اقتصادی راہداری اور نیم حکیم معاشی ٹوٹکے


\"zeeshanاقتصادی راہداری کی بحث پاکستانی سیاست میں آج کل زوروں پر ہے- مشکل یہ ہے کہ اس بحث کو خالص علمی و عملی بنیادوں پر نہیں اٹھایا جا رہا – حق یہ ہے کہ اس راہداری کا معاشی معاملہ جب زیر بحث آئے تو معیشت دانوں کی رائے کو اہمیت دی جائے اور جب سیاسی پہلو زیر بحث ہوں تو سیاسی جماعتوں، صوبائی منتظمین ، اور سیاسی دانشورانہ بصیرت کو ساتھ لے کر چلا جائے – ایک پختہ کار قوم خام جذبات کے بجائے ٹھوس حقائق کو راہبر مانتی ہے –

میں اس راہداری سے متعلق اس کے آغاز سے بہت زیادہ خوش گمان نہیں – اس سلسلے میں میرے سامنے دنیا بھر کے تجارتی تعلقات کی مثالیں ہیں – مثال کےطور پر نافٹا ریاست متحدہ امریکہ اور اس کے پڑوسی ممالک کینیڈا اور میکسیکو کے درمیان آزاد تجارت اور انفراسٹرکچر کی شراکت داری کا ایک مشہور معاہدہ ہے – اگر اس کے معاشی نتائج دیکھے جائیں تو یہ واضح ہے کہ اس کا زیادہ فائدہ ریاست متحدہ امریکہ اور کینیڈا کو ہو رہا ہے – ہمیں ان سوالات پر غور کرنا چاہیے کہ آخر کیوں ؟ اور کیا میکسیکو کے تمام معاشی مسائل اس عظیم الشان راہداری اور آزاد تجارت کے کھلے ڈھلے معاہدہ کے سبب ختم ہو گئے ہیں ؟ چلو ریاست متحدہ امریکہ کو چھوڑیں ، کیا کینیڈا محض اس تجارتی معاہدہ کے سبب معاشی طاقت بن پایا ہے؟

اسی طرح اگر ہم یورپی یونین کی مثال دیکھیں ، تو وہاں بھی واضح تقسیم ملتی ہے – نو آزاد سوویت ریاستیں ہنوز طاقتور یورپی ممالک سے پیچھے ہیں۔ وہ ممالک جو اتحاد کے قیام سے پہلے امیر تھے ان میں سے کچھ ممالک جیسے اٹلی اور سپین اتحاد کے بعد اپنی معاشی ترقی کو مستحکم نہیں رکھ سکے اور پیچھے رہ گئے ہیں۔ وہ ممالک جو پہلے غریب تھے ان کی حالت میں بھی محض اس یونین کے قیام سے کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ ضرور ہے کہ انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی ہے مگر جرمنی و فرانس جیسی معیشتوں کی نسبت وہ اب بھی معاشی ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیں – آخر اس فرق کی کیا وجہ ہے ؟ یہ سوال ہمارے منصوبہ سازوں کو ضرور سوچنا چاہئے – جب تک ہم یہ نہیں جان لیتے کہ یونین کے 28 ممالک میں معاشی کارکردگی کے میدان میں فرق کیوں ہے اس وقت تک ہم اس اقتصادی راہداری کا صحیح معاشی تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں ۔

مشرقی ایشیائی ممالک کے اتحاد آسیان کی طرف آتے ہیں ، رکن ممالک ابھرتی ہوئی معیشتیں ہیں ، اتحاد کا یقینا فائدہ ہوا ہے ، مگر ااس کا قیام ترقی کے رجحانا ت کی عمومی سمت (ٹرینڈ لائن)کو بدل نہیں سکا ، آخر کیوں ؟ …. چین اور پاکستان کے درمیان مختلف معاشی میدانوں میں آزاد تجارت کا معاہدہ ہے ، کیا اب تک پاک چین فری ٹریڈ ایگریمنٹ کا فائدہ ہوا؟ پاکستان کو زیادہ فائدہ ہوا یا چین کو؟ پاک چین اقتصادی راہداری نافٹا، یورپی یونین اور آسیان سے زیادہ مضبوط معاشی تعلق نہیں اگر یہ مثالی معاشی شراکت داریاں ہم جیسے ممالک کے لئے زیادہ فائدہ مند نہیں رہیں تو اس راہداری سے کیا چمتکار ہونے کو ہے؟

ایک دلیل انفراسٹرکچر کی ہے – ورلڈ بنک کی شماریات موجود ہیں کہ انفراسٹرکچر کے میدان میں پاکستان بھارت سے آگے ہے مگر معاشی کارکردگی کے میدان میں بھارت سے پیچھے ہے – نئے انفراسٹرکچر میں اضافہ سے معاشی ترقی کے میدان میں ایسا کیا انوکھا ہونے کو ہے جو پہلے نہیں ہو سکا ؟ انفراسٹرکچر کا نظریہ اس وقت تک فرسودہ ہے جب تک اسے بہتر استعمال کرنا نہیں سیکھ لیا جاتا ۔

دیکھیے آپ پوری دنیا کی معیشتوں کی شماریات کا مطالعہ فرما لیجئے، انہیں ان کی تاریخ سے جوڑ کر دیکھئے ، وقت کے ساتھ ساتھ ان میں مستحکم ترقی کی رفتار کا اندازہ لگائیے ، آپ دیکھیں کہ وہ چیز جو معاشی ترقی کے عمل میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے وہ ہے پیداواری صلاحیت و قابلیت …. جس کا جنم معاشی محرکات کے سبب ہے جن میں اہم مواقع کی مساوات پر قائم مارکیٹ ہے، قانون کی بالادستی ہے، ترقی پسند افرادی قوت ہے ،مضبوط ادارے ہیں ، اور مستحکم سیاسی عمل وغیرہ شامل ہیں ۔ نافٹا (NAFTA) ، یورپی یونین اور آسیان میں مختلف ممالک کی کارکردگیوں میں فرق انہی اسباب سے ہے۔ پاکستان اور چین کے مابین آزاد تجارت کا معاہدہ شاہراہ قراقرم کے راستوں سے ہماری معاشی تقدیر نہیں بدل سکا – بھارت انفراسٹرکچر میں ہم سے پیچھے ہونے کے باوجود معاشی کارکردگی میں اس لئے آگے ہے کہ وہاں پیداواری صلاحیت و قابلیت کے میدان خوب پھل پھول رہے ہیں – ہمیں خود سے سوال کرنا چاہئے کہ معاشی ترقی کے بنیادی عوامل (fundamentals ) پر ہماری ریاستی پالیسی کتنی مرکوز ہے؟ پیداواری صلاحیت و قابلیت کے کون سے نئے در کھولے جا رہے ہیں ، ریاست امن و امان اور قانون کی بالادستی کو کتنی ترجیح دے رہی ہے ؟مواقع کی مساوات نام کا تصور یہاں کتابوں اور رپورٹوں کی گرد میں دبا پڑا ہے ۔ افرادی قوت (ہیومن ڈویلپمنٹ ) کے اعتبار سے دنیا کی سب سے نااہل اقوام میں ہمارا شمار ہے – اور جہاں تک سیاسی عمل کا تعلق ہے وہ ہنوز کھونٹی پر یوں لٹکا ہوا ہے کہ ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اب گرا کہ تب گرا –

ایسا ہرگز نہیں کہ میں اس راہداری کا مخالف ہوں۔ معاشی میدان میں اسے ایک بہتر قدم سمجھتا ہوں ۔ مگر چار نکات کی وضاحت یہاں میرے نقطہ نظر کی رو سے اہم ہے –

ایک … میں اس شور سے ہر گز متاثر نہیں جس کی رو سے یہ راہداری سب کچھ ٹھیک کر دے گی ، ہماری معیشت پھلنے پھولنے لگے گی ، ہم معاشی طاقت بن جائیں گے ، یہاں خوشحالی کا دور دورہ ہو گا ، اسے ٹیکنیکل زبان میں ’گیم چینجر‘ کہا جا رہا ہے – میں کیوں متاثر نہیں ؟ اس کی وجوہات میں بیان کر چکا ہوں – دور جدید کی معیشت میں ممتاز مقام پیداواری صلاحیت و قابلیت کے فروغ اور اس کے بہترین استعمال میں ہے جس کے بغیر اگر راہداری چل بھی پڑی تو ہمارا کام چونگی محصول اکٹھا کرنے والے کارندے جیسا ہو گا جو ہر گزرتے تجارتی سامان سے محصول وصول کر کے 46 ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کی قسطوں میں ادائیگیاں کرنے میں مصروف رہے گا – یہاں کے دانشورانہ بصیرت کی معیشت کے میدان میں کارکردگی ملاحظہ ہو کہ وہ محصول کی آمدن سے ایک بہترین مستقبل کا خواب دیکھ رہا ہے ۔

دوسری چیز جو کہ انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ پاکستانی وفاق انتہائی کمزور ہے ، اس کی تمام اکائیوں اس سے انتہائی ناراض ہیں – اس پر پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کا ٹھپہ لگ چکا ہے – موجودہ سیاسی و عسکری قیادت کا تعلق پنجاب سے ہے – اگر صوبوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہوتا اور اختلاف و نفرت کے شعلے بھڑکتے جاتے ہیں تو اس راہداری سے فائدہ نہیں الٹا نقصان ہو گا – اگر پاکستانی قومیت تتر بتر ہوتی ہے تو یہ راہداری کیا کوئی بھی معاشی پروجیکٹ مجموعی طور پر فائدہ مند نہیں۔ اس وقت ملک میں جمہوریت ہے ایک سیاسی پارٹی اقتدار میں ہے ۔ نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیت کا اصل امتحان اب ہے کہ وہ کسی بھی طرح کے علاقائی تصادم سے گریز کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں یا جمہوریت پر ایک نیا کلنک لگنے کو ہے …. امید ہے کہ موجودہ لولی لنگڑی جمہوریت ہوش مندی کا مظاہرہ کرے گی ۔

تیسری بات یہ کہ اس پروجیکٹ سے خطہ کے ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید اضافہ ممکن ہے ۔ پاکستان، افغانستان، ایران، بھارت اور چین ناگزیر طور پر ایک میز پر آ بیٹھیں گے جس کا ہماری خارجہ پالیسی پر مثبت اثر ہو گا ۔ یاد رہے کہ معاشی میدان میں ہر ممبر ملک کو اتنا ہی فائدہ ہو گا جتنی اس کی پیداواری صلاحیت و قابلیت ہو گی…. اہم ترین بات یہ کہ اس بین الریاستی تعاون کی بنیادیں بھی پاکستانی مقتدر طبقات سے داخلی و خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی کا تقاضا کرتی ہیں ۔ مثلا کشمیر اور افغانستان میں مہم جو پالیسیوں سے مکمل دستبرداری وغیرہ ۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کچھ تبدیلیاں منظر پر ہیں ؟ کیا ریاست اپنا بیانیہ بدلنے کو ہے ؟

آخری اور اہم بات یہ کہ چین غیر جمہوری سیاسی اقدار کا حامل ایک ملک ہے ۔ افریقہ، سری لنکا، برما اور جہاں جہاں بھی اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے وہاں اس نے آمریت کو کھل کر حمایت دی ہے ۔ پاکستان میں بھی اگر دیکھیں تو ہمیں چینی پالیسیوں میں جمہوری و غیر جمہوری اقتدار کی تفریق نہیں ملتی – مختلف غیر ملکی اخبارات لکھ چکے ہیں کہ چین گوادر یا اس کے پاس اپنا ایک فوجی بحری اڈہ قائم کرنا چاہ رہا ہے جس کی مدد سے وہ بحیرہ عرب میں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کا خواہش مند ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اقتصادی راہداری کے بعد پاکستان میں چینی اثرورسوخ میں بے حد اضافہ ہو گا جو جمہوریت اور انسانی حقوق کی جدوجہد کے لئے بدشگون بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ انتہائی ذہانت اور ذمہ داری سے آگے بڑھا جائے اور تمام فریقین کو اعتماد میں لے کر چلا جائے ۔ اس پورے معاملہ میں جمہوریت ہی ہماری طاقت ہے۔ اگر اس کی بنیاد ایک سیاسی پارٹی یا ایک مخصوص ادارہ کی ریاستی پالیسی پر آمریت کے بجائے تمام فریقین کی شراکت داری پر ہو ۔ یہ اب بھی مسائل کا حل ہے اور مستقبل کے سیاسی ، سماجی ، اور معاشی منظر میں ہماری قوت و استحکام کی ضمانت بھی ۔ آئیے کہ مکالمہ اور اتفاق رائے کی جمہوریت سے آگے بڑھیں ۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments