اپنا ہی پوسٹ مارٹم


خاتون کہنے لگیں کہ ”ہمیں اپنے ڈراموں میں اسلامی تعلیمات کا پرچار کرنا چاہیے، ایسے ہی جیسے انڈیا والے اپنے ڈراموں میں ہندو مت کی رسومات دکھاتے ہیں۔“ انھوں نے اسلام کی خوبیاں بیان کرتے جوش کے عالم میں کہا، کہ ”اس بات کو نمایاں کیجیے کہ اسلام عورت کو اپنی مرضی سے شادی کی اجازت دیتا ہے۔“ میں ان سے متفق ہوا۔ کہانی سناتے میں اس موڑ پہ آیا، جب ایک کردار کی بیوی کو پتا چلتا ہے اس کے شوہر نے اس سے چھپ کے دوسری شادی کر رکھی ہے، ”جب اس کا شوہر دوسری شادی کر لیتا ہے تو ہم یہ سوال اٹھائیں گے، کہ اسلام میں مرد کو دوسری شادی کی اجازت ہے، تو پہلی بیوی کیوں کر معترض ہے۔“ خاتون کی تیوری چڑھ گئی، ”کیوں؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔“ محترمہ ایک پروڈکشن ہاوس میں کانٹینٹ ہیڈ ہیں۔ ان کا دوش نہیں، بہت سے لوگوں کا اسلام میں نے اتنا ہی دیکھا ہے، جتنا وہ اپنی زندگی میں اس کو سمو سکے ہیں۔ خواتین کی تسلی کے لیے کہ دیتے ہیں، مردوں کا اسلام بھی چار شادیوں تک ہے۔

ہمارے ٹیلے ویژن ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے، کہ مرد ظالم ہے اور عورت مظلوم۔ یہ لگا بندھا پیٹرن ہے۔ جب جب کوئی آیڈیا سوچا جائے، دائرہ یہی رہے گا۔ اس دائرے سے باہر نکل کے کچھ پیش کیا جائے تو اس کو ہاتھوں ہاتھ نہیں لیا جاتا۔ 2004ء میں ایک ٹیلے ویژن چینل نے یہ رِیت ڈالی۔ اس ٹیلے ویژن چینل کے لیے شوبز کے لوگ یہ کہا کرتے تھے، کہ ”یہ وہ چینل ہے جہاں عورت، عورت کو ننگا کر رہی ہے۔“ شادی کے بعد پرانے عاشق سے ربط، چھوٹی اسکرین پہ اس طرز کی کہانیوں کی بنیاد اسی چینل نے ڈالی۔ طرز چاہے جتنی اچھی ہو، کوئی سی بھی ہو، بار بار سن کے بوریت ہونے لگتی ہے۔ دیکھا دیکھی سب نے ویسی کہانیاں شوٹ کرنا شروع کر دیں۔ اب ہمارے ٹیلے ویژن ڈراموں میں اتنی یک سانیت آ گئی ہے، کہ لگتا ہے ایک ہی ڈراما بار بار دکھایا جا رہا ہے۔

ہماری ٹیلی ویژن انڈسٹری میں لکھنے والے کو سب سے فضول شخص گردانا جاتا ہے۔ ارد گرد سے آوازیں آتی ہیں، کہ ”کانٹینٹ“ کی کمی ہے۔ پوچھا جائے کہ ”رایٹر کو کیا مقام دیتے ہو؟“ طریقہ کار یہ ہے کہ مصنف کہانی کا خلاصہ بھیجتا ہے، پروڈکشن ہاوس کا کانٹینٹ ڈپارٹ منٹ چھانٹی کرتا ہے، چینل کو بھیج دیا جاتا ہے۔ چینل کا کانٹینٹ ڈپارٹ منٹ اس میں سے انتخاب کرتا ہے۔ پروڈکشن ہاوس سے کہا جاتا ہے کہ اس کہانی کی دو اقساط لکھوا کے بھیجی جائیں، انھیں دیکھ کے فیصلہ ہوگا۔ پروڈکشن ہاوس مصنف سے کہتا ہے دو اقساط لکھ بھیجے۔ وہ ایسا کرتا ہے، چینل کو دو اقساط بھیجی جاتی ہیں۔ اگر چینل اس کی منظوری دے دے تو پروڈکشن ہاوس مصنف کو بلا کے معاہدہ کرتا ہے۔ اگر چینل ان دو اقساط کو مسترد کر دے تو مصنف کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ (اس پروسیس میں کہانی کو چرا لیا جانا، یعنی اسی آیڈیے کو اپنے من پسند مصنف سے لکھوا لیا جانا معمولی بات ہے) میرا کہنا یہ ہے کہ مصنف نے جو دو اقساط لکھ کے بھیجی ہیں، ان اقساط کا معاوضہ ادا کیا جائے، چاہے قبول ہوا ہے یا مسترد۔ ہو سکتا ہے آپ اس کو پبلشر اور مصنف کے تعلق سے جوڑ کے دیکھیں، کہ جو کتاب شائع ہی نہیں ہوئی اس کا معاوضہ کیوں دیا جائے، لیکن پہلے یہ داستان سن لیجیے۔ ایک ٹیلے ویژن سیریز کی دو اقساط رکارڈ کی جاتی ہیں۔ (اس کو ”پایلٹ پروگرام“ کہتے ہیں) یہ دو اقساط چینل رجیکٹ کر دیتا ہے، تو کیا ایسا ہے کہ کوئی اداکار، کیمرا مین، ہدایت کار، ٹیکنیشن اور دیگر، پایلٹ پروگرام میں کام کرنے کا معاوضہ نہیں لیتا؟ سب کو معاوضہ دیا جاتا ہے، تو ایسے میں ایک مصنف ہی ”یتیم“ ہے کہ اس کو معاوضہ نہ دیا جائے؟ سمجھنے والے سمجھتے ہوں گے کہ مصنف کا خرچ ہی کیا اٹھا، ایک دو بال پین اور چند صفحات ہی تو ضائع ہوئے ہیں۔

ذکر اس بات کا تھا، کہ ہمارے ٹیلی ویژن ڈراموں کو دیکھا جائے تو عورت کی مظلومیت کی ایک ہی وجہ ہے، اور وہ وجہ ہے، مرد۔ مرد وہ ظالم ہے جس نے عورت سے اس کی آزادی چھین لی ہے۔ کبھی کبھار تو شک پڑتا ہے، کہ غیر ملکی ڈونرز نے ”حقوق نسواں“ کے لیے کام کرنے والی این جی او کے بجائے اب ٹیلے ویژن چینلوں پر سرمایہ کاری شروع کر دی ہے۔ کبھی خواب تھا کہ ”سب رنگ“ کے لیے لکھا جائے، احوال یہ ہے کہ ”شعاع“، ”دوشیزہ“، ”پاکیزہ“، ”خواتین ڈایجسٹ“ کے لیے لکھا جا رہا ہے۔ کیوں‌ کہ اسی معیار کا ”کانٹینٹ“ بکتا ہے۔ جو ڈراما ہٹ ہو جائے سب اس کی نقل مانگتے ہیں۔ کل کی بات ہے ترکی کے ڈرامے ”عشق ممنوع“ نے دھوم مچا دی تھی۔ کہا جانے لگا کہ ”بس اس طرح کا ڈراما لکھ بھیجیں۔“ ترکی والے ایسا ڈراما کیسے بناتے ہیں، ہمیں کیا معلوم، لیکن ہمیں یہ پتا ہے یہاں ایک دن میں سترہ اٹھارہ مناظر رکارڈ کرنے والے کو ہدایت کار کہا جاتا ہے۔ ایسے ہدایت کار گھر پہ تو کیا، سیٹ پر جا کے بھی اسکرپٹ نہیں پڑھتے؛ خدا جانتا ہے کہ یہ زیب داستان نہیں ہے۔ اچھا ایک اور قصہ سنیے، ایک بار ایک کانٹینٹ مینیجر نے کال کی، کہ ”کوئی منفرد خیال لکھ بھیجیے۔“ میں نے استفسار کیا، ”آپ کو اس طرح کے منظر تو نہیں چاہیے ہوں گے، جیسا کہ ساس، بہو کی ہانڈی میں مرچیں بڑھا کے اس کو ذلیل کرتی ہے؟“ کہا گیا، ”یہ تو چاہیے ہوگا۔“ میں نے پوچھا، ”تو منفرد کیا ہوا؟“ انھوں نے جل کے کہا کہ ”آپ لکھنا ہی نہیں چاہتے، بہانے کرتے ہیں۔ یہ بتائیے اس سال آپ کے کتنے ڈرامے آن ایر ہوئے ہیں؟ ایک بھی نہیں ناں؟ اسی لیے۔۔“

ایک مصنف دوست جو بہت اچھا لکھتے ہیں، نیز نام ور ہیں، ایک دن ان سے بات ہو رہی تھی۔ پوچھا ”کام کی کہو؟“ فرمانے لگے کہ ”اب تو وہی کچھ لکھ لکھ کے ابکائی آنے لگی ہے، جو کئی بار لکھ چکا؛ لیکن کیا کروں ڈراما ہٹ جا رہا ہے اور قسطیں بڑھانے کا فرمان ہے۔“

بہت سے اداکار کہتے ہیں، کہ میں فلاں ڈرامے میں کام کر رہا ہوں، میں شرارت کے موڈ میں ہوں تو سوال کرتا ہوں، اس ڈرامے کا مصنف کون ہے؟ شرارت اس لیے بھی کہ مجھے اس کا جواب معلوم ہوتا ہے، تو پوچھنے کا مطلب اداکار کی جزبز صورت دیکھنا ہوتا ہے۔ جواب یہ ہوتا ہے، ”پتا نہیں؛ میں نے اسکرپٹ پڑھا تھا، بہت اچھا تھا۔“

آپ کہیں گے، میں یہ سب آپ کو کیوں سنا رہا ہوں! مدعا یہ ہے کہ آج کل کچھ بھی نہیں لکھا جا رہا۔ مرغی انڈا نہ دے تو کہا جاتا ہے، ”کڑک“ ہو گئی ہے؛ ایسے میں مرغی پنجے جھاڑ کے حملہ کرتی ہے۔ ”کڑک“ کی اردو کیا ہے، مجھے نہیں معلوم۔ انگریزی میں اس کیفیت کو ”رایٹر بلاک“ کہ کر سمجھایا جا سکتا ہے۔ ”رایٹر بلاک“ ہو تو دوسروں پر ”کڑ کڑ“ کیا جاتا ہے، ایک تو یہ کر رہا ہوں، دوسرا یہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ اپنا ہی پوسٹ مارٹم کیا جائے؛ ممکن ہے پوسٹ مارٹم کے دوران کہیں سے کھویا ہوا قلم ہاتھ لگ جائے۔

میر کہتے ہیں:

سدھ لے گھر کی بھی شعلہ آواز
دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے

 

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran