سٹوری کا منظر عام پر آنا۔ اس کے مطابق سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے ایس ای سی پی اور سٹیٹ بنک کے سربراہان کو واٹس اپ اور فیس ٹائم پر کال کر کے بلال رسول اور عامر عزیز کو نامزد کر نے کو کہا۔ سپریم کورٹ نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ یہ کال ہم نے ہی کروائی تھی۔ لیکن اس بات نے معاملہ کو مزید مشکوک کر دیا اگر آپ نے ان افراد کو ٹیم میں شامل کرنا تھا تو اس کے لئے اتنا خفیہ راستہ کیوں اختیار کیا گیا،یہ تو سپریم کورٹ کا قانونی حق تھا وہ کسی بھی ادارے کو کہہ دیتی کہ ہمیں فلاں لوگ تحقیقات کے لئے چاہئیںسوال صرف اتنا ہے کہ ان ہی دو لوگوں کو کیوں شامل کیا گیا جن پر نوازلیگ کو اعتراض ہو سکتا تھا۔ یہ معاملہ ابھی چل ہی رہا تھا کہ حسین نواز کی جوڈیشل کمیشن میں انتظار کرتے ہوئے بیٹھے ہوئے کی تصویر لیک کردی گئی۔ بہت سے لوگوں کی طرف سے شدید ردعمل آیا۔   تصویر لیک کرنے کا مقصد تو تذلیل تھا لیکن عوامی ہمدردی کی ایک بڑی لہر سامنے آئی۔ اپوزیشن کا خیال تھا کہ حکومت نے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے یہ تصویر خود لیک کی ہے۔ وہ تو بھلا ہو جے آئی  ٹی کا جسں نے اپنی رپورٹ میں تسلیم کر لیا کہ تصویر ان کے عملے میں سے کسی نے ریلیز کی۔ کس نے کی یہ نہیں معلوم ؟ اس کو اس کے ادارے میں واپس بھیج دیا گیا ہے۔ ادارہ کونسا ہے یہ بھی نہیں معلوم؟ تاحال کسی کو اس نامعلوم کا اتا پتا نہیں معلوم؟ یکے بعد دیگرے ایسے واقعات ہو رہے ہیں جن سے یہ معاملہ روز بروز مشکوک ہوتا جارہا ہے۔ جے آئی ٹی نے 120 صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی جس میں کچھ اداروں پر الزام لگایا گیا کہ وہ تعاون نہیں کر رہے اور میڈیا پر جے آئی ٹی کو بدنام کرنے کا الزام لگایا۔ 110 صفحات تو صرف میڈیا سے متعلق تھے جن کو دیکھ کر لگا کہ 40 دن جے آئی ٹی نے صرف میڈیا کو مانیٹر کیا ہے۔ ویسے سوال پیدا ہوتا ہے کہ 6 افراد نے اتنی ریسرچ کیسے کر لی؟ اداروں نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو مسترد کر دیا۔  اس رپورٹ سے جس تشویش طلب بات کا پتا لگتا ہے وہ یہ کہ جے آئی ٹی نہ صرف گواہوں کے فون ٹیپ کررہی ہے بلکہ ان کی نقل وحرکت پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس کی طرف سے اپنے سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے جواب میں اس بات کا الزام لگا یا گیا کہ جے آئی ٹی وزیراعظم ہاﺅس کے فون ٹیپ کر رہی ہے۔ لیکن عدالت نے اس الزام کی طرف توجہ دینا پسند نہ کیا بلکہ جے آئی ٹی کے اداروں پر لگائے گئے الزمات کو سنگین اور سنجیدہ قرار دے دیا۔ اور انکوائری کا حکم صادر کردیا۔

ابھی تک جے آئی ٹی کے سامنے وزیراعظم سمیت ان کا ساراخاندان پیش ہوچکا ہے۔ لیکن شک در شک کی بنا پر لوگوں کا اس سارے عمل سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے فیصلہ ہو چکا ہے یہ جے آئی ٹی صرف اتمام حجت ہے۔ لوگوں کا خیال غلط نہیں کیونکہ جب آپ گواہی کے لئے رحمان ملک جیسے پاکبازلوگوں کو بلائیں گئے جن کا اپنا نام پانامہ میں ہے تو اعتبار کیا رہ جائے گا؟ جب آپ خود قطر کے شہزادے کو آپشن دیں گئے کہ خود آ جائیں، ہم آ جاتے ہیں یا ویڈیو کال کے ذریعے بیان دے دیں او رجب قطری پرنس کہتا ہے کہ میں تصدیق کرتا ہوں اس خط کی اور آپ میرے پاس آ کر بیان لے لیں تو کیوں نہیں جا رہے؟ اگر حدیبیہ پیپرز کے لئے گواہوں کے بیانات لینے لندن جا سکتے ہیں تو قطر کیوں نہیں جایا جا سکتا؟ جیسے جیسے معاملات آگے جا رہے ہیں انصاف ملنے کی توقع ختم ہوتی جا رہی ہے۔ آپ احتساب کریں ضرور کریں۔ لیکن اس احتساب میں انصاف کا پہلو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔ اگر معاملات اسی طرح متنازع انداز میں آگے بڑھتے رہے تو عوام ضرور کہے گی کہ انصاف کا صرف نعرہ نہیں لگنا چاہیے انصاف ہوتا نظر آنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).