ارون دھتی رائے کا ناول اور کشمیریوں کا المیہ


کسی عالم کی صحبت میں بیٹھ کر بندۂ خاکی کو علم کی مد میں جو کچھ ملتا ہے، بہت سی کتابیں اس کا بدل نہیں ہوسکتیں۔ محمد سلیم الرحمٰن ایک ایسے ہی عالم ہیں۔یہ خوبئ قسمت پرنازکی جا ہے کہ ان سے ہماری گاہے کی ملاقات نہیں بلکہ آئے روز کا ملنا ہے۔ ان کے پاس جو بھی جاتا ہے ، خالی ہاتھ نہیں لوٹتا ،دولتِ علم سمیٹ کر اٹھتا ہے۔ کتاب ان کی زندگی کا محور ہے، ان کے ساتھ نشست میں اسے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہتی ہے۔ چند دن پہلے ان کے یہاں جانا ہوا تو جانا کہ وہ ارون دھتی رائے کا نیا ناول The Ministry of Utmost Happinessپڑھ چکے ہیں۔ اس پرتھوڑی حیرت بھی ہوئی کہ ابھی تو اس ناول کو پڑھ لینے کی ان احباب کی طرف سے بھی اطلاع موصول نہیں ہوئی جو کسی دھوم مچا دینے والے ناول کو جھٹ سے پڑھ جاتے ہیں اور پھر اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور اب تو اکثر کو فیس بک کی صورت میں عالمگیر ڈھول بھی میسر ہے،جس کے ذریعے آن کی آن میں یہ خبر کہ فلاں کتاب آپ کے زیر مطالعہ ہے اور فلاں آپ چاٹ چکے ہیں، چار دانگ عالم میں پھیل جاتی ہے۔ سلیم صاحب کی طبیعت میں ایک ٹھہراؤ اور کسی سے بازی نہ لے جانے کی جو خو ہے ، وہ ان کے شوقِ مطالعہ میں بھی ساتھ چلتی ہے، نئی کتابوں کے بارے میں انھیں چیٹک تو بہت رہتی ہے لیکن وہ سب سے پہلے کی دوڑ میں شامل نہیں ہوتے ۔ کوئی کتاب اپنے مطالعے کے واسطے منتخب کرلیں اوران کا کوئی دوست اسے پڑھنے کی خواہش ظاہر کردے تو وہ بڑی فراخ دلی سے اسے دان کردیں گے۔ یہ ان کا بڑا پن ہے اور ہم جیسوں کے شوق مطالعہ کی دھیمی لو اونچی کرنے کا طریق بھی۔

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ، دراصل ہمیں سلیم الرحمٰن صاحب سے ارون دھتی رائے کے نئے ناول سے متعلق ہونے والی غیر رسمی گفتگو میں پڑھنے والوں کو شریک کرنا ہے۔ارون دھتی رائے کی ایک بیباک لکھاری ہونے کے باعث وہ بڑی قدر کرتے ہیں۔ ان سے ہم نے کئی دفعہ سنا کہ بڑا فکشن بڑی نثر کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ فکشن میں زبان کی اہمیت کو وہ باقی چیزوں سے مقدم جانتے ہیں۔ اس لیے انھیں ’’ گاڈ آف سمال تھنگز ‘‘پسند آیا تھا جس میں ان کی دانست میں زبان کا خلاقانہ اظہار ہوا ، یہ وہ خوبی ہے جو ہند سندھ کے انگریزی لکھنے والوں میں شدہ شدہ ہی ان کو نظر آتی ہے۔ ان سے ہم نے ارون دھتی رائے کے پہلے اور بیس سال بعد آنے والے اس دوسرے ناول میں زبان کے تخلیقی استعمال سے متعلق فرق کے باب میں پوچھا تو بتایا: ’’ نثر میں اتنی کاٹ نہیں جتنی پہلے ناول میں تھی,کہیں کہیں جملے جگمگا اٹھتے ہیں اور دل کو چھیڑتے ہیں لیکن مجموعی تأثر اعلیٰ درجے کی صحافت کا ہے. ‘‘ سلیم صاحب کو مصنفہ کے اردو سے واقفیت بڑھنے پر خوش گوارحیرت ہوئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ناول میں اردو کے کئی اشعار شامل ہیں جن میں میر تقی میر کا یہ معروف شعربھی ہے: لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگاہ شیشہ گری کا عبداللہ حسین پرتو الزام ہی ہے کہ انھوں نے’’ اداس نسلیں ‘‘ میں گالیاں بہت لکھی ہیں۔ یہ بات کرنے والوں میں ایک اردو اخبارمیں کالم لکھنے والی افسانہ نگاربھی ہیں جن کے بقول’’ ۔۔۔ اداس نسلیں کی دھوم مچی ہوئی تھی لیکن اسے پڑھ کر مجھے لطف نہیں آیا۔ سب سے زیادہ کوفت اس بات سے ہوئی تھی اس میں ہرصفحے پر مسجع مقفیٰ گالیوں کی بہار تھی۔‘‘ ان محترمہ کے پاس نہ جانے ’’ اداس نسلیں ‘‘ کا کون سا ایڈیشن ہے جس کے ہر صفحے پر گالیوں کی بہار ہے ، ہم نے اس کتاب کا پہلا ایڈیشن بھی دیکھ رکھا ہے اور تازہ بھی ، ہم کو تو اس کے ہرصفحہ پہ گالیاں دکھائی نہیں دیں البتہ The Ministry of Utmost Happiness میں سلیم الرحمٰن صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ واقعتاً گالیاں ہیں۔ سلیم صاحب کو پہلی قرات میں یہ ناول کئی حصوں میں بٹا ہوا محسوس ہوا اور جوڑ اتنے الگ الگ کہ اس میں وحدت کی تلاش مشکل معلوم ہوتی ہے۔ اس بات کا احساس ان کی دانست میں شاید مصنفہ کو بھی ہے جو ان نے یہ لکھا ’’ ایک ٹکڑے ٹکڑے کہانی کو کیسے بیان کیا جائے؟‘‘

اس مسئلہ کا تسلی بخش ان کے خیال میں شاید دوسری خواندگی میں سامنے آئے۔ کہانی کا بیان کیسے آگے بڑھتا ہے،اس بابت پوچھا تو بتایا : ’دہلی کے ایک قبرستان میں ایک ہیجڑے نے چھوٹی سی بستی آباد کی ہے،اس میں دنیا بھر کے دھتکارے ہوئے لوگ پناہ لے سکتے ہیں صرف انسانوں ہی کی نہیں، جانوروں اور پرندوں کی بھی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ گویا یہ دکھانا مقصود ہے کہ ان بے نوا لوگوں کے درمیان زیادہ انسانیت، ہمدردی اور خوشی موجود ہے۔ کوئی جگہ جسے گھر سمجھا جا سکے۔ دوسری طرف بھارتی فوج اور حساس ادارے کشمیر میں جو ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہیں، وہ اس بستی کے پیش نظر، بالکل متضاد منظر دکھاتا ہے۔ بلکہ تضاد کچھ زیادہ ہی نمایاں ہو جاتا ہے۔ چھتیس گڑھ کے صوبے میں سرکاری آمریت کے خلاف، جس کے تانے بانے عالم گیر تاجرانہ مفادات سے جڑے ہیں، جو جدوجہد جاری ہے اس کا ذکر بھی آ گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا خطہ کسی کگر پر کھڑا ہے، کسی نئی ٹوٹ پھوٹ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ افلاس، ناانصافی، تشدد اور تضاد کے تمام مظاہر خطرے کے نشان سے اوپر نظر آرہے ہیں۔‘‘

محمد سلیم الرحمٰن کا خیال ہے کہ کشمیر میں بھارتی ظلم وتشدد کا جو نقشہ ناول میں کھینچا گیا ہے اس سے دنیا میں رائے عامہ پر اثر پڑ سکتا ہے اور اس اعتبار سے نظر ڈالی جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ناول وہ کچھ کر سکتا ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسیاں یا دفترِ خارجہ کی کارکردگی ستر سال میں نہ کر سکی۔ ان کے بقول ’ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ نہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ عالمی ضمیر محض واہمہ ہے، ضمیر افراد کا ہوسکتا ہے، اور ہوتا ہے ، دنیا کا نہیں۔ ان کے بقول ’’ ملکوں، قوموں، مذہبوں اور زبانوں میں بٹی ہوئی دنیا کا، طرح طرح کے مفادات میں جکڑی ہوئی دنیا کا ضمیر؟ خود کو یا دوسروں کو فریب دینے کے لیے اس کا ذکر کیا جا سکتا ہے ۔‘‘ وہ سمجھتے ہیں کہ مصنفہ کی نیت بخیر ہے ، ناول کی عمر کتنی ہوگی اس کی ابھی خبر نہیں۔ انھوں نے ایستونیا کے ایک کم معروف لیکن بہت قابل قدر ناول نگار جان کروس کے ایک ناول سے یہ برمحل عبارت سنائی ’’جہاں قومیں اپنی داخلی زندگیوں میں شہریوں کو ایسے حقوق عطا نہیں کرتیں جن سے انہیں کبھی محروم نہ کیا جا سکتا ہو تو ہمیں نہ عدالتی نظم و ضبط نصیب ہو گا نہ بین الاقوامی معاملوں میں قانون کا کوئی احترام۔‘‘ جوزف کانریڈ کے بے مثل ناول Heart of Darknessکا ’’ قلب ظلمات ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ سلیم صاحب کے قلم سے ہے، اس کے تعارفی مضمون کے آخر میں انھوں نے ایک بڑی پتے کی بات لکھی ہے، اسی پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ’’ جو لوگ اپنے عہد کے ضمیر کی گہرائیوں میں اتر کر پیش گوئی کرتے ہیں کہ برے دن آنے والے ہیں ان کی دانائی پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).