اگر عمران خان نہ ہوتے تو۔۔۔۔


بے شک کرپشن کے بدنام زمانہ حمام میں زرداری اور گیلانی صاحبان کے ننگے پن پر بھی ساری قوم کا اجماع ہوچکا ہے۔ بے شک جنرل (ر) پرویز مشرف، اس کے جی حضوریے اوراس قبیل کے کئی دیگرحکمران بھی اس حمام میں ڈھکے اور مستور ثابت نہیں پائے گئے ہیں، البتہ ایک حوالے سے یہ لوگ پھر بھی داد کے مستحق ہیں کہ اپنے ننگے پن پر کبھی بھی انہوں نے بھنگڑے ڈالے اور نہ ہی دوستوں کے منہ میں گلاب جامن اور برفیاں ٹھونسے۔ ہمارے ان زرداریوں، گیلانیوں اور پرویزیوں نے سوئٹزر لینڈ، دبئی اور متحدہ عرب امارات کے اکاونٹس پاکستانی سرمایوں سے مامور کردیئے لیکن کرپشن کی لعنت کو اپنے ماتھوں کا جھومر بنانے کی مذموم کوشش ان حضرات نے کبھی نہیں کی۔ اس قابل رحم دیس میں ایسی توفیق پہلی دفعہ ہمارے حاضر سروس وزیراعظم صاحب اور ان کے پسران، دختران، برادران اور خدام کے حصے میں آئی کہ اربوں روپوں کی لوٹ مار اور غبن کے الزامات کے باوجود انہوں نے برسر بازار بھنگڑے بھی ڈال دیے اور مٹھائیاں بھی بانٹ دیے۔

سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے کہ قوم کا بچہ بچہ بھی انہیں شریف اور میاں کی بجائے خائن اورکذاب کے نام سے یاد کرتے آرہے ہیں لیکن ان کا رویہ ہنوز اُن بہادر فاتحین سا ہے گویا کہ ملکوں کے ساتھ ساتھ یہ لوگوں کے دل بھی فتح کرچکے ہیں۔ جب سے اس بدقسمت قوم اور عوام پر اس شاہی خاندان کے پاناموں، مئے فیئرز اپارٹمنٹوں، ملوں اور کارخانوں کے راز کھل گئے ہیں تب سے ان کی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی میں کمی کی بجائے پیہم اضافہ ہو رہا ہے۔ صاد ق اور امین جیسی صفات سے عاری قرار دے کر گویا ملک کی سپریم عدالت نے بھی انہیں کذب اور خیانت جیسے قبیح اوصاف سے انہیں نوازا تو کیا اس کے باوجود بھی یہ اہل پاکستان پر حکمرانی کرنے کے مستحق تھے یا انہیں شرم سے پانی پانی ہوکر انہیں پل بھر میں تخت لاہور سے اترنا چاہیے تھا؟ دفعہ باسٹھ اور تریسٹھ پر تو ایک فیصد بھی نہیں اترے لیکن اس کے باوجود عدالت نے رعایت برتتے ہوئے ان کے اوپر مشترکہ تحقیقاتی کمیشن بناڈالا۔ مٹھائیاں بانٹنے کے بعدباسٹھ اور تریسٹھ پر نہ اترنے والے اب کی بار کمیشن کے ارکان کو آنکھیں دکھانے پر اترآئے۔

تحقیقات کے دوران کبھی تونہال ہاشمی اس تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کو عبرت کا نشان بنانے کی دھمکیاں دیتا تو کبھی خواجہ سعد رفیق اپنے آپ کو لوہے کا چنا ثابت کرتے اور جے آئی ٹی کومفت میں اپنے دانت توڑنے سے باز رہنے کی تلقین کرتے۔ کبھی طلال چوہدری عدالت کی تشکیل کردہ اس ٹیم کو قصائی کی دکان سے تعبیر فرماتے تومشرف دور میں وہ وعدہ معاف گواہ اپنی پیشی کے بعد باہر عمران خان اور تحقیق کاروں پرگھنٹوں تک سب و شتم کرتے۔ گزشتہ پیر کو جب جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت پہنچی تو سلطان وقت اور فیملی کے سارے کرتوت قوم کے سامنے آہی توگئے کہ ’’ چاروں لندن فلیٹس انیس سو ترانوے سے اب تک شریف فیملی کی ملکیت میں ہیں۔ مریم صفدر نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیوں کی حقیقی مالکن ہیں۔ قطری شہزادے کی طرف سے لایا گیا والا نامہ حقیقت کی بجائے بوگس اور افسانہ ہے۔ خسارے میں چلنے والی کمپنیوں سے برطانیہ میں مہنگی جائیداد خریدی گئی۔ مریم صاحبہ نے اثاثے چھپائے، اسحاق ڈار کے اثاثوں میں سال دوہزار آٹھ اور نو کے دوران بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اپنے ہی ادارے کو سولہ کروڑ روپے خیرات ظاہر کرکے رقم اپنے پاس رکھی اور ٹیکس استثنیٰ لیا۔ حسین نواز العزیز یہ اسٹیل مل خریدنے اور قرضے کا ریکارڈ پیش کرنے سے قاصر رہے۔ نوے کی دہائی میں اپنے والد کی حکومت میں حسن نواز کے اثاثوں میں اضافہ ہوا۔ تفصیلات اورذرائع باربار پوچھنے کے باوجود نہیں بتائے، وغیرہ وغیرہ۔

بے شک شاہی خاندان کی مبینہ بدعنوانیوں کو ایشو بنانا، مسلسل اس کا تعاقب کرنا، اور پھراسے اعلیٰ عدلیہ تک لے جانے کاسارا کریڈٹ عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کو جاتا ہے۔ یہ عمران خان ہی توہیں جنہوں نے سلطان وقت کو پہلے انتخابی دھاندلیوں کے اوپر خوب دِق کیا اور پھر انہیں عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کردیا۔ کیا ملکی اداروں کے عام آفیسروں پر مشتمل جے آئی ٹی ارکان کے سامنے اس دیس ناپرساں کے وزیراعظم کے پیش ہونے کا کوئی سوچ بھی سکتاتھا؟ کیا دو شہزادوں کو باہر سے بلانا اور بار بار جے آئی ٹی ارکان کے روبرو بٹھا کر ان پر سوالات کرنا کسی کے وہم وخیال میں بھی تھا۔ کیا مستقبل میں بے نظیر بھٹو بننے والی شہزادی کو گھنٹوں جوڈیشل اکیڈمی میں پوچھ گچھ کے لئے حاضر کرکے اس ملک میں امور ممکنہ میں سے بھی ایک ممکن امر تھا؟ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اس شاہی خاندان کے چشم و چراغ ایسی کوفت اور ذہنی اذیت سے گزرتے اگر عمران خان مسئلے کو ایشو نہ بناتے۔

کیا’’ خدا کی زمیں پر خدا کے نظام ‘‘ کے نفاذ کے علمبردارمولانا فضل الرحمان صاحب ایسا کرسکتے تھے یا ایسا سوچ سکتے تھے؟ قطعاً نہیں، ایں خیال است، محال است، جنوں است۔ الٹا شریف زادوں کے حق میں بیانات دے دے کرمولانا صاحب نے شاید ایک حیلہ یہ بھی نکالا ہوگا کہ ”یہودی ایجنٹ“ اگر سلطان جائز کے سامنے حق کی آواز بھی بلند کرے تو اس کی تائید کرنا بھی حرام ہے۔ بے شک دلوں کے بھید سے ذات باری تعالیٰ واقف ہے لیکن میرانہیں خیال کہ مولانا صاحب نے پاناموں اور فلیٹوں کی شکل میں اس غبن کو کم ازکم دل میں بھی برا سمجھا ہوگا۔ گزشتہ ہفتے اور جمعے کے اخبارات میں ان کے فرمودات عالیہ ہر کسی نے پڑھا ہوگا کہ ’’ پانامہ ایشو کے اوپر ہم میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں ‘‘، سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ متنازعہ تصور کرے اور جے آئی ٹی متنازعہ ہوچکی ہے لہٰذا اس کی رپورٹ بھی نزاع سے خالی نہیں ‘‘۔

مولانا صاحب اور سٹیٹس کو کی شکل میں ملکی سیاست پر دہائیوں سے چھائے ہوئے سیاستدانوں کے ہاں تو پانامہ ایک معمولی ایشو سمجھا جاتاتھا لیکن عمران خان نے اُن کے اس معمولی ایشو پر ’’ غیر‘‘ کے لفظ کا اضافہ کرکے اسے ایک’’ غیر معمولی ایشو‘‘ بناکر اپنا فرض پوراکردیا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ملک کو کنگال کرنے والوں سے قوم کا لوٹا ہوا سرمایہ بڑی مشکل سے ریکور ہو گا البتہ بدعنوانی کے حمام کی چاردیواری میں ایسے برہنوں کو برسرِبازار برہنہ کرنا بھی غنیمت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).