حسین نقی سے باتیں (2)


حسین نقی ایسی صحافت اور صحافیوں کے ناقد ہیں، جو حکومتیں گرانے کے لیے Campaigner بن جائیں۔ اس بابت وہ دو ٹوک بات کرتے ہیں۔ ”ایک میڈیا گروپ کہتا رہا کہ ہم فیصلہ کریں گے کہ حکومت رہے گی یا نہیں۔ تین سال وہ حکومت گرانے میں لگے رہے، اور جس حکومت کے خلاف تھے، وہ سب سے زیادہ عرصہ نکال گئی۔ صحافت سے وابستہ ایک شاہین پیپلز پارٹی حکومت کے بارے میں Partisan سے بڑھ کر باقاعدہ Campaigner بن گیا۔ بیرون ملک بیٹھ کر اس نے کئی بار کہا کہ یہ فلاں وقت پر جا رہے ہیں۔ لیکن وہ نہیں گئے، میں بہت دیر رکا رہا لیکن پھر میں نے اسے ای میل بھیجا کہ تمھاری تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں، اب تم کو صحافت کو خیرباد کہہ دینا چاہیے۔ میرے ای میل کا جواب نہیں آیا۔ “

ہمارے ہاں لیفٹ کے پرانے لوگوں کے بارے میں ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ امریکا کی حمایت کرنے لگے ہیں یا پھر انھوں نے خود کو این جی اوز سے جوڑ لیا ہے۔ امریکا کی حمایت کی جہاں تک بات ہے تو ان کے ساتھ ایسا معاملہ ہرگز نہیں۔ اس کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ ایک تقریب میں امریکا پر ان کے خوب گرجنے برسنے نے ممتاز ادیب انتظار حسین کو یہ لکھنے پرمجبور کیا کہ حسین نقی کو چاہیے کہ وہ اپنی طرز فغان میں تھوڑی تبدیلی کریں تاکہ امریکی مخالفت پر منور حسن اوران کی آواز میں وہ تمیز تو کرسکیں۔ امریکا سے متعلق سوال کا جواب، ہم نے خود فراہم کردیا۔ اب رہا این جی اوز کا معاملہ تو اس کا جواب ان سے حاصل کرتے ہیں۔ ” اب جتنی بھی فلاحی تنظیمیں ہیں، ان کا نام این جی اوز رکھ دیں تو کیا کہا جاسکتا ہے۔ چودہ ہزاراین جی اوزتو پنجاب میں رجسٹرڈ ہیں۔ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کوکون سا ملک سپورٹ کرتا ہے؟سوشل ویلفیئرکے لیے پاکستان کی جو امداد ملتی ہے، اس کو پہلے بھی سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ استعمال کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہے۔ یوایس ایڈ بھی تمام محکمے استعمال کرتے رہے۔

مجھے ایک غیر ملکی ادارے کے سربراہ نے بتایا کہ انھوں نے این جی اوزکو اس لیے امداد دینا شروع کی کہ وہ جو کچھ حکومتوں کو دیتے۔ اس میں سے 75 فیصد گاڑیوں، فرنیچر، کمروں کی آرائش وغیرہ پر خرچ ہوجاتا اور نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوتا تھا۔ اس پر انھوں نے یہ کیا کہ جو رقم وہ حکومتوں کو دیتے تھے، اس رقم کا مخصوص حصہ براہ راست ویلفیئر آرگنائزیشن کو دینا شروع کردیاجس کا بہتر نتیجہ نکلا۔ پیسا جو بھی دیتا ہے، اس کا مقصد ضرور ہوتا ہے، اب یہ آپ پر ہے کہ آپ ان کا مقصد پورا کرتے ہیں، یا آپ کے اپنے کچھ مقاصد ہیں، مثلاً ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جب بنا تو اس کی قیادت نے شروع میں فیصلہ کرلیا کہ بڑی پاورز سے امداد نہیں لی جائے گی۔ یوایس ایڈ ہمیں بہت زیادہ مالی امداد کی پیش کش کرتا رہا لیکن ہم نے کتابوں کے سواکچھ نہیں لیا۔ وہ کہتے رہے کہ کم سے کم ایکوپمنٹ ہی لے لیں لیکن ایچ آرسی پی نہیں مانا۔ ایچ آرسی پی کو سکینڈے نیوین ملکوں سے امداد ملتی ہے، کمیشن پلان بنا کر بھیج دیتا ہے، جس پر اسے ادارہ جاتی امداد ملتی ہے۔ ایسے اداروں سے وابستگی ہمارے نظریے سے متصادم نہیں۔ ہمارانظریہ یہ ہے کہ ہم مجبور ومقہور لوگوں کے لیے آسانی پیدا کریں۔ انھیں شعور دیں، جو حقوق آئین نے دیے ہیں، ان سے متعلق آگاہ کیا جائے اور یہ ادارہ عین انہی مقاصد کے لیے کام کرتا ہے۔ “

حسین نقی جس زمانے میں کراچی میں تھے۔ اس وقت ہماری قومی سیاست میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے، جن کے اثرات سے روشنیوں کا شہر ابھی تک باہر نہیں آسکا، ان میں سے دوایک واقعات کے بارے میں ہم نے جاننا چاہا تو انھوں نے جواب دیا ”کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد منتقل کرنے کے فیصلے سے کراچی کے لوگوں کے علاوہ بنگالی بھی خوش نہیں تھے۔ کراچی کے لوگوں میں یہ احساس تھا کہ سارے دفاتر یہاں سے منتقل ہوجائیں گے۔ بنگالیوں کے لیے ڈھاکا سے اسلام آباد جانے کی بہ نسبت کراچی آنا کہیں زیادہ آسان تھا، کراچی تو وہ پانی کے جہاز پربیٹھ کر آ سکتے تھے۔ پہلے تو گڈاپ کے علاقے میں دارلحکومت بننا تھا۔ “

٭ ”اور وہ جو ایوب خان نے” آگے سمندر ہے“ والی بات کی اور صدارتی الیکشن کے بعد کراچی کے ایک علاقے میں گوہر ایوب کی مہم جوئی کے بارے میں کچھ بتائیں؟“

”یہ بات درست ہے، ایوب خان نے اردو بولنے والوں سے کہا تھا کہ وہ یہاں سے کہاں جائیں گے ”آگے سمندر ہے۔ “ایوب خان کے ایک جلسے میں جوتے پھینکے گئے، لیکن انٹیلی جنس پتا نہیں چلاسکی کہ یہ کام کس نے کیا۔ گوہرایوب نے اپنے باپ کی فاطمہ جناح کے مقابلے میں جیت کی خوشی میں جلوس نکالا جس میں ایوب خان کے حامیوں نے فائرنگ کی تھی، اس زمانے میں فائرکوئی نہیں کرتا تھا۔ بڑے سے بڑے بدمعاش کے پاس بھی سب سے بڑا ہتھیار خنجر ہوتا۔ شیرو اور دادل جو بڑے بدمعاش تھے، ان کے پاس بھی خنجر ہوتا تھا۔ فائرنگ کی روایت گوہر ایوب کے اس جلوس سے پڑی۔ “

حسین نقی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایوب خان کا مارشل لاء 1959ء میں ملک میں ہونے والے پہلے عام انتخابات کا راستہ روکنے کے لیے لگا کیونکہ اسکندر مرزا اور ایوب خان دونوں کا خیال تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں وہ سیاسی قوتیں اقتدار میں آجائیں گی جنھیں وہ ناپسند کرتے ہیں۔

حسین نقی سمجھتے ہیں:” ممتاز بھٹو کی وزارت اعلیٰ میں سندھی اور اردو بولنے والوں میں دوری بڑھی۔ ان کے اقدامات کے پیچھے بھٹو تھے۔ سندھی گریجویٹ ایسوسی ایشن کی بھٹو نے سرپرستی کی۔ انھیں بہت ساری نوکریاں دیں۔ سندھی کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیا گیا جس سے ساری فضا تعصب پر مبنی ہوگئی تھی، رئیس امروہوی جیسے میچور لوگوں نے بھی ”اردو کا جنازہ ہے، ذرادھوم سے نکلے“ جیسی بات کی۔ سوال یہ ہے کہ جب سندھی کا جنازہ نکلا تھا، کیا اس وقت ان لوگوں نے احتجاج کیا تھا؟ “

٭ ”نقی صاحب!سندھی زبان کے ساتھ ایسے کب ہوا تھا؟“

” ایوب خان کے دور میں حیدرآباد میں غالباً ٹکا خان سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹربنے اور ان کا بیٹا اسکول گیا تو روتا ہوا واپس آیا کیوں کہ اسکول سندھی میڈیم تھا، اور وہ اس سے پہلے اردو میڈیم میں پڑھتا رہا ہوگا۔ سب مارشل لائ ایڈمنسٹریٹراس پر بڑے پریشان ہوئے تو ڈائریکٹر ایجوکیشن رضی الدین صدیقی نے ان سے کہا کہ صاحب !اس میں پریشانی کی کیا بات ہے، ایک مارشل لاء آرڈر لکھ دیں تو آج سے سندھی کی جگہ اردو ذریعہ تعلیم ہوجائے گی۔ اس پر ٹکا خان نے کہا کہ آپ ہی لکھ دیں، تو پھر رضی الدین صدیقی نے آرڈرلکھا، جس پرسب مارشل لائ ایڈمنسٹریٹر نے دست خط کردیے اور سندھی ذریعہ تعلیم نہیں رہی۔ یہ بالکل غلط ہوا۔ میں اس کے خلاف تھا۔ اس وقت اردو والوں کو اس عمل کے خلاف آوازاٹھانی چاہیے تھی۔ میں نے طالب علم رہنما کی حیثیت سے کراچی یونیورسٹی میں ہمیشہ سندھی چیئر قائم کرنے پر زور دیا کہ جب باقی چیئرز ہیں تو سندھی کیوں نہیں؟ آخر یہ یونیورسٹی سندھ میں ہے۔ ٹیلنٹیڈ کزن بھٹوکی حمایت کے بغیرخود کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ دونوں میں فرق یہ تھا کہ ممتازبھٹوBlatant تھے۔ بھٹو Sophisticated تھے۔ بھٹو دور میں سائٹ میں مزدوروں کی تحریک کو کچلا گیا، دوسرے ملتان میں بھی مزدوروں کو مارا گیا۔ دونوں بڑے افسوسناک واقعات ہیں۔ “

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2