انڈیا اور چین ٹکراؤ کے راستے پر



شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

انڈیا اور چین کے درمیان تعلقات ان دنوں شدید تلخیوں کا شکار ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً چار ہزار کلومیٹر لمبی سرحد کے کئی مقامات پر دیرینہ تنازع ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار جنگ بھی ہو چکی ہے۔
سرحدی تنازع حل تو نہیں ہوا لیکن دونوں ملکوں کی سرحد پر گذشتہ 50برس میں کبھی کوئی گمبھیر ٹکراؤ نہیں ہوا۔ لیکن اب یہ صورتحال بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔

گزشتہ مہینے بھوٹان کے ڈوکلام خطے میں بھارتی فوجیوں نے چینی فوجیوں کو سڑک تعیمر کرنے سے روکا۔ بھوٹان کا یہ علاقہ فوجی اعتبار سے بھارت کے لیے بہت اہم ہے۔ اس خطے پر چین اپنا دعویٰ کرتا ہے۔
چین نے ڈوکلام کے راستے تبت کے شہر لہاسہ اور بھارت کی سرحد پر ناتھو لا درے کو جوڑنے والی ایک سڑک بنا رکھی ہے۔
بیجنگ ڈوکلام کے راستے ریلوے لائن بھی بچھا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب بھارتی فوجیوں نے تبت کی علاقائی خود مختاری کے دفاع کے لیے چینی فوجیوں کو کام کرنے سے براہ راست روکا ہو۔

چین کا ردعمل توقع کے عین مطابق سخت تھا۔ چین کے فوجیوں نے سکم سکٹر میں بھارتی علاقے کے اندر داخل ہو کر فوج کے دو عارضی بنکر بلڈوزر سے تباہ کر دیے۔ یہی نہیں ناتھو لا درے سے کیلاش ناتھ کی سالانہ مذہبی یاترا پر جانے والے بھارتی زائرین کو بھی یاترا کی اجازت نہیں دی گئی۔ چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے کہا گیا کہ بھارت اپنی غلطی کو سمجھے اور اسے صحیح کرے۔
انڈیا نے بھی کسی نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا اور صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بری فوج کے سربراہ کو سکم کے سرحدی علاقوں کے دورے پر بھیج دیا۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ چین سے پانچ برس قبل ایک تحریری مفاہت ہوئی تھی جس کےتحت یہ طے پایا تھا کہ انڈیا، چین اور بھوٹان تینوں ملکوں کی سہ رخی باؤنڈری کا تعین تینوں ملکوں کی صلاح ومشورے سے کیا جائے گا۔
اس خطے میں تعمیری سرگرمیاں شروع کر کے چین نے اس مفاہمت کی خلاف ورزی کی ہے۔ انڈیا کے وزیر دفاع ارون جیٹلی نے کہا کہ چین سرحدوں کی موجودہ صورت حال کو یکطرفہ بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان یہ کشیدگی ایک عرصے سے رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے۔ گذشتہ اپریل میں انڈیا کی حکومت نے تبت کے جلاوطن روحانی رہنما دلائی لامہ کو سکم جانے کی کی اجازت دی تھی۔
وہ سکم کی حکومت کی دعوت پر وہاں گئے تھے۔ چین سکم کے بعض علاقوں پر دعوی کرتا ہے اور دلائی لامہ کوعلیحدکی پسند قرار دیتا ہے۔ بیجنگ نے دلائی لامہ کے دورے پر شدیر رد عمل ظاہر کیا تھا۔
حالیہ برسوں میں چین نے سرحدی علاقوں میں بہترین سڑکیں اور ریلوے لائنیں تعمیر کی ہیں۔ انڈیا نے بھی کچھ عرصے سے چین کی سرحد کے نزدیک سڑکیں بنانی شروع کی ہیں۔ چینی سرحد کی نگرانی اور کسی ٹکراؤ سے نمٹنے کے لیے گذشتہ تین برس میں خصوصی طور پر تقریبآ ڈیڑھ لاکھ اضافی فوجی بھرتی کیے گئے ہیں۔
انڈیا اور چین کے درمیان تلخی اس وقت سے شروع ہوئی جب چین نے نیو کلیئر سپلائی گروپ این ایس جی میں انڈیا کی شمولیت کی مخالفت کی۔ انڈیا پاکستان میں زیر تعیمرچین کے اقتصادی زون کی بھی مخالفت کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چین نے جو سڑک تعمیر کی وہ ایسے خطوں سے گزرتی ہے جن پر بھارت کا دعوی ہے۔

کچھ دنوں پہلے بری فوج کے سربراہ سے منسوب ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انڈین فوج ایک ساتھ ڈھائی محاذ کھولنے کے لیے تیار ہے۔ چین کے سلسلے میں انڈيا کے رویے میں اب وہ نرم روی نہیں دکھائی دیتی جو پانچ دس برس پہلے ہوا کرتی تھی۔ ایک طرف چین نے اپنے دعوؤں پر زور بڑھا دیا ہے تو دوسری جانب انڈیا کے رخ میں بھی سختی بڑھتی جا رہی ہے۔
انڈیا کے قوم پرست ٹی وی چینلز ریٹائرڈ جنرلوں کے ساتھے جنگی ہسٹیریا پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کئی سابقہ سفارتکاروں اور دانشوروں نے جارحانہ رویے اور جنگی ہسٹیریا کی نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے رویے سے برسوں کی محنت سے حاصل کیا گیا امن تباہ ہو جائے گا۔
آئندہ ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ جی ٹوئنٹی کی کانفرنس کے دوران ہیمبرگ میں ملاقات کریں گے۔
مودی ایک سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے ستمبر میں بیجنگ جانے والے ہیں۔ لیکن دونوں ملکوں نے جو موقف اختیار کیا ہے اس سے کشیدگی ختم ہونے کا فوری طور پر کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے اور آنے والے دنوں میں سرحدوں پر ٹکراؤ مزید پیچیدگی اختیار کر سکتا ہے۔

 

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp