کشمیر کو اب صرف کشمیریوں کے ہی حوالے کر دیا جائے!


صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا۔ کون۔ صلاح الدین ایوبی؟ نہیں بھئی۔ اپنے سید صلاح الدین کو۔ حزب والے پیر صاحب! اچھا اچھا۔ کس جاہل نے؟ ٹرمپ نے۔ کون ٹرمپ؟ ڈونلڈ ٹرمپ۔ امریکہ کا صدر۔ اچھا اچھا! کرنے دو۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ کون گھاس ڈالتا ہے امریکہ کویا ٹرمپ کو۔ شمالی کوریا، ایران، شام اور روس اب اسے آنکھیں دکھاتے ہیں۔ اپنے گڈ اور بیڈ طالبان نے مل کر ایسی درگت بنائی امریکہ کی کہ دم دبا کر بھاگ گیا۔ آج کل اپنے زخم چاٹتا پھرتا ہے۔

خوبصورتی کی طرح دہشت گردی بھی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ نو گیارہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی لہر چلی۔ امریکہ نے بڑی طاقتوں کے ساتھ مل کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس کے بعد عراق پر دھاوا بول دیا حالانکہ کہ اقوام متحدہ نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ عراق پر حملہ کسی طور پر بھی جائز نہیں۔ لیکن وقت کے خداؤں نے جنگ کرنا ہی تھی۔ امن نافذ کرنے کے لئے لاکھوں معصوم لوگوں کا خون بہایا گیا۔ کوئی تمیز نہ رکھی گئی بچے بوڑھے اور عورت کے درمیاں۔ لاکھوں کھاتے پیتے لوگ بے گھر کر دیے گئے۔ اب وہ بھکاریوں کی طرح پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔ یہ سب ان لوگوں نے کیا جو ہمیں امن کا، انسانی مساوات اور حقوق کا درس دیتے ہیں۔

ایک محاورہ نو گیارہ کے بعد بہت ہٹ ہوا۔ One man‘s terrorist is another‘s freedom fighter۔
یعنی ایک کے نزدیک دہشت گرد دوسرے کا حریت پسند۔ ہم نے اس محاورے کو رنگ بدلتے بھی دیکھا ہے۔ ۔
One man‘s terrorist is the same man‘s beloved!
یعنی جس کے نزدیک دہشت گرد اسی کا محبوب۔ (ہماری اردو شاعری کا محبوب تو ایسا ہی ہوتا ہے! )

لیکن کون۔ کوئی مثال تو دیجئے۔ یہ لیں۔ گلبدن حکمت یار۔ کل کا دہشت گرد اب اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی پابندیوں کی بیڑیاں اتار لیں۔ حکمت یار کے بعد اب امریکہ اور اس کے رفقاء طالبان کو پٹر ی پر لانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ مگر طالبان بہت ہی ڈھیٹ ہڈی ہیں۔ کہتے ہیں پہلے امریکہ بوریا بستر باندھے ہماری زمین سے پھر سوچیں گے مذاکرات بارے! ٹرمپ تو طالبان کو چھپی پانے کے لئے بے قرار ہے مگر آگے سے اسے جواب و ہی ملتا ہے جو اس کی جورو اسے دیتی ہے جب وہ اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ سو کوئی بعید نہیں کچھ سمے بعد ہم دیکھیں اوول آفس (امریکی صدر کے دفتر کو کہتے ہیں) میں ٹرمپ کو صلاح الدین کی ریش مبارک پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہیں امن کا کوئی نوبل ٹائپ ایوارڈ دیتے ہوئے!

صلاح الدین سے مجھے تین بار ملنے کا اتفاق ہوا۔ ان سے کئی معاملات پر اختلاف کے باوجود یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ انہیں بھارت ہی نے مجبور کیا کہ بندوق اٹھائیں۔ بھارت نے چناؤ میں وسیع پیمانے پر دھاندلیاں کیں جس کے نتیجے میں صلاح الدین سیاستدان سے حریت پسند بن گئے۔ جس قسم کے مظالم بھارت نہتے اور معصوم کشمیریوں پر ڈھا رہا ہے اس کی دنیا کے کسی بھی کونے میں مثال نہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 1974کی قرارداد نمبر 3314کی روشنی میں کشمیریوں کی مسلح جہدو جہد سو فیصد جائز ہے۔ مگر طاقت کے نشے میں چور زمانے کے دیوتاؤں کو کس قانون کا حوالہ یا واسطہ دیا جا سکتا ہے۔ ا ن کے لئے تو ان کی خواہشا ت ہی قانون ہیں۔ ساری دنیا کو کشمیریوں کی اخلاقی حمایت کرنا چاہیے مگر شاید یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ بدترین انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بننے کے بعد بھی دنیا کو ان کی خبر نہیں۔ جنہیں خبر ہے انہیں ہمدردی نہیں۔ دنیا کے نزدیک کشمیری پارا چنار کے لوگ ہیں۔ یورپ میں اگر کسی کتے بلے کو چھینک بھی آ جائے تو انسانی حقوق کی تنظیمیں لٹھ لے کر پڑ جاتی ہیں۔ مگر کشمیریوں کا خون غالباً خون نہیں۔ شاید پانی بھی نہیں کیونکہ آج کل یہ بھی نایاب شے ہے۔ کشمیریوں کا سوائے آسماں کے کوئی بھی نہیں! آس لگائے بیٹھے ہیں مگر آسماں بھی بے حس ہے ستر سال سے۔

صلاح الدین صاحب کا یہ کہنا بجا کہ وہ امریکہ کے فیصلے کو جوتی کی نوک پر بھی نہیں رکھتے۔ اسے ذرا دوسری طرح سے دیکھنا ہو گا۔ ٹرمپ تو ایک بیوقوف جاہل ٹہرا مگر مودی تو اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکلا۔ صلاح الدین ایک چلا ہوا کارتوس تھا۔ اس کا نہ تو کشمیر کے اس پار اور نہ ہی اس طرف کوئی اثر ورسوخ ہے۔ یہ نام نہاد عالمی دہشت گرد اتنا عالمگیر ہے کہ اگر چار اٹھائی گیرے اس کے سٹلائیٹ ٹاؤن پنڈی والے دفتر پر ناجائز قبضہ جما لیں تو یہ طاقت کے بل بوتے پر ان کو ہٹا نہیں سکے گا۔ حزب کے دفتر کی رکھوالی اب ایک نحیف سا شخص ہاتھ میں چھڑی پکڑے کرتا ہے! حزب والے ہماری حکومت سے ہمدردانہ اپیلیں کرتے پھر رہے ہیں کہ جناب ہماری بندوقیں تو واپس کر دیں جو آپ نے مشرف کے دور میں ہم سے چھین لیں تھی۔ کم از کم ٹین ڈبے چھان بورے والے کو بیچ کر چار پیسے توبن جائیں گے!

ہماری مقتدرہ قوتوں نے صلاح الدین کو تجربے کے طور پر استعمال کیا۔ تجربہ ناکام رہا۔ اب صلاح الدین ایک استعمال شدہ ٹی بیگ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسے پھینکا نہیں جا سکتا۔ ایسی چھچھوندر بن گئی ہے جو نہ اگلی جا سکتی ہے نہ نگلی۔ اس clinically dead کو مشین کے ذریعے زندہ رکھنا ضرورت سے زیادہ مجبوری ہے۔

کشمیرمیں جاری موجودہ شورش سو فیصد مقامی ہے۔ نوے کی دہائی میں بھی مقامی ہی تھی لیکن ہم نے اسے زبردستی گود لے لیا اور اس کو جہاں بھر میں بدنام کیا۔ ہماری ہی وجہ سے اب کشمیریوں کی جہدوجہد کو دنیا سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ بد اچھا بدنام برا کے مصداق اب اگر کشمیری سینے پر گولیاں کھاتے ہیں، چھروں والی بندوقوں سے ہمیشہ کے لئے بینائی کھوتے ہیں، بھارتی فوجیوں کے لئے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال ہوتے ہیں سر عام پٹتے ہیں تو دنیا یہ ہی سمجھتی ہے کہ یہ سب پاکستان کے بھیجے ہوئے جہادی ہیں۔ ورنہ تو کشمیر میں ہر سو کشل منگل ہے۔

اس پس منظر میں مودی نے جو اپنے آقا ٹرمپ کے ذریعے صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد جیسے رتبے پر فائز کروایا ہے تو اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ مودی نے دراصل مردہ گھوڑے میں جان پھونک دی ہے۔ اب یہ گھوڑا سر پٹ دوڑے گا جوان کشمیریوں کے روپ میں۔ مودی چاہے تو ٹرمپ کے تلوے چاٹ کر ہر کشمیری کو عالمی دہشت گرد قرار دلوا کر جیل میں بند کر دے مگر اب کشمیریوں کو بھارت اپنے تسلط میں مزید زیادہ عرصے نہیں رکھ سکے گا۔ کشمیریوں نے ٹیپو سلطان کے نقشِ قدم پر چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب وہ بھارت کی غلامی میں زندگی کے بجائے موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ کس قدر احمق ہیں یہ بھارتی سیاستدان۔ اگر یہ واقعی صحیح معنوں میں ریاستی خود مختاری دے دیتے کشمیر کو تو آج کسی قسم کی شورش برپا نہ ہوتی۔ ممکن ہے کہ کشمیری بھارت کو ہی اپنی ماتا تسلیم کر لیتے۔ مودی ایسے احمقوں کی بدولت ہی آزادی کے وہ خواب اب بھارت نواز کشمیریوں کی آنکھوں میں بھی سجنا شروع ہو گئے ہیں جن کے آگے ریاستی خود مختاری ہیچ نظر آتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ کشمیر کو اب صرف کشمیریوں کے ہی حوالے کر دیا جائے کیونکہ بھارت سے آزادی کی لڑائی وہ پاکستانی مداخلت کے الزام سے بچ کر خود بہتر طریقے سے لڑ سکتے ہیں!

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad