منٹو کا فحش افسانہ؟ اوپر، نیچے اور درمیان


سعادت حسن منٹو پر متحدہ ہندوستان اور پاکستان میں فحاشی کے الزام میں کل ملا کر چھ مقدمے چلے۔ پانچ میں وہ باعزت بری ہوئے۔ “اوپر  نیچے اور درمیان” نامی افسانے پر مقدمے میں انہیں کراچی کی عدالت سے سزا ہوئی۔ منٹو اس لغویت سے اس قدر تنگ آ چکے تھے کہ انہوں نے اپنا دفاع کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ عدالت میں پہنچے اور سیدھا پوچھ لیا کہ کتنا جرمانہ ادا کرنا ہے۔ جرمانہ ادا کیا اور باہر آ گئے۔ دراصل منٹو ایک نشبتاً کھلے ثقافتی ماحول کا عادی تھا۔ اس نے اپنے ایک سے زیادہ افسانوں میں گاندھی جی کا بھی پھلکا اڑایا تھا۔ اسے پاکستان میں فنی آزادی کی حدود اور چوہدری محمد حسین نامی پنجاب پریس برانچ کے اہل کار کے دائرہ اختیار کا اندازہ نہیں ہو سکا۔ “اوپر نیچے اور درمیان” دراصل ایک بڑے پاکستانی منصب دار اور ان کی نجیب الطرفین اہلیہ کے باہمی دلچسپی  کے امور کا حقیقی بیان تھا۔ منٹو کو یہ واردات کہیں سے ہاتھ آ گئی۔ افسانہ لکھ دیا۔ مجروح فریق نے راز ہائے درون خواب گاہ کے انکشاف پر مقدمہ دائر کر دیا۔  منٹو غریب کو کیا معلوم تھا کہ پاکستان مین خضر صورت عمائدین اور آپا جان کے اشغال خفیفہ حساس امور میں آتے ہیں اور بارسوخ خواتین و حضرات بوجوہ زود حس بھی ہوتے ہیں۔ آئیے “اوپر نیچے اور درمیان” پڑھتے ہیں۔ (مدیر)

٭٭٭    ٭٭٭

میاں صاحب: بہت دیر کے بعد آج مل بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہے۔
بیگم صاحبہ: جی ہاں!

میاں صاحب: مصروفیتیں۔ بہت پیچھے ہٹتا ہوں مگر نا اہل لوگوں کا خیال کرکے قوم کی پیش کی ہوئی ذمہ داریاں سنبھالنی ہی پڑتی ہیں
بیگم صاحبہ: اصل میں آپ ایسے معاملوں میں بہت نرم دل واقع ہوئے ہیں، بالکل میری طرح

میاں صاحب: ہاں! مجھے آپ کی سوشل ایکٹی وٹیزکا علم ہوتا رہتا ہے۔ فرصت ملے تو کبھی اپنی وہ تقریریں بھجوا دیجئے گا جو پچھلے دنوں آپ نے مختلف موقعوں پر کی ہیں۔ میں فرصت کے اوقات میں ان کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں۔
بیگم صاحبہ: بہت بہتر

میاں صاحب: ہاں بیگم! وہ میں نے آپ سے اس بات کا ذکر کیا تھا!
بیگم صاحبہ: کس بات کا؟

میاں صاحب: میرا خیال ہے، ذکر نہیں کیا۔ کل اتفاق سے میں منجھلے صاحبزادے کے کمرے میں جا نکلا، وہ لیڈی چٹرلیز لور پڑھ رہا تھا
بیگم صاحبہ: وہ رسوائے زمانہ کتاب!

میاں صاحب: ہاں بیگم
بیگم صاحبہ: آپ نے کیا کیا؟

میاں صاحب: میں نے اس سے کتاب چھین کر غائب کر دی۔
بیگم صاحبہ: بہت اچھا کیا آپ نے۔

میاں صاحب: اب میں سوچ رہا ہوں کہ ڈاکٹر سے مشورہ کروں اور اس کی روزانہ غذا میں تبدیلی کرا دوں
بیگم صاحبہ: بڑا صحیح قدم اُٹھائیں گے آپ۔

میاں صاحب: مزاج کیسا ہے آپ کا؟
بیگم صاحبہ: ٹھیک ہے

میاں صاحب: میرا خیال تھا کہ آج آپ سے۔ درخواست کروں۔
بیگم صاحبہ: اوہ! آپ بہت بگڑتے جا رہے ہیں۔

میاں صاحب: یہ سب آپ کی کرشمہ سازیاں ہیں۔
بیگم صاحبہ: لیکن آپ کی صحت؟

میاں صاحب: صحت؟ اچھی ہے لیکن ڈاکٹرسے مشورہ کیے بغیر کوئی قدم نہیں اُٹھاؤں گا۔ اور آپ کی طرف سے بھی مجھے پورا اطمینان ہونا چاہیے۔
بیگم صاحبہ: میں آج ہی مس سلڈھانا سے پوچھ لوں گی۔
میاں صاحب: اور میں ڈاکٹر جلال سے

بیگم صاحبہ: قاعدے کے مطابق ایسا ہی ہونا چاہیے۔
میاں صاحب: اگر ڈاکٹر جلال نے اجازت دے دی؟
بیگم صاحبہ: اگر مس سلڈھانا نے اجازت دے دی۔ مفلر اچھی طرح لپیٹ لیجیے۔ باہر سردی ہے۔
میاں صاحب: شکریہ

٭٭٭ ٭٭٭

ڈاکٹر جلال: تم نے اجازت دے دی؟
مس سلڈھانا: جی ہاں

ڈاکٹر جلال
میں نے بھی اجازت دے دی۔ حالانکہ شرارت کے طور پر۔

مس سلڈھانا: مجھے بھی۔
ڈاکٹر جلال: پورے ایک برس کے بعد وہ۔

مس سلڈھانا: ہاں پورے ایک برس کے بعد۔
ڈاکٹر جلال: میری انگلیوں کے نیچے اس کی نبض تیز ہوگئی، جب میں نے اس کو اجازت دی۔

مس سلڈھانا: اس کی بھی یہی کیفیت تھی۔
ڈاکٹر جلال: اس نے مجھ سے ڈرتے ہوئے کہا، ڈاکٹر! ایسا معلوم ہوتا ہے، میرا دل کمزور ہوگیا ہے۔ آپ کا رڈیوگرام لیجیے۔

مس سلڈھانا: اس نے بھی مجھ سے یہی کہا۔
ڈاکٹر جلال: میں نے اس کے ٹیکہ لگا دیا۔

مس سلڈھانا: میں نے بھی۔ صرف سادہ پانی کا
ڈاکٹر جلال: سادہ پانی بہترین چیز ہے۔

مس سلڈھانا: جلال! اگر تم اس بیگم کے شوہر ہوتے؟
ڈاکٹر جلال: اگر تم اس میاں کی بیوی ہوتیں؟

مس سلڈھانا: میرا کیریکٹر خراب ہوگیا ہوتا!
ڈاکٹر جلال: میراجنازہ اُٹھ گیا ہوتا!

مس سلڈھانا: یہ بھی تمہارے کیریکٹر کی خرابی کہلاتی۔
ڈاکٹر جلال: ہم جب بھی سوسائٹی کے ان آلوؤں کو دیکھنے آتے ہیں، ہمارا کیریکٹر خراب ہو جاتا ہے۔

مس سلڈھانا: آج بھی ہوگا؟
ڈاکٹر جلال: بہت زیادہ
مس سلڈھانا: مگر مصیبت یہ ہے کہ ان کا لمبے لمبے وقفوں کے بعد ہوتا ہے۔

٭٭٭ ٭٭٭

بیگم صاحبہ: لیڈی چٹرلیز لور، یہ آپ نے تکیے کے نیچے کیوں رکھی ہوئی ہے؟
میاں صاحب: میں دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ کتاب کتنی بے ہودہ اور واہیات ہے۔

بیگم صاحبہ: میں بھی آپ کے ساتھ دیکھوں گی۔
میاں صاحب: میں جستہ جستہ دیکھوں گا۔ پڑھتا جاؤں گا۔ آپ بھی سُنتی جایئے۔
بیگم صاحبہ: بہت اچھا رہے گا۔

میاں صاحب: میں نے منجھلے صاحبزادے کی روزانہ غذا میں ڈاکٹر کے مشورے سے تبدیلیاں کرا دی ہیں۔
بیگم صاحبہ: مجھے یقین تھا کہ آپ نے اس معاملے میں غفلت نہیں برتی ہوگی۔

میاں صاحب: میں نے اپنی زندگی میں کبھی آج کا کام کل پر نہیں چھوڑا۔
بیگم صاحبہ: میں جانتی ہوں۔ اور خاص کر آج کا کام تو آپ کبھی۔

میاں صاحب: آپ کا مزاج کتنا شگفتہ ہے۔
بیگم صاحبہ: یہ سب آپ کی کرشمہ سازیاں ہیں۔

میاں صاحب: میں بہت محفوظ ہوا ہوں۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو۔
بیگم صاحبہ: ٹھہریئے! کیا آپ نے دانت صاف کیے؟

میاں صاحب: جی ہاں! میں دانت صاف کر کے اور ڈیٹول کے غرارے کر کے آیا تھا۔
بیگم صاحبہ: میں بھی

میاں صاحب: اصل میں ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے بنائے گئے تھے
بیگم صاحبہ: اس میں کیا شک ہے

میاں صاحب: میں جستہ جستہ یہ بے ہودہ کتاب پڑھنا شروع کروں۔
بیگم صاحبہ: ٹھہریئے! ذرا میری نبض دیکھئے۔
میاں صاحب: کچھ تیز چل رہی ہے۔ میری دیکھئے۔
بیگم صاحبہ: آپ کی بھی تیز چل رہی ہے

میاں صاحب: وجہ؟
بیگم صاحبہ: دل کی کمزوری!
میاں صاحب: یہی وجہ ہو سکتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر جلال نے کہا تھا کوئی خاص بات نہیں۔
بیگم صاحبہ: مس سلڈھانا نے بھی یہی کہا تھا۔

میاں صاحب: اچھی طرح امتحان کر کے اس نے اجازت دی تھی؟
بیگم صاحبہ: بہت اچھی طرح امتحان کر کے اجازت دی تھی۔

میاں صاحب: تو میرا خیال ہے کوئی حرج نہیں
بیگم صاحبہ: آپ بہتر سمجھتے ہیں۔ ایسا نہ ہو، آپ کی صحت۔

میاں صاحب: اور آپ کی صحت بھی۔
بیگم صاحبہ: اچھی طرح سوچ سمجھ کر ہی قدم اُٹھانا چاہیے۔

میاں صاحب: مس سلڈھانا نے اس کا تو بندوبست کردیا ہے نا؟
بیگم صاحبہ: کس کا۔ ؟ ہاں، ہاں، اس کا تو بندوبست کردیا ہے اس نے۔

میاں صاحب: یعنی اس طرف سے تو پورا اطمینان ہے۔
بیگم صاحبہ: جی ہاں!

میاں صاحب: ذرا اب دیکھئے نبض؟

بیگم صاحبہ: اب تو۔ ٹھیک چل رہی ہے۔ میری؟
میاں صاحب: آپ کی بھی نارمل ہے۔

بیگم صاحبہ: اس بے ہودہ کتاب کا کوئی پیرا تو پڑھیے۔
میاں صاحب: بہتر۔ نبض پھر تیز ہوگئی

بیگم صاحبہ: میری بھی۔
میاں صاحب: نوکروں سے مطلوبہ سامان رکھوا دیا آپ نے کمرے میں؟

بیگم صاحبہ: جی ہاں! سب چیزیں موجود ہیں۔
میاں صاحب: اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو میرا ٹمپریچر لے لیجیے

بیگم صاحبہ: کیا آپ تکلیف نہیں کر سکتے۔ اسٹاپ واچ موجود ہے۔ نبض کی رفتار بھی دیکھ لیجیے۔
میاں صاحب: ہاں! یہ بھی نوٹ ہونی چاہیے

بیگم صاحبہ: سملنگ سالٹ کہاں ہے؟
میاں صاحب: دوسری چیزوں کے ساتھ ہونا چاہیے

بیگم صاحبہ: جی ہاں، پڑا ہے تپائی پر۔
میاں صاحب: کمرے کا ٹمپریچر میرا خیال ہے تھوڑا سا بڑھا دینا چاہیے

بیگم صاحبہ: میرا بھی یہی خیال ہے
میاں صاحب: نقاہت زیادہ ہوگئی تو مجھے دوا دینا نہ بھولیے گا

بیگم صاحبہ: میں کوشش کروں گی اگر۔
میاں صاحب: ہاں ہاں۔ ! بصورت دیگر آپ تکلیف نہ اُٹھایئے گا

بیگم صاحبہ: آپ یہ صفحہ۔ یہ پورا صفحہ پڑھیے۔
میاں صاحب: سنیے! ۔

بیگم صاحبہ: یہ آپ کو چھینک کیوں آئی؟
میاں صاحب: معلوم نہیں
بیگم صاحبہ: حیرت ہے
میاں صاحب: مجھے خود حیرت ہے

بیگم صاحبہ: اوہ۔ میں نے کمرے کا ٹمپریچر بڑھا نے کے بجائے گھٹا دیا تھا۔ معافی چاہتی ہوں
میاں صاحب: یہ اچھا ہوا کہ چھینک آگئی اور بروقت پتہ چل گیا۔

بیگم صاحبہ: مجھے بہت افسوس ہے۔
میاں صاحب: کوئی بات نہیں۔ بارہ قطرے برانڈی اس کی تلافی کردیں گے

بیگم صاحبہ: ٹھہریئے۔ مجھے ڈالنے دیں۔ آپ سے گننے میں غلطی ہو جایا کرتی ہے۔
میاں صاحب: یہ تو درست ہے۔ آپ ڈال دیجئے۔

بیگم صاحبہ: آہستہ آہستہ پیجئے
میاں صاحب: اس سے زیادہ آہستہ اور کیا ہوگا؟

بیگم صاحبہ: طبیعت بحال ہوئی؟
میاں صاحب: ہو رہی ہے

بیگم صاحبہ: آپ تھوڑی دیر آرام کر لیں
میاں صاحب: ہاں۔ میں خود اس کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں

٭٭٭ ٭٭٭

نوکر: کیا بات ہے، آج بیگم صاحبہ: نظر نہیں آئیں؟
نوکرانی: طبیعت ناساز ہے ان کی

نوکر: میاں صاحب کی طبیعت بھی ناساز ہے
نوکرانی: ہمیں معلوم تھا۔

نوکر: ہاں! لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آتا
نوکرانی: کیا؟

نوکر: یہ قدرت کا تماشا۔ ہمیں تو آج بستر مرگ پر ہونا چاہیے تھا۔
نوکرانی: کیسی باتیں منہ سے نکالتے ہو۔ بستر مرگ پر ہوں وہ۔

نوکر: نہ چھیڑو ان کے بستر مرگ کا ذکر۔ بڑا شاندار ہوگا۔
خواہ مخواہ میرا جی چاہے گا کہ اُٹھا کر اپنی کوٹھری میں لے جاؤں۔

نوکرانی: کہاں چلے؟
نوکر: بڑھئی ڈھونڈنے جارہا ہوں۔ چار پائی اب بالکل جواب دے چکی ہے۔
نوکرانی : ہاں! اس سے کہنا، مضبوط لکڑی لگائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).