خندہ اور فراموشی کی کتاب – میلان کنڈیرا


milan-kundera

فروری 1948 میں کمیونسٹ رہنما کلیمنٹ گوٹ والڈ، پراگ کے باروک طرز تعمیر کے ایک محل کی بالکنی پر نمودار ہوا تاکہ ان ہزاروں لاکھوں شہریوں سے خطاب کرے جو پرانے شہر کے چوک میں بھیڑ لگائے کھڑے تھے۔ یہ چیکوسلوواکیہ کی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ تھا—ان تقدیر ساز لمحوں میں سے ایک جو ہزاروں برس میں ایک آدھ بار ہی آتے ہیں۔

گوٹ والڈ کے دونوں جانب اس کے رفیق تھے، اور کلیمنٹس اس کے پہلو میں کھڑا ہوا تھا۔ برفیلی ہوا چل رہی تھی۔ موسم خنک تھا اور گوٹ والڈ برہنہ سر تھا۔ مستعد کلیمنٹس نے اپنی سموردار ٹوپی اتاری اور گوٹ والڈ کے سر پر رکھ دی۔

پارٹی کے پروپیگنڈا والے شعبے نے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایک تصویر شائع کی جس میں گوٹ والڈ، سر پر سموردار ٹوپی پہنے اور اپنے رفیقوں کو ساتھ لیے، ہجوم سے خطاب کر رہا ہے۔ اس بالکنی پر کمیونسٹ چیکوسلوواکیہ کی تاریخ نے جنم لیا۔ ملک کا بچہ بچہ اس تصویر کو پوسٹروں، درسی کتابوں اور عجائب گھروں میں دیکھ چکا ہے۔

چار سال بعد کلیمنٹس پر غداری کا الزام عائد ہوا اور اسے پھانسی دے دی گئی۔ پروپیگنڈا کے شعبے نے فوراً اسے تاریخ سے یکسر صاف کر دیا، اور ظاہر ہے کہ ان تمام تصویروں سے بھی۔ اس کے بعد سے گوٹ والڈ بالکنی پر اکیلا کھڑا ہے۔ جہاں کبھی کلیمنٹس تھا، وہاں محل کی خالی دیوار ہے۔ کلیمنٹس کا اب کچھ باقی رہا ہے تو وہ ہے گوٹ والڈ کے سر پر اس کی ٹوپی۔

یہ 1971 ہے اور مریک (Mirek) کہتا ہے کہ اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدوجہد فراموشی کے خلاف یادداشت کی جدوجہد ہے۔

اس کی یہ کوشش اس چیز کو حق بجانب ٹھہرانے کے لیے ہے جسے اس کے دوست بےاحتیاطی کہتے ہیں: اپنے روز و شب کی تفصیل ڈائری میں لکھنا، تمام خط و کتابت محفوظ رکھنا، ان جلسوں کی گفتگو لکھ لینا جہاں حالاتِ حاضرہ پر اور اس سوال پر بحث ہوتی ہے کہ اب اس کے بعد کیا کرنا چاہیے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے، وہ انھیں بتاتا ہے۔ چھپانے کی کوشش کرنا، احساسِ جرم کو جگہ دینا — یہ انجام کی ابتدا بن جاتے ہیں۔

klement gottwald – Feb 1948

ایک ہفتہ پہلے، ایک نئی عمارت کی چھت پر اپنے عملے کے ساتھ کام کرتے ہوے، اس نے نیچے جھانک کر دیکھا اور اچانک اسے چکر آنے لگے۔ اس کا توازن بگڑ گیا اور اس نے ایک شہتیر کی طرف ہاتھ بڑھایا جو پوری طرح جکڑا ہوا نہیں تھا؛ وہ شہتیراُکھڑ گیا اور بعد میں اسے شہتیر کے نیچے سے گھسیٹ کر نکالا گیا۔ پہلے پہل چوٹ خطرناک معلوم ہو رہی تھی لیکن بعد میں جب اسے معلوم ہوا کہ یہ وہی روزمرہ کا عام سا ٹوٹا ہوا بازو ہے، تو اس نے بہت اطمینان کے ساتھ اپنے آپ سے کہا کہ اب ہفتے ڈیڑھ کی چھٹی مل جائے گی جس میں وہ چند ایسے معاملات نبٹا سکتا ہے جن کو پورا کرنے کا ارادہ وہ بہت دنوں سے کر رہا تھا۔

آخرکار وہ اپنے محتاط دوستوں کی روش پر آ ہی گیا۔ یہ سچ ہے کہ آئین نے آزادیِ تقریر دے رکھی تھی، مگر قانون کے مطابق ہر وہ عمل قابلِ سزا تھا جسے ملک دشمن قرار دیا جا سکے۔ اب بھلا یہ کون بتا سکتا ہے کہ ملک کب یہ چیخنا، شور مچانا شروع کر دے کہ فلاں فلاں لفظ میرے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں؟ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان موردِ الزام ٹھہرانے والے کاغذات کو کسی محفوظ جگہ منتقل کر دے تو بہتر ہے۔

لیکن سب سے پہلے وہ زدینا والا مسئلہ طے کر لینا چاہتا تھا۔ اس نے زدینا کو طویل مسافت سے ٹیلیفون کرنا چاہا، مگر بات نہ ہو سکی۔ چار دن اس سے بات کرنے کی کوشش میں ضائع ہو گئے۔ کل جا کر وہ اس سے بات کرنے میں کامیاب ہوا۔ زدینا نے وعدہ کیا کہ وہ آج کی دوپہر اس کا انتظار کرے گی۔

اس کے سترہ سالہ بیٹے نے احتجاج کیا کہ بازو پر پلاسٹر چڑھائے ہوے وہ ہرگز گاڑی نہیں چلا سکتا۔ یہ واقعی مشکل کام تھا۔ اس کا زخمی بازو، پٹی میں بندھا ہوا، اس کے سینے پر بیکار جھول رہا تھا۔ جب بھی وہ گیئر بدلتا، چند سیکنڈ کے لیے اسے اسٹیئرنگ ویل چھوڑدینا پڑتا۔

پچیس سال بیت گئے جب زدینا کے ساتھ اس کا معاملہ چلا تھا، اور اب اس کی نشانی کے طور پر محض چند یادیں رہ گئی تھیں۔

Vladimira Clementisa

ایک دفعہ وہ آئی تو رومال سے اپنی آنکھیں رگڑتی ہوئی اور ناک پونچھتی ہوئی۔ اس نے پوچھا کہ کیا ہو گیا۔ ایک دن پہلے روس کا کوئی بڑا سیاست دان مر گیا، زدینا نے اسے بتایا — کوئی زدانوف آربوزوف یا مشت زنوف۔ اگر آنسوؤں کے قطروں کی تعداد سے حساب لگایا جائے تو وہ مشت زنوف کی موت پر زیادہ دل گرفتہ ہوئی تھی اور اپنے باپ کی موت پر کم۔

کیا یہ سب کچھ واقعی ہوا تھا؟ یا مشت زنوف کے لیے زدینا کی نوحہ گری محض اس کی موجودہ نفرت کا شاخسانہ تھی؟ نہیں، یہ سب واقعی پیش آیا تھا، گو کہ یہ ظاہر ہے کہ اس لمحے کے فوری حالات جو اس واقعے کو قابل ِاعتبار اور حقیقی بنا رہے تھے، اب غائب ہو چکے تھے اور اس کی یاد غیرمعقول اور مضحکہ خیز بن گئی تھی۔

اس کی ساری یادیں ایسی ہی تھیں۔ وہ دونوں ٹرام میں بیٹھ کر اس فلیٹ سے واپس آ رہے تھے جہاں پہلی بار انھوں نے مباشرت کی تھی۔ (مریک کو اس امر سے خاصی تسکین ہوئی کہ وہ ان تمام مباشرتوں کو بالکل فراموش کر چکا تھا، ان میں سے کسی ایک مباشرت کا لمحہ بھر بھی یاد نہیں کر سکتا تھا۔) کنارے کی سیٹ پر بیٹھے ہوے اور دھچکوں کے ساتھ اچھلتے ہوے وہ بہت افسردہ، پریشان اور حیرت انگیز حد تک عمررسیدہ نظر آرہی تھی۔ جب مریک نے پوچھا کہ تم اتنی چپ چاپ کیوں ہو، تو اس نے جواب دیا کہ وہ اس جسمانی تعلق سے مطمئن نہیں ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ تم دانشوروں کی طرح مباشرت کرتے ہو۔

اُس زمانے کے سیاسی محاورے میں ’دانشور‘ کا لفظ گالی سے کم نہیں تھا۔ اس کا مطلب تھا وہ شخص جو زندگی کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے اور عام لوگوں سے کٹا ہوا ہے۔ اس زمانے میں جن کمیونسٹوں کو ان کے ساتھی کمیونسٹوں نے تختۂ دار پر چڑھایا، وہ یہی گالی اپنے سر لے کر مرے۔ ان لوگوں کے برخلاف جن کے پاؤں مضبوطی کے ساتھ زمین پر جمے ہوے تھے، یہ لوگ، قیاس کے مطابق، ہواؤں میں اڑتے رہے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل جائز تھی کہ ان کے پیروں کے نیچے سے زمین آخری اور قطعی بار کھینچ لی جائے اور انھیں زمین سے چند گز اوپر لٹکنے دیا جائے۔

لیکن زدینا کا کیا مطلب تھا جب اس نے یہ الزام لگایا کہ وہ دانشوروں کی طرح مباشرت کرتا ہے؟

کسی نہ کسی وجہ سے وہ اس سے مطمئن نہیں ہوئی تھی، اور جس طرح وہ کسی تجریدی یا تخئیلی رشتے کو (جیسے مشت زنوف نام کے ایک اجنبی سے اپنے تعلق کو) جذبے اوراحساس کی ٹھوس جسمانی شکل (یعنی آنسوؤں) سے ظاہر کر سکتی تھی، اسی طرح وہ سب سے زیادہ جسمانی عمل کو ایک تجریدی معنی اور اپنے عدم اطمینان کو ایک سیاسی نام دے سکتی تھی۔

گاڑی کے پچھلے شیشے میں جھانکتے ہوے اسے احساس ہوا کہ ایک اور گاڑی شروع سے اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ اسے کبھی بھی اس بات پر شک نہیں تھا کہ اس کا پیچھا کیا جاتا رہا ہے، مگر اب تک انھوں نے استادانہ احتیاط کے ساتھ کام کیا تھا۔ تاہم آج ایک انقلابی تبدیلی آ گئی تھی — وہ چاہتے تھے کہ اسے ان کے بارے میں معلوم ہو جائے۔

پراگ سے کوئی پندرہ میل دور کھیتوں کے درمیان ایک اونچی سی باڑھ تھی، جس کے پیچھے گاڑیوں کی مرمت کی دکان تھی۔ وہاں اس کا ایک دوست ہوا کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ گاڑی اسٹارٹ ہونے میں جو گڑبڑ کرتی ہے، اس کا پرزہ بدلوا لے۔ اس نے دکان کے دروازے پر گاڑی روک دی۔ وہاں سرخ و سفید دھاریوں والا پھاٹک تھا۔ ایک بھاری بھرکم عورت وہاں کھڑی اسے گھورتی رہی۔ اس نے گاڑی کا ہارن بجایا، لیکن اُدھر سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے کھڑکی سے جھانکا۔

’’ابھی تک سلاخوں کے پیچھے نہیں پہنچے؟‘‘ عورت نے اس سے پوچھا۔

’’نہیں، ابھی تک نہیں،‘‘ مریک نے جواب دیا۔ ’’پھاٹک کھولنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘

وہ سپاٹ چہرہ لیے، چند ثانیوں تک اسے تکتی رہی، پھر جماہی لی اور پھاٹک کے قریب بنی ہوئی کوٹھری میں جا کر کرسی پر دھر کے بیٹھ گئی اور اس کی جانب پیٹھ کر لی۔

چنانچہ وہ گاڑی سے اترا، پھاٹک کے گرد چکر کاٹتا ہوا اپنے مستری دوست کی تلاش میں اندر چلا گیا۔ مستری کو ساتھ لے کر وہ باہر نکلا۔ اس نے خود پھاٹک کھولا (عورت ابھی تک کوٹھری میں بےحس و حرکت بیٹھی ہوئی تھی)، اور مریک گاڑی چلاتا ہوا اندر لے گیا۔

’’یہ انعام ملتا ہے تمھیں ٹیلی وژن پر آ کر ڈینگیں مارنے کا،‘‘ مستری نے کہا۔ ’’اس ملک کا ہر احمق تمھاری شکل پہچانتا ہے۔‘‘

’’یہ عورت کون ہے؟‘‘ مریک نے پوچھا۔

اسے پتا چلا کہ جب روسی فوجوں نے چیکوسلوواکیہ پر یلغار کی، جس کے نتائج ہر مقام پر واضح تھے، تو اس عورت کی زندگی بھی بدل کر رہ گئی۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ جو لوگ اس سے اونچے عہدوں پر ہیں (اور ہر شخص اس سے زیادہ اونچے عہدے پر تھا) ان کے عہدے، اختیارات، مرتبہ، ملازمت اور یہاں تک کہ دو وقت کی روٹی بھی ذرا سے الزام سے چھن جاتی ہے، تو وہ جوش میں آ گئی اور لوگوں کی مخبری کرنے لگی۔

’’تو اب تک یہ پھاٹک پر کیوں کام کر رہی ہے؟ انھوں نے اب تک اس کو ترقی بھی نہیں دی؟‘‘

مستری مسکرانے لگا۔ ’’دے بھی نہیں سکتے۔ اسے پانچ تک گنتی نہیں آتی۔ وہ یہی کر سکتے ہیں کہ اسے مخبری کا کام کرتے رہنے دیں۔ اس کا بس یہی انعام ہے۔‘‘ اس نے انجن کا ڈھکنا کھولا اور اس کے اندر جھانکنے لگا۔

مریک کو اچانک احساس ہوا کہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر کوئی شخص کھڑا ہوا ہے۔ اس نے مڑ کر دیکھا کہ ایک آدمی سرمئی جیکٹ، سفید قمیص اور ٹائی، اور بھوری پتلون پہنے ہوے کھڑا ہے۔ اس کی موٹی گردن اور پھولے ہوے چہرے کے اوپر مصنوعی طریقے سے سفید کیے ہوے بالوں کا گچھا پڑا ہوا تھا۔ وہ وہاں کھڑا ہوا مستری کو گاڑی کے کھلے ہوے انجن میں منھ ڈالے ہوے دیکھتا رہا۔

ذرا دیر بعد مستری نے بھی اسے دیکھ لیا۔ ’’کسی کی تلاش میں ہو؟‘‘ اس نے سیدھے ہو کر اس آدمی سے پوچھا۔

’’نہیں،‘‘ فربہ گردن اور گچھے دار بالوں والے آدمی نے جواب دیا۔ ’’میں کسی کی تلاش میں نہیں ہوں۔‘‘

مستری نے دوبارہ اپنا منھ انجن میں ڈال دیا اور بولا، ’’پراگ کے بیچوں بیچ وینسسلوس چوک میں ایک آدمی کھڑے کھڑے قے کر رہا تھا۔ ایک اور آدمی آیا، اس کی طرف دیکھا، سر ہلایا اور بولا: مجھے تمھارے جذبات کا پوری طرح احساس ہے۔‘‘

بنگلہ دیش کے خونیں واقعات نے بہت تیزی کے ساتھ چیکوسلوواکیہ پر روسی حملے کی یاد کو دبا دیا، آیندے کے قتل نے بنگلہ دیش کی سسکیوں کا گلا دبا دیا، صحراے سینائی کی جنگ نے لوگوں کے ذہن سے آیندے کو فراموش کروا دیا، کمبوڈیا کے قتل عام نے صحراے سینائی کو لوگوں کے ذہن سے بھلا دیا، اسی طرح اور آگے… یہاں تک کہ آخرکار ہر شخص ہر چیز کو فراموش ہو جانے دیتا ہے۔

اس زمانے میں جب تاریخ دھیرے دھیرے حرکت کرتی تھی، واقعات بھی کم تھے اور ان کی درمیانی مدت بھی زیادہ تھی اور وہ آسانی کے ساتھ ذہن نشین ہو جاتے تھے۔ یہ عام طور پر تسلیم کیا ہوا ایک پس منظر تھے جس کے سامنے ذاتی زندگیوں کے دلچسپ واقعے اور کارنامے پیش آتے تھے۔ اب تاریخ سرعت کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ کوئی بھی تاریخی واقعہ، چاہے اسے جلد ہی بھلا دیا جانا ہو، اگلی ہی صبح جدت کی شبنم سے دھلا ہوا اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ پس منظر کے بجاے وہ خود اب واقعہ ہے، ایسا واقعہ جو زندگی کی مسلمہ پیش پا افتادگی کے سامنے کھیلا جاتا ہے۔

چونکہ ہم یہ تصور نہیں کر سکتے کہ کوئی بھی تاریخی واقعہ، چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، معلومات عامہ کا حصہ ہو گا، لہٰذا مجھے ان واقعات کو جو چند سال پہلے پیش آئے تھے، اس طرح بیان کرنا پڑ رہا ہے جیسے وہ ہزاروں سال پرانے ہوں۔ 1939 میں جرمن فوجیں بوہیمیا میں داخل ہو گئیں اور چیک ریاست کا وجود ختم ہو گیا۔ 1945 میں روسی فوجیں بوہیمیا میں داخل ہو گئیں اور ملک کو ایک بار پھر ایک آزاد جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔ لوگوں نے روس کے لیے بڑی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا، کہ اس نے ان کے ملک سے جرمنوں کو نکال باہر کیا تھا، اور چونکہ وہ چیک کمیونسٹ پارٹی کو اس کا وفادار نمائندہ سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنی ہمدردریاں اس کی جانب منتقل کر دیں۔ سو یہ ہوا کہ فروری 1948 میں کمیونسٹوں نے اقتدار سنبھال لیا، خون خرابے اور تشدد سے نہیں بلکہ نصف سے زیادہ آبادی کے پُرجوش نعروں کے درمیان۔ اور مہربانی فرما کر یاد رکھیے کہ یہ نصف زیادہ متحرک، زیادہ ذہین تھا، بہتر نصف تھا۔

جی ہاں، جو جی چاہے کہیے، کمیونسٹ زیادہ ذہین تھے۔ ان کے پاس پُرشکوہ منصوبہ تھا — ایک نئی دنیا کا نقشہ جس میں ہر شخص کو اس کا مقام مل جائے گا۔ کمیونسٹوں کے مخالفین کے پاس ایسا کوئی خواب نہیں تھا۔ ان کے پاس چند ایک اخلاقی اصول تھے، باسی اور بےجان، کہ جن سے موجودہ نظام کی پھٹی پرانی پتلون میں پیوند لگا سکیں۔ سو ظاہر ہے کہ شان و شکوہ کے پرجوش حامی محتاط مفاہمت پسندوں سے جیت گئے اور وقت ضائع کیے بغیر اپنے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں جٹ گئے کہ سب لوگوں کے لیے انصاف کا خواب ناک گیت تخلیق کیا جائے۔

میں اپنی بات پھر دُہرا دوں — خواب ناک گیت، سب کے لیے۔ لوگوں نے ہمیشہ اس کی تمنا کی ہے، ایسا باغ جہاں بلبلیں گاتی رہیں، اتفاق و ہم آہنگی کا مسکن، جہاں دنیا اجنبی بن کر آدمی کو دہلاتی نہیں، نہ ایک آدمی دوسرے آدمیوں کے خلاف اٹھتا ہے، جہاں ہر شخص موسیقار باخ کے عالیشان کثیرالصوت نغمے کا سُر ہے؛ اور جو کوئی اپنا سُر اس راگ میں شامل کرنے سے انکار کرتا ہے محض ایک سیاہ دھبا ہے، بےمصرف اور معنی سے عاری، جسے آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے اور کچلا جا سکتا ہے، جیسے دو انگلیوں کے درمیان کیڑا۔

ابتدا ہی سے ایسے لوگ تھے جنھیں احساس تھا کہ وہ اس خواب ناک گیت کا مزاج نہیں رکھتے، اور وہ اس ملک کو چھوڑجانا چاہتے تھے۔ لیکن چونکہ یہ خواب ناک گیت، اپنی تعریف کے مطابق، تمام لوگوں کے لیے ایک نئی دنیا ہے، لہٰذا جو لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے تھے وہ اشارتاً اس کی مکمل باضابطگی سے منکر ہو رہے تھے۔ اس لیے پردیس جانے کے بجاے وہ قیدخانوں میں چلے گئے۔ جلد ہی ان کی تعداد میں سیکڑوں، ہزاروں لوگ اور شامل ہو گئے، جن میں کچھ کمیونسٹ بھی تھے، جیسے وزیر خارجہ کلیمنٹس، جس نے گوٹ والڈ کو اپنی ٹوپی پہنائی تھی۔ شرمائے ہوے عشاق پردۂ سیمیں پر ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے رہے، ازدواجی بےوفائی پر شہریوں کی عدالت سے سخت سزائیں سنائی جاتی رہیں، بلبلیں گیت گاتی رہیں اور کلیمنٹس کا جسم آگے پیچھے ڈولتا رہا، جیسے بنی نوع انسان کے لیے ایک نئے سویرے کی آمد کی اطلاع دینے والی گھنٹی۔

اور اچانک ان نوجوان، ذہین بنیادپرستوں کو ایک عجیب سا احساس ہوا کہ انھوں نے دنیا میں ایک نئی چیز بھیج دی ہے، ایک عمل جس کے سرانجام دینے والے وہ ہیں اور جس نے اب اپنی ایک زندگی حاصل کر لی ہے، جو اپنے ابتدائی تصور سے تمام مشابہت گم کر چکا ہے اور اس خیال کے موعدین کو یکسر نظرانداز کر چکا ہے۔ لہٰذا ان نوجوان، ذہین بنیادپرستوں نے اس عمل کو پکارنا شروع کیا، اسے واپس بلانے لگے، اس کو ڈانٹا، اس کا پیچھا کیا۔ اگر میں ان باصلاحیت بنیادپرستوں کی اس نسل کے بارے میں کبھی کوئی ناول لکھوں گا تو اس کا نام رکھوں گا ’’گم شدہ عمل کے تعاقب میں‘‘۔

تاریخی واقعات عموماً ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں، اور وہ بھی بھونڈےپن کے ساتھ؛ مگر چیکوسلوواکیہ میں، جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں، تاریخ نے ایک ایسا تجربہ کیا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس عام طریقۂ کار کے برخلاف کہ لوگوں کا ایک گروہ (ایک طبقہ، ایک قوم) دوسرے گروہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، تمام لوگ (ایک پوری نسل) اپنے ہی شباب کے خلاف بغاوت کر بیٹھے۔

ان کا مقصد یہ تھا کہ اس عمل کو دوبارہ پکڑ لیں اور سدھا لیں جس کی تخلیق انھوں نے کی تھی، اور وہ بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو گئے۔ 1960 کی پوری دہائی میں ان کا اثرورسوخ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ 1968 میں یہ تقریباً ہر چیز پر حاوی تھا۔ یہ وہ دور ہے جسے عرف عام میں ’پراگ کا موسمِ بہار‘ کہا جاتا ہے: خواب ناک گیت کی نگرانی کرنے والے لوگ ذاتی مکانوں میں چھپے ہوے مائیکروفون ہٹانے لگے، سرحدیں کھول دی گئیں اور مختلف سُر باخ کے عالیشان کثیرالصوت نغمے کا متعین نقشہ چھوڑ کر اپنے اپنے گیت گانے لگے۔ یہ جوش و جذبہ ناقابل ِیقین تھا! میلے کا سماں تھا!

روس، جو سارے عالم کے لیے اس کثیرالصوت نغمے کا موسیقار ہے، اس خیال کو برداشت نہ کر سکا کہ سُر اپنی اپنی راگنیاں الاپنے لگیں۔ 21 اگست 1968 کو اس نے پانچ لاکھ پر مشتمل فوج بوہیمیا کے علاقے میں اتار دی۔ اس کے فوراً ہی بعد، تقریباً بارہ لاکھ لوگ اپنے ملک کو چھوڑ گئے، اور جو باقی رہ گئے ان میں سے پچاس لاکھ کو اپنی نوکریاں چھوڑ کر مشقت کرنے کے لیے جانا پڑا، دیہاتوں میں، دوردراز کارخانوں کی کنویئربیلٹ پر، یا ٹرک کے اسٹیئرنگ ویل پر— دوسرے الفاظ میں ایسی جگہوں اور ایسی نوکریوں پر جہاں کوئی ان کی آواز نہ سن سکے۔

اور اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ کسی تلخ یاد کا سایہ بھی اس تجدیدشدہ نغمۂ خواب ناک پر نہ پڑے، ’پراگ کے موسم بہار‘ اور روسی ٹینکوں کی آمد کو مٹا دینا ضروری تھا۔ لہٰذا چیکوسلوواکیہ میں کوئی شخص بھی 21 اگست کی یاد نہیں مناتا، اور جو لوگ اپنے ہی شباب کے خلاف بغاوت کرنے اٹھ کھڑے ہوے تھے، ان کے نام قوم کی یادداشت سے اس طرح مٹا دیے گئے ہیں جیسے بچہ اسکول کے کام میں ہو جانے والی غلطی کو مٹا دیتا ہے۔

مریک ان ناموں میں سے ایک تھا جنھیں مٹا دیا گیا۔ وہ مریک جو اس وقت زدینا کے دروازے تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں چڑھ رہا ہے، اس وقت محض ایک سفید دھبا ہے، بمشکل نظر آنے والے خلا کا ایک حصہ جو گول زینے پر چڑھتا ہوا آرہا ہے۔

(انگریزی سے ترجمہ:آصف فرخی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).