5 جولائی: نواز شریف اور بھٹو کے حامی آمنے سامنے


آج 5 جولائی ہے۔ آج سے 40 برس قبل جنرل ضیاء الحق نے مقبول عوامی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ اس کے بعد اس نے نہ صرف ملک کا آئین معطل کیا، ہر قسم کی آزادیوں پر پابندی عائد کی، انسانی حقوق پامال کئے، سیاسی آزادی کو مسخ کیا بلکہ اپنے محسن اور آج تک اس ملک کے کروڑوں عوام کے دلوں کی دھڑکن بنے رہنے والے وزیراعظم کو پھانسی کی سزا بھی دی۔ یہ سارے سیاہ کارنامے تاریخ کا حصہ ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور اپنے سیاسی عزائم پورے کرنے کےلئے جو اقدامات کئے، مذہب کے نام پر جس طرح جھوٹ بولے گئے اور مذہبی جنونیت کو فروغ دینے کےلئے منظم طریقے سے کام کیا گیا، اس کے اثرات و نتائج سے آج ملک کا بچہ بچہ آگاہ ہے۔ گو کہ اس ملک میں اب بھی وہ قوتیں سرگرم اور موثر ہیں جو تاریخ کے حقائق کو تبدیل کرنے اور سچ کی بجائے جھوٹ کو عام کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ تاہم اسے ذوالفقار علی بھٹو کے خون ناحق کا ثمر کہئے یا ضیاء الحق کے انتہا پسندانہ اقدامات کی شدت اور کھلی دروغ گوئی کو اس کا سبب سمجھیں کہ یہ بات اب اس ملک کے ہر شخص کو معلوم ہے کہ اہل پاکستان اس وقت جس دہشت گردی سے نبرد آزما ہیں اور ملک کے لاکھوں گھروں میں جن ہلاکتوں کی وجہ سے بین ڈالے جاتے ہیں، اس کی بنیاد رکھنے میں ضیا الحق نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

ان معاملات میں اب کوئی اختلاف نہیں ہے۔ گو کہ ملک کی سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے معاملہ پر نظر ثانی کرنے سے گریز کر رہی ہے کیونکہ اس پر 40 برس پہلے ہونے والے ظلم پر غور کے برعکس آج سامنے آنے والی زیادتیوں پر غور کرنے اور فیصلے صادر کرنے کےلئے دباؤ ہے۔ لیکن قومی اسمبلی متفقہ طور سے بھٹو کی پھانسی کو عدل و انصاف کا قتل قرار دے چکی ہے۔ گویا وہ سیاسی عناصر اور رہنما بھی جو ذوالفقار علی بھٹو، پاکستان پیپلز پارٹی یا ان کے ورثا کی سیاسی حکمت عملی اور نظریات سے شدید اختلافات رکھتے ہیں، یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کی عدالت عظمیٰ نے 1979 میں انہیں موت کی سزا دیتے ہوئے ضیاء الحق کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ فیصلہ آئین و قانون کے مطابق نہیں تھا بلکہ سیاسی انتقام کا شاخسانہ تھا۔ اس اتفاق رائے کی روشنی میں تو یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ بھٹو کے سیاسی حامی اور اس کے مخالف ۔۔۔۔۔ دونوں دھڑے اور تمام پاکستانی 5 جولائی 1977 کو شروع ہونے والے طویل تاریک دور سے سبق سیکھتے ہوئے، آج کے حالات میں انہی غلطیوں کا ارتکاب کرنے سے گریز کرتے۔ لیکن پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ 5 جولائی کو کی گئی فوجی بغاوت اور ملک و قوم کے مفادات پر اس کے اثرات کو فراموش کر دیا گیا ہے بلکہ متعدد سیاسی اداکار آج پھر ویسا ہی کھیل رچانے میں مصروف ہیں۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ اس وقت کرپشن کا سامنا کرنے والے وزیراعظم نواز شریف اپنے خلاف جاری تحقیقات اور عدالتی کارروائی کو بے توقیر کرنے کےلئے سازشوں اور درپردہ حکومت گرانے اور انہیں سیاست سے علیحدہ کرنے کے منصوبوں کا اشارہ دے کر خود کو ’’عوامی ہیرو‘‘ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے حامی یہ دلیل لے کر میدان میں اترے ہوئے ہیں کہ کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی ۔۔۔۔۔ کہاں ذوالفقار علی بھٹو جیسے قد آور لیڈر کے خلاف امریکہ جیسی سپر پاور کی سازش اور کہاں نواز شریف جیسے بدعنوان اور مفاد پرست شخص سے عدالتی جوابدہی۔ ان دونوں کا کیا مقابلہ ہو سکتا ہے۔

دونوں رہنماؤں کے حامی اور مخالفین سیاسی اور صحافتی میدان میں اس سوال پر سر پھٹول کرنے میں تو مصروف ہیں لیکن یہ سمجھنے، جاننے اور سوچنے کےلئے تیار نہیں ہیں کہ اگر ملک میں فوجی بغاوتوں اور خفیہ ایجنسیوں کی سیاسی شعبدہ بازیوں کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو جو تاریک رات 5 جولائی 1977 کو شروع ہوئی تھی، وہ بدستور اس قوم پر سایہ فگن رہے گی۔ سوال یہ نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف سے کتنے بڑے لیڈر تھے یا ان کے کارہائے نمایاں کا نواز شریف کی کامیابیوں سے مقابلہ ہو سکتا ہے یا نہیں بلکہ بنیادی بات یہ ہے کہ کیا اب یہ قوم اور اس ملک میں جمہوری نظام کے ذریعے تبدیلی لانے کا دعویٰ کرنے والے سب لوگ، اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کے طاقتور ادارے جب بھی کسی بھی منتخب لیڈر کے خلاف اقدام کرنے کا تہیہ کرتے ہیں تو وہ اس لیڈر سے زیادہ ملک و قوم کے مفاد پر وار ہوتا ہے۔ اس لئے یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر اب یا آئندہ، 40 برس پہلے رونما ہونے والے واقعات کو دہرانے کی کوئی بھی کوشش، کسی بھی طریقے سے ہوتی ہے تو اسے مسترد کرنے اور ’’قوم و ملک کے وسیع تر مفاد‘‘ میں غیر آئینی اقدام کرنے کی اجازت دینا ملک و قوم سے غداری کے مترادف ہوگا۔

تاہم یہ بھی ہم سب دیکھ چکے ہیں کہ 12 اکتوبر 1999 کو 5 جولائی 1977 کی روایت کو دہرایا گیا لیکن سیاسی اور ذاتی مفاد کےلئے پرویز مشرف کا بھی ویسے ہی خیر مقدم کیا گیا جیسا کہ ضیاء الحق کا کیا گیا تھا۔ دونوں نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹا تھا اور دونوں نے ملک کا آئین پامال کیا تھا۔ اس کے باوجود گزشتہ برس نومبر تک ملک کی فوج کا سربراہ رہنے والے جنرل (ر) راحیل شریف کے دور میں وقفے وقفے سے پاکستان کے در و دیوار پر یہ بینر آویزاں ہوتے رہے اور گلی کوچوں میں یہ نعرے گونجتے رہے کہ ’’جانے کی باتیں نہ کرو‘‘ اور اس ملک کو تباہی و بربادی سے بچا لو۔ فی الوقت موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایسا ’’مطالبہ‘‘ نہیں کیا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جنرل باجوہ سیاست سے دور رہنے کی شہرت رکھتے ہیں اور فوج کا تعلقات عامہ کا شعبہ اب آرمی چیف کی ذاتی تشہیر پر اس طرح توجہ دینے سے گریز کر رہا ہے جیسے جنرل راحیل شریف کے عہد میں کیا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ بھی نہیں ہے کہ کوئی فوجی جنرل کب تک آئین کا وفادار رہنا چاہتا ہےاور کب اسے کاغذ کا ٹکڑا قرار دے کر بے توقیر کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اہل پاکستان بطور قوم یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ 5 جولائی ہو یا 12 اکتوبر ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دن ملک کی تقدیر بدلنے کا سبب نہیں بنے تھے بلکہ انہوں نے اس قوم کو نت نئے مصائب و آلام سے دوچار کیا تھا۔ اگر اس ملک کے تمام شہریوں اور خاص طور سے سیاسی طور سے متحرک لوگوں اور میڈیا کے بزرجمہروں کا اس بنیادی اصول پر اتفاق ہو جائے ، تب ہی اس ملک پر 7 اکتوبر 1958، 25 مارچ 1969، 5 جولائی 1977 یا 12 اکتوبر 1999 جیسا کوئی فیصلہ مسلط نہیں کیا جائے گا۔

اس کے برعکس اگر ملک میں بدستور ایسے عناصر طاقتور ہیں اور اس رائے کو مسلسل بڑی اکثریت کی حمایت حاصل ہے کہ فوج ہی بہرصورت ملک کا نظام درست اور بدعنوان سیاستدانوں کا احتساب کر سکتی ہے تو مل جل کر کوئی ایسا آئینی فیصلہ کر لیا جائے کہ ہر آرمی چیف ملک کا سپریم لیڈر، چیف ایگزیکٹو ، گاڈ فادر یا ان داتا بھی ہوگا، جس کی مرضی کے بغیر کوئی اسمبلی یا وزیراعظم کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔ اس طرح کم از کم یہ تو طے کیا جا سکے گا کہ جو بھی جنرل تین، چار یا پانچ سال کی مقررہ مدت کےلئے فوج کی کمان سنبھالے گا تو وہ اس مدت کے بعد اپنے جانشین کے حق میں دستبردار ہو جائے گا اور اپنے اقتدار کو دائمی رکھنے کےلئے مسلسل آرمی چیف کے عہدہ سے چمٹا نہیں رہے گا۔ اس طرح فوج جیسے منظم اور اعلیٰ کارکردگی کے حامل ادارے کو اس عظیم نقصان سے محفوظ رکھا جا سکے گا جو سیاسی اقتدار سنبھالنے والے فوجی کمانڈر کی سیاسی جاہ پسندی کے نتیجے میں فوج کی لائن آف کمانڈ کو پہنچتا ہے یا ترقی کے اہل افسروں کو جبری ریٹائرمنٹ پر بھیجنے کی صورت میں پہنچایا جاتا ہے۔ لیکن یہ اہم فیصلے اسی وقت ہو سکتے ہیں جب ملک کی سیاست میں افراد کی بجائے اصولوں کو بنیاد بنا کر مباحث کا آغاز ہو سکے۔

نواز شریف اور ان کے حامی پاناما کیس کے حوالے سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کےلئے کٹھ پتلی تماشہ اور درپردہ سازشوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ بعض اقتدار پسند عناصر اس صورتحال کا مقابلہ 1977 سے کرتے ہوئے نواز شریف کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ایسے دلائل بھٹو کے ان حامیوں کے لئے تکلیف کا سبب بن رہے ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1977 میں پاکستان عوامی اتحاد PNA کی تحریک، جنرل ضیاء الحق کی سرکردگی میں فوج کی بغاوت اور عدالتوں کے ذریعے بھٹو کی پھانسی دراصل امریکہ کی نگرانی میں تیار کی جانے والی ایک عالمی سازش کا نتیجہ تھا۔ اس سازش کا اعلان اور امریکہ کی طرف سے اپنے اقتدار کو لاحق خطرات کا اظہار ذوالفقار علی بھٹو اپنے دور حکومت کے آخری دنوں میں خود بھی کرتے رہے تھے۔ اب نواز شریف اور ان کے حامی موجودہ صورتحال میں اسی ماضی سے مماثلت تلاش کرکے نئی سازشی تھیوری کو عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرز عمل کی وجہ سے بھٹو کے حامی اضطراب کا شکار ہیں۔ تاہم کسی حکومت کے خلاف سازش کی بات کرنے کے باوجود کبھی اسے واضح طور سے ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یوں بھی پاکستان کے سیاسی حالات میں یہ بات غیر اہم ہے کہ کون کس کے خلاف سازش کرتا رہا ہے یا کر رہا ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ کیا اس ملک میں اس بات پر اتفاق رائے پیدا کیا جا چکا ہے کہ کسی بھی جمہوری حکومت کے خلاف ملک کے کسی بھی ادارے کا اقدام خواہ وہ کسی بھی ’’نیک مقصد‘‘ کے نام پر کیا جائے، قبول نہیں کیا جائے گا۔ فی الوقت یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔ ملک میں متحرک کئی سیاسی قوتیں جمہوریت پر شب خون کی حمایت کرنے کےلئے تیار ہیں بشرطیکہ اس سے انہیں سیاسی فائدہ حاصل ہو سکے۔

اسی صورتحال سے یہ افسوسناک نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اس ملک میں آباد لوگوں نے 40 برس قبل رونما ہونے والے سانحہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اب ذوالفقار علی بھٹو یا نواز شریف کے حامی اور مخالفین اگر شخصیت پرستی میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونا چاہتے ہیں تو بے شک ایسا کریں لیکن یہ یاد رکھیں کہ اس طرح وہ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کا سبب بننے کی بجائے جمہوریت دشمن قوتوں کو مضبوط کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali