اپنا اور دوسروں کا آسمان وسیع کرنے کی ضرورت


جب ہم لوگ اسکول میں‌ پڑھتے تھے تو ایک آٹو گراف بک خریدی تھی اور جو بھی امپورٹنٹ لوگ لگتے تھے ان سے آٹوگراف لیتے تھے۔ ایک مرتبہ مجیب ماموں‌ ہمارے گھر آئے تو میں نے ان کو یہ آٹوگراف بک دی اور کہا کہ اس میں‌ کچھ لکھیں۔ انہوں نے اس میں‌ اردو کا ایک شعر لکھا تھا جو کہ یوں‌ تھا،

تو ہی ناداں‌ چند کلیوں‌ پر قناعت کرگیا

ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں‌ بھی تھا

معلوم نہیں اس وقت مجھے سمجھ میں‌ آیا ہوگا کہ نہیں لیکن اب آگیا ہے اور اسی بارے میں آج کا مضمون لکھ رہی ہوں۔ آج کے مضمون میں دو باتوں‌ کا ذکر کیا جائے گا۔ ایک تو اپنا آسمان وسیع کرنے کے بارے میں‌ ہے اور دوسرا دوسرے لوگوں‌ کے راستے میں‌ سے ہٹ جانے کے بارے میں‌ ہے تاکہ وہ بھی اپنا آسمان وسیع کرسکیں۔

جب میں‌ چھ سال کی تھی تو ابو کی وفات ہوگئی۔ امی کی عمر صرف 24 سال تھی اور سارے خاندان میں‌ پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔ اس حادثے کی نہ تو کسی نے پیش گوئی کی تھی اور نہ ہی کوئی تیاری۔ بڑے ماموں نے ہمارے لئیے کراچی میں‌ گھر بنایا اور ہمارے لئیے امریکہ کے ویزا بھی فائل کئیے۔ میرے آگے اپنی زندگی کے لئیے دو ہی بڑے پلان تھے۔ ایک یہ کہ ڈاکٹر بن جاؤں اور دوسرا امریکہ چلی جاؤں۔ اس بات کا ذکر کسی سے نہیں‌ کرسکتے تھے کیونکہ پاکستان میں‌ یہ کلچر تھا کہ سب یہی کہتے کہ کیا ضرورت پڑی ہے امریکہ جانے کی، یہاں‌ آپ کے پاس سب کچھ ہے اور پڑھا کر کیا نوکری کرانی ہے؟ آٹھویں‌ کلاس سے میری امی کو سب لڑکیوں‌ کی شادیاں کردینے کے مشورے دینے والوں‌ کی کوئی کمی نہیں‌ تھی۔ حالانکہ ان میں‌ سے کافی لوگ خود اپنے لئیے انہی کوششوں‌ میں‌ مصروف تھے جن کی وہ حوصلہ شکنی کررہے تھے۔ کچھ خود بھی یہی کررہے تھے کہ بچوں‌ کی کم عمری میں‌ شادیاں کرائیں، بہت پیسہ دکھاوے پر خرچ کیا جس سے نہ کسی انسان کی پرسنل گروتھ ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے مستقبل میں‌ کچھ انویسٹ ہوتا ہے، وہ ایک وقتی تفریح سے بڑھ کر کچھ نہیں‌ ہوتا۔  یہ لوگ کہیں‌ ریت میں‌ سر دبا کر زندگیاں‌ گذار رہے ہیں۔

ٹلسا اوکلاہوما میں‌ ایک پاکستانی خاتون سے ملاقات ہوئی جو ہمارے اپارٹمنٹ کامپلیکس میں‌ رہتی تھی۔ ان سے باتوں میں زکر نکلا کہ یو ایس ایم ایل ای کے لئیے پڑھ رہی ہوں اور ریذیڈنسی کریں گے تو انہوں‌ نے کہا کہ یہ پرخلوص مشورہ ہے کہ آپ میڈیسن کا خیال اپنے ذہن میں‌ سے نکال کر انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کام کریں‌ کیونکہ آپ کو ریذیڈنسی کبھی نہیں‌ ملے گی۔ چھ سال امریکہ اور پاکستان کے بیچ میں‌ دھکے کھا کر، اتنی ساری پڑھائی کرنے کے بعد ڈکری لی تھی۔ اس طرح‌ اپنی زندگی کے قیمتی سال لگا کر میڈیسن کو چھوڑ دینے کا خیال بھی تکلیف دہ تھا۔ آگے جو ہوگا دیکھا جائے گا لیکن میں اس احساس کے ساتھ ساری زندگی نہیں‌ گذار سکتی تھی کہ اپنا سو فیصد نہیں‌ دیا اور آخری دروازے تک نہیں گئے۔ بہت سے لوگ دروازہ کھٹکھٹاتے ہی نہیں‌ کیونکہ ان کو خوف ہوتا ہے کہ وہ نہیں‌ کھلے گا۔ میں نے آہستہ آہستہ یہ سیکھ لیا کہ اگر کوئی بھی فیوچر پلانز کے بارے میں‌ کچھ پوچھے، خاص طور پر پاکستانی تو گول مول جواب دے کر ٹال دوں۔

اپنے کلاس فیلو سے جو ایک لائق انسان تھے، شادی کرکے میری زندگی ان خواتین کی نسبتاً اچھی گذری جن کو کم عمری میں ان لوگوں کے پلے باندھا گیا جو ذہنی طور پر ان کے برابر نہیں‌ تھے۔ ان شوہروں کی وجہ سے وہ خود زندگی میں ترقی نہیں کرپائیں۔  جب نوید چھ ماہ کا تھا تو ابھی اس کے ابو کا ویزا نہیں‌ آیا تھا، ہم دونوں‌ لاڑکانہ واپس گئے اور پہلے کی طرح اب بھی نذیر اور میں اکٹھے لائبریری جاتے۔ ایک مرتبہ میں‌ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے گئی۔ اولڈ ہاسٹل میں‌ ساری لڑکیاں حیران پریشان ہوکر ہمیں دیکھ رہی ہیں کہ ایک شادی شدہ ، بچے والی خاتون کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا شادی ہوجانا ایک بالی وڈ مووی کے اینڈ کی طرح ہوتا ہے؟ آپ کسی سے ان کی مڈلائف میں  یہ سوال پوچھیں تو معلوم ہوگا کہ مووی تو اب شروع ہوئی ہے۔ جو انسان جتنا طاقت ور ہوگا وہ اپنی زندگی میں‌ آنے والے مسائل کا اتنے ہی بہتر طریقے سے مقابلہ کرسکے گا۔ ہر فرد اپنی جگہ مضبوط ہو تو اس کا خاندان، شہر اور ملک بھی مضبوط ہوں گے۔ حالیہ صدی میں خواتین نے نہایت تیزی سے ترقی کی ہے اور ان کا ذہن بھی کشادہ ہوا ہے۔ تمام خواتین جن کو اپنے آپ کو بہتر بنانے میں‌، اپنے خاندان کی ترقی میں اور دنیا میں‌ آگے بڑھنے میں‌ دلچسپی ہے، ان کو اپنے نئے ملکوں میں‌ ان ملکوں‌ کے باسیوں‌ کے ساتھ بھی دوست بننا ہوگا۔ اگر آپ چائنا چھوڑ کر ان نئے ملکوں کے چائنا ٹاؤن میں‌ بس جائیں گی تو وہ لوگ آپ کو آگے بڑھنے نہیں دیں‌ گے۔ خود بھی ایسا انسان بننے سے گریز ضروری ہے کہ جن فیلڈز کے بارے میں ہمیں‌ کچھ پتا نہیں ان کے لئیے مفت مشورے دیں۔ جس کو بھی مشورے دینے کا شوق ہو تو کسی دائرے میں مہارت حاصل کرے پھر لوگ آپ کو سوالوں‌ کے جواب دینے کے لئیے فیس بھی دیں گے۔

بہت سارا وقت گذر گیا۔ ہم لوگ باقی دنیا سے کٹ کر اپنے مستقبل بنانے میں‌ جتے رہے، نہ دوستیاں، نہ پارٹیاں۔ میں‌ اور نذیر دو چھوٹے بچوں‌ کے ساتھ پٹسبرگ میں‌ انٹرنل میڈیسن میں ریذیڈنسی کررہے تھے،  پروگرام ڈائریکٹر ڈاکٹر موہن کے ساتھ میٹنگ میں‌ انہوں‌ نے پوچھا کہ آپ ریذیڈنسی ختم کرکے کیا کرنا چاہتی ہیں؟ حالانکہ میرا ہمیشہ سے یہ پکا ارادہ تھا کہ کسی ایک دائرے میں مہارت حاصل کرنی ہے لیکن یہی ان کو کہہ دیا کہ ابھی دیکھ رہی ہوں، کچھ فائنل نہیں ہے، شائد پرائمری کیئر کر لوں۔ تو انہوں‌ نے پٹسبرگ کے آس پاس جو بھی جگہیں تھی ان کے بارے میں‌ مجھے بتایا کہ کہاں پرائمری کیئر کے لئیے اچھے مواقع ہیں۔ یہ سن کر میں‌ نے حیرانی سے ان کو دیکھا تھا اور اس وقت مجھے اچانک یہ بات پتا چلی کہ یہاں پر اگر کسی کو بتائیں کہ آپ کو کہاں‌ جانا ہے تو وہ اپنی طاقت اور معلومات کے مطابق آپ کی رہنمائی کریں‌ گے۔ وہ جان بوجھ کر یا اپنی سادگی میں‌ آپ کا راستہ خراب کرنے کی کوشش نہیں‌ کریں‌ گے۔

دوسرا ڈسکشن پوائنٹ بڑا سوچنے کے بارے میں ہے۔ انگریزی میں‌ ایک قول ہے کہ “دئر از آلویز روم آن دا ٹاپ!” یعنی اوپر ہمیشہ جگہ خالی ہوتی ہے۔ جو بنا لیا ہے، اس کے اوپر اور بھی بنایا جاسکتا ہے اور بہتر بھی بنایا جاسکتا ہے۔ چار دیواروں‌ کے باہر، اپنے گاؤں، اپنے شہر کے باہر ایک بہت بڑی دنیا ہے، مواقع ہر انسان کے سامنے ہیں اور مسائل بھی ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ صرف مریض دیکھنے کے علاوہ بھی میری کئی جابز ہیں جن میں‌ ایک لن انسٹیٹیوٹ میں‌ ریسرچ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک نئی اسٹڈی کررہے ہیں جس کے لئیے آپ کی ٹریننگ کرنی ہے۔ میں کلینک ختم کرکے گئی۔ دوا کے باکس کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی ہوں۔ آخر میں نے اس ٹرینر سے کہا کہ معذرت آج بہت لمبا دن تھا لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ لوگ پہیہ دوبارہ سے کیوں ایجاد کررہے ہیں؟ یہ دوا پرانی ہے، پہلے سے ہر فارمیسی میں‌ موجود ہے، اس کی انڈیکیشن، سائڈ افیکٹ، ڈرگ انٹرایکشن سب پہلے سے معلوم ہیں۔ یہاں‌ کیا نیا ہے؟ انہوں‌ نے کہا کہ یہ اسٹڈی اس لئیے کررہے ہیں تاکہ اس دوا کو پرسکرپشن ڈرگ کے بجائے اوور دا کاؤنٹر بنایا جاسکے اور دیکھا جا سکے کہ عام افراد جن کا میڈیکل کا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں‌ ہے، وہ باکس پر لکھی ہوئی ہدایات پڑھ کر اپنے لئیے درست فیصلہ کرسکتے ہیں‌ یا نہیں۔ یہ سن کر مجھے ان لوگوں‌ پر حیرت ہوئی جنہوں نے یہ آئیڈیا سوچا۔ اس دوا کی کلاس کی ملٹی ملین ڈالر مارکیٹ ہے۔ وہ ساری دنیا میں بکتی ہیں۔ سوچیں‌ کہ اگر پرسکرپشن کی شرط ہٹا دی جائے گی تو لوگ جب چاہیں، فارمیسی میں آکر پیسے دے کر دوا لے جائیں گے، اس سے اس کمپنی کی سیلز کئی گنا زیادہ بڑھنے کا امکان ہے۔ بلکہ اگر اسی کلاس کی دیگر کمپنیوں‌ نے بھی فوری طور پر مقابلہ شروع نہ کیا تو یہ ان کا حصہ بھی نگل لے گی۔ اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کو بغیر ڈاکٹر کی پرسکرپشن کے اس دوا سے کوئی ری ایکشن ہوا تو کیا وہ اس کمپنی پر مقدمہ دائر کرسکیں گے؟ اسی لئیے فوڈ اینڈ ڈرگ کی منظوری کے لئیے اور سائنسی جرنل میں‌ چھاپنے کے لئیے اس ریسرچ پراجیکٹ میں انویسٹمنٹ کرکے نمبروں‌ سے اسی بات کو ثابت کیا جارہا ہے کہ ایک عام آدمی جس کا میڈیکل کا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں‌ تھا، انہوں‌ نے باکس پر لکھی ہدایات پڑھ کر اپنے لئیے درست فیصلہ کیا اس لئے کسی بھی فرد کے غلط فیصلے کی کمپنی زمہ دار نہیں ہوگی۔

جب لوگوں کی گفتگو سنیں جیسا کہ مغرب کی بھیانک سازشیں تو ان کے بچکانہ پن پر ہنسی آتی ہے۔ سب سے بھیانک کام تو یہ لوگ خود اپنے لئیے کررہے ہیں۔ ساری الٹی باتوں‌ پر سارا دھیان ہے جن کا اس دنیا کے حقیقی مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں‌ ہے۔ اس طرح‌ کے لوگوں‌ کی امریکہ میں‌ بھی کمی نہیں ہے۔ ہماری بک کلاس کے ایک ممبر نے اپنی بہن سے پوچھا کہ آج امریکہ کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ تو انہوں‌ نے کچھ دیر سوچا اور کہا کہ “کرسمس پر حملہ”۔ یعنی ان لوگوں‌ کو یہ سمجھ نہیں‌ ہے کہ ونٹر سولسٹس صدیوں‌ سے انسان مناتے آئے ہیں، وہ تیرہ مختلف خداؤں کی برتھ ڈے ہے، جیسس کی نہیں۔ وہ جناح‌ کی بھی اصلی سالگرہ نہیں۔ کرسمس ساری دنیا میں‌ منایا جانے والا سب سے پاپولر تہوار ہے، اور کوئی کرسمس منائے یا نہیں اس سے دنیا پر کچھ اثر پڑنے والا نہیں ہے، ونٹر سولسٹس، نوروز، ایسٹر، پٹاخے کسی نہ کسی شکل میں‌ چلتے رہیں‌ گے۔

جب نوید کو ریگولر چیک اپ اور ویکسین لگوانے کے لئیے پیڈیاٹرک کلینک لے کر گئی تو ایک ریذیڈنٹ ڈاکٹر نے اس کو چیک کیا، اس کے کان میں جھانکا اور کہا کہ کیا آپ اس کے لئیے کیو ٹپ استعمال کررہی ہیں، تو میں‌ نے اس کو کہا کہ نہیں کان میں‌ مائگریٹری ایپیتھیلیم ہوتی ہے اور ویکس خود بخود باہر آجاتی ہے اس لئیے چھوٹے بچوں‌ کے کان کی گہرائی میں‌ کیو ٹپ ڈالنا مناسب نہیں۔ آپ کا میڈیسن کا بیک گراؤنڈ ہے؟ اس نے کہا اور نوید کو مزید توجہ دی۔ نوید میں‌ اور ان بچوں‌ میں‌ کیا فرق ہے جو بغیر چپل کے باہر چیزیں‌ بیچتے ہیں؟ یہ فرق اس کی ماں‌ ہے۔ یہ بات جتنی جلدی لوگ سمجھ لیں اتنا ہی ان کے لئیے اچھا ہے۔

دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے ہم دیکھتے ہیں‌ کہ جو قومیں یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے پاس تمام جواب ہیں اور ان کی تعلیم مکلمل اور پہلے سے پرفیکٹ ہے جس میں کسی بہتری یا اضافے کی گنجائش نہیں، ان کی ترقی رک جاتی ہے۔ اس لئے ہم سب کو روزانہ کچھ نیا اور کچھ بڑا سیکھنا اور کرنا ہوگا۔اپنے بچوں کو، اپنے رشتہ داروں‌ کو، پڑوسیوں‌ کو اور اپنے دوستوں‌ یا ملک کے باسیوں‌ کو جان بوجھ کر یا اپنی سادگی میں‌ پیچھے رکھنے کے بجائے ان کو آگے بڑھنے میں مدد کرنا ہوگی۔

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا

ورنہ گلشن میں‌ علاج تنگی داماں بھی تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments