ہمارے زمانے کے اردو ادیب


پطرس مرحوم نے یہ مقالہ 1945ء میں پی ای این کے سالانہ اجلاس منعقدہ جے پور میں پڑھا تھا۔ اس میں انھوں نے اردو ادب کے جدید دور یعنی اقبال کے فوراً بعد کے زمانے کو موضوع بنایا تھا اور اپنے مخصوص چبھتے ہوئے انداز میں اس پر رائے زنی کی تھی۔ اس مضمون کی اصل خوبی تو ان کی انگریزی انشاء پردازی ہے جس کا اردو ترجمہ وہ خود ہی کرتے تو کرتے۔ زیر نظر ترجمہ محض اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بھی جو انگریزی سے زیادہ واقف نہیں، ان کے انداز نظر اور جدید اردو ادب کے بارے میں ان کے نقطہ خیال سے واقف ہو جائیں۔ 

چونکہ پطرس مرحوم کااپنا تعلق اس دور کے ادب سے دو گونہ تھا۔ نئے ادیب کی حیثیت سے اور اس سے بھی زیادہ نئے ادیبوں کے استاد کی حیثیت سے۔ اس لیے اس مقالے کی ’’معروضیت‘‘ اور ’’بے لاگ مطالعہ‘‘ شاید عجیب معلوم ہو۔ پطرس نے اپنے نوجوان ساتھیوں کو ایک پہاڑی پہ چڑھ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے (یہ الگ بات کہ دو ایک عزیزوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں) اور ان پر ہلکی ہلکی کنکریاں بھی پھینکی ہیں۔ ممکن ہے آپ اس مضمون کو محض تبرک سمجھیں مگر واقعہ یہ ہے کہ چند ایک ٹکڑے اس میں ہر لحاظ سے اچھے ہیں۔ (مترجم: مظفر علی سید)

***   ***

گیارہ سال پہلے جب اقبال اپنے اسلاف سے عالم بالا میں جا کر ملے تو دور و نزدیک کے زمانوں سے کئی ایک دوست ان کے گرد اکٹھے ہوئے۔ غالب اور میر، حالی، شبلی اور گرامی، حتیٰ کہ نظیری، رومی اور حافظ بھی۔ چنانچہ گفتگو روانی سے ہونے لگی۔ کچھ لمحے گو مگو کی حالت میں بھی گزرے۔ مثلاً جب خودی کے مسئلے پر ایک عالمانہ بحث رومی اور اقبال کے درمیان شروع ہوئی تو باقی لوگ اونگھنے لگے اور تقدیر امم، پر اقبال کی تنہا کلامی کے دوران میں تو غالب کے خراٹے بھی سنائی دیے۔ مگر مجموعی طو رپر یہ صحبت بے حد سازگار رہی۔ جانے پہچانے اقتباسات ، کتابوں سے یا حافظے سے بازار بلند پڑھے گئے اور شب و روز کی بے زماں لہروں پر حکمت اور ظرافت کا ملاپ ہوتا رہا۔ بہت سے قصے سامنے آئے اور ان میں سے کئی ایک حل نہ ہو سکے۔ اس کے باوجود فہم و بصیرت کے تازہ اور فرح بخش نقش و نگار دریافت ہوئے۔ اقبال قدماء میں سے نہ تھے پھر بھی قدماء کے لیے اجنبی نہ تھے۔ بس ذرا نئے نئے اور بھرپور سے لگتے تھے۔
آج کا نوجوان اردو ادیب ، اگر اس کو اس سفرپر وقت سے پہلے روانہ ہونا پڑے ، اس محفل میں کیسا لگے گا؟ مجھے یقین ہے کہ اس کا استقبال مروت اور شفقت سے کیا جائے گا مگر یہ خوف بھی ہے کہ وہ ذرا کھویا کھویا سا لگے گا۔ قدماء سے اظہار حیا اس کے لیے آسا ن نہیں ہو گا۔ نیا مسافر، اپنے اور ان پیشروؤں کے درمیان ایک بہت بڑ ی خلیج حائل پائے گا جسے پاٹنے کے لیے اس کو کتب خانہ فردوس میں طویل نشستوں کا پروگرام بنانا پڑے گا۔ وہ حالات کی مجبوری سے اپنے اجداد کا جائز ورثہ وصول نہیں کر سکا۔ الاماشاء اﷲ راشد اور فیض، فراق اور فرحت اﷲ بیگ، جوش اور حفیظ۔ ماضی کے ساتھ ان سب کے مراسم اچھے ہیں اگرچہ انھوں نے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ، اپنے آپ کو حال یا مستقبل کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ مگر وہ پیہم کم ہوتی ہوئی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں اور سلف کی ایسی یادگار ہیں جو نجانے پھر کب پیدا ہو۔ ہمارے لکھنے والوں کی اکثریت اپنے آپ روایت سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ مولوی نذیر احمد جو آج سے پچاس برس پہلے کے ناول نگار تھے، انبیاء کے اقوال کو احترام کے ساتھ اور شعراء کے اقوال کوکراہت کے ساتھ نقل کرتے تھے۔ ان کا ویلن انبیاء کو کراہت اور اور شعراء کو لذت کے ساتھ نقل کرتا تھا۔ مگر بات یہ ہے کہ مصنف اور اس کے کردار دونوں میں حوالہ دینے کی اہلیت تھی۔ دونوں نے ادب کی ایک مشترکہ دولت ورثے میں پائی تھی جو اس دور کے ذہنوں میں صاف ترتیب کے ساتھ موجود تھی۔ آج کے اردو ناول نگار میں اور اس کے ہیرو میں کوئی بات مشترک ہے تو یہ ہے کہ دونوں کوئی قول نقل نہیں کر سکتے۔ یہ نہیں کہ وہ پڑھتا نہیں۔ وہ بلا نوش قسم کا قاری ہے مگر ولایتی ناشروں کی چھاپی ہوئی ’’بہار کی فہرستیں‘‘ ’’خزاں کی فہرستیں‘‘ اور سمندر پار کے ایڈیشن کچھ ایسے تسلسل کے ساتھ چلے آتے ہیں کہ نہ چننے اور چھاپنے کی فرصت رہ جاتی ہے نہ کسی چیز کو دوبارہ پڑھنے کی۔ ہمارے دور کا نصاب بھی الجھا ہوا ہے اور پیچھے مڑکے دیکھنے کی تو تحریک ہی پیدا نہیں ہوتی۔ ہمارے زمانے کے اردو ادیب کا مستقبل ہو تو ہوماضی کوئی نہیں۔
اس قطع تعلق کی وجوہات گونا گوں اور پیچیدہ ہیں۔ اوپری نظر سے دیکھیں تو یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمارے ادیب نے جس نظام تعلیم کے تحت نشوونما پائی ہے۔ یہ سب اسی کا قصور ہے۔ رسمی تعلیم پیچھے پچاس ایک سال میں، شرافت اور (یاتقدس کے اس قدیم تصور سے دور ہٹ گئی ہے جو طالب علم کو اس دنیا اور )یا اس دنیا کے لیے انبیاء شعراء کی مناسب مقدار کی مدد سے تیار کرتا تھا۔ پرانے مسلمات غائب ہو چکے ہیں اور اس کے ساتھ انبیاء و شعراء بھی، یہی ایک کارنامہ ہے جو ہمارے نظام تعلیم نے سر انجام دیا ہے۔ باقی اس عرصے میں ہماری تعلیم ایک نئے تصور کی تلاش میں جو پرانے تصور کی جگہ لے سکے تجربوں یا ٹامک ٹوئیوں کا ایک سلسلہ ہے اور یہ ٹامک ٹوئیاں اب بھی جاری ہیں۔
مگر یہ خیال پوری طرح صحیح نہیں۔ بنیادی وجوہ اس سے کہیں زیادہ گہری ہیں۔ دنیا بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور لکھنے والا بھی نئی نسل کی طرح اس بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کو محسوس کرتا ہے۔ اس نصف صدی میں بہت سے بند اور پشتے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں۔ روایتی اقدار جو معاشرے کو بقا اور استحکام بخشتی تھی، اسی وقت تک کار آمد تھیں جب تک معاشرے کا ناک نقشہ درست تھا۔ ناک نقشہ پھیل پھیل کر یوں متزلزل ہو گیا ہے۔ جیسے پانی کی سطح پر تیل کے لہریے۔ قدیم معاشرے سے اس کا کوئی ربط نہیں کیونکہ قدیم معاشرہ باقی نہیں رہا۔ وہ اپنے آپ کو ایک نئے اور ہر لحظہ بدلتے ہوئے معاشرے میں کھڑا ہوا دیکھتاہے جس سے مربوط ہونا اس کے لیے لازم ہے۔ اگر وہ بالکل ہی کٹ کے رہ جانا نہیں چاہتا۔ وہ پوری طرح اس کاشعور رکھتا مگر یہ بات اس کو معلوم ہو چکی ہے کہ پچھلی نسل نے اس کو کچھ نہیں دیا۔ نئی دنیا میں کوئی مناسب مقام اس کو حاصل کرنا ہے۔ ماضی کی کئی چیزیں اس کو ایسا کرنے سے روکتی ہیں اور وہ ماضی مردہ باد کا نعرہ لگاتا ہے۔ اس لیے نئی پود کاسب سے بڑا تقاضا بغاوت ہے، رسم و رواج کے خلاف قوت اور اختیار کے خلاف، والدین اور پولیس کے خلاف۔ وہ قدیم انبیاء اور شعراء دونوں سے دور بھاگتا ہے بلکہ ہر اس چیز سے جو اسے ماضی کی یاد دلائے۔ یہ جنگ کبھی کبھار دھندلی اور غیر واضح سی ہو جاتی ہے اور پرکار کے نقطے آپس میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ مگر خیر ایسا تو ہر جنگ میں ہوتا ہے۔
اردو ادیب کو اپنے ماضی سے قطع تعلق کر کے کم سے کم ایک بڑی قربانی تو دینی پڑی ہے۔ وہ بیک جنبش قلم الفاظ تلمیحات اور حکایات و علائم کے ذخیرے سے جو فن کا مصنف کو نازک اور کار آمد ترین آلات اظہار بخشا ہے، محروم ہو گیا ہے۔ لفظ محض چند آوازوں اور لکیروں کا نام نہیں جو مٹ جانے کے بعد پھر پیدا کی جا سکیں۔ ان میں ہمارے پیشروؤں کی جذباتی وارداتیں اور نفسیاتی مشاہدات مضمر ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک، انسانی تجربے کے طیف میں ایک خط کا حکم رکھتا ہے۔ اگر طیف کا ایک خط گم ہو جائے تو ہم اس کی جگہ دوسرا خط نہیں کھینچ سکتے، اسی پہلے خط کو پھر سے دریافت کرنا پڑے گا۔ آج کے لکھنے والے کو اس وجہ سے نئی چیزوں کو نئے نام دیتے ہیں۔ اسے ان چیزوں کو جو پہلے معلوم و محسوس تھیں پھر سے جاننا اور پہچاننا ہے۔ ماضی سے دست بردار ہو کر اس نے اپنی تحقیقی شخصیت پہ ایک بوجھ ڈال دیا ہے جس سے اس کی فنی مشکلات دو چند ہو گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس کو بیک وقت نازی اور اکھڑ، واضح اور دھندلا، گومگو میں گرفتار اور ہزار معنوں میں مضطرب دیکھتے ہیں۔ لفط جن سے اس نے پہلو تہی برتی تھی اب اس سے پہلو چراتے ہیں۔ (سر) ڈپنی سن روس نے جو اس بات سے واقف تھے کہ زندہ زبانوں میں تلمیحات اور حوالوں کا ایک ذخیرہ مخفی ہوتا ہے جسے تعلیم یافتہ افراد اپنا کر اپنی تحریر و تقریر میں رنگ اور زور پیدا کرتے ہیں، چند سال پہلے ایک کتاب کی صورت میں انگریزی زبان کے پس منظر کا نقشہ کھینچا تھا۔ ادبی حوالوں کے زیر عنوان انھوں نے بائبل کے مستند ترجمے کا شیکسپئر کا بچوں کے گیتوں کا تذکرہ کیا تھا اور ’’انگریزی روایت‘‘ کے تحت قومی تہوار معروف شخصیتوں کے القاب و خطابات اور مشہور اشتہارات گنائے تھے۔ حتیٰ کہ ایک جز ’’گھس پٹے جملوں‘‘ پر بھی لکھا تھا۔ آج سے پچاس برس پہلے، اسی انداز سے، اردو کا ناک نقشہ کتنی آسانی سے بیان ہو سکتا تھا!اور آج یہ کام کتنا مشکل ہے!
اردو ادیب کو یہی ایک مشکل درپیش نہیں۔ وہ دو زبانیں پڑھتا اور بولتا ہے اور جب یہ دو زبانیں اردو اور انگریزی کا سا وسیع اختلاف رکھتی ہوں تو یہ خرابی کتنی بڑی خوبی بن جاتی ہے۔ علماء اور ماہرین تعلیم، تاریخ اور تجربے کی مدد سے کئی ایک ناقابل تردید دلائل پیش کر کے ارشاد کریں گے کہ دو زبانوں کی مہارت بہت بڑی نعمت ہے۔ بین الاقوامیت کے قائل یہ کہیں گے کہ ہر بیرونی زبان دو گونہ رحمت ہے، اس ملک کے لیے جس کی وجہ زبان ہے اور اس کے لیے بھی جس نے اسے اختیار کیا۔ ان کاارشاد بجا ہے کیونکہ ہر نئی زبان ذہن میں ایک نیا دریچہ کھول دیتی ہے اور کون ہے جو روشنی کو پسند نہیں کرتا۔ انسانوں کی اکثریت کے لیے اس کے اثرات خوشگوار ہوں گے مگر افسوس کہ لکھنے والے کو اپنا دماغ ہی روشن نہیں کرنا، کچھ اوربھی کرنا ہے۔ اظہار خیال اس کا فرض ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ایک وقت میں ایک ہی زبان کے ذریعے۔ چاہے کتنی زبانوں سے اس نے ذہنی غذا حاصل کی ہو ذہن تو اس کے پاس ایک ہی ہے۔ ایک دریچہ سبز ہے تو دوسرا سرخ مگر ذہن میں یہ دونوں رنگ آرام سے ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو اور ایک دوسرے سے جدا نہیں رہ سکتے۔ وہ آپس میں گھل مل کر ایک تیسرے رنگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو ایک دریچے کے پاس ذرا زیادہ سبز ہے اور دوسرے کے پاس ذرا زیادہ سرخ مگر نہ تو کہیں پوری طرح سبز ہے اور نہ پوری طرح سرخ۔ یہ لطیف اور پر اسرار روشنی اس کے لیے باعث نشاط بھی ہو سکتی ہے اور باعث فخر بھی۔ مگر اس ملی جلی روشنی کو سبز یا سرخ فلٹر میں سے اپنے اصلی رنگ میں گزارنا کتنا مشکل ہو گا۔ایک لحاظ سے یہ کہنا درست ہے کہ دو زبانی ادیب اپنے دل کی بات آپ سے کہہ سکتا جب تک کہ دونوں زبانیں استعمال نہ کرے۔ مگر اس صورت میں بھی ایک دقت ہے۔ اس کا ذہن کسی واضح شکل میں ہمارے سامنے نہیں آتا بلکہ ذہن کی دو لہریں یکے بعد دیگرے پیہم ابھرتی ڈوبتی دکھائی دیتی ہیں۔ اگر اس کو ایک زبان کا پابند کر دیا جائے اور پوری بات کہنے کی مجبوری بھی ہو تو نیم واضح اور بے ربط و مہمل قسم کی گفتگو سننے میں آئے گی۔ اس کی تحریر کی بنت میں آپ کو عجیب قسم کے خم و پیچ نظر آئیں گے اور ابہام و اشکال کی کئی صورتیں ملیں گی اور سب سے بڑھ کر، انگریزی ساخت کے جملے بے ڈھنگی اردو میں ملبوس دکھائی دیں گے جن کو دونوں زبانوں کے ماہرین ہی سمجھ سکیں گے۔ زبان ایک نازک اور لطیف آلہ اظہار ہے جسے فن کار بڑی مہارت سے برتتا ہے۔ مگر یہ دوغلی زبان معنی کے گرد طواف کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی اور گونگے کے اشاروں سے زیادہ قابل فہم نہیں ہوتی۔ لفظ اپنے معنوں کو ساتھ لے کے نہیں چلتے بلکہ محض دور سے ان کی طرف اشارہ کر کے رہ جاتے ہیں۔ جب احساس شکست قوی ہوتا ہے تو اردو کا ادیب اردو کو چھوڑ کے انگریزی میں لکھنے لگ جاتا ہے مگر فلٹر سبز ہو یا سرخ مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے۔
ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ہمارا ادیب اپنے آپ کو ایک نئے معاشرے میں گھرا ہوا دیکھتا ہے۔ یہ معاشرہ اس کے فہم و بصیرت کی حدوں سے بڑھ کر وسیع اور پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ اس کے اسلاف کے تجربے اور مشاہدے سے ماورا ہے۔ اور اسی وسیع و عریض حقیقت سے اس کو موافقت پیداکرنا ہے تاکہ تکمیل اور استحکام حاصل ہو۔ جب تک یہ موافقت پوری نہیں ہوتی وہ بڑے پرجوش اضطراب کے ساتھ کسی نہ کسی طرز کی محفل بنا کے بیٹھ جائے۔ اسی اضطراب کی وجہ سے اس زمانے کے اکثر ادیب ایک نہ ایک انجمن یا حلقے سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ اور ایک دوسرے کی تصانیف پر دیباچے اور پیش لفظ لکھتے رہتے ہیں۔ آج سے پہلے شاید ہی کبھی ہمارے ادیبوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے، محفلیں انجمنیں اور حلقے بنانے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ یہاں ادارے کتنی ہی سنجیدگی اور خلوص سے کیوں نہ وجود میں آئے ہوں، معاشرہ سازی کی جعلی اور جنونانہ کوششوں کا نتیجہ ہیں اور ادیب کو ان آوارگیوں اور سیاحتوں کی قیمت اپنے تخلیقی جوہر سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ ان غیر واضح قسم کی حرکتوں سے اس کا مدعا یہ ہے کہ زندگی کے ’’کل‘‘ کو پا لے اور چونکہ برون خانہ سے اس کا ربط قائم نہیں ہوا۔ اس کو درون خانہ میں تلاش و تجسس سے کام لینا پڑتا ہے۔ مگر اس تلاش کے دوران میں زندگی کا کاروبار ملتوی ہوتا رہتا ہے اور جب تک کوئی زرخیز زمین ملے زندگی کا رس خشک ہو جاتا ہے۔
پی۔ای۔ این کی سترھویں سالانہ مجلس میں تقریر کرتے ہوئے آرتھر کیسٹلر نے بتایا تھا کہ تور گنیف کیسے لکھتا تھا۔ اپنے پیروں کو گرم پانی کی بالٹی میں ڈالے ہوئے وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتا تھا۔ یہ گرم پانی کی بالٹی، کیسٹلر نے یہ بھی کہا تھا کہ باہر کی دنیا ادیب کے دل میں ایک زبردست خواہش کو جنم دیتی ہے۔ یعنی یہ کہ کھڑکی بند کر کے بیٹھ جائے اور اپنے تخلیقی سر چشمے پر اکتفا کر لے مگر اس کے علاوہ بھی ایک خواہش پیدا ہو سکتی ہے۔ باہر کی ہوا، دباؤ ڈالنے کی بجائے اس کو باہر بھی کھینچ سکتی ہے تاکہ وہ گر م پانی سے اپنے پیر نکال کر کھڑکی پر جھک جائے۔
ہمارے اردو ادیب کو بازار کے واقعات سمجھنے یعنی مشاہدہ اور مرکزیت پیدا کرنے کی ضرورت کچھ اس شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ اس کو اکثر و پیشتر کھڑکی پر جھکا دیکھ کر ہمیں حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ باہر منظر اس کے لیے اتنا دلفریب ہوتا ہے کہ وہ چیخنے چلانے سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔ وہ لکھنے کی میز پر واپس نہیں آتا اور گرم پانی پڑا پڑا ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اس کے سامنے ایک نئی دنیا ابھر آتی ہے۔ دیکھنے اور سمجھنے کے لیے بے شمار چیزیں ہیں اور چھانٹنے کے لیے بے پناہ مسالہ ہے۔ اس حالت میں اسے عظیم فن پاروں کی توقع بے جا ہے اور یہ امید بھی عبث ہے کہ وہ اپنے پیرگرم پانی میں ڈالے رکھے گا اور گلیوں بازاروں کے ہجوم میں شامل نہیں ہو گا۔ آنے والے فنکار ساتھیوں کو اس کے یہاں مقصد کی سنجیدگی ملے گی اور آگے بڑھ کر دیکھنے اور مستقبل کی تلاش کرنے کی ہمت چاہیے اسلاف کی دعائیں اس کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں۔ اس کی تیز نظری، اضطراب، آگاہی اور بے جگر، نئی راہوں پر چلنے کا عزم اور کچھ کھونے پانے سے اس کی بے نیازی یاد گار رہے گی۔ ہم اس سے بڑا خراج تحسین اس کو نہیں دے سکتے کہ اس کی مشکلات اور مجبوریوں، تکلیفوں اور تعزیروں کو سمجھیں تاکہ اس کی جدوجہد اور ا س کے کارنامے کی بیش از پیش قدر کر سکیں۔ میں نے اس جگہ یہی کرنے کی کوشش کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).