سانحہ احمد پور شرقیہ: انسانی غفلت یا قدرت کا لکھا؟


ہر حادثے، بم دھماکے خود کش حملے اور کسی بھی غلفت کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں اپنی پیچھے کئی طرح کے سوال چھوڑ جاتی ہےں کہ ایسا کیوں، کیسے ہوا؟ مہذب اور ترقی پسند ملک اور قومیں اس کیوں اور کیسے کا جواب تلاش کرتی ہیں تا کہ دوبارہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو یا کم سے کم اس میں کمی تو واقع ہو جائے لیکن ہم بحیثیت مجموعی کسی طرح کے بھی واقعے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کو ”اس کی قسمت“ یا قدرت کے کھاتے میں ڈال کر واقعات کی کھوج کی کوفت سے جان چھڑا لیتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں ٹریفک حادثات، خود کش دھماکے، بم دھماکے یا انسانی غفلت اور کوتاہی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں شاید دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہو تی ہیں۔ ہمارا ایک المیہ اور بھی ہے، ہم انسانی جان کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھتے ہمارئے ہاں ریاستی ادارئے خصوصاً پولیس کے شیر جوانوں کے پاس بھی ’انسان“ کو مارنے کے کئی طرح کے جواز ہیں حالانکہ قانون اور انصاف کا پہلا تقاضا ہی یہ ہے کہ انسانی جان کی حرمت اور اس کے تقدس کو مقدم رکھا جائے۔

اگر ہم ٹریفک حادثات کی وجوہات کا کھوج لگائیں تو اس میں سر فہرست یہ دیکھنے والی چیز ماہرین کی مطابق سڑکوں کے غلط ڈیزائن، گاڑیوں کی فٹنس سے اغماز برتنا، روڈ سیفٹی اور روڈ کارکردگی پر عدم توجہ یا ڈرائیور کی طویل ڈیوٹی کو قرار دیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی حد تک درست بھی ہے اسی کی وجہ سے ملک بھر میں سالانہ لاکھوں ٹریفک حادثات رونما ہوتے ہیں جن میں ہزاروں شہریوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں زخمی بھی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان حادثات کا باعث بننے والے عوامل کے تدارک کے لئے ہم کچھ نہیں کرتے۔ ایک تحقیق کے مطابق صرف غلط سمت میں گاڑی چلانے اور ٹریفک سنگنلز کی خلاف ورزی اور دوران ڈرائیونگ موبائل فون کے استعمال کے باعث ہونے والے حادثات سالانہ حادثات کا 30 فیصد ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں ایشیا میں پاکستان کا پہلا جبکہ دنیا میں 48 واں نمبر ہے دوسری جانب کراچی اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے، ان حادثات میں متعدد عوامل شامل ہیں، جن میں سڑک استعمال کرنے والے کی غلطی بھی شامل ہے۔

اب آتے ہیں احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر کے افسوس ناک حادثے کی طرف یہ حادثہ بھی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور یہاں ہونے والی لوٹ مار یا بہتے ہوئے پٹرول پر شہرویوں کا ٹوٹ پڑنا بھی کوئی نئی بات نہیں ہم جیسے اکثر ممالک (جہاں غربت بھوک افلاس اور ہجوم کی کیفت اور سائیکی پائی جاتی ہے) وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔

کوئی تین سال قبل گوجرانوالہ میں 14 اگست کے موقع پر” جی ٹی روڈ “ پر ” پیپسی “ کا ٹرک الٹ گیا ہمارئے نوجوانوں نے آو دیکھا نا تاؤ ” پیکٹس“ میں سے بوتلیں نکالیں۔ اور ” آزادی “ کا جشن منانے لگے۔ اور بوتل کے پانی سے ایک دوسرے کو نہلانے لگے۔ اور کچھ نے ” بوتلوں “ کے پیکٹس ساتھ لے جانے میں بھی ” شرم “ محسوس نہ کی۔ دنیا بھر میں گزشتہ دہائی کے دوران رو پذیر ہونے والے اس طرح کے واقعات کی تفصیلات کے مطابق۔ اس طرح کے واقعات میں عموماً عوام موقع سے فیول جمع کرنے کی کوشش کرتی ہے، جب کہ کسی بھی وجہ کے سبب آگ لگ جانے کے باعث اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ اسی طرح کا واقعہ گزشتہ برس 17نومبر، 2016 کو موزمبیق میں پیش آیا تھا جب 93 افراد آگ کی لپیٹ میں آکر ہلاک جب کہ سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ اسی طرح کے ایک واقعے میں افغانستان میں بھی 8 مئی 2016 کو کم از کم 73 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 16 ستمبر، 2015 کو جنوبی سوڈان میں بھی آئل ٹینکر الٹنے کے سبب جب عوام کی بڑی تعداد پیٹرول جمع کررہی تھی تو آگ لگ جانے کے باعث 203 افراد ہلاک، جب کہ 150زخمی ہوگئے تھے۔ 11جنوری، 2015 کو اسی علاقے میں جہاں حال ہی میں آئل ٹینکر کا حادثہ ہوا ہے غلط سمت سے آنے والے آئل ٹینکر سے کوچ کے ٹکراجانے کے سبب 62 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

12جولائی 2012 کو نائیجیریا میں آئل ٹینکر کے الٹنے اور پیٹرول جمع کرنے کے سبب حادثے میں 104 افراد ہلاک جب کہ 50 زخمی ہوئے تھے یہ حادثہ ملک کے شمالی حصے میں پیش آیا تھا۔ 2 جولائی، 2010 میں کانگو میں پیٹرول ٹینکر میں دھماکے کے سبب 292 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 9 اکتوبر 2009 میں نائیجیریا میں پیٹرول ٹینکر میں دھماکے کے باعث 70 سے 80 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔ اسی طرح 26 مارچ 2007 میں نایئجیریا میں ہی آئل ٹینکر کو حادثہ پیش آیا اور عوام نے موقع سے پیٹرول جمع کرنا شروع کردیا تھا اس موقع پر بھی آگ لگ جانے کے سبب 93 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب سے گزرنے والی قومی شاہراہ کا یہ سیکشن جہاں پٹرول کا ٹینکر ٹائر پھٹنے کی وجہ سے توازن خراب ہو جانے کی وجہ سے الٹا اس سیکشن پر پنجاب اور خیبر پختونخوا سے کراچی و بلوچستان آنے جانے والی بھاری ٹریفک چوبیس گھنٹے رواں رہتی ہے۔ رات کو یہ ٹریفک فل بیم ہیڈ لائٹس کے ساتھ چلتی ہے اور سامنے سے آنے والے کو کچھ نظر نہیں آتا۔ گنے کی کٹائی اور کرشنگ سیزن میں بہاولپور تا رحیم یار خان قومی شاہراہ کے ہر دسویں کلو میٹر پر قائم شوگر مل کے سبب ہائی وے پر تاحدِ نگاہ دورویہ ٹریکٹر ٹرالیوں کا راج ہوتا ہے اور ہر ٹرالی پر گنجائش سے کم ازکم تین گنا گنا لدا ہوتا ہے۔ ان ٹرالیوں کی نہ ہیڈ لائٹس کام کرتی ہیں نہ بیک لائٹس۔ لہٰذا گنے کے کرشنگ سیزن میں اس سیکشن پر اندھی ٹریکٹر ٹرالیوں کی چپیٹ میں جتنے راہگیر یا مسافر آتے ہیں ان کی مجموعی تعداد کم وبیش اتنی ہی بنتی ہے جتنی آج کے حادثے میں جھلسنے والوں کی ہے۔

ہمیں کرنا کیا چاہیے؟

کسی بھی حادثے کی صورت میں ہجوم بن کر کھڑئے نہیں ہونا چاہیے اس سے امدادی ٹیموں کو فوراً مدد پہنچانے کے حوالے سے مشکلات پیش آتی ہیں خصوصاً میڈیا کو لائیو کوریج سے گریز اور جائے حادثہ سے دور رہ کر کوریج کرنی چاہیے کیونکہ حادثے کے زخمیوں کو فوری ہسپتال پہنچانے کی راہ میں میڈیا کی گاڑیاں اور لوگ بھی حائل ہوتے ہیں یوں ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہمارئے ایک دوست اور سینئیر صحافی سلمان عابد کے مطابق پورے پنجاب کی آبادی کے لیے محض پنجاب کے ہسپتالوں میں موجود برن یونٹ میں بستروں کی تعداد صرف 57 بیڈ ہیں۔ بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں کوئی برن یونٹ نہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے سولہ اضلاع میں محض دس بستر، جبکہ میو ہسپتال میں گیارہ، نواز شریف ہسپتال میں دو جبکہ جناح ہسپتال میں بیس بستر ہیں اس صورت حال میں فوری بہتری لانے کی ضروت ہے تاکہ خدا نخواستہ آئندہ ایسے کسی حادثے کے بعد فروی امداد نہ پہنچنے کی وجہ سے انسانی جانوں کا نقصان کم سے کم ہو سکے اس کے ساتھ ہی محکمہ ٹرانسپورٹ، سڑکوں کی دیکھ بھال کرنے والے اور محکمہ صحت کے ساتھ پولیس کو اپنی ذمہ دارریوں کا احساس کرنا چاہیے کونکہ انسانی جان کو بچانے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ہو سکتی حکومت پر الزام تراشی یا برا بھلا کہنا بہت آسان ہے لکین ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ ہم خوداس ملک کو گندہ اور ڈسٹرب کرنے میں کتنے فعال ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).