قندیل بلوچ کو مرے ایک برس ہو گیا، مسئلہ حل نہیں ہوا


بدقسمتی سے میں ایک ایسے معاشرے کا فرد ہوں جہاں مرد کی حاکمیت کا تصور رائج ہے لڑکے کے پیدا ہونے پر مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں مبارکبادیاں وصول کی جاتی ہیں جبکہ لڑکی کے اس دنیا میں آجانے سے باپ کی پگ کا شملہ نیچے ہوجاتا ہے گھر کی فضا سوگوار ہوجاتی ہے ایسے ہی ماحول میں بہت بار ایسے بھی ہوا ہے کہ اپنے پاکستانی اور مسلمان ہونے پر ایک عجیب سے احساس نے گھیرے رکھا ہے شائد ندامت کا احساس کمتری کا احساس شرمندگی کا احساس یا کچھ اور میں تاحال اسے کوئی بھی نام دینے کا حتمی فیصلہ نہیں کر پایا ہوں شائد بہت زیادہ حساسیت کا مریض ہونا بھی قرار پا جاؤں تو بے جا نہیں ہوگا مگر یہ صرف میرا مسئلہ نہیں یہ مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں افراد کا مسئلہ ہے اور یہ تب بہت زیادہ قوی ہوجاتا ہے جب کسی ایک یا چند کے کئے کی سزا مجھ سمیت میری پوری قوم کو بلا کسی جواز کے سنا دی جاتی ہے کہ یہ تو سب ایسے ہیں، ظالم ہیں، دہشت گرد ہیں وغیرہ وغیرہ

سیالکوٹ میں دو بھائی مار دیئے ، کراچی میں ایک وڈیرے کے بچے نے ایک انسان کو مار کر وکٹری کا نشان بنا ڈالا ، کوٹ رادھا کشن میں ایک میاں اور اس کی حاملہ بیوی کو زندہ جلا دیا گیا ، کوئٹہ کی ہزارہ برادری کی سینچری بنا لی گئی ، پارہ چنار میں ایک کے بعد ایک دھماکے میں سینکڑوں ھلاک ، کے پی میں صوبائی وزیر اور لاہور میں پولیس کے افسران ، لاہور ہی میں بادامی باغ کے علاقے میں میں پوری بستی جلا دی کراچی کے حالات روزانہ کی بنیاد پر ہمارے سامنے ہیں ایسی ہی بے پناہ لرزا دینے والی خبروں کے درمیان اچانک گزشتہ سال کی ایک منحوس واردات نے دوبارہ اپنا سر کسی سانپ کی طرح اٹھا لیا ابھی ایک سال کا وقت اس بات کو بھلانے میں ناکافی تھا کہ دوبارہ اس بات نے مجھے ماضی میں جا پھینکا۔ بات وہی عام سی تھی کہ غربت اور جبر کے ہاتھوں تنگ آکر ایک لڑکی نے بغاوت کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی مگر استبداد کے پنجے ہمارے معاشرے میں اتنے گہرے پیوست ہوچکے ہیں ہمارے ازہان اور مخصوص ذہنیت کی حامل ہماری سوچ نے ہمیں ویسے ہی سانس تک لینے کی دشواری میں مبتلا کر رکھا ہے اس پر ستم بالائے ستم کے مصداق یہ مخصوص مائنڈ سیٹ نا صرف بڑھ رہا ہے بلکہ تنوع مندی سے پھل پھول بھی رہا ہے

خبر تھی کہ گزشتہ سال 15 جولائی کو مشہور ماڈل ، ایکٹرس ، اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے بولڈ ویڈیوز کی وجہ سے شہرت مانے والی قندیل بلوچ کی زندگی کی قندیل ہمیشہ کیلئے بجھادی گئی اور یہ سب اس کے اپنے سگے بھائی نے خود یا کسی کے بھکاوے میں آکر کر ڈالا – یکم مارچ 1990 سے لیکر 15 جولائی 2016 تک کی زندگی پانے والی قندیل ڈیرہ غازی خان سے ملحقہ علاقے شاہ صدردین کی رہنے والی تھی ایک نجی بس سروس میں خاتون میزبان کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کرنے سے لیکر ماڈلنگ تک کے سفر کو بہت جلد طے کیا کامیابیاں ابھی جاری ہی تھیں کہ علاقے کے لوگوں نے گھر والوں کو باتوں باتوں میں غیرت اور حمیت کا درس دینا شروع کردیا اس پر طرہ یہ کہ مذہبی جنونیت اپنے سوا کسی دوسرے کو برداشت نا کرنے والی ایک خاص زہنیت نے گھر والوں کا باہر نکلنا تک دشوار بنا دیا اور وہ جو اپنے غریب والدین بہن بھائیوں کا سہارا تھی اپنے گھر کو مالی سپورٹ فراہم کرتی تھی اسے اسی کے گھر میں اسی کے بھائی نے رات کو گلا گھونٹ کر ابدی نیند سلادیا اور بعدازاں اپنے جرم کا اقرار بھی کیا –

کہانی یہاں ختم ہوگئی مگر ایسا اس نے کیوں کیا کونسے عوامل تھے جن کی وجہ سے یہ انتہائی اقدام اس نے اٹھالیا تاحال اس پر کچھ بھی کہنا لکھنا معاشرے کی بےحسی کو جھنجوڑنے کے مترادف ہوگا مگر سوال یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ایسی مخصوص سوچ کیوں ہمارے اندر پنپتی جارہی ہے ایک انسان کے قتل کے بعد ندامت کا احساس تک نہیں ہوتا کیا ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ اب کسی کے مرنے یا جیتے رہنے سے ہمیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا یا ہمارے اندر سے انسانیت یا ضمیر نام کی چیز ہی ختم ہوچکی ہے قندیل بلوچ کی پہلی برسی پر کیا ہم اپنے اپ سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے اور ایسا کب تک چلے گا کیونکہ یہ صرف قندیل بلوچ کا مسئلہ نہیں ہے یہ اس جیسی ہزاروں لاکھوں بیٹیوں کا مسئلہ ہے یہ ہر اس بچی کا مسئلہ ہے جسے پیدا کر کے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے یہ ہر اس بیٹی کا مسئلہ ہے جو اپنے حالات سے سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہے اور اپنی قابلیت کی بنا پر اپنی فیملی کو سپورٹ کرنا چاہتی ہے آج پاکستان کی بیٹی ہر میدان میں آگے ہے اور میرا اس بات پر مکمل یقین ہے کہ میرے وطن کی بیٹی جتنی بااختیار ہوگی یہ ملک اتنی جلدی ترقی کرے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بیٹی کے بااختیار ہونے میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے کیلئے میں کیا کررہا ہوں کیونکہ یہ ایسا عمل ہے جس میں فرد اگر اپنا کردار ادا کردے تو معاشرہ تبدیل ہوسکتا ہے اور شاید پاکستان کو اسی کی ضرورت ہے

 ٖ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).