ہندوستانی سکالر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب سے انٹرویو


گذشتہ دنوں معروف ملی قائد ، محقق، مترجم اور متعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب کے ساتھ دلی کے پاس ضلع بلند شہر جانا ہوا۔ مقصد تھا ایک گمنام مگرآئیڈیل شخصیت اور مجاہد آزادی عبدالعلی خان سے ملاقات اور انٹرویو کرنا۔ عبدالعلی خان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروردہ ہیں۔ آزادی سے پہلے اور اس کے بعد کے حالات کو انہوں نے نہ صرف بہت قریب سے دیکھا ہے بلکہ ایک مجاہد کی حیثیت سے اس میں شریک بھی رہے ہیں ۔ آزادی کے بعد انہوں نے لندن کوچ کیا اور وہاں سے ایک انگریزی جریدہ (مسلم نیوز) جاری کرکے پہلی مرتبہ عالم اسلام کے مسلمانوں کی آواز اس پلیٹ فارم سے اٹھانے کے لئے اپنی کوشش کی ، یہ الگ بات ہے کہ کئی سال بعد یہ رسالہ بند ہو گیا لیکن اپنی جرات ، بے باکی اور شاندار تبصروں اور فیچرز کے لئے آج بھی اس کو یاد کیا جاتا ہے۔ وہ انگریزی زبان میں پہلا نیوز میگزین تھا ۔ کئی سال لندن میں نکلنے کےبعد وہ پاکستان منتقل ہوا لیکن جنرل ایوب خان کے عتاب کی وجہ سے اس کے فائننسر باوانی صاحب نے ہاتھ کھینچ لیا اور وہ پرچہ بند ہوگیا اور عبد العلی خان اپنے وطن لوٹ آئے لیکن یہاں ان کو حکومت نے چین سے نہیں رہنے دیا ۔ برسہا برس کی لڑائی کے بعدان کو ہندوستان میں رہنے کی اجازت ملی لیکن ایک غیر ملکی کے طور سے۔ برطانوی شہریت رکھنے کے باوجود پاکستان میں چند سال گذارنے سے وہ بھی “دشمن” کی فہرست میں لکھ لئے گئے اور کئی بار نوبت ہندوستان سے نکالے جانے کی آئی اور بڑی مشکلوں سے ٹلی ۔ اب تقریبا نوے سال کی عمر میں وہ بلند شہر کے قصبے سیانا میں اپنی زندگی کے آخری ایام گن رہے ہیں۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام کا شدید احساس ہے کہ اس غیر معمولی شخصیت سے مسلمانان ہند نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور خود ان کے وطن نے ان کے ساتھ جفا کی ساری حدود پار کردیں۔

ہم جب ان کی رہائش گاہ پہونچے تو وہ بستر پر دراز تھے اور طبیعت بھی خراب تھی ۔ معلوم ہوا کہ کچھ دنوں قبل ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے معذور تھے ۔ حوائج وغیرہ کے لئےبھی انھیں دوسروں کا سہارا لینا پڑرہا تھا ۔ ایسے میں مناسب نہیں تھا کہ مزید ان کو زحمت دی جائے ۔ اس لئے آئندہ کے لئے انٹرویو کے پروگرام کو ملتوی کرتے ہوئے ہم وہاں سے واپس چلے آئے۔البتہ موقع کو غنیمت دیکھتے ہوئے میں نے مناسب جانا کہ اس موقع سے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب کا ہی انٹرویو کیوں نہ کرلیا جائے۔ وہ نہ صرف اپنی علمی ،ادبی اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ایک شناخت رکھتے ہیں بلکہ اپنے علم اور فضل کی وجہ سے ایک بڑے حلقے میں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ ایسی شخصیتوں کی زندگی میں بہر حال سبق کے بہت سے پہلو مضمر ہوتے ہیں ۔ اس خیال کا آنا تھا کہ میں نے اپنے موبائل کا ریکارڈر آن کیا اور ڈاکٹر ظفرالاسلام سے سوالات کرکے ان کی زندگی کے کئی گوشوں کو ٹٹولنے کی کوشش کی۔

جس چیز کو “انٹرویو” کہتے ہیں، اس انداز سے یہ انٹرویو نہیں لیا گیا ۔ اس کے لئے پہلے سے نہ تو کوئی تیاری کی گئی تھی اور نہ ہی اس کا کوئی ارادہ ہی تھا ۔ لیکن ان سب کے باوجود اس انٹرویو کی اہمیت اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ انٹرویو چلتی ہوئی گاڑی میں ریکارڈ کیا گیاہے ۔ قارئین کو اس انٹرویو سے اندازہ ہوگا کہ ایک شخص کو شخصیت بننے میں کن طویل اور دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔کیا ایک شخص ماں کے پیٹ سے ہی سیکھ کر جنم لیتا ہے ، یا پھر اسکی محنت، جد وجہد اور آرزواس کو کہیں پہونچاتی ہے؟

اگرچہ یہ منتشر سوالات کے منتشر جوابات ہیں لیکن پھر بھی ان میں بہت کچھ ایسا ہے جس سے ہم ہمت اور حوصلہ لیکر آگے کے مراحل طے کر سکتے ہیں ۔ یہ انٹرویو خصوصا مدارس سے فارغ طلباء کے لئے دلچسپی کی چیز ہے ۔ اس انٹرویو کے ذریعے قارئین کو اندازہ ہوگا کہ ایک شخص کس طرح خار دار جھاڑیوں ، رویوں اور راہداریوں کو پار کر تے ہوئے اپنا مقام بناتا ہے ۔ تو آیئے بات چیت کو سنتے ہیں۔

محمد علم اللہ
نئی دہلی


سوال: ہندوستانی تعلیم اور بیرونی تعلیم کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور دونوں میں آپ کو کیا فرق نظرآیا؟

جواب: بہت فرق ہے ۔ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے ۔ ہندوستان کی تعلیم میں علم کو ٹھونسا جارہا ہے یعنی سمجھنے اور غور و فکر کرنے کے بر عکس طلبہ کورٹّوبنایا جارہا ہے۔ بس یاد کرلو ، امتحان پاس کر لینا ، پھر بھول جانا ۔ باہر ایسا نہیں ہے ۔ طلبہ کو ہر چیزسمجھنی پڑتی ہے اور آپ ایک بار کسی چیز کوسمجھ لیں تو زندگی بھر اسکو بھولیں گے نہیں ۔ پریکٹیکل پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔ ہر طالب علم کو ذاتی اٹنشن ملتا ہے۔ ایک کلاس میں بہت زیادہ طالب علم نہیں ہوتے ہیں بلکہ ایک استاد کے ذمے چھوٹی چھوٹی کلاسیں ہوتی ہیں ۔ ہال یا کمرے پوری طرح بھرے نہیں ہوتے ۔ مصر میں بھی ہمارے یہاں والی حالت ہے ۔ وہاں بھی ہال بھرے ہوتے ہیں لیکن انگلینڈمیں حالات بہت مختلف ہیں ۔ وہاں ذاتی اٹنشن ملتا ہے اور ہر طالب علم کافی استفادہ کر سکتا ہے ا گرکرنا چاہے ۔ نہیں کرنا چاہے تو الگ بات ہے، اس کا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے جو لوگ انگلینڈ وغیرہ سے پڑھے ہوئے ہیں ان کے دماغ کھل جاتے ہیں، و ہ صحیح اور غلط کو سمجھنے کی تمیز اور معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، صحیح مشورہ دے سکتے ہیں ، صحیح نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اندر غور وفکر کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ہمارے یہاں ہندوستان میں یہ حالت ہے ، اور وہ مصرمیں بھی ایک حد تک ہے ،کہ جو بات کہہ دی گئی اس کو اندھے بہرے ہوکے قبول کرلو ۔ انگلستان میں ایسا نہیں ہے بلکہ وہاں کا استادآپ سے کہتا ہے کہ خود فیصلہ کرو،دماغ استعمال کرو، صحیح ہے غلط ہے تم فیصلہ کرو، ہم نہیں کریں گے۔ہمارے یہا ں معاملہ بالکل الٹا ہے ۔اسی وجہ سے ہمارے یہاں قائدانہ صلاحیت والی شخصیتیں نہیں نکلتیں۔یہاں اس کو پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے۔ لیکن وہاں کا نظام دوسرا ہے ۔وہاں شخصیت اور غوروفکر کوابھارا جاتا ہے ۔اور جن کے اندر خاص صلاحیت نہیں ہے ان کا حل بھی نفسیاتی تجزیہ کے ذریعے نکالا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے وہ سب طلبہ بعد میں اپنے اپنے میدان میں بہت نمایاں رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں ہزاروں کی کھیپ مدارس اور یونیورسٹیوں سے نکل رہی ہے لیکن شاذونادر ہی ان میں سے ایک دو ایسے نکلتے ہیں جوکہ واقعتا اپنے علم پر دست رس رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگ اسی وقت نکلیں گے جب آدمی کا دماغ کھل جائے گا۔ جب آدمی کا دماغ بند ہو، اس سے آنکھ بند کرکے جو بھی کہا جارہا ہو قبول کرنے کو کہا جائے تو اس کا دماغ کبھی کھلے گا ہی نہیں ۔

سوال: اچھا یہ بتائے کہ ہندوستان میں آپ نے جو کچھ بھی پڑھااور باہر بھی پڑھائی کی تو ہندوستان کی تعلیم کس حد تک آپ کے لئے کارآمد ثابت ہوئی ، آپ نے اپنی ابتدائی زندگی کا ایک حصہ ہندوستان کے مختلف مدارس میں گذارا تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ ہندوستان کے مدارس میں یا ہندوستان میں آپ نے جو کچھ سیکھا وہ کس حد تک آپ کی زندگی میں کار آمد رہا۔آپ نے کتنا اس سے فائدہ اٹھایا؟

جواب: یہاں بھی جو علم ملتا ہے وہ بہر حال کہیں جا کے فٹ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ بالکل بیکار ہوتا ہے۔، ہم نے یہاں عربی پڑھی ، فقہ پڑھی اور نحو پڑھی۔ ان سب کا فائدہ ہے۔ لیکن میرا مقصد کہنے کا یہ ہے کہ جو بھی ہے اور جو انسان اس تعلیم سےبنتا ہے وہ مجموعی طور سے کامیاب نہیں ہوتا ہے۔ انسان سازی نہیں ہوتی ہے ۔فارم کوئی بھر دیا، امتحان دے دیا، سرٹیفکٹ لے لیا اور نوکری کرلی ۔۔۔ بس اسی پر بات ختم ہو جاتی ہے ۔ نوکری کر لینا مقصد کبھی نہیں ہونا چاہئے بلکہ جس میدان میں بھی آدمی کام کرے اسے قائدانہ ہونا چاہئے ۔ آدمی چاہے جو بھی کام کرے اسے بہترین ہونا چاہئے۔ میں تو کہتا ہوں موچی بھی ہو تو اس کو بہترین موچی ہونا چاہئے ۔ آدمی کسی قسم کا کاریگر ہو تو اسے اپنے پیشے میں بہترین ہونا چاہئے۔ اسکا بہت احترام ہوگا اپنے میدان میں۔ یوں ہمیں اپنا مقام بنانا چاہئے ۔ کسی عالم یا مفتی میں جب تک اخاذ اور اجتہادی کیفیت نہیں پیدا ہوگی ،وہ خالی ایک ٹٹو بن کے رہے گا۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں یہاں ، کوئی مسئلہ آیا فوراََ جاکر کے کوئی پرانی صدیوں پہلے لکھی گئی کتاب کھول کے دیکھتے ہیں ۔ اب وہاں پہ نئے مسائل کے بارے میں لکھا تو ہے نہیں۔ ایسے مسائل تھے ہی نہیں اس زمانے میں تو وہاں پہ کیسے لکھا ہو گا ۔ لیکن اگر انہوں نے علوم پر تمکن حاصل کرلیا ہوتا اور شریعت کی روح سے آشنا ہوگئے ہوتے تو یقیناًکوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے۔

سوال: میں یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ طلبہ ہندوستان کے مدارس میں اتنا عرصہ گذارتے ہیں اور انھیں عربی کی تعلیم اتنی پختہ دی جاتی ہے، لیکن آج تک کوئی ایسا نام نظر نہیں آتا جو کوئی بہت بڑا ادیب یا صاحب قلم ہوا ہو ۔ ادھر آزادی کے بعد تو بالکل خلا نظر آتا ہے ۔ جب کہ اسی طرح کے طلبہ جب باہر جاتے ہیں تووہ بہت کچھ کرتے ہیں عربی میں ۔ ان کی لکھنے کی صلاحیت بھی ہوجاتی ہے اور عربی میں ان کی استعداد اتنی اچھی ہوجاتی ہے کہ وہ لکھ اور بول سکتے ہیں ۔ ہندوستان میں اس طرح کیوں نہیں ہوپاتا ہے؟ کیا کمی ہے ؟ کیا ہمارے مدارس میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ اس لائق نہیں ہے کہ ان کے اندر استعداد پیدا کرسکے؟ کچھ تو ہے ! آپ کیا سمجھتے ہیں ؟۔

جواب: ہمارے مدارس میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ طلبہ پرانے نصوص کو سمجھنے لگیں ۔ تو یہ ہوجاتا ہے ۔ صحیح ہے یہ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ کہ طالب علم قادر الکلام ہوجائے ، خود لکھنے کے لائق ہوجائے ، خود ایسی عربی لکھے جو کہ دوسرے لوگ سمجھیں، ایسی عربی بولے جس کو دوسرے لوگ قابل قدر نگاہ سے دیکھیں ۔ تو یہ نہیں ہوتا ہے، اس لئے کہ اسکے لئے ان کواس کے لئے تیار ہی نہیں کیا گیا ۔آج جدید سے جدید جو کتابیں آپ کے یہاں پڑھائی جاتی ہیں وہ بھی پچاس ساٹھ ستر سال پرانی ہیں ۔ زبان بدلتی رہتی ہے ۔ مروجہ عربی زبان بھی بدلتی رہی ہے ۔قرآن شریف نہیں بدلا،لیکن عربی زبان جو کہ عام انسان آج استعمال کرتا ہے اورلکھتا ہے یا جو کتابوں میں لکھی جاتی ہےیا اخبارات میں یا مجلات میں لکھی جاتی ہیں وہ روز بدل رہی ہے۔ نئے الفاظ ،نئی تراکیب ، نئی تعبیرات روزانہ آتی رہتی ہیں ۔ اگر آپ اس سے واقف نہیں ہونگے توکیسے کوئی قائدے کی عربی لکھیں گے یا پڑھیں گے یا سمجھیں گے۔؟ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے علماء ایسی عربی لکھتے ہیں جو وہ خود ہی سمجھتے ہیں ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ پرانے نصوص وغیرہ پر ہمارے علماء کی جو دسترس ہے وہ شاید عام عربوں میں بھی نہیں ہے۔ قدیم عربی شعر اور قدیم عربی ادب آج کے عام عرب نہیں سمجھ پائیں گے،لیکن ہمارے مدارس میں اگر کسی نے ٹھیک سے تعلیم حاصل کر لی ہے تو بآسانی انھیں سمجھ سکتا ہے،اس لئے کہ ہمارا کل منشا یہی یہ ہے کہ اتنی عربی پڑھ لو کہ قرآن پاک اور قدیم فقہی کتب سمجھ پاؤ۔ اس کو بدلنا چاہئے ۔ یہ علم بھی مطلو ب ہے لیکن آج کی عربی بھی مطلوب ہے ۔ آج کی عربی میں ہم اگر اپنی بات نہیں کہہ سکتے یانہیں لکھ سکتے تو اپنی بات وہاں تک کیسے پہنچائیں گے؟ میرے خیال میں ہمارے طلبہ جو کہ مدارس سے نکلتے ہیں ان کو بہت اچھی اردو بھی نہیں آتی جبکہ اردو ان کی مادری زبان ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اردو بذات خود ایک موضوع کے طور سے نہیں پڑھائی جاتی ہے۔ یعنی جدید اردو ادب، تنقید ، غزل اور شاعری کے نئے رجحانات وغیرہ سے بھی واقف ہوناضروری ہے۔ ہمارے مدارس میں اس پربھی کچھ وقت دینا چاہئے ۔ اردو آج ایک نئی زبان ہے ۔ ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے کیا نئے رجحانات ہیں تبھی جاکر ان کی زبان اچھی بنے گی ۔ ورنہ ان کا نشان قدامت پرستی رہے گا ۔ وہ اردو لکھتے ہیں لیکن اس میں چاشنی نہیں ہوتی،روانی نہیں ہوتی ہے ۔روانی اسی وقت آئے گی جب وہ دوسرے ادب یاجدید لکھنے والوں کی تحریریں پڑھیں گے۔

سوال: مجھے یہ بتائیے کہ آپ کی شخصیت میں رفتہ رفتہ کیسے ارتقاء آیا ہے ۔ مدرسۃ الاصلاح سے آپ ندوۃ العلماء گئے ۔ آج مجھے پتہ چلا کہ آپ نے جامعہ دارالسلام عمر آباد میں بھی کچھ عرصہ گذارا۔اس کے بعد جامعہ ازہر اور قاہرہ یونیورسٹی میں اور پھر مانچسٹر یونیورسٹی میں۔ تو ان چاروں پانچوں جگہوں میں کیسے کیسے آپ میں تبدیلی آئی، یعنی مرحلہ وار ارتقاء،اس کے بارے میں کچھ بتائیے؟۔

جواب: یہ سب چیز اتنی آسان اور مختصر نہیں ہے کہ ایک جملے میں بتا دی جائے ۔ انسان جب کسی جگہ کسی معاشرے میں کئی کئی سال گذارتا ہے، تو اس سے بہت سبق لیتا ہے۔میری حالت تھی کہ مجھے ہمیشہ سے آنکھ بند کرکے کوئی چیز تسلیم کرنے کی عادت کبھی نہیں رہی۔کسی کو بہت زیادہ سر پہ چڑھانے کی عادت بھی کبھی نہیں رہی بچپن سے ۔ اور اسی وجہ سے جب ہم لکھنؤ میں تھے تو ہم کو باغی سمجھا جاتا تھا ۔ اس طرح کی کوئی بات نہیں تھی۔ہمارا صرف یہ مسئلہ تھا کہ آنکھ بند کر کے کسی چیز کو تسلیم نہیں کرتے تھے اورکسی کے سامنے اتنا سر تسلیم خم بھی نہیں کرتے تھے کہ سجدہ کرنے لگیں ۔ احترام الگ بات ہے۔ تو یہ عادت ہمیشہ سے ہماری رہی ہے اس کی وجہ سے فائدے اور نقصانات دونوں ہوتے ہیں۔ لیکن اس بات سے سکون ملتا ہے کہ ہمارا مقصد صحیح ہونا چاہئے۔

دوسری بات یہ کہ مجھے بہت زیادہ فائدہ مصر جانے سے ہوا ۔ مصر کا معاشرہ بہت کھلامعاشرہ ہے ، یعنی open society ہے۔ ان کے یہاں کافی اعتدال ہے ،دوسرے کی رائے کو سننے سمجھنے کی خواہش اور صلاحیت ہے ۔ ہمارے یہاں پر جو تنگ نظری ہے، مسلکی ،مذہبی وغیرہ اسلامی بھی جو ہے ، وہ سب وہاں نہیں ہے۔ یعنی وہاں لوگ بہت معتدل ہیں ۔یہاں تک کہ جن لوگوں کو ہم تنگ نظر کہہ سکتے ہیں وہ بھی ہمارے یہاں کے لحاظ سے بہت معتدل ہیں ۔ اس تجربے کا مجھے بہت فائدہ ہوا ۔مصر کے اس معاشرہ میں، میں سات سال رہا ۔ اور اس عرصہ میں ،میں مصری معاشرے میں بہت گھل مل گیا ۔شایداتنا تو اورکسی ہندوستانی کو نصیب نہ ہوا جتنا کہ مجھے ۔ ہرسطح کے لوگوں سے قریبی تعلقات قائم ہوئے جن میں شعراء بھی تھے ، ادباء و صحافی بھی تھے ، اساتذہ بھی تھے، یہاں تک کہ ایک وزیر بھی تھے یعنی ڈاکٹر حلمی مراد جو پہلے عین شمس یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ، پھر وزیر تعلیم ہوئے ۔ ان لوگوں کے گھروں پر آنا جانا ہوگیا ۔ ان میں ایک بہت بڑے ادیب یحیٰ حقی بھی تھے ، ڈاکٹر مصطفی محمود بھی تھے، شیخ محمد الغزالی ، ڈاکٹر عبد الصبور شاہین بھی تھے ، صحافیوں میں بہت سے لوگ تھے ۔ ان میں میرےجامعۃ القاہرۃ میں ہم سبق ڈاکٹر عبد الحلیم عویس بھی تھے۔ان لوگوں کا بہت بڑا نام آج بھی ہے ۔ ان کی کتابیں جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے ۔ان کے گھروں بھی میں آنا جانا ہو گیا ۔ بعض ادباء وشعراء وصحافی اس وقت نوجوان تھے ، بعد میں بہت مشہور ہوگئے لیکن اس وقت اتنے مشہور نہیں تھے جیسے شاعر حسن توفیق ، شاعر عفیفی مطر جو” سنابل” نامی ادبی پرچہ نکالتے تھے ، نقاد کمال حمدی وغیرہ، وغیرہ ۔اس تجربے سے مجھے کافی فائدہ ہوا جو کہ شاید اگر میں ہندوستان میں ہوتا تو نہ ہوتا ۔ یہاں پہ ہوتا تو تقلیدی قسم کا مولوی نہیں تو مسٹر ہی ہوجاتا، لیکن وہ وسعت نظری اور دماغ کا جو کھلا پن ہوتا ہے وہ نہیں ملتا اگر میں مصر نہیں گیا ہوتا ۔جامعہ ازہر کے کلیہ اصول الدین میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے قاہرہ یونیورسٹی میں چند سال گذارے اور وہیں سے اسلامی تاریخ میں ایم اے کیا جس کے لئے مجھے مصر کی اکسچینج اسکالرشپ دو سال کے لئے ملی ۔ پھر میں نے قاہرہ ریڈیو میں بحیثیت اردو اناؤنسر بھی کام کیا ۔ فروری ۱۹۷۳ ء سے میں نے لیبیا کی وزارت خارجہ میں چھ سال بحیثیت مترجم و ایڈیٹر کام کیا ۔ اس وقت مجھے باقاعدہ ملازمت کی ضرورت ہوگئی تھی کیونکہ ۱۹۷۲ ء کے آخر میں میری شادی ہوگئی تھی اور شادی کے بعد ضرورتیں بڑھ جاتی ہیں اور خود ہندوستان ،میں میرے والدین کو ضرورت تھی۔ اس لئے میں نے لیبیا میں چھ سال گذارے کہ یہ مسئلہ حل ہو حالانکہ وہاں کی سنگلاخ زمین اور بدو معاشرے میں کافی وقت گزارنا مشکل ہے ۔

بہر حال جب لگا کہ گھر پر مسائل کسی حد تک حل ہوگئے ہیں۔ والد صاحب کی کتابیں چھپنے لگی تھیں اور الرسالہ کو چھپتے ہوئے کئی سال ہو گئے تھے ، تو میں اکتوبر ۱۹۷۹ ء میں لندن چلا گیا ۔ گیا تو تھا مزید پڑھنے یعنی پی ایچ ڈی کرنے ،لیکن اس کا زیادہ موقع نہیں ملا کیونکہ مسلم انسٹی ٹیوٹ نے ، جس نے مجھے بلایا تھا، مجھے اپنے کام میں اتنا مشغول کردیا کہ میں ٹھیک سے پڑھائی نہیں کرسکا،حالانکہ کہ میں نے وہا ں مانچسٹر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا تھا۔ میرا موضوع “تصور ہجرت “تھا یعنی مفسرین، علماء حدیث اور فقہاء نے حکم “ہجرت” کو کیسے سمجھا اور اسلامی تاریخ میں اس پر کیسے عمل کیا گیا۔ میں نےکچھ کام کیا لیکن بہت زیادہ نہیں کرسکا ۔برطانیہ میں رہنے سے بہت فائدہ ہو ا۔ مغربی معاشرہ یا انگریزی معاشرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کی خوبیاں ،ان کی محنت ،بچے سے لیکر 80 سال کے بوڑھے سب کو کام کرتے دیکھا ۔ سب محنت کے خوگر ہیں۔ کوئی اس کا انتظار نہیں کر رہا ہے کہ کوئی دوسرا اس کا کام کر دے گا۔ یہ سب چیزیں دیکھ کربہت متاثر ہوا ۔ سال بھر موسم خراب رہنے کے باوجود انکی وقت کی پابندی (Punctuality)ان کے کردار کا پتہ دیتی ہے ۔ سارے دفاتر اور بینکوں کے باہر لکھا ہے کہ 9 بجے کھلے گا تو 9بجے کھلا ہوا ملتا ہے اور ہر کارندہ اپنی سیٹ پر ہوتا ہے، چاہے موسم کیسا بھی ہو۔ موسم ان کا بہت خراب ہے ہمارے لحاظ سے ۔ کبھی خوب بارش ہوتی ہے تو کبھی خوب برف پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمیشہ ہم نے کبھی اور کہیں ایک منٹ کی دیر نہیں دیکھی ۔ اول وقت میں بینک گیا تو کھلا ہو ا دیکھا ۔ ہر کاؤنٹر پر لوگ بیٹھے ہوئے ملے ۔ یہ ایک بار نہیں بلکہ ہر بار ہوا ۔ یہ سب چیزیں میں نے دیکھیں اور ان سے سبق بھی لیا اور ایک حد تک ان کو اپنی زندگی میں برتنے کی کوشش کی ۔ وہ اپنا کام پوری ایمانداری سے کرتے ہیں ۔ انگریز کام چور نہیں ہیں ۔ جو کام ان کو دیا جائے ، اس کو ذمے داری سے پورا کرتے ہیں۔ اس کا تجربہ مجھ کوذاتی طور سے بھی ہوتا تھا کہ اپنے پروفیسر (اڈمنڈ بوزورتھ) کو میں اپنا چیپٹر شام کو دیتا تھا اور وہ اسے اگلی صبح کو پڑھ کر واپس کر دیتے تھے جب کہ ہندوستان میں پرفیسر حضرات سال سال بھر چیپٹر رکھے رہتے ہیں اور مصر میں مہینوں رکھے رہتے تھے ۔ یہ ان پروفیسر کی بات ہے جو عالمی شہرت واہمیت کے حامل ہیں اور انسائکلو پیڈیا آف اسلام کے چیف ایڈیٹر تھے۔ شام کو چیپٹر دینے پر کہتے تھے کہ اگلے دن صبح میری سیکریٹری سے لے لینا ۔ جب میں صبح میں جاتا تھا جو وہ چیپٹر سیکریٹری کے پا س ملتا تھا ۔ یہ تجربہ ہر بار ہوا۔ تو یہ کام کا طریقہ ہے ۔یہ مجھ کو مصر میں نہیں ملا ۔ انگلینڈ میں ہر آدمی اپنا کام ذمہ داری کے ساتھ کر رہا ہے ۔ جب پورا سسٹم ذمہ دار ی کے ساتھ کام کر رہا ہوتا ہے تو سب کچھ ٹھیک چلتا ہے ۔ ایسی قوم اور ایسے ملک کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔

سوال: اچھا ڈاکٹر صاحب !اس کا انکشاف تو آج ہوا کہ آپ نے جامعہ دارالسلام عمر آباد میں بھی تعلیم حاصل کی ہے ۔ وہاں کا تجربہ کیسا رہا؟

جواب : دراصل جب میرے والد صاحب جماعت اسلامی میں تھے تو مولانا جلال الدین عمری صاحب سے بہت متاثر تھے ۔ رام پور میں جماعت کے آفس میں دونوں ساتھ ہی شعبہ تصنیف میں کام کرتے تھے ۔ دونوں کی کرسیاں ایک ہی کمرے میں ساتھ ساتھ تھیں۔ اس تعلق کی وجہ سے والد صاحب نے مجھے جامعہ دار السلام عمر آباد بھیج دیا۔ میں نے ایک سال وہاں زیادہ تر فارسی پڑھی ۔ چھٹی میں رام پور آیا اور جب دوبارہ عمر آباد واپس جانے کا وقت آیا تو میں نے پہلی دفعہ زندگی میں ابا سے مخالفت کرتے ہوئے کہا :میں نہیں جاؤں گا وہاں ، اتنی دور ، بالکل ایک نئی جگہ، زبان الگ ، تہذیب الگ ، جامعہ کے باہر سب لوگ تامل بولتے ہیں ۔ مجھے بھی تامل تھوڑی موڑی آگئی تھی جیسے’’ ٹیا کڑپاّ ‘‘(چائے لاؤ)۔ تامل کی گنتیاں وغیرہ بھی سیکھ لی تھی ۔ لیکن مجھے وہاں بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس لئے وہاں واپس نہیں گیا۔ پھر والد صاحب نے مجھے مدرسہ اصلاح بھیج دیا جو ہمارے اپنے ہی ضلع اعظم گڑہ میں ہے۔ مدرسہ اصلاح میں میں تین سال رہا : عربی کے درجات اول ، دوم اورسوم۔ اس دوران والد صاحب تصنیف و تالیف کے سلسلے میں لکھنؤ آگئے، ندوۃ العلماء کے شعبہ تصنیف وتالیف جس کا نام مجلس تحقیقات ونشریات اسلام ہے۔ اب انہوں نے مجھ کو لکھنؤ بلا لیا ۔ میں مدرسۃ الاصلاح سے درجہ سوم عربی پاس کرکے آیا تھا ۔ یہاں ٹسٹ ہوا ۔ آپ کو معلوم ہے میرا داخلہ کس کلاس میں ہوا ؟ چھٹے میں ہوا اس شرط کے ساتھ کہ عربی نحو (شذور الذہب) اور ایک کسی اور مضمون میں اگلے سال امتحان دوں اور اس کو پاس کر لوں ۔ یوں عربی ششم میں شرط کے ساتھ داخلہ ہو ا۔ عربی کے استاد و ادیب مولانا سعیدالرحمن اعظمی نے میرا ٹسٹ لیا تھا جو اب ندوۃ العلماء کے مهتمم ہیں۔ یوں میں مدرسۃ الاصلاح کے درجہ سوم سے نکل کر ندوہ کے درجہ ششم پہنچا۔

جن دو موضوعات میں مجھے امتحان دینا تھاوہ اگلے سال میں نے امتحان دے کر پاس کر لیا۔ اس طرح سے ہم عربی ہفتم (ساتویں) درجے میں پہنچے ۔ اس وقت ندوے میں عا لمیت سات سال کی ہی تھی۔لیکن مجھے لگا کہ مجھے یونیورسٹی جانا چاہئے ۔ تب تک والد صاحب شاید ندوے سےچلے گئے تھے ۔ یوں ہم نے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ۔ وہاں پر بھی “عالم” ہوتا ہے جو یونیورسیٹی کے بورڈ آف اورینٹل اسٹڈیز کے تابع ہے۔ جیسے اب علیگڑھ مسلم یونیورسیٹی کا بریج کورس ۔ تو اگر لکھنو یونیورسٹی کا عالم اور فاضل پاس کر لیں تو پھر بی اے میں داخلہ ہوجاتا ہے۔عالم اور فاضل دونوں ایک ایک سال کا کورس تھا۔ ہم نے عالم میں داخلہ لے لیا۔ ہم عمر میں بہت چھوٹے تھے اور ہمیں اساتذہ وغیرہ کچھ سمجھتے نہیں تھے۔مطلب کوئی بھاؤ نہیں دیتے تھے ۔ لیکن جب امتحان کانتیجہ آیا تو ہم فرسٹ فرسٹ آئے (ہنستے ہوئے)۔ فرسٹ ڈیویژن اور ٖفرسٹ پوزیشن دونوں ۔اس کے بعد اساتذہ کا رویہ بالکل بدل گیا۔

اس دوران مصر کے جامعۃ الازہر کی اسکالر شپ کی بات آئی تھی ،امریکن یونیورسٹی قاہرہ کی اسکالر شپ کی بات بھی آئی تھی۔ ان دونوں میں ہم نے درخواست دیدی ۔ اور ان میں دونوں میں ہمارا سیلیکشن ہو گیا ۔ لیکن ہمارا پاسپورٹ نہیں بن پارہا تھا ۔ اس زمانے میں پاسپورٹ بہت مشکل سے ملتا تھا ۔ لکھنو یونیورسٹی میں ہمارے ایک ساتھی اور ہم سبق ایک صاحب صبرحد کے محمد صابر صاحب تھے جو کہ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ لائبریرین ہوئے۔ ان کے توسط سے پاسپورٹ بنا ۔ ورنہ یہ بہت مشکل کام تھا۔ پاسپورٹ بنانا اس زمانے میں آج کی طرح آسان نہیں تھا ۔ آج تو تھوک کے بھاؤ سے پاسپورٹ بنتے ہیں۔پہلے بڑی انکوائری ہوتی تھی۔لیکن ضابطے میں یہ بھی تھا کہ سرکار کا کوئی اعلیٰ افسر، کم از کم ڈپٹی سکریٹری رینک کا، اگر لکھ دے کہ ہم ان کو جانتے ہیں تو پولیس انکوائری نہیں ہوتی تھی۔

ہم کئی بار لکھنو میں پاسپورٹ آفیسر کے پاس گئے ۔ ہر بار اس نے کہا: نہیں، یا تو تمہاری پولیس انکوائری ہوگی جس میں دو تین مہینہ یا کتنا وقت لگے گا ہم نہیں جانتے ،یا پھر تم کسی بڑے افسر سے لکھوا کر لاؤ ۔ ہم کو جانے کی جلد ی تھی کیونکہ مصر میں تعلیمی سال شروع ہورہا تھا۔ کئی لوگوں کے پاس گئے ، جن میں ہمارے ایک دور کے رشتے دار اسلام احمد صاحب ڈی آئی جی پولیس بھی تھے لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا۔ ہمارے ساتھی محمد صابر صاحب ہم کو اپنے ایک رشتےدار کے گھر لے گئے جو اس وقت یو پی گورنمنٹ کے لیگل ریممبرنسر(قانونی مشیر) تھے۔ وہ صاحب ہم کو نہیں جانتے تھے مگر صابر صاحب کے کہنے پر انھوں نے فارم پر دستخط کر دیا ۔ اسے ہم نے اگلے ہی دن پاسپورٹ آفس میں جمع کر دیا اور یوں ہمیں جلدی سے پاسپورٹ مل گیا۔پاسپورٹ کے بعد پیسے کی ضرورت تھی ۔ اس کے لئے ہم لکھنو سے اعظم گڑھ گئے اور والد صاحب کے توسط سے درکار رقم بڑے ابا (عبد العزیز خان صاحب) سے حاصل کی ۔ پھرلکھنو واپس آئے اور جب ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدنے کا مرحلہ آیا تو معلوم ہو ابھی ایک اور کاروائی باقی ہے۔ اس زمانہ میں ملک سے باہر جانے والے کو ریزرو بینک آف انڈیا سے اجازت لینی پڑتی تھی۔

بڑی مشکل تھی بھائی۔ کام آسان نہیں تھا ۔ اس زمانہ میں کانپور میں ریزرو بینک آف انڈیا کاریجنل آفس تھا اور شاید اب بھی ہو۔ وہ لکھنؤ سے قریب تھا ۔ تووہا ں گئے ۔ وہاں ہمارے ایک رشتہ دار شعیب صاحب تھے اعظم گڑھ کے ۔ ان کے یہاں ٹھہرے ۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کے ایک بھائی ریزرو بینک میں کام کرتے ہیں۔تو ان سے جاکر بات کی ۔ ان صاحب نے کہا کاغذات جمع کرادیجئے اور اگلے دن آجائیے گا ۔ انہوں نے کام کروا دیا اور اس طرح اگلے دن ہمیں اپناپاسپورٹ ریزرو بینک کے “نو آبجکشن” کی مہر کے ساتھ واپس مل گیا ۔اس طرح اللہ پاک نے یکے بعد دیگرے راستے کھولے ۔ اگر شاید ہم اپنے اوپر رہتے تو پاسپورٹ بھی نہ بنتا ، نہ ہم قاہرہ جاتے۔ ریزرو بینک کے کام کے بعد ہم دلی گئے ۔ یہاں پہلے ہم مصری سفارت خانے گئے ویزہ لینے کے لئے ۔ وہاں بھی بغیر کسی مشکل کے ویزہ مل گیا ۔ اس ہم چند دن کے بعد بریٹش ایر ویز سے ، جو اس وقت بی۔او۔ اے ۔سی کہلاتی تھی، قاہرہ پہنچ گئے۔باہر جاتے ہوئے اس وقت کے قاعدے کے مطابق مجھے ۳ (تین) بریٹش پاؤنڈ کی زر مبادلہ ملی ۔ اس کے علاوہ میرے پاس صرف ۳۰۰ ہندوستانی روپئے تھے جو ملک کے باہر بیکار تھے لیکن مصر میں مقیم ایک ہندستانی طالب علم نے اسے مجھ سے خرید لیا۔
قاہرہ پہنچے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہمارا اسکالرشپ امریکن یونیورسٹی والا ختم ہوچکا تھا لیکن جامعۃ الازہر والے اسکالرشپ کا ٹسٹ بھی دلی میں ہم پاس کرچکے تھے ۔ جامعۃالازہر کا یہ اسکالرشپ ، جو ہندوستانی ایجوکیشن منسٹری کے ذریعہ ہو اتھا ، ہمیں کچھ کوشش اور تاخیر کے بعد مل گیا۔اس طرح سے الازہر کے کلیۃ اصول الدین میں تعلیم شروع ہوئی اور ازہر کے بیرونی طلبہ کے ہاسٹل میں رہنے کے لئے کمرہ بھی مل گیا۔

سوال: آپ کو یہ شوق کیسے پیدا ہوا کہ باہر جاکر پڑھائی کریں؟

جواب : شوق کی بات نہیں تھی! بات دراصل یہ ہے کہ میں جو پڑھائی کر رہا تھا ، اس میں میرا کوئی اختیار نہیں تھا ۔والد صاحب نے زبردستی بھیجاتو میں چلا گیا ۔ ایک مدرسہ میں نہیں گیا تو دوسرے مدرسہ میں بھیج دیا ۔ دوسرے سے نکال کر تیسرے میں داخل کرا دیا ۔ اس میں میرا کوئی اختیا ر نہیں تھا ۔ لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ میرے سامنے اس تعلیم سے فراغت کے بعد کوئی مستقبل نہیں تھا ۔ یعنی میرا مستقبل یہی تھا کہ اسی طرح کا ایک مدرس بن جاوں یا کوئی امام وغیرہ ۔ اس تعلیم سے اسی قسم کے کام مل سکتے تھے ۔بہرحال میرے خیال میں اس وقت بھی میرے پاس اتنی سمجھ تھی کہ وہ سب چیزیں میری صلاحیت سے بہت کم ہیں ۔ اس طرح سے میں زندگی میں جو کنا چاہتا ہوں نہیں کرپاون گا ۔ میرے خیال سے یہی وہ واحد سبب تھا جس کی وجہ سے میں کسی بھی طرح سے یہاں سے نکل کر بھاگا۔ میں،گیا نہیں، بلکہ بھاگا ،تاکہ میں اس زندگی سے جو نظر آرہی تھی سے بھاگ کر میں کچھ بن سکوں ۔ میرے خیال میں اس وقت میری سمجھ میں یہی بات آرہی تھی اور غالبا میں اگر میں باہر نہ گیاہوتا تو میں بھی آج کسی مدرسہ میں پڑھا رہا ہوتا اور کڑھ رہا ہوتا یاور اس کڑھن کی وجہ سے شاید متعدد امراض کا شکار بھی ہوچکا ہوتا ۔ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ ایک طرح سے میں نے غیر مطمئن مستقبل سے ، جو مجھے نظر آرہا تھا، بھاگنے کی کوشش کی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں مجھے ناکامی نہیں ہوئی ۔ ٹھیک ہی ہوا ۔ یہاں جو ہوسکتا تھا اس سے بہر حال بہتر ہی ہوا ۔

سوال: ایک مرتبہ آپ نے بہت پہلے بتایا تھا کہ جب آپ مصر جارہے تھے تو آپ کے والد صاحب راضی نہیں تھے اور آپ کے جانے کے بعد انھوں نے کہا تھا آپ سے کہ تم نے مجھے دیوار قہقہ پھندوا دیا۔ان کا خیال شاید یہ تھا کہ آپ مصر کی جدیدیت میں کھو جائیں گے ؟

جواب: نہیں !نہیں! یہ غلط ہے ۔ دراصل یہ بات مولانا عبدالباری ندوی صاحب نے کہی ، جو متکلم و فلسفی کہے جاتے تھے ۔ وہ بہت مشہور عالم اور ندوہ کے فارغین میں سے تھے ۔آج لوگ ان کو نہیں جانتے لیکن انکا بہت ہی بڑا مقام تھاجیسے مولانا سلیمان ندوی وغیرہ کا تھا ۔ وہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے شعبہ فلسفہ کے صدر اور استاذ بھی تھے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد لکھنؤ میں رہتے تھے ۔ اس وقت ان کی کافی عمر ہوچکی تھی ۔ میں جاکر ان کے پاس بیٹھا کرتا تھا اور انکی باتیں سنا کرتا تھا ۔مجھے ہمیشہ سے پسند تھا کہ میں اس طرح کے ذی علم اور میری عمر سے بہت بڑے لوگوں کے پاس بیٹھوں تاکہ کچھ سیکھ سکوں ۔ تو جب میں قاہرہ چلا گیا تو یہ بات مولانا عبدالباری صاحب نے میرے والد سے کہی کہ آخر کار آپ نے ظفرالاسلام کو دیوار قہقہ پھندوا دیا ۔ مطلب یہ ہےکہ قصوں میں مشہور ہے کہ کوئی دیوار تھی ،دیو مالائی دیوار، کوئی اسطوری دیوار ، جس پہ لوگ کھڑے ہوتے تھے، مسکراتے تھے اور چھلانگ مارکر دوسری طرف چلے جاتے تھے اور پھرکبھی واپس نہیں آتے تھے۔ تو ایک طرح سے اسکا مجازا یہ کہنا تھاکہ یہ لڑکا مصر چلا گیا ہے اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا، وہاں کی جدیدیت میں گم ہو جائے گا ، وغیرہ ۔

میرے خیال میں مولانا عبدالباری کی یہ پیشن گوئی تھی پوری طرح سے غلط ثابت ہوئی۔ نہ میں مصر جاکر کوئی ملحد اور کافر ہوگیا نہ یہ کہ مصر جاکرمیں واپس نہیں آیا ۔ وہاں بھی میں اپنے دین اور عقیدہ پر قائم بھی رہا اور واپس بھی ہندوستان آیاجب کہ مجھے یہا ں آنے کی کوئی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ جب میں انگلستان گیاتو وہاں پرحالات بہر حال اللہ پاک کے فضل سے ٹھیک تھے۔ وہاں پہ میرا اچھا خاصہ کام تھا، ملازمت تھی ۔ میں نے وہاں مکان بھی خرید لیا تھا ۔ وہاں مکان خریدنے کے بعد لگتا ہے کہ آدمی وہاںسٹل ہوگیا ہے۔ عموما یہی ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود میں نے وہ مکان بیچ دیا اورہندوستان واپس آگیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ ہندوستان میں ہی مجھے کام کرنا چاہئے۔ یعنی اپنے اصل مقام پر کام کرنا چاہئے ۔ دوسرے لفظوں میں میرے جیسے آدمی کو اپنےملک جانا چاہئے حالانکہ میرے ملک میں بہت مشکلات تھیں۔ اگر چہ اس کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں جن میں میں ابھی نہیں جاتا، لیکن بحیثیت مجموعی میں سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ فیصلہ درست ہی کیا۔ حالانکہ اس کی اس وقت بہت لوگوں نے مخالفت کی۔ میرے گھر والوں یعنی بیوی اور بچوں نے کی اور دوسرے رشتہ داروں نے بھی مخالفت کی کہ کیا بیوقوفی کرتے ہو تم، بھلا کوئی انگلستان چھوڑ کر آتا ہے اس طرح سے؟

بہر حال میں نے سوچا تھا کہ یہاں واپس آکر کہ کچھ کروں گا،اور میرے خیال میں ایک حد تک میں نے کیا بھی۔ پوری طرح سے تو نہیں کرسکا کیونکہ یہاں آنے کے بعد میں بہت سے مسائل میں گھر گیا ،جسکی مجھے توقع نہیں تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود میں نے یہاں الحمد للہ سروائیو بھی کیا یعنی باقی وقائم رہا، بچوں کی مناسب تعلیم بھی ہوئی اور ایک حد تک میں نے کام بھی کیاجس میں ملی گزٹ سترہ سال تک نکالنا شامل ہے جوکہ میرے جیسے اکیلے آدمی کے لئے ،جس کے پاس وسائل کی سخت کمی تھی ، ایک معجزہ ہی تھا۔ کسی کے پاس بہت وسائل ہوں، یا اس کے پیچھے ایک بڑا ادارہ ہو ،تو اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔ لیکن میں نے جو بھی کمایا وہ ملی گزٹ وغیرہ میں لگایا اور اس کے ساتھ اپنا پورا وقت بھی لگایا۔ ملی گزٹ کے ذریعے میں نے سترہ سال تک ملت کی آواز دنیا تک پہنچائی اور اسی کے ساتھ ساتھ اس عرصے کے سارے واقعات کو ایک رجسٹر کی طرح محفوظ بھی کر دیاکہ کبھی کوئی آدمی آئے اور جاننا چاہے کہ ان سترہ سال میں ہندوستانی مسلمان کیا کہہ رہے تھے ،کیا بول رہے تھے، کیا سوچ رہے تھے، ان کے ساتھ کیا ہو رہا تھا ، تو اس کو ایک حد تک وہ تصویریں مل جائیں گی جو شاید اور جگہوں پر نہ ملے۔ اور یہ بھی پوری کوشش کی گئی کہ جذباتیت سے دور رہ کر یہ سب بیان کیا جائے ، اگر چہ کافی مشکل ہوتا ہے کہ آدمی ایسے حالات میں جب بہت سنگین واقعات ہورہے ہیں ،جیسے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو ۲۰۰۲ میں ہوا اور اسی طرح جیسے آسام اور مظفر نگر میں جو کچھ ہو ا، ن سب کے باوجود ہم نے اپنے ہوش کو برقرار رکھااور عدل وانصاف کی بات کی جو کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میرے خیال میں ہم نے ملی گزٹ میں اپنے ہوش وحواس کو برقرار رکھااور انصاف کی با ت کہی، چاہے وہ ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور ملت کو بھی اس کی تلقین کی۔ بہرحال لندن سے واپسی کے بعد بہت کچھ ہو جس میں سترہ سال نکالنا شامل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے لئے یہ سب کار خیر ہی تھا۔اللہ پاک اس کا ثواب انشاء اللہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیں گے۔

سوال: ایک چیز یہ بتائیے کہ آپ جب لندن سے لوٹ رہے تھے تو آپ نے کوئی پلان بنایا تھا کہ مجھے ہندوستان میں جاکر یہ کرنا ہے۔ کوئی لانگ ٹرم پلان یا شارٹ ٹرم پلان ؟ تو آپ نے اپنے پلان اور ہدف کو کس حد تک پورا کیا اورکس حد تک آپ کو کامیابی ملی اور کیا آپ نہیں کرسکے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں یہ کرسکتا تھا لیکن نہیں کر پایا، یا آگے کا آپ کا کوئی خواب ہے جو آپ نے دیکھا اور وہ پورا نہ ہوپایاہو؟

جواب :دیکھئے ، ابھی میں اس کو نہیں بتاؤں گا۔ یہ بات انشاء اللہ کبھی مجھے اپنی سوانح عمری لکھنے کاوقت اگر ملا ۔۔معلوم نہیں ملے گا یانہیں۔۔بہر حال، اگر موقع ملا تو انشاء اللہ اس میں یہ سب باتیں لکھوں گا ۔ میرا جو ہندوستان آنا ہوا اکتوبر سنہ 1984ء میں وہ در حقیقت میرے اپنے پلان کے مطابق نہیں تھا ۔ میرا پلان ہندوستان واپس آنے کا ضرور تھا لیکن اتنی جلدی نہیں تھا ۔ آنا کیوں اور کن حالات میں ہوا، اس کے بارے میں انشاء اللہ کبھی تفصیل سے لکھوں گا ۔ ابھی میں اسکے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا ہوں۔

(ختم)

 

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah